قمہ زنی

ویکی شیعہ سے
قمہ زنی
قمہ زنی
قاجاریہ دور میں تہران میں قمہ زنی
قاجاریہ دور میں تہران میں قمہ زنی
معلومات
زمان‌عشرہ محرم
مکانجلوس عزاداری
جغرافیائی حدودایران، عراق، لبنان اور برصغیر
منشاء تاریخیاختلافی
اہم مذہبی تہواریں
سینہ‌زنی، زنجیرزنی، اعتکاف، شب بیداری، تشییع جنازہ،
متفرق رسومات


قَمہ زَنی عزاداری کی آداب و رسومات میں سے ہے جسے بعض شیعیان انجام دیتے ہیں۔ اس رسم میں اپنے سر پر تلوار یا قمہ مارتے ہیں تاکہ سر سے خون جاری ہو۔ یہ رسم دسویں صدی ہجری سے شروع ہوئی اور موجودہ دور میں بعض اسلامی ممالک من جملہ عراق، لبنان، پاکستان، ہندوستان اور ایران میں دیکھی جا سکتی ہے۔

قمہ زنی کے موافقین اسے عاشورا کے شعائر میں سے قرار دیتے ہوئے اسے مذہبی بنیادوں کی تقویت کا ذریعہ سمجھتے ہیں جبکہ مخالفین اس بات کے معتقد ہیں کہ یہ کام خرافات میں سے ہے جو شیعہ مذہب کی توہین کا باعث ہے۔

شیعہ فقہاء کے درمیان اس کے جائز، مستحب یا حرام ہونے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض فقہاء جیسے محمد حسین نائینی اس رسم کے حامیوں میں سے تھے جبکہ سید ابوالحسن اصفہانی اس کے مخالفین میں سے تھے۔ سید محسن امین نے پہلی بار قمہ زنی کے خلاف مضامین لکھے اور ایران کے موجودہ رہبر سید علی حسینی خامنہ ای نے سنہ 1995ء میں قمہ زنی کے خلاف تقریر کی۔ بعض علماء قمہ زنی کو شیعہ مذہب کی توہین کا باعث قرار دیتے ہوئے اسے جائز نہیں سمجھتے ہیں۔

معانی

قمہ زنی امام حسینؑ کی مصیبت پر منعقد ہونے والی عزاداری کی ایک رسم ہے جس میں قمہ یا تلوار سر پر ماری جاتی ہے تاکہ سر سے خون جاری ہو۔[1] عموما قمہ زنی عزاداری کے جلوسوں اور دستہ جات میں انجام دی جاتی ہے جس کے دوران "حیدر حیدر" کا نعرہ لگایا جاتا ہے جس کے ساتھ ڈھول اور باجے بھی بجائے جاتے ہیں اور سرخ رنگ کے پرچم بھی لہرائے جاتے ہیں۔[2]

قمہ زنی کے موافقین اس رسم کا وقت روز عاشورا کی صبح کو قرار دیتے ہیں۔[3] پرانے زمانے میں یہ رسم 21 رمضان کو بھی منائی جاتی تھی۔[4] بلند اور سفید کپڑوں کا پہنا اور سر کے بال منڈوانا اس رسم کے رائج ترین آداب میں سے شمار کیا جاتا ہے۔[5]

تاریخ کے آئینے میں

منبع

قمہ زنی کی اصل علت کے بارے میں مختلف اقوال ہیں؛ بعض اس رسم کو حضرت زینب(س) سے منسوب کرتے ہیں کیونکہ جب حضرت زینب نے کربلا سے شام کے راستے میں امام حسینؑ کے سر کو نیزے کے اوپر دیکھا تو بے قابو ہو کر اپنا سر محمل سے ٹکرائی جس سے آپ کے سر سے خون بہنا شروع ہوا۔[6] بہت سارے محققین مذکورہ داستان کو مستند نہیں سمجھتے۔ منتہی الآمال میں شیخ عباس قمی کے مطابق اس داستان کا اصل مآخذ دو کتاب، نور العین اور منتخب طریحی ہے اور یہ دونوں کتابیں غیر معتبر ہیں۔ اس کے علاوہ مقاتل کی معتبر کتابوں میں سے کسی ایک میں بھی مذکورہ داستان کا تذکرہ ­نہیں ہوا ہے۔ اسی طرح عقلی طور پر بھی یہ داستان مخدوش ہے۔[7]

