قمر در عقرب
| یہ ایک توصیفی مقالہ ہے جو عبادات کی انجام دہی کیلئے معیار نہیں بن سکتا لہذا اس مقصد کیلئے اپنے مجتہد کی توضیح المسائل کی طرف مراجعہ فرمائیں۔ |
قَمَر در عقرب، چاند کی برجِ عقرب (Scorpio) میں داخل ہونے یا اس کی فلکی صورت کے روبرو قرار پانے کی حالت کو کہتے ہیں۔ قمر در عقرب کے معنی میں فقہا کے نظریات مختلف ہیں: مثلاً شہید ثانی اور صاحب جواہر کے نزدیک اس کا مطلب چاند کا برجِ عقرب میں داخل ہونا ہے، نہ یہ کہ اس سے منسوب صورت یا منزلوں میں داخل ہونا، جبکہ سید محمد کاظم طباطبائی یزدی کے مطابق، قمر در عقرب ان دونوں معانی کو شامل ہے۔
علامہ طباطبائی قمر در عقرب اور ستاروں کے حالات کا زمین پر رونما ہونے والے واقعات پر اثر انداز ہونے کے بارے میں کہتے ہیں کہ عقلی لحاظ سے اس طرح کی چیزیں نہ تو ثابت کی جا سکتی ہیں اور نہ ہی ان کا انکار کیا جاسکتا ہیں، اگرچہ زمین پر رونما ہونے والے حادثات اور واقعات کا ستاروں کے حالات سے مربوط ہونا قابل قبول ہے۔ اپ کی نگاہ میں اس سلسلہ میں امام صادقؑ کی روایت یا تو تقیہ سے متعلق قرار دی جائے گی یا اس سے مراد صرف یہ ہے کہ ستاروں کی حالتیں زمین پر رونما ہونے والے واقعات کا سبب نہیں ہوسکتیں بلکہ صرف زمینہ ساز بن سکتیں ہیں۔ عبد اللہ جوادی آملی کی نگاہ میں ، قمر در عقرب، انسانی زندگی کے واقعات پر اثرانداز ہے۔
شیعہ فقہا نے امام صادقؑ کی ایک روایت کی بنیاد پر، قمر در عقرب کے دوران نکاح اور سفر کو مکروہ قرار دیا ہے؛ تاہم، اس حکم کو شادی کی دیگر رسومات و تقریبات جیسے ولیمہ پر لاگو نہیں کیا ہے ۔ صفوی دور کے مشہور فقیہ محقق کرکی نے حتی سفرِ حج کو قمر در عقرب کے دوران مکروہ قرار دیا ہے۔
مفہوم شناسی

"قمر در عقرب" سے مراد وہ حالت ہے جب چاند برجِ عقرب میں ہو یا اس کی فلکی صورت کے سامنے آجائے ۔[1] عقرب بارہ آسمانی برجوں میں سے ایک ہے جو منطقۃ البُروج میں واقع ہے۔ منطقۃ البُروج وہ پٹی اور بیلٹ ہے جہاں سے سورج، چاند اور دیگر تمام سیارے زمین سے دیکھنے والوں کی نگاہ میں وہاں سے گزرتے ہیں، اور ان کا درمیانی نقطہ سورج کی سالانہ ظاہری حرکت اور چال ہے۔[یادداشت 1][2]
قمر در عقرب، چاند کا عقرب کے فلکی صورت میں داخل ہونا ہے۔[3] چاند ہر قمری مہینے میں ایکبار زمین کے گرد مکمل چکر لگاتا ہے، اور یہ ایک چکر 12 حصوں میں تقسیم ہوا ہے اور ان میں سے ہر ایک کے لئے ایک برج کا انتخاب بھی ہوا ہے ان 12 برجوں سب سے پہلا حَمَل اور آخری حوت ہے۔ جب چاند، زمین کے گرد اپنے چکر کے دوران برجِ عقرب میں داخل ہوتا ہے تو کہتے ہیں "قمر داخلِ عقرب" ہوا ہے، اور جب برجِ عقرب سے نکلتا ہے تو کہتے ہیں "قمر خارج از عقرب" ہو گیا ہے۔[4] برج عقرب میں چاند کے داخل اور خارج ہونے کی اس کیفیت میں تقریباً ڈھائی دن لگتے ہیں، اور ہر قمری مہینے میں یہ حالت ایک بار پیش آتی ہے۔[5]
