آیت ظہار

ویکی شیعہ سے
آیت ظہار
آیت کی خصوصیات
آیت کا ناملعان
سورہمجادلہ
آیت نمبر2
پارہ28
صفحہ نمبر350
شان نزولاوس بن صامت کا اپنی بیوی سے ظہار کے بعد پیشمانی
محل نزولمدینہ
موضوعظہار


آیت ظِہٰار (مجادلہ: 2) عمل ظہار کی مزمت میں نازل ہوئی ہے جو زمانہ جاہلیت کی ایک رسم تھی۔ ظہار میں مرد اپنی بیوی کو اپنی ماں کے ساتھ تشبیہ دے دیتا جس کے ذریعے آخر عمر تک بیوی شوہر پر حرام ہو جاتی اور شوہر دوبارہ بیوی کی طرف رجوع کرنے کا حق بھی نہیں رکھتا تھا۔ خدا نے آیت ظہار میں ظہار کے باطل ہونے کا حکم دیتے ہوئے ظہار کرنے والے شخص کو توبہ کے ساتھ کفارہ دینے کا حکم دیا۔

آیہ ظہار پیغمبر اکرمؐ کے ایک صحابی اوس بن صامت کے بارے میں نازل ہوئی ہے جس نے اپنی بیوی کے ساتھ ظہار کیا تھا جس کے کچھ عرصے بعد وہ اس کام سے پشیمان ہوا تھا۔ اس نے اپنی بیوی کو اس مسئلے کے حل کے لئے پیغمبر اکرمؐ کے پاس بھیجا، جس پر آیہ ظہار اور اس سے مربوط بعض دوسری آیات نازل ہوئیں۔ خدا اس کے بعد والی متعدد آیات میں کفاہ ظہار کے احکام بیان کرتا ہے۔ ان آیتوں کے مطابق شوہر ظہار کا کفارہ ادا کرنے سے پہلے اپنی بیوی کے ساتھ ہم بستری کا حق نہیں رکھتا۔ ظہار کے متحقق ہونے کے لئے دو عادل مردوں کا بطور گواہ موجود ہونا اور بیوی کا حیض کی حالت میں نہ ہونا اور دیگر بعض شرائط نقل کئے گئے ہیں۔

متن اور ترجمہ

الَّذِينَ يُظَاهِرُونَ مِنكُم مِّن نِّسَائِهِم مَّا هُنَّ أُمَّهَاتِهِمْ ۖ إِنْ أُمَّهَاتُهُمْ إِلَّا اللَّائِي وَلَدْنَهُمْ ۚ وَإِنَّهُمْ لَيَقُولُونَ مُنكَرًا مِّنَ الْقَوْلِ وَزُورًا ۚ وَإِنَّ اللَّهَ لَعَفُوٌّ غَفُورٌ ‎


تم میں سے جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کرتے ہیں وہ ان کی مائیں نہیں ہیں (کیونکہ) ان کی مائیں تو بس وہی ہیں جنہوں نے انہیں جَنا ہے البتہ یہ لوگ ایک بہت بری بات اور جھوٹ کہتے ہیں اور بلاشبہ اللہ بڑا درگزر کرنے والا، بڑا بخشنے والا ہے۔ (سورہ مجادلہ، آیت نمبر 2)


اجمالی تعارف

سورہ مجادلہ کی دوسری آیت کو آیہ ظہار کہا جاتا ہے؛ تاہم سورہ مجادلہ کی پہلی چار یا چھ آیتوں کو ظہار سے مربوط جانا جاتا ہے۔[1] یہ آیت دوران جاہلیت کی ایک رسم جو میاں بیوی کی جدائی کا باعث بنتی تھی، کی مزمت میں نازل ہوئی [2] اور اس میں اس قبیح عمل کے لئے سخت سزا معین کی گئی ہے۔[3] خدا نے آیہ ظہار میں نصیحت کرتے ہوئے[4] اس عمل کو باطل اور واقع کے خلاف قرار دیتے دیا[5] اور اس عمل کی مزمت کرتے ہوئے اسے عقلی اور شرعی[6] اعتبار سے ایک قیبح اور ناپسند عمل قرار دیا۔[7] خدا نے اس آیت کے ذریعے ظہار کے حکم کو باطل قرار دیا[8] اور اس کے برے اثرات[9] یعنی میاں بیوی کے ہمیشہ کے لئے حرام ہونے کو ختم کر دیا۔[10] اسی طرح اس کے ایک اور اثر جو کہ بیوی کا ماں بننے کا تصور تھا، کو بھی مسترد کیا۔[11]