اس کے مقابلے میں ایک گروہ اس بات کے معتقد ہیں کہ قمہ زنی کوئی اسلامی رسم ہی نہیں ہے؛ علی شریعتی قمہ زنی اور اس سے مشابہ رسومات کو حضرت عیسی کی مصائب سے اقتباس‌ شدہ مانتے ہیں جسے مسیحی حضرت عیسی کی بررسی کے عنوان سے مناتے ہیں۔[8] شہید مطہری اس بات کے معتقد ہیں کہ "قمہ زنی اور ڈھول اور باجے بجانا قفقاز کے مسیحیوں سے ایران میں سرایت کی ہیں اور چونکہ مردم کا رجحان اسے قبول کرنے کے لئے تیار تھی اس لئے بجلی کی طرح پورے ملک میں تیزی سے پھیل گیا"[9] اسی طرح بعض لوگ اس بات کے معتقد ہیں کہ قمہ زنی شروع میں عراق کے ترک اقوال، فِرَق صوفیہ (من جملہ قزلباش قوم) اور ایران کے مغرب میں موجود کردیوں میں رائج تھی جو ترک زواروں کے توسط سے عراق میں منتقل ہوئی ہے۔[10]

ایران میں قمہ زنی کی تاریخ

زنجیر زنی

... اسی اثنا میں اچانک سفید پوش ایک گروہ نمودار ہو گئے جن کے ہاتھ میں چھریاں تھیں جو جوش و جذبے کے ساتھ چھریوں کو اوپر اٹھا کر اپنے سروں پر مارتے تھے جس سے ان کے سروں سے خون کا فوارہ جاری ہوتے تھے یوں ان کا پورا بدن خون میں لت پت ہو گئے۔ حقیقت میں یہ ایک دل‌خراش اور بہت متأثر کنندہ منظر تھا جسے میں کبھی بھی فراموش نہیں کر سکتا۔ ان جلوسوں اور دستہ جات میں جو لوگ سینہ زنی اور قمہ زنی کرتے تھے ان کا جذبہ یا ان سے بہنے والا خون بعض اوقات اس قدر زیادہ تھا کہ یہ لوگ بے ہوش ہو کر زمین پر گر جاتے تھے اور ممکن ہے ان کا بروقت علاج نہ ہوا تو یہ لوگ جان کی بازی ہار جائے۔

بنجامن، ایران و ایرانیان، ۱۳۶۳ش، ص۲۸۴

ایران میں قمہ زنی کی تاریخ کا آغاز صفویوں کے دور حکومت سے ہوتا ہے۔[11] اس دور کے بعض پورپی سفرناموں میں قمہ زنی اور بلیڈ مارنے کی طرف اشاره ملتا ہے؛ من جملہ یہ کہ آدام الئاریوس نےعاشورا کے دن اردبیل میں شاہ صفی کے زمانے میں قمہ زنی کی طرف اشارہ کیا ہے۔ قمہ زنی کی یہ رسم قاجاریہ دور حکومت خاص کر عہد ناصری میں رائج ہوئی۔[12] عبداللہ مستوفی اس کام کے اصلی محرک کو ناصرالدین شاہ قاجار‌ کے ہم عصر عالم دین ملاآقا دربندی کو قرار دیتے ہیں۔[یادداشت 1]

قاجاریہ دور میں قمہ زنی کا منظر

اس دور میں ایران سفر کرنے والے سیاحوں اور دیگر غیر ملکی اشخاص جنہوں نے محرم الحرام کی عزاداری دیکھی ہیں کے سفرناموں میں قمہ زنی کے بارے میں تحریر دیکھنے کو ملتے ہیں من جملہ ان اشخاص میں ناصرالدین شاہ کا مخصوص ڈاکٹر، ڈاکٹر فووریہ،[یادداشت 2] ہانری رنہ دالمانی[یادداشت 3] اور عہد ناصری میں امریکہ کے سفیر بنجامن[یادداشت 4] شامل ہیں۔

