جہاد نکاح

ویکی شیعہ سے

جہاد نکاح ایک اصطلاح ہے جو شام اور عراق میں حکومت کے خلاف جنگ کے دوران داعش کی طرف سے رائج ہوئی جس کے تحت خواتین شرعی نکاح کے شرائط کی رعایت کئے بغیر داعش کے جنگجوں کے ساتھ مختصر مدت کے لئے جنسی رابطہ برقرار کر سکتی تھی۔ اس عمل کو ایک فتوا کے ساتھ مستند کیا گیا جو پہلی بار سنہ 2010ء کو تکفیری سعودی مولوی محمد العریفی کے ٹیوٹر اکاونٹ پر جاری ہوا تھا۔ البتہ العریفی نے بعد میں اس کے ٹیوٹر اکاونٹ کے ہک ہونے کا اعلان کرتے ہوئے ان کی طرف سے ایسے کسی فتوے کے صادر ہونے سے انکار کیا اور شرعی نکاح کے بغیر مرد اور عورت کے درمیان جنسی رابطے کو زنا کا مصداق قرار دیا۔

مسلمان علماء جہاد نکاح ایک قسم کی زنا اور اور معاشرے میں فحاشی کو عام کرنے کا مصداق قرار دیتے ہیں۔ شیعہ مراجع تقلید میں سے آیت اللہ جعفر سبحانی کے مطابق جہاد نکاح کو تکفیریوں کی طرف سے اسلام کو بدنام کرنے کے لئے پھیلایا گیا ہے اسی طرح آیت اللہ مکارم شیرازی جہاد نکاح کو ضروریات دین کے خلاف سمجھتے ہیں۔ آیت اللہ موسوی اردبیلی جہاد نکاح کو حرام، بے بنیاد اور نص کے مقابلے میں اجتہاد کا مصداق قرار دیتے ہیں۔

مختلف اسلامی ممالک اور عالمی میڈیا پر داعش کے یہاں جہاد نکاح کے رائج ہونے پر ردعمل سامنے آیا۔ سعودی عرب کے وزارت داخلہ کے ترجمان منصور ترکی نے جہاد نکاح کو خواتین کی طرف سے داعش میں شمولیت اور خوارجی اور دہشت گردانہ ذہنیت کے حامل اولاد کی تربیت کا پیش خیمہ قرار دیا۔

بعض عراقی منابع نے داعش کی طرف سے موصلی خواتین خاص کر جوان لڑکیوں کو اغوا کرنے اور انہیں جہاد نکاح پر مجبور کرنے کے حوالے سے مختلف اعداد و شمار شایع کی ہیں۔ تونس کے وزیر داخلہ لطفی بن جدو نے سنہ 2012ء میں دسیوں حاملہ خواتین کی واپسی کی خبر دی ہے جو جہاد نکاح کے لئے شام گئی ہوئی تھیں۔ ان تمام باتوں کے باوجود ایک فرانسیسی اخبار جہاد نکاح کا انکار کرتے ہوئے اسے شامی حکومت اور ان کے حامیوں کی طرف سے داعش کو بدنام کرنے کا الزام قرار دیتی ہے۔

تعریف اور تاریخچہ

«جہاد نکاح» کی اصطلاح سنہ 2010ء کی دہائی میں عراق اور شام میں حکومت کے خلاف برسر پیکار داعش اور دیگر تکفیری دہشت گردوں کی طرف سے عورتوں کے ساتھ برقرار کرنے والے قلیل المدت جنسی رابطے کو کہا جاتا ہے جس میں ایک خاتون بیک وقت کئی مردوں کے ساتھ جنسی رابطہ قائم کر سکتی ہے۔[1] عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل پر قبضہ کے نویں روز داعش نے اپنے ایک بیان میں وہاں کے باسیوں سے کہا کہ وہ اپنی لڑکیوں کو داعش کے جنگجوں کے ساتھ جہاد نکاح کے لئے ان کے حوالے کئے جائیں۔[2]