ظہار کی حقیقت

ظہار جو کہ زمانہ جاہلیت کے طلاق کے نام سے مشہور ہے[12] اور ان کے اعتقادات میں شمار ہوتا ہے[13] در لغت بہ معنای پُشت است[14]، اصطلاح میں ظہار اس عبارت کو کہا جاتا ہے جس کے ادا کرنے سے بیوی اپنے شوہر پر ہمیشہ کے لئے حرام ہو جاتی تھی۔[15] طلاق ظہار میں شوہر غصہ اور بیوی کے ساتھ نفرت کی وجہ سے[16] اسے اپنی ماں[17] یا کسی اور محارم کے ساتھ تشبیہ دیتا ہے[18] [یادداشت 1] اور صیغہ ظہار کے پڑھنے کے ساتھ شوہر اپنی بیوی سے جدا ہو گا اور اس کے بعد کبھی بھی رجوع نہیں کر سکے گا۔[19] ظہار خواتین پر ایک آشکار اور واضح ظلم اور ان کی زندگی کو سخت اور انہیں نقصان پہنچانے کا ذریعہ تھا۔[20]

شأن نزول

اس آیت کی شأن نزول کے بارے میں آیا ہے کہ ایک دن پیغمبر اکرمؐ کے ایک صحابی اوس بن صامت نے غصے کی حالت میں اپنی بیوی کے ساتھ ظہار کیا؛ لیکن ایک عرصے کے بعد وہ اپنے اس کام سے پشیمان ہوا اور اس سلسلے میں اسلام کا حکم دریافت کرنے کے لئے اپنی بیوی کو پیغمبر اکرمؐ کے پاس بھیجا۔ اس واقعہ کے بعد سورہ مجادلہ کی پہلی چار آیتیں جو کہ ظہار سے مربوط ہیں نازل ہوئیں۔[21]

مضامین

آیہ ظہار میں انسان کی ماں اور والدہ اس شخص کو قرار دی گئی ہے جس نے اسے جنی ہو[22] اور بیوی انسان کے ماں کے حکم میں نہیں آ سکتی ہے۔[23] آیت اللہ مکارم شیرازی کے مطابق ماں اور اولاد کا رشتہ ایک خارجی حقیقت اور واقعیت ہے جو الفاظ کے ذریعے حاصل نہیں ہوتی؛ اس بنا پر اگر کوئی شخص سو مرتبہ بھی اپنی بیوی سے کہے کہ تم میرے لئے میری ماں جیسی ہو، پھر بھی بیوی ماں کے حکم میں نہیں آئے گی اور یہ بات خرافات کے سوا کچھ نہیں ہے۔[24] علماء اس آیت سے استناد کرتے ہوئے ظہار کے حرام ہونے میں کوئی شک و شبہہ کے قائل نہیں ہیں۔[25]

خدا نے بعد والی دو آیتوں میں پشیمانی اور بیوی کی طرف رجوع کرنے کے لئے کفارہ معین کیا ہے[26] اگر قدرت رکھتا ہے تو ایک غلام آزاد کرے اگر اس کی توانائی نہیں رکھتا تو 60 دن پے در پے روزہ رکھے، اگر اس کی بھی توانائی نہیں رکھتا تو 60 فقیروں کو اطعام دے۔[27] علماء کے درمیان اس شخص کے بارے میں جو مذکورہ کفارات میں سے کسی ایک پر بھی قادر نہ ہو اختلاف پایا جاتا ہے۔[28]بعض علماء ظہار کا کفارہ تعینی کرنے کا فلسفہ عبرت حاصل کرنا،[29]تربیت نفس،[30] بیویوں پر ہونے والے ظلم کی روک تھام اور خاندان کے نظام کی حظافت قرار دیا ہے۔[31] اگلی آیات میں خدا نے ظہار کرنے والے شخص کے لئے توبہ کو واجب قرار دیا ہے[32] اور توبہ کرنے کی صورت میں خدا اس کے گذشتہ گناہوں کو بخش دے گا۔[33]

