رضاعی محرمیت

ویکی شیعہ سے
(رضاعی محرم سے رجوع مکرر)

رِضاعی مَحرمیت ایک قسم کی محرمیت ہے جو دودھ پینے سے دو افراد کے مابین قائم ہوتا ہے۔ اسی سبب ان کا آپس میں شادی کرنا حرام ہوتی ہے۔ اس محرمیت کے بعض شرائط ہیں ان میں دودھ پلانی والی عورت شرعی طریقے سے حاملہ ہوگئی ہو، دودھ مسلسل پیا ہو اور ان اس درمیان میں کسی اور عورت کا دودھ یا کوئی غذا حائل نہیں ہوا ہو اور دودھ پینے والے کی عمر دو سال سے کم ہو۔

جو افراد دودھ پینے کی وجہ سے مَحرم ہوتے ہیں ان کو محارم رضاعی کہا جاتا ہے اور اس کے مخصوص احکام ہیں۔ جیسے؛ ان کے مابین شادی حرام ہوتی ہے، اگر رضاعی محرمیت میں دودھ پینے والا بچہ ہے تو رضاعی ماں، رضاعی ماں کی ماں، اس کی دادی، بہن، بیٹی، نواسی، پوتی، پھوپھی اور خالہ اس کی محرم ہوتی ہیں۔ اسی طرح دودھ پلانے والی عورت کے شوہر (رضاعی باپ) کی بہن، بیٹی، نواسی، پوتی، ماں، دادی، نانی، خالہ اور پھوپھی بھی محرم ہیں۔ اور اگر دودھ پینے والی بچی ہو تو اس کے لئے رضاعی باپ(دودھ پلانے والی عورت کا وہ شوہر جس کا دودھ ہے)، رضاعی باپ کا باپ، اس کا دادا، نانا، بھائی، چچا، ماموں، بیٹا، نواسا اور پوتا اس کے محرم ہیں۔ اسی طرح دودھ پلانے والی عورت کا بھائی، بیٹا، نواسا، پوتا، باپ، دادا، نانا، مامو اور چچا بھی محرم ہیں۔

بعض اہل سنت رضاع کبیر (بالغ شخص کا نامحرم عورت کا دودھ پینا) کو بھی محرمیت کا سبب سمجھتے ہیں۔ البتہ شیعہ فقہا اس کے مخالف ہیں اور نامحرم عورت کا دودھ پینا حرام سمجھتے ہیں۔

تعریف

رضاعی محرمیت ایک طرح کی رشتہ داری ہے جو دودھ پینے کے سبب دو یا دو سے زیادہ آدمیوں کے درمیان ایجاد ہوتی ہے۔ اور اسی کی وجہ سے ان سے شادی حرام ہوجاتی ہے۔[1] رضاعی محارم وہ لوگ جو دودھ پینے سے ایک دوسرے کے رشتہ دار بنے ہیں اور مَحرَم ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ سے کچھ خاص احکام ان پر لاگو ہوتے ہیں۔[2] فقہی متون میں جو شیرخوار اپنی ماں کے علاوہ کسی اور خاتون کا دودھ بعض شرائط کے تحت پیتا ہے تو اس کو «مُرتَضِع»؛ اور دودھ پلانے والی عورت کو «مُرضِعۃ» اور دودھ کے مالک (وہ مرد جس سے دودھ پلانے والی عورت حاملہ ہوئی ہے) کو «فَحْل» یا «صاحب لَبَن» کہا گیا ہے۔[3]

فقہ کے باب نکاح اور باب ارث میں ان اصطلاحات پر بحث ہوتی ہے۔[4]

شرایط

رضاعى محرم بننے کے لئے شیعہ فقہاء نے قرآنی آیات اور معصومین کی روایات سے استناد کرتے ہوئے مندرجہ ذیل شرائط بیان کى ہیں:[5]

