اولاد کی تربیت

ویکی شیعہ سے

اولاد کی تربیت سے مراد بچوں کو دینی اور دنیوی اعتبار سے نیک اور اچھے کردار کے مالک بنانے کے لئے ماحول اور زمینہ فراہم کرنا ہے۔ اسلامی احادیث میں اس موضوع کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔ اہل بیتؑ سے مروی احادیث میں اولاد کی تربیت کے تین ادوار یا مراحل کا تذکرہ ملتا ہے جن میں سے ہر مرحلہ سات سال پر مشتمل ہے اور ان ادوار میں بچے کی پیدائش سے لے کر 21 سال تک کو مد نظر رکھا گیا ہے جس کے ہر دور کے مختلف شرائط اور آداب ہیں۔

تربیت کے دوران بچوں کی تنبیہ اور توہین سے اجتناب کرنا، بچوں میں کرامت اور عزت نفس کو اجاگر کرنا اور ہر صورت میں اعتدال و عدالت کی رعایت کرنا اولاد کی تربیت کے بعض اصول ہیں جن کی طرف اسلامی احادیث میں اشارہ ہوا ہے۔ اسی طرح نشو و نما کے مراحل، بچوں کی تعلیم، دودھ پلانے کے شرائط کی رعایت، بچوں کے ساتھ محبت کے ساتھ پیش آنا اور شریک حیات کا صحیح انتخاب بچوں کی تربیت میں موثر موضوعات میں سے ہیں جن کی طرف اسلامی احادیث میں مکررا اشارہ ہوا ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق والدین کے کردار کے ساتھ ساتھ وراثتی خصوصیات پر بچوں کی تربیت میں موثر ہیں۔

اسلامی دانشوروں نے بھی اولاد کی تربیت پر بہت زور دیا ہے منجملہ مشہور مسلمان فلاسفر بو علی سینا نے بچوں کی نشو و نما کو مد نظر رکھتے ہوئے اولاد کی تربیت کو چھ مرحلوں میں تقسیم کیا ہے۔

اہمیت

بچوں کے حقوق سے متعلق رسالہ حقوق امام سجاد(ع) سے اقتباس

«اور تیرے اوپر تیری اولاد کا حق یہ ہے کہ تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ یہ تم سے ہیں اور دنیا میں ان کا نیک اور بدکرار ہونا تمہاری طرف نسبت دی جائے گی۔ بے شک تم جو کچھ اس حوالے سے تمہاری ذمہ داری ہے یعنی ان کی اچھی تربیت کرنا اور ان کو خدا کی طرف ہدایت اور راہنمائی کرنا اور خدا کی اطاعت کرنے میں ان کی مدد کرنا بھی تمہاری ذمہ داری ہے۔ پس اپنی اولاد کے بارے میں اس شخص کی طرح ہو جاؤ جس کو یہ علم ہے کہ ان کے ساتھ نیکی کرنے کے بدلے ثواب دیا جائے گا اور ان کے ساتھ برا سلوک کرنے کے بدلے سزا دی جائے گی»

اولاد کی تربیت بچوں کے بنیادی حقوق میں شمار ہوتی ہے[1] دانشوروں کے مطابق اولاد کی تربیت سے مراد اولاد کی نشو و نما اور ان کے اندر پوشیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لئے زمینہ فراہم کرنا ہے۔[2] ان کے مطابق اولاد کی تربیت کا مقصد دینی اور دنیوی اعتبار سے ان کے جسمانی اور معنوی کمالات کو پروان چڑھانے کا موقع فراہم کرنا ہے۔[3]

اسلامی احادیث میں اولاد کی تربیت پر بہت تاکید کی گئی ہے۔[4] اسلامی احادیث کے مطابق اولاد کی تربیت کی ذمہ داری والدین پر عائد ہوتی ہے۔[5] امام علیؑ سورہ تحریم کی آیت نمبر 6 کے ذیل میں اولاد کی تربیت کو مؤمنین کی ذمہ داری اور فریضہ قرار دیتے ہیں جس کے ذریعے جنہم کی آگ سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔[6] شیعہ مآخذ میں والدین کو جس طرح اولاد کے وجود کا سبب اور علت قرار دیتے ہیں اسی طرح والدین کی تربیت کو اولاد کے کردار کا ضامن قرار دیتے ہیں۔[7]