قمر در عقرب فقہ کی نظر میں
شہید ثانی (متوفی 965 یا 966ھ) و صاحب جواہر (متوفی 1266ھ) جیسے فقہا کی نظر میں "قمر در عقرب" کا مطلب چاند کا برجِ عقرب میں داخل ہونا ہے نہ کہ عقرب سے منسوب صورت اور منازل می داخل ہونا۔[6] جیسا کہ شیعہ فلسفی حسن حسنزادہ آملی کہتے ہیں کہ امام صادقؑ کی روایت میں مذکور قمر در عقرب کے بارے میں فقہا کا اختلاف ہے؛ شہید ثانی اپنی کتاب شرح لمعہ، اور فاضل ہندی اپنی کتاب کشف اللثام میں کہتے ہیں کہ قمر در عقرب سے مراد اس کا اصطلاحی اور تخصصصی معنی ہے جو منجمین کے ہاں ہے کہ چاند حقیقی طور پر برج عقرب میں واقع ہوجائے، جبکہ صاحب جواہر کے مطابق، یہ اصطلاح عرفی مفہوم رکھتی ہے؛ یعنی چاند کا عقرب کی فلکی صورت کے سامنے آ جانا کہ لوگ عام آنکھوں سے اسے عقرب کی صورت میں دیکھ سکیں۔[7] جبکہ دوسری طرف سید محمد کاظم طباطبایی یزدی اپنی کتاب عروۃ الوثقی میں کہتے ہیں کہ روایت ان دونوں معانی کو شامل کرتی ہے؛ یعنی تخصصی اور علمی معنی اور عام انسان کے لئے رؤیت کے قابل ہونے کا معنی دونوں اس میں شامل ہیں۔ حسن حسنزادہ آملی نے سید کاظم یزدی کی بات کو احتیاط پر مبنی رائے قرار دیا ہے[8] اور اپنی کتاب کتاب ہزار و یک کلمہ میں کہا ہے کہ فقہی کتابوں میں قمر در عقرب سے مراد اہل نجوم اور اہل ہیئت کے ہاں متعارف اور مشہور معنی ہے اور صرف صاحبِ عروہ ہی نے اسے مطلق (تخصصی اور عرفی) معنی کیا ہے۔[9]
قمر در عقرب کے اثبات یا نفی کے اثرات
کہا گیا ہے کہ قمر در عقرب (یعنی چاند کا برجِ عقرب میں ہونا) ایک ایسا عقیدہ ہے جو کم و بیش عوام میں پایا جاتا ہے؛[10] جیسا کہ فارسی لغت نامہ دہخدا میں بھی آیا ہے کہ قمر در عقرب کا مطلب یہ ہے کہ چاند برج عقرب میں داخل ہو، جسے لوگ نحوست کا وقت سمجھتے ہیں اور اہم کاموں سے پرہیز کرتے ہیں۔[11]
اسی حوالے سے کچھ روایات[12] ایسی بھی منقول ہیں جو قمر در عقرب کے منفی اثرات کی تائید کرتی ہیں، لیکن کچھ دیگر روایات[13] ایسی بھی ہیں جو اس قسم کے عقائد سے منع کرتی ہیں۔
ان روایات میں سے ایک امام جعفر صادقؑ سے منقول حدیث ہے جو اس طرح کے عقائد کی تائید کرتی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ جو شخص قمر در عقرب کے وقت سفر یا شادی کرے، وہ خیر و برکت نہیں پائے گا۔[14]
علامہ طباطبائی کا کہنا ہے کہ عقلی اعتبار سے کسی خاص دن یا وقت کو نحوست یا سعادت کا حامل قرار دینے پر نہ کوئی قطعی دلیل ہے اور نہ ہی اس کا انکار ممکن ہے۔ اگرچہ اس موضوع پر بہت سی روایات بھی موجود ہیں، لیکن ان میں سے اکثر مرسل یا مرفوع ہونے کی وجہ سے ضعیف ہیں۔[15] ان کے بقول، خود دن یا وقت میں ذاتی طور پر کوئی نحوست یا برکت نہیں پائی جاتی، اور اگر کوئی روایت اس طرح کے مضمون پر مشتمل ہو اور ایسی بات پر دلالت کرے تو اسے یا تو اسے تقیہ پر محمول کیا جائے گا یا نظرانداز کر دیا جائے گا۔[16]