سنہ 1936ء رضاشاہ کے دور میں عزاداری کی دیگر رسومات کی طرح قمہ زنی پر بھی پابندی عاید کی گئی۔[13] یہ پابندی سنہ 1942ء کو رضاشاہ کی برکناری تک جاری رہی۔ اس کے بعد دوسری پابندیوں کی طرح قمہ زنی پر عاید پابندی بھی ختم ہو گئی جس کے بعد ایران کے مختلف مناطق میں قمہ زنی دوبارہ شروع ہو گئی۔ پہلوی دور حکومت میں قمہ زنی نشیب و فراز کا جامل رہی۔ بعض سالوں میں ساواک کی طرف سے ممنوع قرار دی گئی اور بعض سالوں میں آزادانہ طور انجام دی جاتی تھی۔[14]

فقہاء کا رد عمل

قمہ زنی من جملہ ان موضوعات میں سے ہیں جن کے بارے میں عصر قاجار سے لے کر اب تک شیعہ فقہاء کے درمیان اختلاف رہا ہے۔ اس سلسلے میں فقہاء کو موافقین اور مخالفین میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: میرزای نائینی، محمد تقی بہجت اور میرزا جواد تبریزی جیسے فقہاء قمہ زنی کو جائز جبکہ ان کے مقابلے میں سید ابوالحسن اصفہانی، سید محسن امین، سید علی خامنہ ای، حسین علی منتظری اور ناصر مکارم شیرازی جیسے فقہاء اسے شیعہ مذهب کی توہین کا باعث سمجھتے ہوئے حرام قرار دیتے ہیں۔

موافقین

ہندوستان میں قمہ زنی کا منظر

شعائر اللہ کی تعظیم، شیعہ آداب و رسوم کی حفاظت اور شیعہ طاقت کا مظاہرہ[15] کے علاوہ قمہ زنی کے موافقین کی عمدہ دلیل اور اہم ترین مستند میرزای نائینی کا فتوا ہے۔ انہوں نے اپنے مشہور فتوے میں جسے 5 ربیع‌الاول 1345ھ کو صادر کیا، یوں لکھتے ہیں:

تلوار اور قمہ مارنے کے ذریعے سر اور پیشانی سے خون جاری کرنا جائز ہے ہے اس شرط کے ساتھ کہ کوئی نقصان پیش نہ آئے۔ پیشانی کے ہڈی کو نقصان پہنچائے بغیر خون نکالنا جو عموما نقصان کا باعث نہیں ہے اسی طرح قمہ زنی کرنے والے حضرات بھی اس طرح مارتے ہیں کہ اس سے نقصان نہیں پہنچتا اور اگر اس گمان کے ساتھ کہ قمہ زنی سے نقصان نہیں پہنچے گا قمہ زنی کرے اور بعد میں زیادہ خون بہنے کی وجہ سے نقصان پہنچے تو اس کا حرام ہونا بعید ہے؛ جس طرح اگر کوئی شخص وضو یا غسل کرے یا ماہ رمضان‌ میں روزہ رکھے پھر بعد میں معلوم ہو جائے کہ یہ چیزیں اس کے لئے نقصان دہ تھیں۔ لیکن احتیاط واجب کی بنا پر جو لوگ قمہ زنی سے واقف نہیں ہیں اس کام سے پرہیز کریں تو بہتر ہے۔ بطور خاص جوان حضرات جن کا دل حسین بن علیؑ کی محبت سے سرشار ہیں اور قمہ زنی کے دوران امام حسینؑ کی محبت میں بے قابو ہوتے ہیں جس سے نقصان کا اندیشہ زیادہ ہے، پرہیز کریں تو بہتر ہے۔[16]

وہ مجتہدین جو قمہ زنی کے جائز ہونے اور بعض اوقات مستحب ہونے کا فتوا دیتے ہیں، ان کا نام درج ذیل ہیں:

مخالفین

قمہ زنی کے خلاف صادر ہونے والے فتووں میں سے سب سے اہم اور مؤثر فتوا سید ابوالحسن اصفہانی کا فتوا ہے:

إن استعمال السیوف و السلاسل و الطبول و الأبواق و مایجری الیوم فی مواکب العزاء بیوم عاشوراء إنما هو محرّم و هو غیرشرعی؛ (ترجمہ: تلوار(قمہ زنی)، زنجیر، ڈھول اور باجے کا استعمال جو آج کل عزاداری کی جلوسوں میں رائج ہیں حرام اور غیر شرعی ہیں۔)[21]