امام سجادؑ رسالہ حقوق کے ایک حصے کو والدین پر اولاد کے حقوق سے متخص کرتے ہوئے بچوں کی تربیت کے حوالے سے والدین کی ذمہ داری قرار دیتے ہیں کہ والدین کو چاہئے کہ وہ اپنے کرار اور عمل نیز تعلیم کے ذریعے اپنے بچوں کی تربیت کریں اور بچوں کے مستقبل اور نیکی اور بدی کو والدین کی تربیت کی نوعیت پر موقوف قرار دیتے ہیں۔[8]

اولاد کی تربیت سے متعلق احادیث میں مورد تاکید موضوعات

بعض محققین کتاب اصول کافی میں اولاد کی تربیت سے متعلق نقل ہونے والی احادیث میں مورد بحث کثیر موضوعات میں تحقیق کے بعد ان میں سے دس موضوعات کو اس سلسلے میں سب سے زیادہ مورد تاکید قرار دیتے ہیں:

نشو و نما کے مراحل پر توجہ دینا، بچوں کی تعلیم و تربیت، بچوں کو دودھ پلانے کی شرائط، بچوں کے ساتھ محبت سے پیش آنا، شریک حیات کا صحیح انتخاب، اولاد صالح کے برکات، بچوں کی صحیح تربیت، نیک سنتیں، اولاد کی تربیت میں تأدیب اور تنبیہ کا اثر اور بچوں کے اچھے نام انتخاب کرنا۔[9]

اسی طرح ان محققین کے بقول احادیث میں اولاد کی تربیت کے مراحل کو تین قسموں میں: ولادت سے پہلے، ولادت کے بعد اور طفولیت میں تقسیم کی گئی ہیں اور ان میں سے سب سے زیادہ درج ذیل موضوعات پر تاکید کی گئی ہے:

  • ولادت سے پہلے کا مرحلہ: شریک حیات کا صحیح انتخاب؛
  • ولادت کے بعد کا مرحلہ: بچوں کو دودھ پلانے کے آداب و رسوم اور اچھے ناموں کا انتخاب؛
  • طفولیت کا مرحلہ: اولاد کی تربیت کے اصول اور قواعد کی رعایت جیسے بچوں کی تأدیب اور تنبیہ، تربیت جنسی اور بچوں کے ساتھ کئے گئے عہد و پیمان کا پاس رکھنا۔[10]

احادیث میں اولاد کی تربیت کے بعض نکات

شیعہ ائمہ معصومینؑ سے نقل ہونے والی احادیث میں اولاد کی تربیت میں موثر بعض نکات کو یوں جستجو کر سکتے ہیں؛ تنبیہ،[11] اور توہین سے اجتناب،[12]کرامت اور عزت نفس کی تقویت،[13]تربیت میں اعتدال،[14]عدالت کی رعایت،[15]عہد و پیمان پر عمل پیرا ہونا،[16]بچپنے میں تربیت کا آغاز کرنا[17]اور دینی اور سماجی امور کی تعلیم دینا۔[18]

اولاد کی تربیت میں اہل‌ بیتؑ کی سیرت

بعض محققین اولاد کی تربیت میں اہل بیتؑ کی سیرت اور روش کو تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:

  • یقینی طریقہ: محبت سے پیش آنا، نصیحت، تکریم شخصیت اور تبعیض سے اجتناب؛
  • اصلاحی طریقہ کار: بخشش اور عطا، تغافل، تشویق، مناسب تنبیہ، کھیل کود، مذہبی مراسم میں شرکت کرانا؛
  • اشارہ اور کنایہ کا طریقہ کار: مخفیانہ نصیحت، مقابلہ بازی اور بچوں کو ذمہ داری سونپنا۔[19]