  • دودھ پلانے والى عورت شرعى طور پر حاملہ ہوئى ہو۔[6]
  • اتنا دودھ پیے کہ بچے کا گوشت بڑھے اور ہڈیاں مضبوط ہوجائیں۔[7]
  • کم سے کم ایک دن رات دودھ پئے اور اس مدت میں بچے کی غذا صرف اسی عورت کا دودھ ہو۔[8] پیاس بجھانے کے لئے پانی پینا یا بیماری کی صورت مین دوائی پینا اگر متعارف مقدار میں ہو تو اس حکم میں کوئی خلل ایجاد نہیں ہوتی ہے۔[9]
  • شیخ مفید،[10] سلار دیلمی،[11]ابن براج،[12] ابوصلاح حلبی،[13] اور علامہ حلی[14] جیسے فقہا نے دودھ پینے کی تعداد کو دس ذکر کیا ہے اور شیخ طوسی،[15] محقق حلی[16] اور شہید اول[17] جیسے فقہا نے تعداد کو 15 بتایا ہے۔
  • دودھ کو پے در پے پى لے اور ایک ہی عورت سے پی لے نیز درميان ميں غذا یا کسى اور عورت کا دودھ نہ پئے۔[18]
  • بچہ پستان سے منہ لگا کر دودھ پئے، کسى اور طریقے سے نہ ہو (مثلا بچے کے حلق میں دودھ انڈیلا جائے)۔[19]
  • دودھ پینے والے بچے کى عمر قمری لحاظ سے دو سال سے کم ہو۔[20] اگر دودھ کی کچھ مقدار دو سال پورا ہونے کے بعد پئے تو محرمیت ایجاد نہیں ہوگی۔[21]

تفسیر نمونہ کے مطابق رضاعی محرمیت کا فلسفہ نسبی بچوں اور رضاعی بچوں کے درمیان دودھ پینے کی وجہ سے گوشت اور ہڈیوں کا بڑھنا ہے اور ان میں سے ہر ایک گویا اس دودھ والے کے بدن کا ایک جز ہیں۔[22]

رضاعی محرم

فقہا نے پیغمبر اکرمؐ کی ایک روایت سے استناد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہر وہ چیز جو نسب میں حرام ہے وہی رضاع میں بھی حرام ہے۔[23] تمام وہ عورتیں جو نسب کی وجہ سے ان سے شادی حرام تھی وہ رضاع کی صورت میں بھی حرام ہیں۔[24] اگر محرمیت کے شرایط ہوں تو درج ذیل افراد رضاع کی وجہ سے محرم بنتے ہیں:

اور اگر دودھ پینے والی بچی ہو تو اس کے لئے رضاعی باپ(دودھ پلانے والی عورت کا وہ شوہر جس کا دودھ ہے)، رضاعی باپ کا باپ، اس کا دادا، نانا، بھائی، چچا، ماموں، بیٹا، نواسا اور پوتا اس کے محرم ہیں۔ اسی طرح دودھ پلانے والی عورت کا بھائی، بیٹا، نواسا، پوتا، باپ، دادا، نانا، مامو اور چچا بھی محرم ہیں۔[25] اگر دودھ پینے والا بچہ ہے تو رضاعی ماں، رضاعی ماں کی ماں، اس کی دادی، بہن، بیٹی، نواسی، پوتی، پھوپھی اور خالہ اس کی محرم ہوتی ہیں۔ اسی طرح دودھ پلانے والی عورت کے شوہر (رضاعی باپ) کی بہن، بیٹی، نواسی، پوتی، ماں، دادی، نانی، خالہ اور پھوپھی بھی محرم ہیں۔[26]

یہ افراد صرف دودھ پینے والے کے لئے محرم ہیں اس کے باقی رشتہ دار یہاں تک کہ اس کے باپ یا بھائیوں کے لئے بھی محرم نہیں ہیں۔[27]