جہاد نکاح میں شرعی نکاح کے شرائط جیسے عدہ وغیرہ کی رعایت نہیں کی جاتی تھی۔[3] اس عمل کو ایک فتوا کے ساتھ مستند کیا گیا تھا جو پہلی بار وہابی سعودی مولوی محمد اَلعَریفی کے ٹیوٹر صفحے پر ہوا تھا[4] جس میں اس عمل کے بدلے میں متعلقہ خواتین کو بہشت کا وعدہ دیا گیا تھا۔[5] البتہ عریفی نے اس خبر کے منتشر ہونے کے بعد ان کی طرف سے ایسے کسی فتوا کے صادر ہونے کی تردید کی۔[6]

اس نے سنہ 2013ء کو ان کے ٹیوٹر اکاونٹ ہیک ہونے کا دعوا کیا اور شرعی نکاح کے شرائط کے بغیر جہاد نکاح کو زنا کا مصداق اور حرام قرار دیا۔[7] تاہم ناصر اَلعُمَر ایک اور سعودی وہابی مفتی نے شام میں داعش کے دہشت گردوں کے لئے جہاد نکاح کو جائز اور اس میں توسیع کرتے ہوئے محارم کے ساتھ بھی نکاح کرنے کو جائز قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ شیعوں کے خلاف جنگ کے دوران کوئی چیز حرام نہیں ہے۔[8] اسی طرح کہا جاتا ہے کہ فلسطین کے مبلغ خباب مروان اَلحَمَد نے شادی شدہ خواتین کے ساتھ بھی جہاد نکاح کو جائز قرار دیا تھا؛ لیکن اس خبر کے منتشر ہونے کے بعد انہوں نے ایسے کسی فتوا کے صادر ہونے کی تردید کی۔[9]

فقہا کا رد عمل

بعض شیعہ اور اہل‌ سنت علماء نے جہاد نکاح کو ایک قسم کی زنا اور فحاشی پھیلانے کا اقدام قرار دیتے ہوئے اس کی مخالفت کی۔[10]انہوں نے جہاد نکاح کو امامیہ اور اہل‌ سنت فقہ میں مذکور شرعی نکاح کے قواعد و ضوابط اور ارکان کے منافی قرار دیا۔[11] شیعہ مرجع تقلید آیت اللہ شبیری زنجانی نے ایک سوال کے جواب میں اسلام میں جہاد نکاح نامی موضوع کا انکار کرتے ہوئے جہاد کی حالت میں بھی نکاح کے لئے نکاح کا صیغہ، عورت کا شادی شدہ یا عدہ کی حالت میں نہ ہونا وغیرہ جیسے شرعی نکاح کے شرائط کو لازمی اور ضروری قرار دیا ہے۔[12]

آیت اللہ مکارم شیرازی نے جہاد نکاح کو ایک بہت بڑی رسوائی اور دین اسلام کی ضررویات کے منافی قرار دیا۔[13] آیت اللہ جعفر سبحانی نے جہاد نکااح کو تکفیریوں کی طرف سے اسلام کو بدنام کرنے کا اقدام قرار دیتے ہوئے اس قسم کے نکاح کے ذریعے متولد ہونے والے بچوں کو ولد شبہہ قرار دیا۔[14] آیت اللہ موسوی اردبیلی نے جہاد نکاح اور محارم کے ساتھ نکاح کرنے کو حرام قرار دیتے ہو ئے اس طرح کے احکام کو بے بنیاد اور نص کے مقابلے میں اجتہاد کا مصداق قرار دیا۔[15]

