تبدیلی جنس
تبدیلی جنس ایسا عمل ہے جس میں جسم کے جنسی اور کچھ دیگر اعضاء میں تبدیلی لا کر ہارمونل تبدیلی کے ذریعے مرد سے عورت اور عورت سے مرد بنایا جاتا ہے۔ یہ مسئلہ طبی فقہ کے جدید مسائل میں سے ہے جو اسلامی معاشروں میں روز بروز وسیع سے وسیع تر ہوتا جارہا ہے اسی لیے مسلم فقہاء نے اس موضوع کو مورد مطالعہ قرار دے کر اس سلسلے میں مختلف نظریات پیش کیے ہیں۔
بعض شیعہ فقہاء کے فتویٰ کے مطابق صنف یا جنس کی تبدیلی بذات خود ایک جائز عمل ہے، بشرطیکہ اس سے کوئی نقصان نہ ہو اور اس سلسلے میں کسی حرام فعل کا ارتکاب نہ ہو؛ مثلاً نا محرم کے ذریعے چھونے یا اس کی نظر جیسا عمل انجام نہ پائے۔
بعض دوسرے فقہاء صحت مند لوگوں میں تبدیلی جنس کو حرام سمجھتے ہیں۔ ان فقہاء کے نزدیک تبدیلی جنس صرف خنثیٰ، خاص طور پر خنثی مشکل میں جائز ہے۔ (اگر خنثیٰ میں مردانہ اور زنانہ دونوں علامتیں برابر پائی جائیں اور مرد یا عورت کی تشخیص ممکن نہ ہو تو اسے خنثی مشکل کہتے ہیں)۔ سید صادق شیرازی ہر قسم کی صنفی تبدیلی کو قطعی حرام سمجھتے ہیں۔
بعض محققین کے مطابق امام خمینی ایران میں پہلے فقیہ تھے جنہوں نے خواجہ سراؤں(مخنث یا تراجنسیتی Transgender) کے لئے تبدیلی جنس کے جائز ہونے کا فتویٰ جاری کیا۔
اہمیت
صنفی تبدیلی طبی فقہ کے جدید مسائل میں سے ہے اور فقہ اور عائلی فقہ کے میدان میں بہت سے مسائل کی بنیاد ہے۔[1] فقہا اور قانون دان افراد، جنس کی تبدیلی کے شرعی نقطہ نظر سے جواز یا عدم جواز کے بارے میں حکم صادر کرنے کے علاوہ، اس سے متعلق مختلف دیگر سوالات کا جواب بھی دیا ہے؛ جیسے کہ میاں بیوی میں سے کسی ایک کی جنسی تبدیلی کے بعد کیا رشتہ ازدواج باقی رہے گا یا نہیں؟، اسی طرح جنسی تبدیلی سے سرپرستی کا حق محفوظ رہتا ہے یا نہیں؟ نیز وراثت کا مسئلہ، نفقہ جہیز وغیرہ جیسے مسائل کا جواب دیا گیا ہے۔[2]
ماضی میں جنسی تبدیلی کا عمل انجام نہیں پاتا تھا۔ جدید ٹیکنالوجی کی ترقی اور علم طبابت کی ترقی کے بدولت ایران سمیت بہت سے ممالک میں اسے انجام دیا جاتا ہے۔ [3] لہذا، ماضی کے فقہی آثار میں جنسی تبدیلی کے عنوان سے کہیں بحث نہیں ہوتی تھی۔ معاصر فقہاء کہیں استفتائات کے عنوان سے[4]، کہیں طبی فقہ میں مقالات کی شکل میں[5] اور کہیں رسالوں کی شکل میں[6] اس مسئلے کے سلسلے میں اپنے نظریات پیش کیے ہیں۔ بعض فقہاء نے دروس خارج میں اس مسئلہ کے احکام کا جائزہ لیا ہے۔[7]
تعریف
جنسی تبدیلی (جسے عربی میں تحویل الجنس کہتے ہیں)[8] عضو تناسل کی تبدیلی کو کہتے ہیں جس سے عورت مرد اور مرد عورت بن جاتا ہے۔[9] مرد سے عورت میں جنس کی تبدیلی اس طرح انجام پاتی ہے کہ مرد کے عضو تناسل کو آپریشن کے ذریعے کاٹ دیا جاتا ہے اور اس کی جگہ (مھبل vagina) اندام نہانی قرار دیا جاتا ہے اور چھاتیوں کو بھی بڑھایا جاتا ہے۔ اسی طرح عورت سے مرد میں جنس کی تبدیلی میں بچہ دانی، بیضہ دانی اور چھاتی جیسے اعضاء کو ہٹا کر مردانہ اعضاء لگائے جاتے ہیں۔ جنس کی تبدیلی کے لیے کئی مراحل میں سرجری کی جاتی ہے اور اس کے ساتھ ہارمون تھراپی بھی کی جاتی ہے۔[10]
اقسام