کبیر رضاع

کبیر رضاع کا عنوان اہل سنت فقہی اور احادیث کی کتابوں میں بیان ہوا ہے۔[28] اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئى بالغ مرد کسى نامحرم عورت کی پستان سے اس کا دودھ پى لے۔[29] اہل سنت کے بعض فقہا نے عائشہ کی ایک روایت؛ جس میں کہا گیا ہے کہ رسول اللہؐ نے کسی عورت کو اجازت دی کہ وہ کسی اجنبی مرد کو دودھ پلائے تاکہ وہ اس کا محرم بن سکے،[30] سے استناد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بالغ مرد کسی اجنبی عورت کا دودھ پی لینے سے محرم بنتے ہیں۔[31] ابن رشد اپنی کتاب بدایۃ المجتہد میں لکھتے ہیں کہ اگر بچہ دو سال کے بعد دودھ پئے تو محرمیت ایجاد ہونے میں علما کے مابین اختلاف ہے۔[32] ان کا کہنا ہے کہ اہل سنت کے اکثر فقہا، جیسے مالک، ابوحنیفہ اور شافعی نے دو سال کے بعد دودھ پینے (رضاع کبیر) کو محرمیت کے اسباب میں شمار نہیں کیا ہے اور اسے حرام سمجھتے ہیں۔[33] اہل سنت کے بعض ظاہریہ مسلک کے ماننے والے جیسے ابن حزم نے اہل‌ سنت کے منابع میں عایشہ سے منقول ایک روایت[34] سے استناد کرتے ہوئے رضاع کبیر کو بھى محرم بنانے کے اسباب میں سے شمار کیا۔[35]لیکن شیعہ علماء [36] اور اہل‌سنت کے اکثر علما نے رضاع کبیر کو مَحرم بننے کے اسباب میں سے قرار نہیں دیا ہے بلکہ اس طرح کسى نامحرم عورت کے دودھ پینے کو حرام سمجھا ہے۔[37]

رضاع کبیر سے محرمیت ایجاد نہ ہونے اور اس عمل کا حرام ہونے میں شیعہ فقہا کا اتفاق ہے۔[38]

دودھ بینک

دودھ بینک ایک ادارہ ہے جو ماؤوں کا دودھ جمع کرتا ہے اور اسے تازہ پیدا ہونے والے وہ بچے جو ماں کے دودھ سے محروم ہیں ان کو پلاتے ہیں۔[39] اس کا آئیڈیا عالمی ادارہ صحت نے 1909ء میں دیا اور ایک سال کے بعد پہلی بار امریکہ میں ایجاد ہوا۔[40] ایران میں یہ مرکز تیرماہ سال 1395ش کو تبریز میں تاسیس ہوا۔[41]