میڈیا کوریج

جہاد نکاح کو اسلامی ممالک اور عالمی میڈیا پر زیادہ کوریج ملی۔ سعودی عرب کے وزارت داخلہ کے ترجمان منصور ترکی نے داعش میں خواتین کی شمولیت اور دہشت گردانہ ذہنیت کے مالک اولاد کی تربیت کو جہاد نکاح کے رواج پانے کی علت قرار دیا۔[16] بعض عراقی منابع نے موصل پر داعش کے قبضے کے دوران داعش کی طرف سے وہاں کی عورتوں اور جواں لڑکیوں کو اغوا کرنے اور انہیں جہاد نکاح پر مجبور کرنے کے حوالے سے مختلف اعداد شمار نقل کی ہے۔[17] اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر نافی بلاری کے مطابق شامی حکومت کے مخالف دہشت گرد گروہ اپنی طرف سے خواتین کی بے حرمتی کو جہاد نکاح کا نام دیتے ہیں۔[18] تیونس کے وزیر داخلہ لطفی بین جدو نے سنہ 2012ء میں درجنوں حاملہ خواتین کی واپسی کا اعلان کیا جنہوں نے جہاد نکاح کے لیے شام کا سفر کیا تھا۔[19]

داعش نے سوشل میڈیا کے ذریعے مغربی لڑکیوں اور خواتین کو جہاد نکاح کی طرف راغب کرنے کی کوشش کی جس میں یورپی ممالک جیسے انگلینڈ اور آسٹریا وغیرہ سے خواتین کی شمولیت کی بہت سی رپورٹیں شائع ہوئیں ہیں۔[20] شامی علماء یونین کے وائس چیئرمین عبداللہ محمد کاتمتو نے مذکورہ فتوے کو شادی اور جہاد کے مقدس الفاظ کو بدنام کرنے کی سازش قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ اسلام نے نکاح کو معاشرے کی تحفظ اور جہاد کو اسلام کی نشر و اشاعت کے لئے جائز قرار دیا ہے۔[21] تیونس ائمہ جماعت کے سکریٹری جنرل نے اس فتویٰ کے اجراء کی حمایت کرنے پر اپنے ملک کے وزیر مذہبی امور کے خلاف مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا۔[22]

بلغاریہ کی ایک ٹی وی چنل نے شام میں جہاد نکاح کے لیے جانے والی لڑکیوں کے انٹرویو پر مشتمل ایک دستاویزی فلم شایع کیا۔[23] اس کے علاوہ بی بی سی نے تیونس میں القاعدہ کے خلاف جنگ کے دوران اس ملک میں جہاد نکاح پر عمل درآمد کے حوالے سے اعترافات اور شواہد پر مبنی ایک پروگرام نشر کیا گیا۔[24] سعودی پارلیمنٹ کے رکن اور جج عیسیٰ الغیث کے مطابق جہاد نکاح کا اہل سنت مکاتب فکر سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن اس کی ترویج میں اہل سنت کے بعض کینہ توز افراد کی حمایت حاصل تھی۔[25] ایک فرانسیسی اخبار نے شامی حکومت کے خلاف برسر پیکار دہشت گردوں کے درمیان جہاد نکاح سے انکار کرتے ہوئے اسے شامی حکومت کے حامیوں کی طرف سے حزب اختلاف کے چہرے کو بدنام کرنے کی سازش قرار دیا۔[26]