لوگوں کی خصوصیات کے مطابق جنسی تبدیلی کی کئی اقسام ہیں:
- صحت مند لوگوں میں صنفی تبدیلی؛ جن لوگوں کو کوئی جسمانی اور ذہنی مسئلہ درپیش نہیں ہے اور وہ اپنے وجود میں تنوع ایجاد کرنے کے لیے اپنی جنس تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔[11]
- خنثی لوگوں میں جنس کی تبدیلی۔[12] فقہ میں خنثی سے مراد ایسے لوگ ہیں جن میں زنانہ اور مردانہ دونوں علامتیں پائی جاتی ہیں اور یہ دو قسم کے ہوتے ہیں:[13]
- خنثیٰ مشکل: یہ ایسا فرد ہے جس کی جنس معلوم نہ ہو اور اس میں کوئی ایسی فطری یا فقہی علامت نہیں پائی جاتی ہے جس کی بنیاد پر اسے دو جنسوں میں سے کسی ایک (مرد یا عورت) کا حکم لاگو کیا جا سکے۔[14]
- خنثیٰ غیر مشکل: اس سے مراد وہ شخص جس میں مرد یا عورت میں سے کسی ایک کی علامت پائی جاتی ہے اگرچہ ظن و گمان کی حد تک ہی صحیح؛ جس کی بنیاد پر اس پر دو جنسوں میں سے کسی ایک کا حکم لاگو کیا جا سکتا ہے۔ [15]
- ٹرانس جینڈرز کی جنسی تبدیلی ([یادداشت 1] یا جنسی لحاظ سے ناراضی لوگوں کی جنسی تبدیلی۔ ٹرانسجینڈرزم صنفی شناخت میں خلل کی ایک قسم ہے جس میں کسی شخص کی صنفی شناخت اس جنس سے میل نہیں کھاتی جو اس کی پیدائش کے وقت تھی۔[16] ٹرانسجینڈر شخص، اس کی جنس سے قطع نظر، خود کو ذہنی اور نفسیاتی طور پر مخالف جنس سے متعلق سمجھتا ہے۔[17]
تاریخچہ
کہا جاتا ہے کہ جنسی تبدیلی کے لیے پہلی سرجری[یادداشت 2] ایران میں 1930ء میں کی گئی، جس کے دوران ایک 18 سالہ لڑکے کی سرجری ہوئی اور وہ لڑکی بن گیا۔[18]
جنسی تبدیلی کےموضوع پر تحقیقات انجام دینے والے محقق محمد مہدی کریمی نیا کے مطابق، امام خمینی ایران میں پہلے فقیہ تھے جنہوں نے اپنے فقہی مباحث (1964ء کے دوران) میں صنفی تبدیلی کا شرعی حکم بیان کیا۔[19] یہ موضوعات کتاب تحریر الوسیلہ میں "مسائل مستحدثہ" کے عنوان کے تحت بیان کیے گئے ہیں۔[20]
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ امام خمینی ایران میں پہلے فقیہ تھے جنہوں نے خواجہ سراؤں کی جنسی تبدیلی کا عمل انجام دینے کی اجازت کے لیے فتویٰ جاری کیا۔[21] فریدون نامی ایک خواجہ سرا، جس نے سنہ 1985ء میں اپنی جنس تبدیل کرنے کے بعد مریم خاتونپور ملک آراء نام کا انتخاب کیا، امام خمینی سے ملاقات میں اور اپنی حالت اور بیماری کے بارے میں انہیں آگاہ کیا اور امام خمینی سے جنسی تبدیلی کا فتویٰ حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔[22] خواجہ سراؤں کی جنس تبدیل کرنے کی اجازت کے بارے میں امام خمینی کے فتوی کا اعلان ان کے دفتر سے اسی سال کیا گیا اور اس کے بعد ایران میں قانونی طور پر صنفی تبدیلی کا عمل شروع ہوگیا۔[23]
ایک آن لائن نیوز رپورٹ کے مطابق ہر سال 270 سے زائد ایرانی سرکاری طبی ادارہ سے اجازت لے کر اپنی جنس تبدیل کرتے ہیں۔ ایران میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2006ء سے 2010ء تک 1366 سے زائد افراد نے جنس تبدیل کرنے کی اجازت حاصل کی جن میں سے 56% مرد عورت بننا چاہتے تھے اور 44% عورتیں مرد بننے کا ارادہ رکھتی تھیں۔[24]