شیعہ فقہا کی نظر میں دودھ بینک سے پلائے جانے والا دودھ محرمیت کا باعث نہیں بنتا ہے۔[42] کیونکہ ان کی نظر میں دودھ صرف اس صورت میں محرمیت کا باعث بنتا ہے جب دودھ پستان سے پیا جائے۔[43] البتہ بعض اہل سنت فقہا کے مطابق دودھ بینک سے پئے جانے والا نسل و نسب کو مخلوط کرتا ہے اور یہ ایک غیر اسلامی عمل ہے۔[44] کیونکہ مالک بن انس جیسے فقہا کا کہنا ہے بچہ دودھ پستان سے پئے یا کسی بھی طریقے سے اس کے حلق میں ڈالے محرمیت کا باعث بنتا ہے۔[45]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. ملاحظہ کریں: نجفی، جواہرالکلام، 1404ھ، ج29، ص264-309.
  2. نجفی، جواہرالکلام، 1362شمسی، ج29، ص264.
  3. ملاحظہ کریں: شیخ طوسی، الخلاف، 1407ھ، ج5، ص93.
  4. دایرۃ المعارف الفقہ الاسلامی، فرہنگ فقہ، 1387شمسی، ج3، ص537.
  5. نجفی، جواہرالکلام، 1362شمسی، ج29، ص264؛ حرعاملی، وسائل الشیعہ، 1434ھ، ج20، ص280.
  6. نجفی، جواہرالکلام، 1362شمسی، ج29، ص264.
  7. نجفی، جواہرالکلام، 1362شمسی، ج29، ص271.
  8. شیخ طوسی، الخلاف، 1407ھ، ج5، ص95.
  9. امام خمینی، تحریرالوسیلہ، 1424ھ، ج2، ص271.
  10. شیخ مفید، المقنعۃ، 1413ھ، ص502.
  11. سلار دیلمی، المراسم، 1404ھ، ص149.
  12. ابن براج، المہذب، 1406ھ، ج2، ص190.
  13. حلبی، الکافی فی الفقہ، 1403ھ، ص285.
  14. علامہ حلی، مختلف الشیعہ، 1413ھ، ج2، ص70.
  15. شیخ طوسی، الخلاف، 1407ھ، ج5، ص95.
  16. محقق حلی، شرایع‌الاسلام، 1408ھ، ج2، ص227.
  17. شہید اول، اللمعۃ الدمشقیۃ، 1410، ص163.
  18. محقق حلی، شرایع‌الاسلام، 1408ھ، ج2، ص228.
  19. محقق حلی، شرایع‌الاسلام، 1408ھ، ج2، ص228.
  20. محقق حلی، شرایع‌الاسلام، 1408ھ، ج2، ص228.
  21. شیخ طوسی، المبسوط فی فقہ الامامیہ، 1387ھ، ج5، ص293.
  22. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، ج3، ص329.
  23. مغربی، دعائم‌الاسلام، 1385ھ، ج2، ص240.
  24. فاضل مقداد، کنز العرفان، منشورات المکتبۃ، ج2، ص182؛ مقدس اردبیلی، زبدۃالبیان، المکتبۃ المرتضویۃ، ص524.
  25. محقق حلی، شرایع‌الاسلام، 1408ھ، ج2، ص228-229؛ امام خمینی، تحریرالوسیلہ، 1434ھ، ج2، ص288.
  26. محقق حلی، شرایع‌الاسلام، 1408ھ، ج2، ص229؛ امام خمینی، تحریرالوسیلہ، 1434ھ، ج2، ص288.
  27. فلاح‌زادہ، آموزش فقہ، 1382شمسی، ص360.
  28. مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، 1419ھ، ج2، ص1076.
  29. مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، 1419ھ، ج2، ص1076.
  30. ابن حنبل، مسند احمد بن حنبل، 1421ھ، ج40، ص130.
  31. ابن حزم، المحلی بالآثار، 1425ھ، ج10، ص205.
  32. ابن رشد، بدایۃ المجتہد، 1995م، ج2، ص130.
  33. ابن رشد، بدایۃ المجتہد، 1995م، ج2، ص130.
  34. ابن ماجہ، سنن ابن ماجہ، دارالفکر، ج1، ص625، باب رضاع الکبیر، ح1943
  35. ابن حزم، المحلی، دارالفکر، ج10، ص8-9، 17۔
  36. مراجعہ کریں: محقق حلی، شرایع الاسلام، 1408ھ، ج2، ص226-228؛ علامہ حلی، تبصرۃ المتعلمین، 1411ھ، ص136؛ نجفی، جواہرالکلام، 1404ھ، ج29، ص264۔
  37. ابن رشد، بدایۃ المجتہد، 1995م، ج2، ص130.
  38. شیخ طوسی، المبسوط، 1387ھ، ج5، ص293؛ نجفی، جواہرالکلام، 1362شمسی، ج29، ص282؛ سبحانی، نظام النکاح فی الشریعہ الاسلامیہ الغراء، 1416ھ، ج1، ص289.
  39. «بانک شیر مادر»، سایت مرکز آموزشی درمانی حضرت زینب(س).
  40. مرتاضی، «پژوہشی در تاریخچہ و ضرورت تأسیس بانک شیر مادران و چالشہای فقہی - حقوقی پیش روی آن»، ص58.
  41. «گفت‌وگو با مدیر اولین «بانک شیر مادر» در ایران»، سایت خبرگزاری تسنیم.
  42. فلاح تفتی، «بررسی تطبیقی حکم تأسیس بانک شیر در مذاہب اسلامی»، ص119.
  43. حرعاملی، وسائل الشیعہ، ج20، ص386؛ نجفی، جواہرالکلام، 1362شمسی، ج29، ص294.
  44. فلاح تفتی، «بررسی تطبیقی حکم تأسیس بانک شیر در مذاہب اسلامی»، ص115-116.
  45. ابن قدامۃ، شرح‌الکبیر، دار الکتاب العربی، ج9، ص202.