حوالہ جات

  1. عابدیان و دیگران، «جہاد نکاح؛ بدعت یا سنت از دیدگاہ فقہی فرق اسلامى و جریان‏ہاى تکفیرى»، ص154۔
  2. «بیانیہ داعش بہ زنان موصل: ہم اکنون وقت جہاد نکاح است»، خبرگزاری مہر۔
  3. جہاد نکاح؛ بدعتی شرم‌آور، سایت تبیان۔
  4. طیبی جبلی و دیگران، «تحلیل ادلہ قرآنی و فقہی عدم مشروعیت جہاد نکاح در پرتو آثار زیان‌بار روحی ـ روانی و آسیب‌رسانی بہ سلامت افراد»، ص103، فتوای روحانی وہابی: ای دختران! برای "جہاد جنسی" بہ پاخیزید!، پایگاہ خبری آفتاب۔
  5. «زنان چچنی برای جہاد نکاح بہ سوریہ رفتند»، سایت افکار نیوز۔
  6. «از مؤسس جہاد نکاح رونمایی شد!» سایت عصر ایران۔
  7. «العریفی: فبرکوا جہاد النکاح و اتیان الرجال»، سایت صحیفۃ الراکوبہ۔
  8. طیبی جبلی و دیگران، «تحلیل ادلہ قرآنی و فقہی عدم مشروعیت جہاد نکاح در پرتو آثار زیان بار روحی- روانی و آسیب رسانی بہ سلامت افراد»، ص104۔
  9. عابدیان و دیگران، «جہاد نکاح؛ بدعت یا سنت از دیدگاہ فقہی فرق اسلامى و جریان‏ہاى تکفیرى»، ص154۔
  10. عابدیان و دیگران، «جہاد نکاح؛ بدعت یا سنت از دیدگاہ فقہی فرق اسلامى و جریان‏ہاى تکفیرى»، ص154۔
  11. عابدیان و دیگران، «جہاد نکاح؛ بدعت یا سنت از دیدگاہ فقہی فرق اسلامى و جریان‏ہاى تکفیرى»، ص154۔
  12. «فتوای یکی از مراجع تقلید در مورد جہاد نکاح»، جہان نیوز۔
  13. «آیت‌اللہ مکارم شیرازی: جہاد نکاح رسوایی عظیم و بر خلاف ضرورت مسلم اسلام است»، پایگاہ اطلاع‌رسانی حوزہ۔
  14. سبحانی، سلفی‌گری در آیینہ تاریخ، 1392ہجری شمسی، 126 و 127۔
  15. «فتوای آیت‌اللہ موسوی اردبیلی دربارہ جہاد نکاح» سایت شفقنا۔
  16. «صحیفۃ ریاض السعودیۃ: جہاد النکاح۔۔ نار شیاطین الداعش» وکالۃ نادی المراسلین الشباب للأنباء۔
  17. «الشبکۃ تفتح ملف أطفال جہاد النکاح»، سایت مجلۃ الشبکۃ العراقیۃ۔
  18. وحشت دختران سوری از تجاوز بہ نام جہاد، سایت مشرق۔
  19. تحقیق: شہادات حیۃ مع عائلات مجاہدات النکاح و الجمعیات الحقوقیۃ تفشل فی الوصول إلیہن۔۔ أین إختفت مجاہدات النکاح؟، سایت افریکان مانجر۔
  20. «تبلیغ متفاوت داعش برای جذب زنان غربی بہ جہاد نکاح» سایت شبکہ العالم، «زنان چچنی برای جہاد نکاح بہ سوریہ رفتند»، سایت افکار نیوز۔
  21. «جہاد نکاح یک فتوای انگلیسی است»، سایت اسلام تایمز۔
  22. نقابۃ تونسيۃ تعتزم مقاضاۃ وزير الشؤون الدينيۃ بسبب حمايتہ للأئمۃ الذين أفتوا بـ”جہاد النكاح”، سایت روزنامہ رأی الیوم۔
  23. «مستند تلویزیون بلغارستان دربارہ القاعدہ و جہاد نکاح»، سایت شبکہ العالم۔
  24. تحقیق: شہادات حیۃ مع عائلات مجاہدات النکاح و الجمعیات الحقوقیۃ تفشل فی الوصول إلیہن۔۔ أین إختفت مجاہدات النکاح؟، سایت افریکان مانجر۔
  25. «صحیفۃ ریاض السعودیۃ: جہاد النکاح۔۔ نار شیاطین الداعش» وکالۃ نادی المراسلین الشباب للأنباء۔
  26. «چیزی با عنوان جہاد نکاح در سوریہ وجود ندارد»، سایت سنی آنلاین۔

مآخذ