تین طلاق

ویکی شیعہ سے

تین طلاق، سے مراد یہ ہے کہ مرد اپنی بیوی کو تین بار طلاق دے۔ شیعہ اور اہل سنت فقہاء کا اس بات پر اجماع ہے کہ جو شخص اپنی بیوی کو تین بار طلاق دے تو اس کے بعد اس عورت سے شادی کرنا اس مرد پر حرام ہو جاتا ہے؛ مگر یہ کہ وہ عورت کسی اور شخص سے شادی کرے اور دوسرا شوہر اسے طلاق دے یا وہ مرد جائے تو عدت ختم ہونے کے بعد پہلا شوہر دوبارہ اس عورت سے شادی کر سکتا ہے۔ تین طلاق طلاق بائن کے اقسام میں سے ہے اس بنا پر شوہر رجوع نہیں کر سکتا ہے۔

شیعہ فقہاء کے فتوے کے مطابق تین طلاق اس وقت واقع ہو گی جب مرد اپنی بیوی کو دو دفعہ طلاق دے اور ہر دفعہ اس سے رجوع کرے یا عدت ختم ہونے کے بعد دوبارہ شادی کرے اس طرح جب تیسری بار طلاق دے تو تین طلاق صدق آتی ہے، دوسرے لفظوں میں ایک ہی مجلس میں تین دفعہ طلاق طلاق طلاق کہنے سے تین طلاق واقع نہیں ہوتی؛ لیکن اہل سنت کہتے ہیں کہ بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاق دیا جا سکتا ہے۔ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 229 اور 230 میں تین طلاق کا حکم بیان ہوا ہے۔

طلاق

تفصیلی مضمون: طلاق

شادی کے بندھن کے خاتمے کو طلاق کہا جاتا ہے۔ طلاق میں شادی کی طرح مخصوص صیغہ پڑھنا ضروری ہے؛[1] لیکن شادی کے برخلاف طلاق ایقاعات میں سے ہے؛ یعنی ایک طرفی ہے اور صرف مرد کی جانب سے واقع ہوتی ہے۔(یعنی بیوی کی طرف سے قبول کرنا ضروری نہیں)[2] اسلام میں طلاق ایک جائز امر ہے؛[3] لیکن احادیث کے مطابق حلال چیزوں میں سے خدا کے نزدیک سب سے منفور امر ہے۔[4]


تعریف

جو شخص اپنی بیوی کو تین بار طلاق دے تو تیسری طلاق کے بعد تین طلاق صدق آتی ہے۔[5] تین طلاق طلاق بائن کے اقسام میں سے ہے[6] جس کی بنا پر عدت کے دوران مرد رجوع نہیں کر سکتا۔[7]

شیعہ اور اہل سنت نقطہ نگاہ میں فرق

شیعہ اور اہل سنت فقہاء تین طلاق کی کیفیت میں اختلاف رکھتے ہیں۔ شیعہ اس بات کے قائل ہیں کہ تینوں طلاق مستقل طور پر طلاق کے تمام شرائط کو مد نظر رکھتے ہوئے واقع ہونی چاہئے؛ یعنی شوہر دو دفعہ اپنی بیوی کو طلاق دے اور ہر دفعہ یا عدت کے اندر اس سے رجوع کرے یا عدت ختم ہونے کے بعد نکاح پڑھ کر اس سے دوبارہ شادی کرے۔ اس کے بعد جب تیسری دفعہ طلاق دے تو تین طلاق صدق آتی ہے؛[8] لیکن اہل سنت اس بات کے معتقد ہیں کہ شرعی اعتبار سے شوہر اپنی بیوی کو ایک ہی دفعہ اور ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے سکتا ہے؛[9] یعنی شوہر اپنی بیوی سے کہے: "اَنتِ طالِقٌ ثَلاثاً (تمہیں تین طلاق دی گئی)۔[10] مشہور شیعہ فقہاء کے مطابق مذکورہ جملہ کے کہنے سے تین طلاق واقع نہیں ہوتی۔[11] بعض اہل سنت فقہاء بھی اس بات کے معتقد ہیں کہ مذکورہ جملے سے تین طلاق صدق نہیں آتی۔[12]