فقہی استعمال

بعض مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں ظہار کے بعض احکام کی طرف اشارہ کیا ہے؛ من جملہ وہ یہ ہیں کہ شوہر کفارہ ادا کرنے سے پہلے بیوی سے ہم بستری کا حق نہیں رکھتا[34] [یادداشت 2] اسی طحر ظہار کی تحقق کے لئے بیوی کا حیض کی حالت میں نہ ہونا، آخری بار حیض سے فارغ ہونے کے بعد ہم بستری انجام نہ دیا اور اسی طرح دو عادل گواہوں کے ہونے کو شرط قرار دیا ہے۔[35]

بعض مفسرین امام علیؑ سے منقول ایک حدیث سے استناد کرتے ہوئے اس بات کے معتقد ہیں کہ اگر کوئی شخص ایک مرتبہ ظہار کر کے کفارہ ادا کرنے سے پہلے دوسری بار ظہار کا مرتکب ہو تو اس پر ایک کفارہ واجب ہے؛[36] بعض اس نظریے کو اکثر علماء کے اعتقاد کا خلاف[37] اور آیت کے سیاق و سباق کے ساتھ ناسازگار قرار دیا ہے۔[38]

متعلقہ مقالات

حوالہ جات

  1. طباطبایی، المیزان، 1390ہجری شمسی، ج19، ص178۔
  2. طباطبایی، المیزان، 1390ہجری شمسی، ج19، ص178۔
  3. قرائتی، تفسیر نور، 1388ہجری شمسی، ج9، ص500۔
  4. سبزواری، ارشاد الاذہان، 1419ھ، ص547؛ طبرسی، تفسیر جوامع الجامع، 1412ھ، ج4، ص255۔
  5. مغنیہ، التفسیر الکاشف، 1424ھ، ج7، ص265؛ طبرسی، تفسیر جوامع الجامع، 1412ھ، ج4، ص255۔
  6. آلوسی، روح المعانی، 1415ھ، ج14، ص200۔
  7. دینوری، الواضح، 1424ھ، ج2، ص385؛ طبرانی، التفسیر الکبیر، 2008م، ج6، ص220؛ طوسی، التبیان، بیروت، ج9، ص542۔
  8. زمخشری، الکشاف، 1407ھ، ج4، ص485؛ طبرسی، تفسیر جوامع الجامع، 1412ھ، ج4، ص255۔
  9. قطب، فی ظلال القرآن، 1425ھ، ج6، ص3506۔
  10. طباطبایی، المیزان، 1390ہجری شمسی، ج19، ص178۔
  11. طباطبایی، المیزان، 1390ہجری شمسی، ج19، ص178۔
  12. ابن عربی، احکام القرآن، 1408ھ، ج5، ص301؛ طبری، جامع البیان، 1412ھ، ج28، ص6؛ ثعلبی، الکشف و البیان، 1422ھ، ج9، ص253۔
  13. طبرسی، تفسیر جوامع الجامع، 1412ھ، ج4، ص255۔
  14. آلوسی، روح المعانی، 1415ھ، ج14، ص199؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج29، ص478۔
  15. زمخشری، الکشاف، 1407ھ، ج4، ص485؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج 29، ص478-479۔
  16. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ہجری شمسی، ج23، ص407۔
  17. قمی، تفسیر القمی، 1363ہجری شمسی، ج2، ص354۔
  18. ابوالفتوح رازی، روض الجنان، 1408ھ، ج19، ص61۔
  19. طبری، جامع البیان، 1412ھ، ج28، ص6؛ طباطبایی، المیزان، 1390ہجری شمسی، ج19، ص178۔
  20. قرائتی، تفسیر نور، 1388ہجری شمسی، ج9، ص500۔