مآخذ

  • ابن براج، عبدالعزیز، المہذب، قم، مؤسسۃ النشر الإسلامی، 1406ھ۔
  • ابن حزم، علی بن احمد، المحلی بالآثار، بیروت، دار الجیل، 1425ھ۔
  • ابن حنبل، مسند احمد بن حنبل، بیروت، مؤسسۃ الرسالۃ، 1421ھ۔
  • ابن رشد، محمد بن احمد، بدایۃالمجتہد و نہایہ المقتصد، بیروت، دارالفکر، 1995م.
  • ابن قدامۃ، عبدالرحمن بن محمد، شرح‌الکبیر، دار الکتاب العربی، بی‌تا.
  • امام خمینی، سید روح‌اللہ، تحریرالوسیلہ، قم، مؤسّسۃ تنظیم ونشر آثار الإمام الخمینی، چاپ اول، 1434ھ۔
  • «بانک شیر مادر»، سایت مرکز آموزشی درمانی حضرت زینب (س)، تاریخ درج مطلب: 8 دی‌ماہ 1399شمسی، تاریخ بازدید: 20 فروردین 1400ہجری شمسی۔
  • حرعاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، قم، مؤسسۃ آل البیت علیہم‌السلام لإحیاء التراث، 1416ھ۔
  • حلبی، ابوصلاح، الکافی فی الفقہ، اصفہان، مکتبۃ الإمام أمیر المؤمنین علیہ السلام، 1403ھ۔
  • دایرۃ المعارف الفقہ الاسلامی، فرہنگ فقہ فارسی، قم، دایرۃ المعارف الفقہ الاسلامی، 1387ہجری شمسی۔
  • سبحانی، جعفر، نظام النکاح فی الشریعہ الاسلامیہ الغراء، قم، موسسہ الامام الصادق(ع)، 1416ھ۔
  • سلار دیلمی، حمزۃ بن عبدالعزیز، المراسم فی الفقہ الامامی، قم، منشورات الحرمین، 1404ھ۔
  • شہید اول، محمد بن مکی، اللمعۃ الدمشقیۃ، بیروت، دارالتراث، 1410ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، الخلاف، قم، مؤسسۃ النشر الإسلامی، 1407ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، المبسوط فی فقہ الامامیہ، المکتبۃ المرتضویۃ لإحیاء الآثار الجعفریۃ، چاپ سوم، 1387ھ۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، المقنعۃ، قم، کنگرہ جہانی ہزارہ شیخ مفید، 1413ھ۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، مختلف الشیعہ، قم، مؤسسۃ النشر الإسلامی، چاپ دوم، 1413ھ۔
  • فاضل مقداد، عبداللہ، کنز العرفان فی فقہ القرآن، قم، منشورات المکتبۃ المرتضویۃ للإحیاء الآثار الجعفریۃ، بی‌تا.
  • فلاح تفتی، فاطمہ، «بررسی تطبیقی حکم تأسیس بانک شیر در مذاہب اسلامی»، پژوہش ہای فقہی، شمارہ 1، بہار 1395ہجری شمسی۔
  • فلاح‌زادہ، حسین، آموزش فقہ، قم، انتشارات الہادی، 1382ہجری شمسی۔
  • محقق حلی، جعفر بن حسن، شرایع‌الاسلام، قم، مؤسسہ اسماعیلیان، چاپ دوم، 1408ھ۔
  • مرتاضی، احمد، «پژوہشی در تاریخچہ و ضرورت تأسیس بانک شیر مادران و چالشہای فقہی - حقوقی پیش روی آن»، اخلاق و تاریخ پزشکی، شمارہ 5، بہمن‌ماہ 1394ہجری شمسی۔
  • مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، قاہرہ، انتشارات دارالحدیث، 1419ھ۔
  • مغربی، قاضی نعمان، دعائم‌الاسلام، قم، مؤسسہ آل البیت علیہم‌السلام، چاپ دوم، 1385ھ۔
  • مقدس اردبیلی، احمد بن محمد، زبدۃالبیان فی آیات الاحکام، تہران، المکتبۃ المرتضویۃ لإحیاء الآثار الجعفریۃ، چاپ اول، بی‌تا.
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الإسلامیۃ، چاپ اول، 1374ہجری شمسی۔
  • منصور، جہانگیر، قانون مدنی با آخرین اصلاحیہ‌ہا و الحاقات ہمراہ با قانون مسؤلیت مدنی، تہران، نشر دیدار، 1389ہجری شمسی۔
  • نجفی، محمد بن حسن، جواہرالکلام، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، چاپ ہفتم، 1362ہجری شمسی۔