اولاد کی تربیت کے تین ادوار

شیعہ احادیث میں اولاد کی تربیت کو تین ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے جن میں سے ہر دور سات سال پر محیط ہوتا ہے: پہلے سات سال میں بچوں کو «سیّد اور آقا»، دوسرے سات سال میں «مطیع اور فرمانبردار» جبکہ آخری سات سال میں «وزیر اور مسئول» کا نام دیا گیا ہے۔[20]

بعض ان تین ادوار کو بچپنا، نوجوانی اور جوانی پر محیط قرار دیتے ہیں[21] اسی طرح بعض کا خیال ہے کہ یہ طریقہ بچوں کو نیک اور باکردار شخصیت میں تبدیل کرنے کا بہترین طریقہ ہے اور یہ طریقے بچوں کے اندرونی کیفیات کے ساتھ بھی ساز گار ہونے کے ساتھ ساتھ فطری تقاضوں سے ہماہنگ طریقہ ہے۔[22]

اولاد کی تربیت میں والدہ کی پاکدامنی اور والد کے اعمال کا کردار

ایک تحقیق کے مطابق اسلام نے اولاد کی تربیت میں والدہ کے وارثتی کردار کو والد سے زیادہ اہمیت دی ہے۔ اس سلسلے میں بعض احادیث اور سورہ مریم کی آیت نمبر 28 میں یوں اشارہ ہوا ہے؛[23] اس آیت میں حضرت مریم کی قوم کی زبانی ان کی والدہ کی پاکدامنی کی طرف اشارہ ہوا؛ حالانکہ سب جانتے تھے کہ حضرت مریم کی والدہ ان کی طفولیت میں اس دنیا سے چلی گئی تھی۔[24]

اولاد صالح کی تربیت میں والد کے کردار کے بارے میں بعض لوگ سورہ مریم کی آیت نمبر 49 سے استناد کرتے ہیں جس میں حضرت ابراہیم کو دو نیک اور صالح اولاد (یعنی حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب) عطا کرنے کی طرف اشارہ ہوا ہے اور یہ عنایت حضرت ابراہیم کی طرف سے گوشہ نشینی اور غیر خدا کی پرستش سے دوری کی بنا پر کی گئی ہے۔[25]

اولاد کی تربیت اسلامی دانشورں کی نگاہ میں

بعض اخلاقی متون میں والدین کو کی گئی نصیحت میں آیا ہے: بچوں میں شرم و حیا کی صفت کو تقویت دینا، کھانا کھانے، لباس پہنے اور دوستوں کو انتخاب کرنے کے آداب سکھانا، پڑھنا لکھنا سکھانا، قرآن و حدیث نیز نیک لوگوں کے اشعار اور احوال کی تعلیم دینا، بات چیت کرنے اور کھیل کود کا طریقہ سکھنا اور بلوغت کے بعد کے احکام جیسے نماز اور روزہ وغیرہ کے مبتلابہ احکام سکھانا والدین پر بچوں کے حقوق میں سے ہیں۔[26]

شیعہ حکیم اور متکلم خواجہ نصیرالدین طوسی اولاد کی تربیت کے سلسلے میں درج ذیل طریقے کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

  • بچوں کے خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لانا؛
  • تکرار اور تداوم کے ذریعے اچھے تعالیم کو ملکہ‌ بننے دینا؛
  • دینی تعالیم پر عمل نہ کرنے اور برے اعمال کی انجام دہی نیز دوسروں کے لئے تکلیف پہنچانے کی صورت میں مؤاخذہ کرنا؛
  • سختی اور مشکلات سے روبرو ہونے کی عادت ڈالنا۔[27]

ابن‌ سینا کے مطابق اولاد کی تربیت کے چھ مرحلے ہیں:

  • پہلا مرحلہ(پیدائش کی ابتداء سے): اچھے ناموں کا انتخاب اور صحیح شرائط کے ساتھ دودھ پلانا؛
  • دوسرا مرحلہ (دودھ چھڑانے کے بعد سے): کھیل کود اور اخلاقی تربیت؛
  • تیسرا مرحلہ (تقریبا چھ سال کی عمر سے): قرآن اور دیگر ضروری علوم کی تعلیم؛
  • چوتھا مرحلہ: پیشہ ورانہ علوم فنون سے آشنائی؛
  • پانچواں مرحلہ: پیشہ اور روزگار کی تلاش؛
  • چھٹا مرحلہ: مستقل زندگی گزارنے کی تیاری[28]

ابن‌ سینا اس سلسلے میں مزید تأکید کرتے ہیں کہ بچوں میں سے ہر ایک کی خداداد اور فطری صلاحیتوں کی بنیاد پر تربیت کرنی چاہئے اور کسی صورت میں بھی کسی چیز کو ہر ایک پر یکساں مسلط کرنے سے اجتناب کرنا چاہئے؛ کیونکہ یہ کام ایک طرح سے ان کے فطری اور خداداد صلاحیتوں میں موجود تفاوت سے چشم پوشی ہے جو آخر کار بچوں کو نابودی اور ناکامی کے دلدل میں پہنچانے کا سبب بنے گا۔[29] ابن سینا اپنی کتاب "قانون" میں بچپنے سے لے کر نوجوانی تک کے ایام کے لئے خاص غذائی دستور ذکر کرتے ہیں جن میں طبی مقاصد کے علاوہ تربیتی اہداف بھی مد نظر ہوتا ہے۔[30]

کتاب تربیت دینی کودک، تحریر محی‌ الدین حائری شیرازی

کتابیات

بعض کے مطابق اولاد کی تربیت کے موضوع پر لکھی گئی کتابوں میں بہت زیادہ تنوع پایا جاتا ہے جنہیں بنیادی طور پر دو طرز نگارش کے تحت تحریر گئی ہیں: بعض کتابوں کو جیسے «با کودکت زندگی کن»(یعنی اپنے بچوں کے ساتھ زندگی گزارو)، (تحریر: آذروست‌ محمدی)، میں اولاد کی تربیت کو نفسیاتی نقطہ نگاہ سے مورد نظر قرار دیا گیا ہے جبکہ بعض کتابیں جیسے «اصول تعلیم و تربیت کودک (از منظر مکتب اسلام و علم روانشناسی) (بچوں کی تعلیم و تربیت کے اصول مکتب اسلام اور نفسیاتی علوم کے نقطہ نگاہ سے) » تحریر: فاطمہ بیدی و اکبر رنجبرزادہ میں دینی اور نفسیاتی دونوں حوالے سے اس مسئلے پر بحث کی گئی ہے۔[31]

اس سلسلے میں تحریر کی گئی بعض دوسری کتابیں درج ذیل ہیں:

  • تربیت دینی کودک(بچوں کی دینی تربیت): یہ کتاب آیت‌ اللہ حائری شیرازی کی تقریبا 70 سے زیادہ تقریروں کو کتابی شکل دی گئی ہے جسے انہوں نے «درس تربیت» کے عنوان سے تعلیم و تربیت کے شعبے سے مربوط طلباء کے سامنے سنہ 1395 ہجری شمسی کو پیش کیا ہے جو نشر معارف کے توسط سے شایع ہوئی ہے۔[32]
  • کتاب تربیت فرزند با رویکرد فقہی(فقہی اعتبار سے اولاد کی تربیت) ، تحریر: علیرضا اعرافی و سیدنقی موسوی: یہ کتاب سنہ 1395ہجری شمسی کو مؤسسہ فرہنگی‌ ہنری اشراق و عرفان کے توسط سے شایع ہوئی ہے جس میں اولاد کی تربیت کے حوالے سے سوالات مطرح کرنے کے ذریعے مستدل طریقے سے ان میں سے بعض سوالات کا جواب دیا گیا ہے۔ اس کتاب میں تربیت اعتقادی، تربیت عبادی، تربیت عاطفی، تربیت جنسی اور تربیت جسمانی جیسے موضوعات پر خاص توجہ دی گئی ہے۔[33]