اس فتوے کے بعد سب سے اہم تحریر جو قمہ زنی کے خلاف موجود ہے وہ سید محسن امین کی کتاب التنزیہ لاعمال الشبیہ ہے جس میں قمہ زنی اور اس سے مشابہ رسومات کو غیرشرعی، غیرعقلانی اور تشیع کی توہین کا باعث قرار دیا گیا ہے۔ اس کتاب کی اشاعت سے بہت زیادہ رد عمل دیکھنے میں آیا اور اس کی مخالفت یا موافقت میں کتابیں بھی لکھی گئی ہیں۔[22]

امام خمینی نے قمہ زنی کے حرام یا جائز ہونے کو نقصان کا باعث ہونے اور نہ ہونے نیز زمانے کے حالات اور شرائط کے ساتھ مقید کرتے ہوئے اسے موجودہ زمانے کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے حرام قرار دیے ہیں۔[23] آیت‌اللہ خامنہ ای نے سنہ ۱۳۷۳ش میں قمہ زنی کے بارے میں فرمایا: "قمہ زنی‌ ایک خلاف شرع اور جعلی کام ہے اور حالیہ چند سالوں میں افسوس کے ساتھ بعض حضرات اس کی ترویج میں حصہ لے رہے ہیں۔ قمہ زنی‌ دینی یا عزاداری‌ سے مربوط کوئی کام نہیں ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ کام ایک خلاف شرع اور بدعت ہے اور بغیر کسی شک کے کہہ سکتے ہیں کہ خدا اس کام سے راضی نہیں ہے۔ میں بھی ان اشخاص سے راضی نہیں ہوں جو قمہ زنی کو علنا انجام دیتے ہیں۔"[24] بعض علماء نے بھی رہبر معظم کے فرمائشات کی تائید کرتے ہوئے قمہ زنی کو شیعہ مذہب کی توہین کا باعث قرار دیتے ہوئے اسے جائز نہیں سمجھتے ہیں۔[25]

ا کے علاوہ بعض دوسرے مجتہدین بھی اپنے فتوؤں میں قمہ زنی کی مخالفت کرتے ہیں من جملہ ان میں:

قمہ زنی کے مخالفین کے مطابق اس کے حرام ہونے کے عمدہ دلائل درج ذیل ہیں:

  • شریعت کے خلاف ہے؛ یہ حکم ایک فقہی قاعدہ "نفس کو نقصان پہنچانا حرام ہے" سے مستند ہے۔[34]
  • بدعت ہے۔
  • غیرعقلانی ہے۔
  • دین اور مذہب کی توہین کا باعث ہے۔[35]) [36]