مُحَلِّل

تفصیلی مضمون: محلل

تین طلاق کا فقہی حکم یہ ہے کہ اس کے بعد شوہر اپنی مطلقہ بیوی سے نہ رجوع کر سکتا ہے اور نہ اس سے دوبارہ شادی کر سکتا ہے، مگر یہ کہ مذکوره عورت عدت پوری ہونے کے بعد کسی اور شخص سے شادی کرے اور وہ اسے طلاق دے یا وہ مر جائے۔[13] اس حکم پر فقہا کا اجماع ہے۔[14] مذکورہ عورت کا کسی اور شخص سے شادی کرنے کو تحلیل (حلال‌ کرنا) کہلاتا ہے[15] اور دوسرے شوہر کو مُحَلِّل (حلال‌ کرنے والا) کہا جاتا ہے۔[16]

مُحَلِّل کا بالغ ہونا، عقد نکاح کا دائمی ہونا، محلل کا مذکورہ عورت سے ہمبستری کرنا اور محلل کی جانب سے طلاق دینا یا اس کا مر جانا حلالہ کے شرائط میں سے ہیں ان تمام شرائط کے ساتھ پہلا شوہر دوبارہ مذکورہ عورت سے شادی کر سکتا ہے۔[17]

قرآن میں تین طلاق کا حکم

سورہ بقرہ کی آیت نمبر 229 اور 230 میں تین طلاق اور مُحَلِّل کا حکم یوں بیان ہوا ہے: الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ۔۔۔ فَإِن طَلَّقَہَا فَلَا تَحِلُّ لَہُ مِن بَعْدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَہُ ۗ فَإِن طَلَّقَہَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْہِمَا أَن يَتَرَاجَعَا إِن ظَنَّا أَن يُقِيمَا حُدُودَ اللَّـہِ (ترجمہ: اور طلاق (رجعی) دو ہی مرتبہ ہے... اب اگر (تیسری بار) طلاق (بائن) دے تو اس کے بعد (یہ عورت) اس مرد کے لئے اس وقت تک حلال نہ ہوگی جب تک کسی دوسرے شخص سے شادی نہ کرے۔ اب جب کہ وہ (دوسرا شوہر) اسے طلاق دے دے اور ان دونوں سابقہ میاں بیوی کا خیال ہو کہ وہ حدودِ الٰہیہ کو برقرار رکھ سکیں گے تو ان کے لئے کوئی گناہ نہیں ہے کہ وہ آپس میں (دوبارہ) شادی کر لیں۔)[؟؟][18]

احکام

تین طلاق کے بعض شرعی احکام درج ذیل ہیں:

  • ‌ اس عورت کے ساتھ شادی متعلقہ شخص پر حرام ہے جس کو تین دفعہ طلاق دی گئی ہو؛ اس میں فرق نہیں ہے کہ ہر بار طلاق دینے کے بعد عدت میں اس سے رجوع کی ہے یا عدت ختم ہونے کے بعد اس سے دوبارہ شادی کی ہو؛ اسی طرح ہر بار رجوع کے بعد بیوی سے ہمبستری کی ہو یا نہ کی ہو۔[19]
  • تین طلاق‌ کے بعد صرف اس وقت مذکورہ عورت سے شادی کرنا حرام ہو جاتا ہے کہ اس دوران اس عورت نے کسی اور شخص سے شادی نہ کی ہو۔[20]
  • اگر کوئی شخص نہ جانتا ہو کہ اپنی بیوی کو دو دفعہ طلاق دی ہے سا تین دفعہ تو کم تعداد پر بنا رکھی جائے گی اور اس سے شادی کرنا جائز ہے۔[21]

