نکاح مسیار

ویکی شیعہ سے

نِکاح مِسْیار اہل‌سنت کے ہاں رائج شادی کی ایک قسم ہے۔ اہل سنت کے مطابق اس نکاح میں دائمی نکاح کی شرائط پائی جاتی ہیں جیسے شرعی عقد کا پڑھنا، گواہوں کی موجودگی اور مہر، لیکن اس میں عورت اپنی مرضی سے کفالت اور صحبت کے حق سے دستبردار ہوتی ہے۔ اس نکاح میں شوہر جب چاہے بیوی کے پاس آ سکتا ہے اور بیوی اپنے معاملات میں آزاد ہے۔

عورت کے لیے رہائش اور نفقہ کا حق نہ ہونے میں نکاح مسیار، شیعہ مذہب میں موجود متعہ یا نکاح موقت کی طرح ہے؛ البتہ کچھ فرق بھی پائے جاتے ہیں۔ جیسے اس کا مستقل اور دائمی ہونا، چار بیویوں سے زیادہ کی گنجائش نہ ہونا، گواہ کی ضرورت، اور علیحدگی کے لئے طلاق، خلع یا فسخ کی ضرورت ہونا جوکہ متعہ میں نہیں ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ نکاحِ مسیار ان نئے فقہی مسائل میں سے ایک ہے جو سب سے پہلے سعودی عرب کے علاقے تمیم میں شروع ہوئے تھے۔ فَہَد الغنیم کو نکاح مسیار کی اصطلاح استعمال کرنے والا پہلا شخص سمجھا جاتا ہے۔

امامیہ فقہاء کے مطابق متعہ اور مسیار کی شادی میں مماثلت اور اس کی تشکیل کے پس منظر میں یکسوئی کے باوجود سنی مفتیوں کی طرف سے متعہ کو باطل اور مسیار کو درست قرار دینے پر سنی مفتیوں پر دوہرے فیصلے کا الزام لگایا ہے۔ ناصر مکارم شیرازی کے مطابق نکاحِ مسیار کی تحقیق کرنے والے تمام شیعہ فقہاء نے شرائط کے ساتھ اس کے جائز ہونے کا فتویٰ دیا ہے جبکہ سنی مفتیوں کے ایک گروہ نے نکاحِ مسیار کو جائز، بعض نے حرام اور بعض نے اس کے حکم کے بارے میں خاموشی اختیار کیا ہے۔

مفہوم شناسی

نکاح مِسْیار، شادی کی اس قسم کو کہا جاتا ہے جس میں اہل سنت کی نظر میں نکاح کی شرائط مثلاً شرعی عقد کا پڑھنا، گواہوں کی موجودگی اور مہر وغیرہ کی رعایت کی جاتی ہے اور عورت اپنی مرضی سے کفالت اور صحبت کے حق سے دستبردار ہوتی ہے۔[1] اہل سنت کے مفتی یوسف قرضاوی کے مطابق نکاح مسیار اکثر طور پر پہلی شادی نہیں ہوتی ہے بلکہ مرد کی دائمی بیوی ہے اور اسے نان و نفقہ اور رہائش کا حق دے رہا ہوتا ہے۔[2]

عرب کے عظیم علماء کی کونسل کے رکن عبداللہ مُنَیّع کے مطابق، میسار میں شادی کے تمام قوانین پائے جاتے ہیں، جیسے وراثت، مہر، اور بچوں کی قانونی حیثیت اور مشروعیت۔ لیکن عورت صحبت اور نفقہ جیسے اپنے کچھ حقوق سے دستبردار ہوسکتی ہے۔[3] اہل سنت عالم دین وَہبَہ زُحیلی نکاح مسیار میں وراثت کے حق کو بھی محفوظ قرار دیتے ہیں۔[4]

اس نکاح میں شوہر جب چاہے عورت کے پاس جا سکتا ہے اور عورت بھی اپنے معاملات میں آزاد ہے۔[5] عربی زبان میں مسیار کا لفظ نہیں ہے اور عام زبان میں اس کے معنی عارضی اور آسان کے ہیں۔[6]