قمر در عقرب اور ستاروں کی حالت کا زمینی حوادث پر اثر ہونے کے بارے میں بھی علامہ طباطبائی کا کہنا ہے کہ عقلی طور پر اس کے ثبوت یا رد کی گنجائش نہیں موجود ہے؛ البتہ زمینی واقعات کا آسمانی ستاروں کے حالات سے مرتبط ہونے کا انکار نہیں کرتے ہیں اور اسے ضروریات دین میں سے بھی قرار نہیں دیتے ہیں۔[17] ان کا کہنا ہے کہ امام صادقؑ سے منقول روایت جیسی احادیث کو تقیہ پر حمل کیا جاسکتا ہے اور اس سے مراد یہ ہوسکتا ہے کہ ستاروں کے حالات زمینی مخصوص حادثات کے لئے زمینہ ساز تو ہوسکتے ہیں لیکن علت تامہ نہیں بن سکتے ہیں۔[18]
شیعہ مفسر و فلسفی عبداللہ جوادی آملی بھی یہی رائے رکھتے ہیں کہ کسی دن یا وقت کا خود سے منحوس ہونا درست نہیں، البتہ وہ روایات جو قمر در عقرب کے وقت سفر یا نکاح سے منع کرتی ہیں، انہیں وہ درست اور قابلِ قبول مانتے ہیں؛ کیونکہ کائنات کے حالات، انسانی زندگی پر اثرانداز ہو سکتے ہیں۔[19]
شرعی احکام
قمر در عقرب کے لئے شیعہ فقہ میں کچھ احکام بیان ہوئے ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:
- شیعہ فقہا امام صادقؑ کی روایت کی بنا پر قمر در عقرب کے دوران نکاح کرنا مکروہ سمجھتے ہیں۔[20] البتہ کہا گیا ہے کہ حدیث میں تزویج سے مراد نکاح پڑھنا ہے[21] اور اس میں شادی کے دیگر تقریبات وغیرہ شامل نہیں ہیں۔[22]
- علامہ مجلسی نے اپنی کتاب حلیۃ المتقین میں قمر در عقرب کے وقت ہمبستری کو مکروہ قرار دیا ہے۔[23]
- قمر در عقرب کے دوران سفر کرنا بھی مکروہ ہے؛ اس حکم کی دلیل بھی امام صادقؑ کی روایت قرار دی گئی ہے۔[24] صفویہ دور کے شیعہ فقیہ محقق کرکی، قمر در عقرب کے دوران حج کا سفر بھی مکروہ سمجھتے ہیں۔[25]
- اگر چاند برجِ عقرب میں ہو، تو بدھ کے دن حجامت کروانا مکروہ سمجھا جاتا ہے۔[26]
شیعہ مرجع تقلید ناصر مکارم شیرازی کے دفتر سے منسلک ویب سائٹ جامع المسائل میں قمر در عقرب کے برے اثرات کو ختم کرنے کے لئے دعا اور صدقہ سے استفادہ کرنے کا کہا گیا ہے۔[27]
حوالہ جات
- ↑ «قمر در عقرب کیا ہے اور اس کے احکام کیا ہیں؟»، دانشجو نیوز ایجنسی ۔
- ↑ «روزہای قمر در عقرب در سال 1399شمسی»، مؤسسہ تحقیقات و نشر اہل بیت(ع)؛ «قمر در عقرب چیست و چہ احکامی دارد؟»، خبرگزاری دانشجو۔
- ↑ «حکم عقد کردن در زمان قمر در عقرب»، سایت جامع المسائل۔
- ↑ «قمر در عقرب چیست و چہ احکامی دارد؟»، خبرگزاری دانشجو۔
- ↑ «دانستنیہای قمر در عقرب»، خبرگزاری حوزہ۔
- ↑ شہید ثانی، مسالک الافہام، 1413ھ، ج7، ص21؛ نجفی، جواہر الکلام، 1404ھ، ج29، ص41۔