متعلقہ صفحات

حوالہ جات

  1. مشکینی، مصطلحات الفقہ و اصطلاحات الاصول، ۱۴۳۱ق، ص۳۵۶۔
  2. مشکینی، مصطلحات الفقہ و اصطلاحات الاصول، ۱۴۳۱ق، ص۹۷۔
  3. مؤسسہ دایرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، ۱۳۹۲ش، ج۵، ص۱۹۴۔
  4. کلینی، کافی، ۱۴۰۷ق، ج۶، ص۵۴۔
  5. انوری، فرہنگ سخن، ذیل سہ‌طلاقہ؛ مؤسسہ دایرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، ۱۳۸۹ش، ج۴، ص۵۵۶۔
  6. مشکینی، مصطلحات الفقہ و اصطلاحات الاصول، ۱۴۳۱ق، ص۳۵۷۔
  7. امام خمینی، توضیح المسائل(مُحَشّی)، ۱۴۲۴ق، ج۲، ص۵۲۹و۵۳۰۔
  8. امام خمینی، تحریر الوسیلہ، ۱۴۰۹ق، ج۳، ص۵۹۱۔
  9. سبحانی، نظام الطلاق في الشريعۃ الإسلاميۃ الغراء، ۱۴۱۴ق، ص۱۶۷۔
  10. مؤسسہ دایرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، ۱۳۸۹ش، ج۴، ص۵۵۷۔
  11. مؤسسہ دایرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، ۱۳۸۹ش، ج۴، ص۵۵۷۔
  12. مؤسسہ دایرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، ۱۳۸۹ش، ج۴، ص۵۵۷۔
  13. امام خمینی، تحریر الوسیلہ، ۱۴۰۹ق، ج۳، ص۵۹۱؛ محقق حلی، شرایع الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۳، ص۱۷۔
  14. سبحانی، نظام الطلاق في الشريعۃ الإسلاميۃ الغراء، ۱۴۱۴ق، ص۱۶۷۔
  15. مؤسسہ دایرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، ۱۳۸۸ش، ج۲، ص۳۷۷۔
  16. مؤسسہ دایرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، ۱۳۸۸ش، ج۲، ص۳۷۹۔
  17. محقق حلی، شرایع الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۳، ص۱۷؛ امام خمینی، توضیح المسائل، ۱۴۲۴ق، ج۲، ص۵۳۲۔
  18. ترجمہ محمد حسین نجفی۔
  19. امام خمینی، تحریر الوسیلہ، ۱۴۰۹ق، ج۳، ص۵۹۱۔
  20. امام خمینی، تحریر الوسیلہ، ۱۴۰۹ق، ج۳، ص۵۹۳۔
  21. امام خمینی، تحریر الوسیلہ، ۱۴۰۹ق، ج۳، ص۵۹۳۔

مآخذ

  • قرآن کریم، ترجمہ محمد حسین نجفی۔
  • امام ‌خمينى، سيد روح اللہ، تحریر الوسیلہ، ترجمہ علی اسلامی، قم، دفتر انتشارات اسلامى وابستہ بہ جامعہ مدرسين حوزہ علميہ قم‌، چاپ بیست و یکم، ۱۴۰۹ھ۔
  • امام ‌خمينى، سيد روح اللہ، توضیح المسائل (مُحَشّی)، تحقیق سيد محمد حسين بنى ہاشمى خمينى‌، قم، ‌دفتر انتشارات اسلامى، چاپ ہشتم، ۱۴۲۴ھ۔‌
  • سبحانی تبریزی، جعفر، نظام الطلاق في الشريعۃ الإسلاميۃ الغراء، تقریر سيف ‌اللہ يعقوبى‌ اصفہانى، قم، ‌ مؤسسہ امام صادق عليہ السلام، چاپ اول، ۱۴۱۴ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تحقیق على اكبر غفارى‌، تہران، دار الكتب الإسلاميۃ، چاپ چہارم، ۱۴۰۷ھ۔
  • محقق حلی، جعفر بن حسن، شرائع الاسلام فی مسائل الحلال و الحرام، تحقیق و تصحیح عبدالحسین محمد علی بقال، قم، اسماعیلیان، چاپ دوم، ۱۴۰۸ھ۔
  • مشکینی، مصطلحات الفقہ و اصطلاحات الاصول، بیروت منشورات الرضا، چاپ اول، ۱۴۳۱ھ۔
  • منصور، جہانگیر، قانون مدنی با آخرین اصلاحیہ‌ہا و الحاقات ہمراہ با قانون مسؤلیت مدنی، تہران، نشر دیدار، ۱۳۹۱ش۔
  • مؤسسہ دایرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت علیہم السلام، چاپ اول، ۱۳۸۹ش۔