زَنْجیر زَنی عزاداری کے اجتماعی مراسم میں سے ہے جسے شیعہ حضرات اہل بیت خصوصا اسیران کربلا پر ڈھائے جانے والے مظالم کی یاد میں مناتے ہیں۔ شیعہ اسیران شام کے مصائب کو یاد کرکے زنجیروں کے ایک گچھے کو جو لکڑی کے دستے کے ذریعے آپس میں ملے ہوئے ہیں، اپنے کاندہوں اور پیٹھ پر مارتے ہیں۔ یہ رسم ہندوستان، پاکستان، ایران، عراق سمیت کم و بیش دنیا کے مختلف ملکوں میں جہاں شیعوں کی آبادی موجود ہو منائی جاتی ہے۔ مختلف ملکوں میں یہ رسم مختلف نوعیت کے ساتھ مختلف مناسبتوں میں انجام پاتی ہے۔ ایران اور عراق وغیرہ میں محرم کے پہلے اور صفر کے آخری عشرے میں منائی جاتی ہے جبکہ پاکستان اور ہندوستان میں صرف عاشورا کے دن نکالے جانے والے جلوسوں میں زنجیر زنی کی جاتی ہے۔ زنجیر زنی عموما گروہی صورت میں نوحہ خوانی کے ساتھ انجام دی جاتی ہے اور ایران، عراق اور بعض دوسرے ملکوں میں عزاداری سے مخصوص ڈھول بانسری کے ساتھ زنجیر زنی کی جاتی ہے۔ اگرچہ فقہاء کی اکثریت زنجیرزنی کو جائز سمجھتی ہے لیکن بعض فقہاء قمہ‌زنی کی طرح اسے بھی حرام سمجھتے ہیں۔

زنجیر زنی
زنجیر زنی
معلومات
زمان‌محرمصفر
جغرافیائی حدودایرانعراقپاکستانہندوستان وغیرہ
علامتیںزنجیر
اہم مذہبی تہواریں
سینہ‌زنی، زنجیرزنی، اعتکاف، شب بیداری، تشییع جنازہ،
متفرق رسومات

زنجیرزنی کی تاریخ

کہا جاتا ہے کہ زنجیر زنی کی ابتداء برصغیر پاک و ہند سے ہوئی۔ یہ احتمال دیا جاتا ہے کہ سلسلہ قاجاریہ کے دور حکومت میں یہ رسم ایران میں پہنچ گئی ہے۔ ایران کے پرانی تاریخی منابع میں زنجیرزنی سے متعلق کوئی معلومات دستیاب نہیں۔ ناصرالدین‌ شاہ کی حکومت کے دوران ایران آنے والے سیاحوں کے سفر ناموں میں زنجیر زنی کا تذکرہ ملتا ہے۔ رضاشاہ کے دور میں عزاداری کی ہر قسم کی رسومات منجملہ زنجیرزنی پر پابندی لگائی گئی۔ محمد رضا پہلوی کے دور میں بھی بعض اوقات اس رسم کی ادائیگی کو ممنوع قرار دیا گیا۔ مثلا 1955ء کے محرم الحرام میں پہلوی حکومت نے سید ہبۃالدین شہرستانی جو اس وقت عراق میں مرجع تقلید تھے، زنجیرزنی سے متعلق فتوے کا بہانا بنا کر زنجیرزنی سمیت عزاداری کی بعض دیگر رسومات پر پابندی لگا دی گئی۔ اس پابندی کے خلاف لوگوں نے احتجاجی ریلیاں نکالی جس کی ایک مثال آذربایجان والوں نے آٹھ محرم الحرام کو سید محمد بہبہانی کے گھر کے قریب زنجیرزنی کا ایک بہت بڑا دستہ نکال کر دہرنا دیا جو اس وقت کے وزیر اعظم "حسین علاء" کی مداخلت سے اختتام پذیر ہوا۔[1] اسی طرح 1927ء میں حیدرآباد میں زنجیرزنی پر پابندی لگا دی گئی۔

جغرافیائی حدود

زنجیرزنی شیعوں کی عزاداری کی رسومات میں سے ہے جو عموما ایران، عراق، لبنان، پاکستان اور ہندوستان وغیرہ میں مختلف انداز میں انجام دی جاتی ہے۔[2]

زنجیرزنی کیلئے کوئی خاص مکان یا جگہ معین نہیں بلکہ گلیوں، سڑکوں اور مختلف مذہبی مقامات جیسے امام بارگاہوں اور حسینیہ جات کے صحنوں میں زنجیرزنی کی جاتی ہے۔[3]

منشائے پیائش

یہ رسم اسیران کربلا پر کربلا سے کوفہ اور کوفہ سے شام لے جاتے وقت ڈھائے جانے والے مظالم کی یاد میں منائی جاتی ہے۔ زنجیرزنی کے ذریعے متعلقہ شخص اہل بیت عصمت و طہارت پر آنے والی مصیبتوں میں اپنے آپ کو بھی شریک قرار دیتے ہوئے ان کے ساتھ اظہار ہمدردی اور ان کے دشمنوں سے اظہار نفرت کرتے ہیں۔[4]