- ↑ حسنزادہ آملی، دروس معرفۃ الوقت و القبلۃ، 1415ھ، ص161-163۔
- ↑ حسنزادہ آملی، دروس معرفۃ الوقت و القبلۃ، 1415ھ، ص161-163۔
- ↑ حسنزادہ آملی، ہزار و یک کلمہ، 1381شمسی، ج6، ص22۔
- ↑ اکبری، خرافہہا و واقعیتہا، 1391شمسی، ص49۔
- ↑ دہخدا، لغتنامہ، 1385شمسی، ج2، ص2561۔
- ↑ کلینی، الکافی، 1407ھ، ج8، ص275، ح416؛ شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، 1413ھ، ج2، ص267، ح2401۔
- ↑ نہجالبلاغہ، تصحیح صبحی صالح، 1414ھ، خطبہ 79، ص105؛ ابنابیالحدید، شرح نہج البلاغہ، 1404ھ، ج19، ص376۔
- ↑ کلینی، الکافی، 1407ھ، ج8، ص275، ح416؛ شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، 1413ھ، ج2، ص267، ح2401۔
- ↑ علامہ طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج19، ص71 و 72۔
- ↑ علامہ طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج19، ص75۔
- ↑ علامہ طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج19، ص75۔
- ↑ علامہ طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج19، ص76۔
- ↑ جوادی آملی، تفسیر تسنیم، نشر اسراء، ج15، ص518 و 519۔
- ↑ برای نمونہ نگاہ کنید بہ محقق حلی، شرائع الاسلام، 1408ھ، ج2، ص211؛ محقق کرکی، جامع المقاصد، 1414ھ، ج4، ص32 و ج12، ص16؛ شہید ثانی، مسالک الافہام، 1413ھ، ج7، ص21؛ بحرانی، الحدائق الناضرۃ، 1405ھ، ج23، ص39؛ نجفی، جواہر الکلام، 1404ھ، ج29، ص41۔
- ↑ محقق کرکی، جامع المقاصد، 1414ھ، ج12، ص16؛ شہید ثانی، مسالک الافہام، 1413ھ، ج7، ص21۔
- ↑ «برگزاری مراسم جشن عروسی در ایام قمر در عقرب»، سایت جامع المسائل۔
- ↑ علامہ مجلسی، حلیۃ المتقین، 1369شمسی، ص124 و 125۔
- ↑ بحرانی، الحدائق الناضرۃ، 1405ھ، ج14، ص41؛ طباطبایی، العروۃ الوثقی (المحشی)، 1419ھ، ج4، ص326۔
- ↑ محقق کرکی، جامع المقاصد، 1414ھ، ج4، ص32۔
- ↑ علامہ مجلسی، حلیۃ المتقین، 1369شمسی، ص270۔
- ↑ «حکم عقد کردن در زمان قمر در عقرب»، سایت جامع المسائل۔
نوٹ
- ↑ تقریباً پانچویں صدی قبل از میلاد میں، بابلی یا یونانی ماہرینِ فلکیات نے منطقۃ البروج (Zodiac Belt) کو بارہ برابر حصوں میں تقسیم کیا اور ہر حصے کو ایک برج (Zodiac Sign) کا نام دیا۔ چونکہ ہر برج میں کچھ ستارے اس طرح اکٹھے تھے کہ ان کی شکل سے کسی جانور کی صورت کا تصور کیا جا سکتا تھا، اس لیے انہوں نے ہر برج کا نام اسی جانور کے نام پر رکھ دیا۔ مثال کے طور پر: برج حَمَل (بھیڑو / Aries)، برج ثور (بیل / Taurus)، برج سرطان (کیکڑا / Cancer)، برج عقرب (بچھو / Scorpio)، (ماخذ: حسنزادہ آملی، ہزار و یک کلمہ، 1381ھ شمسی، جلد 6، صفحہ 20 و 21؛ «روزہای قمر در عقرب در سال 1399شمسی»، مؤسسہ تحقیقات و نشر اہل بیت(ع).)