حوالہ جات

  1. وزیری فرد، «بررسی حقوق فرزند بر والدین و ارتباط این حقوق با تربیت و تأدیب وی»، ص3۔
  2. شریعتمداری، تعلیم و تربیت اسلامی، 1379ہجری شمسی، ص3۔
  3. انصاری، احکام و حقوق کودکان در اسلام، 1391ہجری شمسی، ج1، ص554–551۔
  4. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: ابن‌ماجہ، سنن ابن‌ماجہ، 1373ھ، ج2، ص1211؛ شیخ صدوھ، من لا یحضرہ الفقیہ، 1413ھ، ج2، ص622۔
  5. قال رسول اللّہ(ص): «ادّبُوا اوْلادَکُمْ فَانَّکُمْ مَسؤولُونَ عَنہم» (بہ نقل از فرہادیان، والدین و مربیان مسؤول، 1390ہجری شمسی، ص374۔)
  6. ملاحظہ کریں: علامہ طباطبایی، تفسیر المیزان، 1417ھ، ج19، ص689۔
  7. شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، 1413ھ، ج2، ص622۔
  8. ابن شعبہ، رسالہ حقوق، بی تا، ص67۔
  9. مددی، تحلیل محتوای روایات تربیت فرزند در کتاب الکافی، 1400ہجری شمسی، ص35۔
  10. مددی، تحلیل محتوای روایات تربیت فرزند در کتاب الکافی، 1400ہجری شمسی، ص38–78۔
  11. حلّی، عدّۃ الداعی، مکتبۃ الوجدانی، ص79؛ کلینی، کافی، 1407ھ، ج3، ص297؛ شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، 1413ھ، ج2، ص127۔
  12. شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، 1413ھ، ج2، ص622؛ کلینی، کافی، 1407ھ، ج6، ص5۔
  13. ملاحظہ کریں: فرہادیان، والدین و مربیان مسؤول، 1390ہجری شمسی، ص339–345۔
  14. ملاحظہ کریں: پورحسینی لیلا کوہی، بررسی رابطہ جہت‌گیری مذہبی و سبک‌ہای فرزندپروری، 1390ہجری شمسی، ص30۔
  15. بخاری، صحیح البخاری، چاپ محمد افندی، ج3، ص134؛ شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، 1413ھ، ج3، ص483۔
  16. کلینی، کافی، 1407ھ، ج6، ص49۔
  17. کلینی، کافی، 1407ھ، ج6، ص47۔
  18. شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، 1413ھ، ج2، ص622؛ کلینی، کافی، 1407ھ، ج6، ص47–49۔
  19. نوربخش حبیب آبادی، روش‌ہای تربیتی اہل بیت(ع) در تربیت فرزند، 1396ہجری شمسی، ص22–103۔
  20. طبرسی، مکارم الاخلاق، 1412ھ، ص222۔
  21. فرہادیان، آنچہ والدین و مربیان باید بدانند، 1391ہجری شمسی، ص11۔
  22. شکوہی یکتا، مطالعۂ تطبیقی سبک‌ہای فرزند پروری، 1385ہجری شمسی، ص124۔
  23. حسینی زادہ، نقش وراثتی مادر در تربیت فرزند از دیدگاہ اسلامی، 1395ہجری شمسی، ص53–66۔
  24. ملاحظہ کریں: شریف لاہیجی، تفسیر، 1373، ج3، ص16؛ مغنیہ، تفسیر الکاشف، 1424ھ، ج5، ص179۔
  25. نویسندگان، «حقیقت و آثار اعتکاف»، ص67۔
  26. مسکویہ، تہذیب الأخلاق، 1398ھ، ص68–75؛ غزالی، احیاء علوم‌الدین، دارالندوہ، ج2، ص217–218 و ج3، ص72–74۔
  27. صدیق اعلم، تاریخ فرہنگ ایران، 1351ہجری شمسی، ص139–166۔
  28. پورحسینی لیلا کوہی، بررسی رابطہ جہت‌گیری مذہبی و سبک‌ہای فرزندپروری، 1390ہجری شمسی، ص37۔
  29. پورحسینی لیلا کوہی، بررسی رابطہ جہت‌گیری مذہبی و سبک‌ہای فرزندپروری، 1390ہجری شمسی، ص38۔
  30. پورحسینی لیلا کوہی، بررسی رابطہ جہت‌گیری مذہبی و سبک‌ہای فرزندپروری، 1390ہجری شمسی، ص38۔
  31. معرفی بہترین کتاب‌ہای تربیت کودک کہ ہر والدینی باید بخواند!، سایت کتابراہ
  32. تربیت دینی کودک، سایت نشرمعارف۔
  33. تربیت فرزند با رویکرد فقہی، سایت پاتوق کتاب فردا۔