بعض محققین کے مطابق ایران میں ہم جنس پرستی کے سلسلے میں موجود قوانین کی سختی اور اسے مجرمانہ فعل قرار دیے جانے جیسے عوامل کی وجہ سے جنس تبدیل کرنے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے، خاص طور پر یہ رجحان خواجہ سراؤں میں زیادہ پایا جاتا ہے۔[25]
شرعی حکم
فقہاء نے تین قسم کے لوگوں کے لیے جنسی تبدیلی کے احکام بیان کیے ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں:
صحت مند افراد
جو لوگ جسمانی اور ذہنی لحاظ سے مسائل کا شکار نہ ہوں ان کے لیے جنسی تبدیلی کے حکم کے بارے میں فقہاء کا فتویٰ یہ ہے:
تبدیلی کے جواز کے قائلین
امام خمینی،[26] حسین علی منتظری،[27] محمدابراہیم جناتی،[28] محمد فاضل لنکرانی،[29] محمد آصف محسنی،[30] سید علی سیستانی،[31] ناصر مکارم شیرازی،[32] محمد اسحاق فیاض[33] اور سید محسن خرازی،[34] جیسے فقہاء کے مطابق جنسی تبدیلی بذات خود ایک جائز عمل ہے بشرطیکہ اس سے کوئی نقصان نہ ہو اور اس عمل کے دوران کسی نامحرم کے ساتھ چھونے یا اس کی نظر پڑنے جیسے حرام فعل کا ارتکاب نہ ہو۔
جواز کے دلائل
جو فقہاء مذکورہ افراد کے لیے جنسی تبدیلی جائز ہونے کا فتوا جاری کرتے ہیں ان کی نظر میں جواز کے دلائل یہ ہیں:
- اصل اباحہ:[35] اس اصل اور قانون کے مطابق جس عمل کے حلال یا حرام ہونے کے بارے میں شک پایا جاتا ہو اس کے حلال ہونے کا حکم جاری کیا جاتا ہے۔[36] جنسی تبدیلی کے حرام ہونے پر کوئی دلیل نہیں پائی جاتی۔ پس شرعی قانون کے مطابق یہ ایک مباح عمل ہے جسے انجام دیا جائے تو شرعی لحاظ سے کوئی مضائقہ نہیں۔[37]
- اصل برائت:[38] جنسی تبدیلی جائز ہے یا نہیں، اس سلسلے میں شرعی لحاظ سے شک پایا جائے اور دوسری طرف سے اس کی حرمت پر کوئی دلیل بھی موجود نہ ہو تو اس صورت میں [39] شرعی قانون کہتا ہے کہ اصل برائت جاری کرتے ہوئے عدم حرمت کا حکم جاری کیا جائے۔[40]
- قاعدہ تسلیط:[41] اس قانون کے مطابق ہر انسان اپنے اموال اور جسمانی اعضا کا مالک ہے اور اس پر اپنا تسلط رکھتا ہے لہذا اپنے جسمانی اعضا میں تبدیلی کا حق رکھتا ہے[42] اور جنسی تبدیلی کا عمل اپنے بدن کو تصرف میں لانے کا ایک عمل ہے لہذا اس لحاظ سے یہ ایک جائز عمل شمار ہوگا۔[43]
حرمت کے قائلین
بعض دیگر شیعہ فقہاء جیسے سید ابوالقاسم خویی،[44] سید محمد رضا گلپایگانی،[45] میرزا جواد تبریزی،[46] محمد تقی بہجت،[47] لطف اللہ صافی گلپایگانی،[48] سید علی حسینی خامنہ ای[49] اور سید محمد علی علوی گرگانی[50] کے مطابق مذکورہ افراد کے لیے جنسی تبدیلی جائز نہیں ہے۔
حرمت کے دلائل
جو فقہاء جنسی تبدیلی کو جائز نہیں سمجھتے ہیں اس عمل کی حرمت پر ان کے مندرجہ ذیل دلائل ہیں:
- آیت تہلکہ:[51] اس آیت کے مطابق اللہ تعالیٰ لوگوں کو اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے سے منع کرتا ہے اور جنسی تبدیلی طاقت کو ضائع کرنے اور اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے کے مترادف ہے۔[52]
- آیت تغییر خلقت:[53] اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں تبدیلی لانے کو وسوسہ شیطانی اور قابل مذمت عمل قرار دیا گیا ہے اور یہ بات واضح ہے کہ جنسی تبدیلی اللہ کی مخلوق میں تبدیلی لانے کے مترادف ہے۔[54]