نوٹ

  1. مستوفی لکھتے ہیں: عاشورا کے دن دن بلیڈ مارنا ان کاموں میں سے ہے جسے اس عالم (دربندی) نے عزاداری میں شامل کیا یا کم از کم اسے رائج کیا اور ایک حرام کام کو موجب ثواب قرار دیا اور ترک عوام نے بھی اس عزاداری کو قبول کیا یوں ایک واضح اور خلاف شرع کام عزاداری کا حصہ بن گیا اور اس پر ثواب کا دعوا کرنے لگا رجوع کریں: مستوفی، شرح زندگانی من، ۱۳۸۴ش، ج۱، ص۲۷۶-۲۷۷.
  2. جذباتی مؤمنین عاشورا کے دن قمہ زنی کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ کیمپوں میں بعض ایسے لوگ بھی ہیں جن کی زخموں کے معالجے کے لئے کل کا دن بھی کافی نہیں ہے۔ شاید یہ بے شعور لوگ حتی سفر میں بھی اس برے کام کا مرتکب ہوتے ہیں اور اسی حالت میں گرمیوں کے کڑکتے دھوپ میں ننگے پاؤں آنے سے نہیں کتراتے شاید ان کا چمڑا دوسرے عام لوگوں کے چمڑوں سے زیادہ مضبوط ہو گا۔ فووریہ، سه سال در دربار ایران،۱۳۸۵ش، ص۲۸۲.
  3. عاشورا کے دن اس سینہ زنی کرنے والے جلوس کے ساتھ ایک اور دستہ بھی مل جاتا ہے اس دستے میں شامل افراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے شہدائے کربلا کے ماتم میں اپنا خون بہانے کی نذر کی ہوئی ہیں۔ یہ لوگ سر کے بال منڈوائے ہوئے، سفید کفن پہنے ہوئے، یاحسین‌ کہتے ہوئے قمہ اپنے سروں پر مارتے ہیں جس سے ان کے سروں سے خون جاری ہو کر ان کے کفن پر بہنے لگتے ہیں۔ خون جاری ہونے کے بعد ان میں مزید جوش و جذبہ ابھرتا ہے اگر انہیں منع نہ کیا جائے تو قمہ کے ذریعے خود کو ہلاک کر دیتے ہیں۔ درمیان میں بعض ڈنڈا بردار لوگ ہیں جو ان ڈنڈوں کے ذریعے قمہ زنی کے وار کو روک لیتے ہیں تاکہ سروں پر زیادہ چھوٹ نہ لگے اور زیادہ خون نہ بہے۔ لیکن اس کے باوجود زیادہ خون ریزی کی وجہ سے بعض کی موت واقع ہوتی ہے یا مریض ہو جاتے ہیں۔ دالمانی، سفرنامہ از خراسان تا بختیاری، ۱۳۳۵ش، ص۱۹۲-۱۹۳.
  4. سنہ ۱۸۸۴ ء میں تھران میں مقیم تھا۔ سڑکوں پر ماتمی دستوں کی آمد و رفت تھی جو بہت جوش و جذبے کا اظہار کر رہے تھے۔ اسی اثنا میں اچانک سفید پوش ایک گروہ نمودار ہو گئے جن کے ہاتھ میں چھریاں تھیں جو جوش و جذبے کے ساتھ چھریوں کو اوپر اٹھا کر اپنے سروں پر مارتے تھے جس سے ان کے سروں سے خون کا فوارہ جاری ہوتے تھے یوں ان کا پورا بدن خون میں لت پت ہو گئے۔ حقیقت میں یہ ایک دل‌خراش اور بہت متأثر کنندہ منظر تھا جسے میں کبھی بھی فراموش نہیں کر سکتا۔ ان جلوسوں اور دستہ جات میں جو لوگ سینہ زنی اور قمہ زنی کرتے تھے ان کا جذبہ یا ان سے بہنے والا خون بعض اوقات اس قدر زیادہ تھا کہ یہ لوگ بے ہوش ہو کر زمین پر گر جاتے تھے اور ممکن ہے ان کا بروقت علاج نہ ہوا تو یہ لوگ جان کی بازی ہار جائے۔(بنجامین، ایران و ایرانیان، ۱۳۶۳ش، ص۲۸۴).