انواع و اقسام

یہ رسم ایران اور عراق کے مختلف مناطق میں مختصر اختلاف کے ساتھ یکساں طور پر ادا کی جاتی ہے۔ لیکن ہندوستان اور پاکستان میں اس کی نوعیت بالکل متفاوت طور پر انجام پاتی ہے۔ ان دو ملکوں میں عموما زنجیروں کے آخری سرے پر تیز دھار چاقو وغیرہ باندھا جاتا ہے یوں یہ رسم کسی حد تک قمہ زنی سے مشابہت پیدا کرگئی ہے۔

ایران میں

 
ایران میں زنجیرزنی کا ایک منظر

ایران میں زنجیرزنی ایک خاص منظم طریقے پر کی جاتی ہے جس میں زنجیرزنی کرنے والے ایک دوسرے کے پیچھے دو یا دو سے زیادہ صفوں میں حرکت کرتے ہوئے زنجیرزنی کرتے ہیں۔ صفوں کے آگے آگے بزرگان ان کے پیچھے جوان اور نوجوان طبقہ اور آخر میں بچے حرکت کرتے ہوئے[5] نوحہ خوان کے نوحے کے طرز پر ایک ساتھ منظم انداز میں زنجیر زنی کرتے ہیں۔ زنجیر عموما کاندھوں یا پیٹھ پر ماری جاتی ہے جبکہ کبھی کبھار سینہ اور سر پر بھی زنجیرزنی کی جاتی ہے۔ زنجیرزنی کے دستوں میں عموما ڈھول اور جھانجھ بھی بجائے جاتے ہیں۔ ایران میں زنجیرزنی کی مختلف اقسام مرسوم ہیں جن میں تک‌ ضرب، سہ‌ ضرب، چہار ضرب وغیرہ ہیں زنجیر زنی نوحہ اور ڈھول کے طرز کے تابع ہوتی ہے۔[6]

تاسوعا اور عاشورا یعنی محرم الحرام کے نویں اور دسویں دن سینہ زنی اور زنجیر زنی کے دستوں کے آگے آگے ذوالجناح بھی لائے جاتے ہیں جس کے اوپر سفید کپڑے پر سرخ رنگ کے قطرات چھڑکے ہوئے ہوتے ہیں جو خون کی علامت ہوا کرتی ہے۔ کبھی کبھار ذوالجناح کے ساتھ ساتھ بعض کبوتر بھی لائے جاتے ہیں گویا وہ امام حسین(ع) کی شہادت کی خبر کربلا سے مدینہ لے جا رہے ہوں۔[7]

عراق میں

 
عراق، کربلا میں زنجیرزنی کا ایک منظر

عراق میں بھی تقریبا ایران کے طرز پر زنجیرزنی ہوتی ہے۔ زنجیرزنی کرنے والے سب کالے کپڑوں میں ملبوس ہوتے ہیں اور صرف پیٹھ اور کندھا ننگا ہوتا ہے یوں ننگے بدن پر زنجیر زنی کی جاتی ہے۔ کاظمین میں مستطیل یا دائرے کی صورت میں دستے حرم کے ارد گرد حرکت کرتے ہیں ان دستوں میں نوحے کے ساتھ ڈھول، جھانجھ اور بانسری بجائے جاتے ہیں۔ [8] بعض اوقات زنجیروں کے آخری سرے پر چھوٹے چھوٹے چاقوں یا بلیڈ وغیره باندھے جاتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ درد و رنج تحمل کر کے اہل بیت کے ساتھ اظہار ہمدردی کی جا سکے۔[9]

پاکستان اور ہندوستان میں

فائل:زنجیرزنی پاکستانی.jpg
برصغیر پاک و ہند میں زنجیرزنی کا ایک منظر

برصغیر پاک و ہند میں بھی گذشتہ ادوار میں ایران اور عراق میں رائج طریقے سے زنجیر زنی کی جاتی تھی لیکن بعد میں ان علاقوں میں زنجیر زنی کی نوعیت میں تبدیلی آئی اور مذکورہ زنجیروں کے آخری سروں پر تیز دھار چاقو وصل کر کے ایک مخصوص زنجیر ایجاد کی گئی۔ اس طرح کے زنجیروں کا استعمال کرنے والوں کا خیال ہے کہ چونکہ اویس قرنی نے پیغمبر اکرم(ع) کی مصیبت میں اپنا دانت توڑ دیا تھا لہذا اسی کو بنیاد قرار دیتے ہوئے یہ لوگ امام حسین(ع) اور آپ کے اعوان و انصار کی یاد میں اس قسم کے افعال انجام دیتے ہیں۔[10]