مآخذ

  • ابوداوود، سلیمان بن اشعث، سنن ابی‌داوود، بیروت، چاپ سعید محمد لحام، 1410ھ۔
  • ابن‌حیون، نعمان بن محمد مغربی، دعائم الإسلام، قم، مؤسسۃ آل البیت علیہم السلام‏، 1385ھ۔
  • ابن شعبہ، حسن بن علی، رسالہ حقوق، مشہد، آستان قدس رضوی، بی تا۔
  • ابن‌ماجہ، سنن ابن‌ماجۃ، چاپ محمدفؤاد عبدالباقی، قاہرہ 1373/ 1954 [، چاپ افست، بیروت، بی‌تا۔
  • انصاری، قدرت‌اللہ، احکام و حقوق کودکان در اسلام، بی جا، انتشارات مرکز فقہی ائمہ اطہار(ع)، 1391ہجری شمسی۔
  • بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، استانبول، چاپ محمد ذہنی‌افندی، 1401ھ۔
  • پورحسینی لیلا کوہی، فاطمہ، بررسی رابطہ جہت‌گیری مذہبی و سبک‌ہای فرزندپروری با الگوی فرزند پروری سالم، دانشکدہ روان‌شناسی دانشگاہ تہران، 1390ہجری شمسی۔
  • تربیت فرزند با رویکرد فقہی، سایت پاتوق کتاب فردا، تاریخ بازدید: 27 اردیبہشت 1403ہجری شمسی۔
  • تربیت دینی کودک، سایت نشرمعارف، تاریخ بازدید: 27 اردیبہشت 1403ہجری شمسی۔
  • حسینی زادہ، سیدعلی، نقش وراثتی مادر در تربیت فرزند از دیدگاہ اسلامی، تربیت اسلامی، ش22، بہار و تابستان 1395ہجری شمسی۔
  • حلّی، ابن‌فہد، عدّۃ الداعی و نجاح الساعی، قم، مکتبۃ الوجدانی، بی‌تا۔
  • شریعتمداری، علی، تعلیم و تربیت اسلامی، تہران، نشر امیرکبیر، 1379ہجری شمسی۔
  • شریف لاہیجی، محمدبن علی، تفسیر شریف لاہیجی، تہران، نشر داد، 1373ہجری شمسی۔
  • شکوہی یکتا، محسن، مطالعۂ تطبیقی سبک‌ہای فرزند پروری، تربیت اسلامی، ش3، پاییز و زمستان 1385ہجری شمسی۔
  • شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، محقق و مصحح: علی اکبرغفاری، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ دوم، 1413ھ۔
  • صادقی، منصورہ السادات، کیفیت رابطہ والد فرزندی پیش شرط تربیت دینی فرزندان، فصلنامہ خانوادہ پژوہی، سال 3، ش9، 1386ہجری شمسی۔
  • صدیق اعلم، عیسی، تاریخ فرہنگ ایران، تہران، شرکت سہامی طبع کتاب، 1351ہجری شمسی۔
  • طبرسی، حسن بن فضل، مکارم الاخلاق، قم، شریف رضی، چاپ چہارم، 1412ھ۔
  • علامہ طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان، چاپ پنجم، قم، مکتبہ الانشر الاسلامی، 1417ھ۔
  • غزالی، محمد بن محمد، احیاء علوم‌الدین، بیروت، دارالندوۃ الجدیدۃ، بی‌تا۔
  • غلامی جلیسہ، سمیہ، نقش جہت‌گیری مذہبی والدین در سبک‌ہای فرزند پروری و خشونت، پایان‌نامہ کارشناس ارشد رشتہ علوم تربیتی و روان‌شناسی، تہران، دانشگاہ تہران، 1392ہجری شمسی۔