مآخذ
- ابنابیالحدید، عبدالحمید بن ہبۃاللہ، شرح نہج البلاغہ، تحقیق و تصحیح محمد ابوالفضل ابراہیم، قم، کتابخانہ آیتاللہ مرعشی نجفی، چاپ اول، 1404ھ۔
- اکبری، محمود، خرافہہا و واقعيتہا، قم، فتیان، 1391ہجری شمسی۔
- بحرانی، یوسف بن احمد، الحدائق الناضرۃ فی أحکام العترۃ الطاہرۃ، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ اول، 1405ھ۔
- «برگزاری مراسم جشن عروسی در ایام قمر در عقرب»، سایت جامع المسائل، مرکز پاسخگویی بہ احکام شرعی و سؤالات فقہی، تاریخ مشاہدہ: 9 آذر 1399ہجری شمسی۔
- جوادی آملی، عبداللہ، تسنیم: تفسیر قرآن کریم، قم، مرکز نشر اسراء.
- حسنزادہ آملی، حسن، دروس معرفۃ الوقت و القبلۃ، قم، دفتر نشر اسلامی، 1415ھ۔
- حسنزادہ آملی، حسن، ہزار و یک کلمہ، قم، دفتر تبلیغات اسلامی، چاپ دوم، 1381ہجری شمسی۔
- «حکم عقد کردن در زمان قمر در عقرب»، سایت جامع المسائل، مرکز پاسخگویی بہ احکام شرعی و سؤالات فقہی، تاریخ مشاہدہ: 9 آذر 1399ہجری شمسی۔
- «دانستنیہای قمر در عقرب»، خبرگزاری حوزہ، تاریخ اشاعت: 11 تیر 1396شمسی، تاریخ مشاہدہ: 10 آذر 1399ہجری شمسی۔
- دہخدا، علیاکبر، لغتنامہ، زیر نظر جعفر شہیدی، تہران، دانشگاہ تہران، 1385ہجری شمسی۔
- «روزہای قمر در عقرب در سال 1399ش»، مؤسسہ تحقیقات و نشر اہل بیت(ع)، تاریخ اشاعت: 25 اسفند 1398شمسی، تاریخ مشاہدہ: 9 آذر 1399ہجری شمسی۔
- شریف رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، قم، ہجرت، چاپ اول، 1414ھ۔
- شہید ثانی، زینالدین بن علی، مسالک الافہام إلی تنقیح شرائع الاسلام، قم، مؤسسہ المعارف الاسلامیۃ، چاپ اول، 1413ھ۔
- شیخ صدوق، محمد بن علی بن بابویہ، من لا یحضرہ الفقیہ، تحقیق و تصحیح علیاکبر غفاری، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ دوم، 1413ھ۔
- علامہ طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ج19، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، 1394ق/1974م.
- طباطبایی، سید محمدکاظم، العروۃ الوثقی (المحشی)، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ اول، 1419ھ۔
- «قمر در عقرب چیست و چہ احکامی دارد؟»، خبرگزاری دانشجو، تاریخ اشاعت: 13 آبان 1392شمسی، تاریخ مشاہدہ: 9 آذر 1399ہجری شمسی۔
- کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، چاپ چہارم، 1407ھ۔
- علامہ مجلسی، محمدباقر، حلیۃ المتقین، قم، لقمان، چاپ دوم، 1369ہجری شمسی۔
- محقق حلی، جعفر بن حسن، شرائع الاسلام فی مسائل الحلال و الحرام، قم، مؤسسہ اسماعیلیان، چاپ دوم، 1408ھ۔
- محقق کرکی، علی بن حسین، جامع المقاصد فی شرح القواعد، قم، مؤسسہ آل البیت(ع)، چاپ دوم، 1414ھ۔
- نجفی، محمدحسن، جواہر الکلام فی شرح شرائع الاسلام، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، چاپ ہفتم، 1404ھ۔