  21. برای اطلاعات بیشتر: ابن سلیمان، تفسیر مقاتل بن سلیمان، 1423ھ، ج4، ص257؛ طبری، جامع البیان، 1412ھ، ج28، ص6۔ ہمچنین با کمی اختلاف: صنعانی، تفسیر عبدالرزاھ، 1411ھ، ج2، ص224؛ طبرانی، التفسیر الکبیر، 2008م، ج6، ص218؛ ثعلبی، الکشف و البیان، 1422ھ، ج9، ص253؛ زمخشری، الکشاف، 1407ھ، ج4، ص484؛ ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، 1419ھ، ج8، ص66۔
  22. قطب، فی ظلال القرآن، 1425ھ، ج6، ص3506۔
  23. دینوری، الواضح، 1424ھ، ج2، ص385؛ طبرانی، التفسیر الکبیر، 2008م، ج6، ص220؛ طوسی، التبیان، بیروت، ج9، 542؛ زمخشری، الکشاف، 1407ھ، ج4، ص485۔
  24. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ہجری شمسی، ج23، ص410۔
  25. مغنیہ، التفسیر الکاشف، 1424ھ، ج7، ص265۔
  26. سبزواری، ارشاد الاذہان، 1419ھ، ص547۔
  27. دینوری، الواضح، 1424ھ، ج2، ص385۔
  28. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ہجری شمسی، ج23، ص417۔
  29. طبرسی، تفسیر جوامع الجامع، 1412ھ، ج4، ص256؛ طباطبایی، المیزان، 1390ہجری شمسی، ج19، ص179۔
  30. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ہجری شمسی، ج23، ص413۔
  31. قرائتی، تفسیر نور، 1388ہجری شمسی، ج9، ص503۔
  32. جزایری، ایسر التفاسیر، 1416ھ، ج5، ص285۔
  33. طبرسی، تفسیر جوامع الجامع، 1412ھ، ج4، ص256۔
  34. طبرانی، التفسیر الکبیر، 2008م، ج6، ص221؛ ابوالفتوح رازی، روض الجنان، 1408ھ، ج19، ص61؛ زمخشری، الکشاف، 1407ھ، ج4، ص486؛ قرائتی، تفسیر نور، 1388ہجری شمسی، ج9، ص504۔
  35. طوسی، التبیان، بیروت، ج9، 540؛ ابوالفتوح رازی، روض الجنان، 1408ھ، ج 19، ص61۔
  36. سلطان علی‌شاہ، بیان السعادۃ، 1408ھ، ج4، ص154۔
  37. عاملی، تفسیر عاملی، 1360ہجری شمسی، ج8، ص203۔
  38. طباطبایی، المیزان، 1390ہجری شمسی، ج19، ص179۔

نوٹ

  1. مثلا اپنی بیوی سے کہتا ہے: أنت علی کظَہر أُمی، تم میرے لئے میری والدہ کی کمر کی طرح ہو۔ (طوسی، التبیان، بیروت، ج9، ص542۔) یا اسی طرح کی کوئی اور عبارت جیسے: أنت علی کبطن أمّی یا کرأس أمّی و یا کفرج أمّی (ثعلبی، الکشف و البیان، 1422ھ، ج9، ص: 254؛ میبدی، کشف الاسرار، 1371ہجری شمسی، ج10، ص6۔) بعض لوگ اس بات کے معتقد ہیں کہ ماں یا کمر جیسے الفاظ ظہار متحقق ہونے کے لئے ضروری ہے۔ (فخررازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج29، ص479۔) ماں کے علاوہ دوسری محارم خواتین کے ساتھ ظہار متحقق ہونے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ (زمخشری، الکشاف، 1407ھ، ج4، ص488۔)
  2. تاہم بعض مفسرین اس بات کے معتقد ہیں کہ اکثر علماء دخول کے علاوہ دوسری لذتوں کو جائز قرار دیتے ہیں۔(ثعلبی، الکشف و البیان، 1422ھ، ج9، ص255۔)