پاکستان کے اکثر شہروں میں ایام عزا خاص کر عاشورا کے دن زنجیر زنی کی جاتی ہے اور بعض علاقوں میں اہل سنت اور عیسائی جوان بھی ان مراسم میں شرکت کرتے ہیں۔[11] پاکستان میں یہ رسم ہے کہ جس جوڑے کو اولاد نہیں ہوتی وہ یہ نذر کرتے ہیں کہ اگر خدا نے انہیں اولاد کی نعمت سے نوازا تو وہ اسے ہر سال امام حسین(ع) کے نام پر برپا ہونے والی زنجیر زنی کے مراسم میں شرکت کرائیں گے۔[12]

زنجیرزنی کے مخالفین

اگرچہ اکثر فقہاء زنجیرزنی کو جائز سمجھتے ہیں[13]، لیکن بعض فقہاء زنجیرزنی کو بھی قمہ‌زنی کی طرح حرام سمجھتے ہیں:

  • سید ابوالحسن اصفہانی: آپ نے اپنے ایک فتوا میں قمہ‌زنی اور زنجیرزنی وغیره کو حرام قرار دیا؛ "تلوار(قمہ‌)، زنجیر، ڈھول، بانسری اور اس طرح کی دوسری چیزیں جو آجکل عزاداری میں استعمال کی جاتی ہیں یہ سب کے سب حرام ہیں"۔[14]
  • سید محسن امین: کتاب التنزیۃ لاعمال الشبیۃ میں زنجیززنی کو قمہ‌زنی کی طرح قرار دیتے ہوئے اس کی حرمت کے قائل ہیں۔[15] اسی رسالے میں میرزای شیرازی کی طرف نسبت دیتے ہیں کہ انہوں نے فتوا دیا ہے کہ عزاداری میں اپنے آپ کو اس طرح مارنا جس کی وجہ وہ جگہ سرخ ہو جائے تو یہ حرام ہے۔[16]
  • سید ہبۃ الدین شہرستانی: آپ کا زنجیرزنی کی حرمت کے حوالے سے دیا گیا فتوا بعض مناطق میں مؤثر ثابت ہوا لیکن بعض علاقوں میں اس پر اعتراض بھی کیا گیا۔ [17]

حوالہ جات

  1. محسن حسام‌مظاہری، فرہنگ سوگ شیعی، مدخل زنجیرزنی
  2. محسن حسام‌مظاہری، فرہنگ سوگ شیعی، مدخل زنجیرزنی
  3. محمدصادق فربد، کتاب ایران: سوگواری‌ہای مذہبی در ایران، ص ۷۱
  4. محمدصادق فربد، کتاب ایران: سوگواری‌ہای مذہبی در ایران، ص ۱۴۸
  5. محمدصادق فربد، کتاب ایران: سوگواری‌ہای مذہبی در ایران، ص ۱۴۲
  6. محسن حسام‌مظاہری، فرہنگ سوگ شیعی، مدخل زنجیرزنی
  7. محمدصادق فربد، کتاب ایران: سوگواری‌ہای مذہبی در ایران، ص ۱۴۵
  8. ابراہیم حیدری، تراژدی کربلا، ترجمہ علی معموری و محمدجواد معموری، ص ۱۱۴
  9. ابراہیم حیدری، تراژدی کربلا، ترجمہ علی معموری و محمدجواد معموری، ص ۱۱۵
  10. صفیہ رضایی، عزاداری امام حسین در جہان، ص ۱۰۲
  11. صفیہ رضایی، عزاداری امام حسین در جہان، ص ۱۰۲
  12. صفیہ رضایی، عزاداری امام حسین در جہان، ص ۱۰۱
  13. وقفۃ مع رسالۃ التنزيہ وآثارہا في المجتمع، ضمن رسائل الشعائر الحسینیۃ، ج۱، ص ۴۲-۴۵
  14. سید محسن امین، أعيان الشيعۃ ج٢، ص٣٣١؛جعفر خلیلی ہكذا عرفتہم ١: ٢٠٧.
  15. سید محسن امین، التنزيہ لأعمال الشبيہ، ضمن رسائل الشعائر الحسینیۃ، ج ٢، ص١٧١
  16. سید محسن امین، التنزيہ لأعمال الشبيہ، ضمن رسائل الشعائر الحسینیۃ، ج ٢، ص۲۳۶
  17. سید محسن امین، أعيان الشيعۃ ج١٠، ص٢٦١؛ جعفر خلیلی، ہكذا عرفتہم، ج ٢، ص ٢١٢.

مآخذ

  • فرہنگ سوگ شیعی، مدخل زنجیرزنی، محسن حسام‌مظاہری
  • صفیہ رضایی، عزاداری امام حسین در جہان، انتشارات سبط النبی، قم، ۱۳۸۸
  • محمدصادق فربد، کتاب ایران: سوگواریہای مذہبی در ایران، الہدی، تہران، ۱۳۸۶
  • ابراہیم حیدری، تراژدی کربلا، ترجمہ علی معموری و محمدجواد معموری، مؤسسہ دار الکتاب الاسلامیۃ، قم، ۱۳۸۰