متعہ کے ساتھ مماثلت اور فرق

مکارم شیرازی کے مطابق نکاح مسیار، عقد موقت کی طرح ہے؛ کیونکہ اس قسم کی شادی میں عورت اپنے ہی گھر میں رہتی ہے اور اس کی کفالت اور نفقہ بھی اس کے اپنے ذمے ہے۔[7] دونوں شادیوں میں عورت کو نان و نفقہ، ساتھ سونے یا رہائش کا حق حاصل نہیں ہے اور میاں بیوی ایک دوسرے سے وراثت نہیں لیتے ہیں. اس کے علاوہ، عورت کو گھر سے نکلنے کے لیے اپنے شوہر کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔[8]

نکاح مسیار اور نکاح موقت میں فرق یہ ہے کہ متعہ میں نکاح کی مدت کا تعین ہونا ضروری ہے، لیکن نکاح مسیار کو عقد دائم کے طور پر انجام دیا جاتا ہے۔ نیز نکاح مسیار میں شادیوں کی تعداد میں دائمی نکاح کی طرح صرف چار عورتوں کی گنجائش ہوتی ہے لیکن متعہ میں تعداد محدود نہیں ہے۔ ایک اور فرق یہ ہے کہ مسیار میں میاں بیوی کی علیحدگی طلاق، خلع یا فسخ کے ذریعے ہوتی ہے؛ لیکن عقد موقت میں مدت ختم ہوتے ہی یا مدت کو بخش دینے سے نکاح ختم ہوجاتا ہے۔[9] اس کے علاوہ نکاح مسیار کے لیے دو گواہوں کی موجودگی ضروری ہے، جب کہ نکاح موقت (متعہ) میں ایسی شرط نہیں ہے۔[10]

تاریخچہ اور وجود میں آنے کے عوامل

کہا جاتا ہے کہ نکاح مسیار نئے فقہی مسائل میں سے ایک ہے جو سب سے پہلے سعودی عرب کے علاقے تمیم میں شروع ہوا تھا۔ فَہَد اَلغنیم کو پہلا شخص سمجھا جاتا ہے جس نے نکاح مسیار کی اصطلاح استعمال کی۔[11] سنہ 1990ء کی دہائی میں، سعودی عرب میں نکاح مسیار رائج ہونے کے بعد، اس طرح کی شادی آہستہ آہستہ خلیج فارس کے کویت، قطر، بحرین اور امارات جیسے عرب ممالک میں پھیل گئی اور شاید دوسرے ممالک میں بھی سرایت کر گیا ہو۔[12] بعض سنی علماء نے مسیار کو اپنی فقہ میں بعض مثالوں سے جوڑنے کی کوشش کی ہے۔[13]

مستقل شادی کے بڑھتے ہوئے اخراجات، جیسے مکان اور بھاری مہر اور مردوں کی اپنی دوسری شادی کو گھر والوں سے چھپانے کی خواہش، اہل سنت میں نکاح مسیار کے ظہور کی وجہ سمجھی جاتی ہے۔ طلاق یافتہ اور بےسرپرست عورتوں کی تعداد میں اضافہ، بعض حالات میں مردوں کو کئی بیویوں کی ضرورت؛ جیسے کہ پہلی بیوی کی بیماری اور عورت کی طرف سے غریب آدمی کا خرچہ مہیا کرنا میسار کی تشکیل کے محرکات اور اسباب میں شمار ہوتے ہیں۔[14]

شیعہ علماء کا خیال ہے کہ سنی فقہ کی طرف سے متعہ اور عقدِ موقت کی مخالفت اور معاشرے میں اس کے اسباب کی فراہمی نکاح مسیار کے نام سے ایک ردعمل کا باعث بنے ہیں۔[15] بعض شیعہ فقہاء نے اس مسئلے میں اہل سنت علماء پر تنقید کرتے ہوئے اس مسئلے میں ان پر دوغلے پن کا الزام لگایا ہے۔ ان کے مطابق متعہ اور نکاح مسیار میں مماثلت اور ان کی تشکیل کا ایک ہی پس منظر ہوتے ہوئے سنی مفتیوں نے متعہ کو باطل اور حرام جبکہ نکاح مسیار کو جائز قرار دیا ہے۔[16]