مآخذ

  • ابن‌سلیمان، مقاتل، تفسیر مقاتل بن سلیمان، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، 1423ھ۔
  • ابن‌عربی، محمد بن عبداللہ، احکام القرآن، 1408ھ، بیروت، دارالجیل، 1408ھ۔
  • ابن‌کثیر، اسماعیل بن عمر، تفسیر القرآن العظیم، بیروت،‌ دارالکتب العلمیۃ، 1419ھ۔
  • ابوالفتوح رازی، حسین بن علی، روض الجنان و روح الجنان فی تفسیر القرآن، مشہد، آستان قدس رضوی، 1408ھ۔
  • آلوسی، سید محمود، روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم، تحقیق علی عبدالباری عطیہ، بیروت، دارالکتب العلمیہ، 1415ھ۔
  • ثعلبی، احمد بن محمد، الکشف و البیان المعروف تفسیر الثعلبی، بیروت،‌ دار إحیاء التراث العربی، 1422ھ۔
  • جزایری، ابوبکر جابر، ایسر التفاسیر لکلام العلی الکبیر، مدینہ، مکتبۃ العلوم و الحکم، 1416ھ۔
  • دینوری، عبداللہ بن محمد، الواضح فی تفسیر القرآن الکریم، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، 1424ھ۔
  • زمخشری، محمود بن عمر، الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل و عیون الأقاویل فی وجوہ التأویل، بیروت، دارالکتاب العربی، چاپ سوم، 1407ھ۔
  • سبزواری، محمد، ارشاد الاذہان الی تفسیر القرآن، بیروت، دارالتعارف للمطبوعات، 1419ھ۔
  • سلطان علیشاہ، محمد بن حیدر، بیان السعادۃ فی مقامات العبادۃ، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، چاپ دوم، 1408ھ۔
  • صنعانی، عبدالرزاق بن ہمام، تفسیر القرآن العزیز معروف بہ تفسیر عبدالرزاھ، بیروت، دارالمعرفۃ، 1411ھ۔
  • طباطبایی، محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، چاپ دوم، 1390ھ۔
  • طبرانی، سلیمان بن احمد، التفسیر الکبیر: تفسیر القرآن العظیم، اربد اردن، دارالکتاب الثقافی، 2008م۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، تفسیر جوامع الجامع، قم، حوزہ علمیہ قم، مرکز مدیریت، 1412ھ۔
  • طبری، محمد بن جریر، جامع البیان، بیروت، دارالمعرفۃ، 1412ھ۔
  • طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، بی‌تا۔
  • عاملی، ابراہیم، تفسیر عاملی، تہران، کتاب‌فروشی صدوھ، 1360ہجری شمسی۔
  • فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر (مفاتیح الغیب)،‌ بیروت، دار إحیاء التراث العربی، چاپ سوم، 1420ھ۔
  • قرائتی، محسن، قرائتی، تفسیر نور، تہران، مرکز فرہنگی درس‌ہایی از قرآن، 1388ہجری شمسی۔
  • قطب، سید، فی ظلال القرآن، بیروت، دارالشروھ، چاپ سی و پنجم، 1425ھ۔
  • قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، قم، دارالکتاب، چاپ سوم، 1363ہجری شمسی۔
  • مغنیہ، محمدجواد، التفسیر الکاشف، قم، دارالکتاب الإسلامی، 1424ھ۔
  • میبدی، احمد بن محمد، کشف الاسرار و عدۃ الابرار (معروف بہ تفسیر خواجہ عبداللہ انصاری)، تہران، امیرکبیر، چاپ پنجم، 1371ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الإسلامیۃ، چاپ دہم، 1371ہجری شمسی۔