  • فرہادیان، رضا، آنچہ والدین و مربیان باید بدانند، قم، بوستان کتاب، 1391ہجری شمسی۔
  • فرہادیان، رضا، والدین و مربیان مسؤول، قم، بوستان کتاب، 1390ہجری شمسی۔
  • ٰکلینی، محمد بن یعقوب، کافی، بہ تحقیق علی‌اکبر غفاری، آخوندی، محمد، تہران، دار الکتب الإسلامیۃ، چاپ چہارم، 1407ھ۔
  • مددی، نجیبہ، تحلیل محتوای روایات تربیت فرزند در کتاب الکافی، پایان‌نامہ دورہ کارشناسی ارشد رشتہ علوم قرآن و حدیث، تہران، دانشگاہ الزہراء، دانشکدہ الہیات و معارف اسلامی، اسفند 1400ہجری شمسی۔
  • مسکویہ، احمد بن محمد، تہذیب الأخلاق و تطہیر الأعراق، بیروت، چاپ حسن تمیم، 1398ھ۔
  • معدنی پور، علی، مطالعہ تطبیقی ارزش‌ہای تربیت فرزند در آسیای میانہ، خاورمیانہ و شمال آفریقا، فصلنامہ خانوادہ پژوہی، ش24، 1389ہجری شمسی۔
  • معرفی بہترین کتاب‌ہای تربیت کودک کہ ہر والدینی باید بخواند!، سایت کتابراہ، تاریخ بازدید: 27 اردیبہشت 1403ہجری شمسی۔
  • مغنیہ، محمدجواد، تفسیر الکاشف، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، 1424ھ۔
  • موسوی، سید حسین، مثبت سہ، قم، ہیئت امروز، 1400ہجری شمسی۔
  • نوربخش حبیب آبادی، ریحانہ، روش‌ہای تربیتی اہل بیت(ع) در تربیت فرزند، پایان‌نامہ دورہ کارشناسی ارشد رشتہ الہیات و معارف اسلامی، گرایش علوم قرآن و حدیث، اصفہان، دانشگاہ پیام نور، 1396ہجری شمسی۔
  • نویسندگان، حقیقت و آثار اعتکاف، نشریہ تربیتی اخلاقی خلق، ش‏29، خرداد و تیر 1391ہجری شمسی۔
  • نیشابوری، محمد بن حسن، روضۃ الواعظین، نجف، بی‌نا، 1386ھ۔
  • وزیری فرد، سید محمدجواد، قرایی، تکتم، «بررسی حقوق فرزند بر والدین و ارتباط این حقوق با تربیت و تأدیب وی»، نخستین کنفرانس بین‌المللی ہزارہ سوم و علوم انسانی، 1395ہجری شمسی۔

Baumrind ,D, The influence of parenting style on adolesceri compelence and substance uwe,* Journal of Early Adolescence, 1991۔

  • Luster, T, Rhoades, K & Haas, B, The relation between parental values and parenting behavior: A test of the Kohn hypothesis, Journal of Marriage and the Family, 51, 1989۔
  • Ellison. C. G, & Sherkat, D. E, Obedience and autonomy: Religion and parental values reconsidered, Journal for the Scientific Study of Religion, 32, 1993.