نکاح مسیار کا حکم

ناصر مکارم شیرازی کے مطابق، تمام شیعہ فقہاء جنہوں نے اس مسئلہ پر بحث کیا ہے، انہوں نے نکاح مسیار جائز ہونے کا فتویٰ دیا ہے۔[17] ان کے نزدیک ایسا نکاح دو طرح سے صحیح ہے:

  1. عقد نکاح کے متن میں عورت سے بعض حقوق مثلاً نفقہ، ساتھ سونا، مکان اور وراثت کا مطالبہ نہ کرنے کی شرط شامل نہیں ہونی چاہیے؛ بلکہ عورت کو چاہیے کہ وہ اخلاقی طور پر ان سے مطالبہ نہ کرنے پر خود کو پابند کرے۔
  2. کچھ حقوق کی چھوٹ کو معاہدہ کے متن میں فعل کی شرط کی شکل میں شامل کیا جانا چاہئے، نتیجہ کی شرط نہیں؛ فعل شرط ہونے کی صورت میں عورت کہتی ہے کہ میں تم سے شادی کروں گی اور تم سے کفالت یا صحبت کا مطالبہ نہیں کروں گی۔ نتیجہ کی شرط میں مرد کہتا ہے کہ میں تم سے شادی کروں گا، بشرطیکہ تمھیں کوئی حق نہ ہو۔[18] مکارم شیرازی کے نزدیک عورت شرطِ فعل کے ذریعہ حق وراثت سے بھی دستبردار ہوسکتی ہے۔[19]

کہا گیا ہے کہ شیعہ مراجع تقلید میں سے سید علی سیستانی اور حسین علی منتظری بھی مسیار کو جائز سمجھتے ہیں۔[20]

اہل سنت مفتیوں کے حوالے سے مسیار کے حکم کے بارے میں تین نظریات بیان کیے گئے ہیں: ایک گروہ نے اسے حلال سمجھا ہے اور بعض نے اسے حرام قرار دیا ہے، اور ان میں سے بعض نے اس کے حکم کے بارے میں کوئی فتویٰ نہیں دیا ہے اور خاموشی اختیار کیا ہے۔[21] میسار کے حامیوں کا خیال ہے کہ اس شادی میں بھی دائمی شادی کی شرائط، عناصر اور اہم فوائد شامل ہیں۔[22]

اور مکارم شیرازی کے مطابق، بہت سے اہل سنت فقہاء جیسے سعودی عرب کے مفتی بِن باز اور مصر کے مفتی قرضاوی اور نصر فرید واصل نے اس قسم کی شادی کو جائز قرار دیا ہے؛ لیکن الازہر کے سابق شیخ جد الحق نے اس کی مخالفت کی ہے۔[23] عبداللہ منیع، عضو شورای عالمان بزرگ عربستان[24] اسی طرح الازہر مصر سے وابستہ ادارہ دار الافتاء نے نکاح مسیار کو صحیح قرار دیا ہے۔[25]