حوالہ جات

  1. فتح اللہ، معجم ألفاظ الفقہ الجعفری، ۱۴۱۵ق، ص۱۱۴.
  2. الفضلی، «فلسفۃ الشعائر الحسينيۃ»، پایگاہ شبکہ الإمامین الحسنین(ع).
  3. مظاہری، «قمہ زنی»، در فرہنگ سوگ شیعی، ۱۳۹۵ش، ص ۳۸۹.
  4. مظاہری، «قمہ زنی»، در فرہنگ سوگ شیعی، ۱۳۹۵ش، ص ۳۸۹.
  5. مظاہری، «قمہ زنی»، در فرہنگ سوگ شیعی، ۱۳۹۵ش، ص ۳۸۹.
  6. تبریزی خیابانی، وقایع الأیام، ۱۳۸۶ش، ج۲، ص۳۰۶-۳۰۸.
  7. صحتی سردرودی، تحریف‌شناسی عاشورا و تاریخ امام حسین(ع)، ۱۳۸۳ش، ص۲۱۰-۲۱۲.
  8. شریعتی، مجموعہ آثار، ج۹، ۱۳۸۲ش، ص۱۷۰-۱۷۱.
  9. مطہری، مرتضی، جاذبہ و دافعہ علی، ۱۳۸۰ش، ص ۱۵۴.
  10. حیدری، تراژدی کربلا، ۱۳۸۱ش، ص۴۸۰.
  11. منتظرالقائم و کشاورز، «بررسی تغییرات اجتماعی مراسم و مناسک عزاداری عاشورا در ایران»، ص۵۴ و ۵۵.
  12. منتظرالقائم و کشاورز، «بررسی تغییرات اجتماعی مراسم و مناسک عزاداری عاشورا در ایران»، ص۵۸.
  13. بصیرت‌منش، علما و رژیم رضاشاه، ۱۳۷۸ش.
  14. مظاہری، «رسانہ شیعہ»، ص۴۶.
  15. حمود العاملی، ردالہجوم عن شعائر الامام الحسین المظلوم، ۱۴۲۵ق، ص ۱۶۴، ۱۹۷.
  16. نقل از: ربانی خلخالی، عزاداری از دیدگاه مرجعیت شیعه، ۱۴۱۵ق، ص۵۵.
  17. پایگاہ آیت اللہ بہجت، استفتاء شمارہ ۶٣٨٣۔
  18. تبریزی، استفتائات جدید، ۱۳۸۵ش، ج۱، ص۴۵۴-۴۵۹ ۔
  19. پاسخ حضرت آیت اللہ العظمی روحانی بہ سؤالاتی دربارہ کیفیت عزاداری برای ائمہ معصومین(ص)، پایگاہ اطلاع رسانی دفتر آیت اللہ العظمی روحانی۔
  20. پایگاہ آیت اللہ سیدصادق شیرازی۔
  21. صحتی سردرودی، تحریف‌شناسی عاشورا و تاریخ امام‌حسین(ع)، ۱۳۸۳ش، ص۲۱۴.
  22. محمد الحسون، وقفۃ مع رسالۃ التنزیہ وأثارہا فی المجتمع ، ضمن رسائل الشعائر الحسینیہ، ج۱، ص ۴۲.
  23. فتوای امام خمینی در مورد قمہ زدن در عزای امام حسین(ع)، پایگاہ پرتال امام خمینی.
  24. دفتر حفظ و نشر آثار آیت‌اللہ العظمی خامنہ ای.
  25. محدثی، فرہنگ عاشورا، ۱۳۷۶ش، ص۳۵۹.
  26. فاضل لنکرانی، جامع المسائل، ۱۳۸۴ش، ج۱، ص۵۸۱۔
  27. منتظری، رسالہ استفتائات، ۱۳۸۴ش، ج۲، ص۳۲۱۔
  28. پایگاہ پاسخگویی آیت اللہ مکارم شیرازی۔
  29. پایگاه اسراء.
  30. پایگاہ آیت اللہ علوی گرگانی۔
  31. پایگاہ آیت اللہ محقق کابلی.
  32. پایگاہ آیت اللہ مظاہری.
  33. پایگاہ آیت اللہ نوری ہمدانی.
  34. رابطه روایات اضرار بہ نفس و قمہ زنی چیست؟
  35. مقصود از وہن دین یا مذہب چیست؟
  36. «حکم تیغ و قمہ زنی از منظر مقام معظم رہبری» «حکم تیغ‌زنی و قمہزنی از نظر مقام معظم رہبری»، خبرگزاری فارس؛ «نظر بیش از ۲۵ مرجع تقلید در مورد قمہ زنی»، پایگاہ خبری شعار سال۔