حوالہ جات

  1. «نکاح مسیار جایز است»، سایت دار الافتاء مرکزی اہل سنت؛ مکارم شیرازی، کتاب النکاح، 1424ق، ج5، ص21؛ ایوبی، نصیری و تولایی، «ارزیابی تطبیقی مشروعیت نکاح مسیار در فقہ اہل سنت و مذہب امامیہ»، ص26، حاتمی و شنیور، «نکاح‌ہای نوین معاصر و مشروعیت آن‌ہا»، ص50۔
  2. قرضاوی، «حول زواج المسیار»، ص6۔
  3. «عضو بکبار العلماء السعودیة یجیز زواج المسیار و یثیر جدلا»، سایت عربی21۔
  4. صادقی، «اہل تسنن و ازدواج مسیار»، ص49۔
  5. صادقی، «اہل تسنن و ازدواج مسیار»، ص65۔
  6. قرضاوی، «حول زواج المسیار»، ص7۔
  7. مکارم شیرازی، کتاب النکاح، 1424ق، ج5، ص21۔
  8. صادقی، «اہل تسنن و ازدواج مسیار»، ص54۔
  9. قرضاوی، «حول زواج المسیار»، ص15۔
  10. عامری، «متعہ و مسیار در فقہ معاصر»، ص680۔
  11. صادقی، «اہل تسنن و ازدواج مسیار»، ص51۔
  12. خلیفہ فرج العائب، «زواج المسيار بين الإباحة والتحريم»، ص320۔
  13. صادقی، «اہل تسنن و ازدواج مسیار»، ص51۔
  14. خلیفہ فرج العائب، «زواج المسيار بين الإباحة والتحريم»، ص320 ـ 321۔
  15. برای نمونہ نگاہ کنید بہ: عامری، «متعہ و مسیار در فقہ معاصر»، ص683؛ صادقی، «اہل تسنن و ازدواج مسیار»، ص66۔
  16. مکارم شیرازی، کتاب النکاح، 1424ق، ج5، ص20، 21 ـ 22۔
  17. مکارم شیرازی، کتاب النکاح، 1424ق، ج5، ص22۔
  18. مکارم شیرازی، کتاب النکاح، 1424ق، ج5، ص23۔
  19. مکارم شیرازی، کتاب النکاح، 1424ق، ج5، ص24۔
  20. حاتمی و شنیور، «نکاح‌ہای نوین معاصر و مشروعیت آن‌ہا»، ص56۔
  21. «اہل تسنن و ازدواج مسیار»، پژوہشگاہ علوم انسانی و مطالعات فرہنگی۔
  22. عامری، «متعہ و مسیار در فقہ معاصر»، ص681 ـ 682، قرضاوی، «حول زواج المسیار»، ص6۔
  23. مکارم شیرازی، کتاب النکاح، 1424ق، ج5، ص21 ـ 22۔
  24. «عضو بکبار العلماء السعودیة یجیز زواج المسیار و یثیر جدلا»، سایت عربی21۔
  25. «ازدواج مخفی برای اہل سنت مجاز شد»، سایت تابناک۔

مآخذ

  • «ازدواج مخفی برای اہل سنت مجاز شد»، وبگاہ تابناک، تاریخ درج مطلب: 4 آبان 1386ش، تاریخ بازدید: 15 مرداد 1403ھ۔
  • ایوبی، حسین و دیگران، «ارزیابی تطبیقی مشروعیت نکاح مسیار در فقہ اہل سنت و مذہب امامیہ»، در مجلہ مطالعات فقہ و حقوق اسلامی، شمارہ 5، پاییز و زمستان 1390ہجری شمسی۔
  • حاتمی، علی اصغر و قادر شنیور، «نکاح‌ہای نوین معاصر و مشروعیت آن‌ہا»، در مجلہ مطالعات فقہ و حقوق اسلامی، شمارہ 3، زمستان 1389ہجری شمسی۔
  • خلیفہ فرج العائب، ابوالقاسم، «زواج المسيار بين الإباحة والتحريم»، در مجلة العلوم القانونیة و الشرعیة، دانشگاہ زاویہ ـ لیبی، شمارہ 7، 2015ء۔
  • صادقی، محمد، «اہل تسنن و ازدواج مسیار»، در مجلہ مطالعات راہبردی زنان، شمارہ 40، تابستان 1387ہجری شمسی۔
  • عامری، سہیلا، «متعہ و مسیار در فقہ معاصر»، در مجموعہ مقالات دوازدہمین کنفرانس بین‌المللی پژوہش‌ہای مدیریت و علوم انسانی در ایران، 1402ہجری شمسی۔
  • «عضو بکبار العلماء السعودیة یجیز زواج المسیار و یثیر جدلا»، سایت عربی21، تاریخ درج مطلب: 19 فوریہ 2009، تاریخ بازدید: 13 مرداد 1403ہجری شمسی۔
  • قرضاوی، یوسف، «حول زواج المسیار»، ارائہ شدہ در ہمایش مجمع فقہی اسلامی، دورہ 18، مکہ، 1427ق/2006ء۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، کتاب النکاح، تحقیق: محمدرضا حامدی و مسعود مکارم، قم، انتشارات مدرسہ امام علی بن ابی‌طالب(ع)، چاپ اول، 1424ھ۔
  • «نکاح مسیار جایز است»، سایت دار الافتاء مرکزی اہل سنت، تاریخ درج مطلب: 10 مرداد 1400ش، تاریخ بازدید: 13 مرداد 1403ہجری شمسی۔