مآخذ

  • امین‌، سید محسن، رسالۃ التنزیہ لأعمال الشبیہ، بی‌جا، بی‌نا، بی‌تا۔
  • امین، سید محسن، عزاداری‌ہای نامشروع، ترجمۀ جلال آل‌احمد، بوشہر، شروہ، ۱۳۷۱ش۔
  • امینی، داوود، چالش‌ہای روحانیت با رضاشاہ: بررسی علل چالش‌ہای سنت‌گرایی با نوگرایی، تہران، سپاس، ۱۳۸۲ش۔
  • بصیرت‌منش، حمید، علما و رژیم رضاشاہ؛ نظری بر عمل‌کرد سیاسی فرہنگی روحانیون در سال‌ہای ۱۳۰۵ تا ۱۳۲۰، تہران، مؤسسۀ چاپ و نشر عروج، ۱۳۷۶ش۔
  • بنجامین، ساموئل گرین ویلز، ایران و ایرانیان، ترجمۀ محمدحسین کردبچہ، تہران، جاویدان، ۱۳۶۳ش۔
  • تبریزی، جواد، استفتائات جدید (للتبریزی)، ج۱، قم، سرور، ۱۳۸۵ش۔
  • تبریزی خیابانی، علی، وقایع الأیام فی تتمۃ محرم الحرام، تحقیق محمد الوانساز خویی، قم، غرفۃ الإسلام، ۱۳۸۶ش۔
  • حیدری، ابراہیم، تراژدی کربلا: مطالعۀ جامعہ‌شناختی گفتمان شیعہ، ترجمۀ علی معموری و محمدجواد معموری، قم، دارالکتاب الاسلامی، ۱۳۸۱ش۔
  • دالمانی، ہانری رنہ، سفرنامہ از خراسان تا بختیاری، ترجمہ محمدعلی فرہ‌وشی، تہران، نشر امير کبير، ۱۳۳۵ش۔
  • دہخدا، علی‌اکبر و دیگران، لغتنامہ، تہران، انتشارات دانشگاہ تہران، چاپ دوم، ۱۳۷۷ش۔
  • ربانی خلخالی، علی، عزاداری از دیدگاہ مرجعیت شیعہ، قم، مکتب الحسین، ۱۴۱۵ق۔
  • شریعتی، علی، مجموعہ آثار، ج۹، تہران، چاپخش، ۱۳۸۲ش۔
  • شہری، جعفر، طہران قدیم، تہران، معین، ۱۳۷۱ش۔
  • صحتی سردرودی، محمد، تحریف‌شناسی عاشورا و تاریخ امام‌حسین(ع)، تہران، مؤسسۀ انتشارات امیرکبیر: شرکت چاپ و نشر بین‌الملل، ۱۳۸۳ش۔
  • فاضل لنکرانی، محمد، جامع المسائل، ج۱، قم‌، امیر العلم، ۱۳۸۴ش۔
  • فتاوی علماء الدین حول الشعائر الحسینیہ، بیروت، مؤسسۃ المنبر الحسینی، ۱۹۹۴م۔
  • فتح اللہ، أحمد، معجم ألفاظ الفقہ الجعفری، الدمام، مطابع المدوخل، ۱۴۱۵ق/۱۹۹۵م۔
  • الفضلی، احسان، «فلسفۃ الشعائر الحسینیۃ»، پایگاہ الإمامین الحسنین(ع)۔
  • فووریہ، سہ سال در دربار ایران، ترجمہ عباس اقبال، تہران، نشر علم، ۱۳۸۵ش۔
  • محدثی، جواد، فرہنگ عاشورا، قم، نشر معروف، ۱۳۷۶ش۔
  • مسائلی، مہدی، قمہ‌زنی: سنت یا بدعت، اصفہان، گلبن، ۱۳۸۵ش۔
  • مستوفی، عبداللہ، شرح زندگانی من یا تاریخ اجتماعی و اداری دوران قاجاریہ،‌تہران، زوار، ۱۳۸۴ش۔
  • مطہری، مرتضی، جاذبہ و دافعہ علی، تہران، انتشارات صدرا، ۱۳۸۰ش۔
  • مظاہری، محسن‌حسام، «رسانہ شیعہ: سوگواری شیعیان ایران از آغاز تا پیش از پیروزی انقلاب اسلامی»، در مجلہ اخبار و ادیان، شمارہ ۱۸، فروردین و اردیبہشت ۱۳۸۵ش۔
  • مظاہری، محسن‌حسام، فرہنگ سوگ شیعی، تہران، خیمہ، ۱۳۹۵ش۔
  • منتظرالقائم، اصغر، کشاورز، زہرا سادات، «بررسی تغییرات اجتماعی مراسم و مناسک عزاداری عاشورا در ایران»، مجلہ شیعہ‌شناسی، تابستان ۱۳۹۶ش، شمارہ ۵۸۔
  • منتظری، حسینعلی، رسالہ استفتائات، ج۲، تہران، نشر سایہ،‌ ۱۳۸۴ش۔
  • نیازمند، رضا، شیعہ در تاریخ ایران: شیعہ چہ می‌گوید و چہ می‌خواہد؟، تہران، حکایت قلم نوین، ۱۳۸۳ش۔