- روایات کے مطابق مرد کو عورت اور عورت کو مرد جیسا بننا شرعی طور پر حرام ہے۔[55] جنسی تبدیلی بھی جنس مخالف سے مشابہت کی ایک قسم ہے اس لیے یہ حرام ہے۔[56]
خواجہ سراؤوں کا حکم
خنثی افراد میں جنسی تبدیلی کے حکم کے سلسلے میں بعض فقہاء خنثی مشکل اور خںثی غیر مشکل میں فرق کے قائل ہیں:[57]
خنثی مشکل کا حکم
اکثر شیعہ فقہاء[58] عورت کی جنس کا تعین کرنے کے لیے صرف خنثی مشکل کے لیے سرجری کروانے کو جائز سمجھتے ہیں۔[59] منتظری کے مطابق خنثی مشکل میں کبھی جنسی تبدیلی ایک بنیادی ضرورت کی حد تک پہنچ سکتی ہے اس صورت میں تبدیلی جنس ایک جائز عمل ہوسکتی ہے۔[60] محمد فاضل لنکرانی کے مطابق اگر خنثی مشکل کو اپنے شرعی فرائض جیسے شادی بیاہ، نماز، وراثت وغیرہ کی ادائیگی میں کوئی مسئلہ درپیش ہو اور اس مسئلے سے نکلنے کا واحد راستہ جنسی تبدیلی ہے تو اس صورت میں ایسا کرنا واجب ہوگا۔[61] نیز ان فقہاء کے فتویٰ کے مطابق اگر اس قسم کی جنسی تبدیلی جو علاج کے لیے ہو، ضرورت کی حد کو پہنچ جائے تو جراحی کے سلسلے میں بھی چھونے اور نظر کی حرمت بھی ختم ہو جاتی ہے۔[62]
جعفر سبحانی جنس کی تبدیلی کو صرف خنثی مشکل میں ہی جائز سمجھتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ خنثی مشکل میں اسے مرد کے احکام پر عمل پیرا ہونا چاہیے یا عورت کے احکام بجالانا چاہیے، اسے اس سلسلے میں احتیاط پر عمل کرنا ہوگا لہذا اسے جنسی تبدیلی جائز نہیں۔[63] سید صادق شیرازی کسی صورت میں جنسی تبدیلی کو جائز نہیں سمجھتے ہیں۔ حتی کہ خنثی مشکل میں بھی۔[64]
خنثای غیر مشکل
بعض فقہاء خنثی غیر مشکل میں بھی جنسی تبدیلی کو جائز سمجھتے ہیں۔[65] بعض فقہا عمومی طور پر ہر قسم کے خنثی کے لیے جنس کا تعین کرنے کے لیے سرجری کرنے کو جائز سمجھتے ہیں؛ ان کا کہنا ہے کہ یہ موضوع جنسی تبدیلی کے حکم سے خارج ہے۔[66]
خواجہ سراؤں کا حکم
بعض فقہاء کے فتویٰ کے مطابق خواجہ سراؤں کے لیے جنسی تبدیلی کرنا جائز نہیں ہے۔[67] سید روح اللہ خمینی،[68] حسین علی منتظری،[69] سید علی خامنہ ای،[70] اور سید محسن خرازی[71] جیسے فقہاء کے مطابق اس قسم کی جنسی تبدیلی صرف طبیب کی تائید سے علاج کی خاطر کی جاسکتی ہے اسی طرح جنسی شناخت صرف اسی عمل سے ممکن ہوتو بھی یہ عمل جائز ہے۔
جنسی تبدیلی سے متعلق کچھ دیگر احکام
جنسی تبدیلی کا عمل انجام پانے کے بعد کچھ شرعی احکام ان پر لاگو ہوتے ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں:
رشتہ ازدواج ختم ہوجاتا ہے یا باقی رہتا ہے؟
شیعہ فقہاء کے فتویٰ کے مطابق، جیسے ہی شوہر اور بیوی میں سے کسی ایک کی جنس تبدیل ہوتی ہے، ان کا عقد نکاح باطل ہو جاتا ہے۔[72] اگر میاں اور بیوی ایک ہی ساتھ اپنی اپنی جنس تبدیل کریں اور مرد عورت بن جائے اور عورت مرد بن جائے تو امام خمینی کے فتویٰ کے مطابق ان کے درمیان عقد نکاح باقی رہے گا۔ اگرچہ ایسی صورت میں احتیاط مستحب کی بنیاد پر دوبارہ عقد پڑھایا جائے تو بہتر ہے۔[73] محمد فاضل لنکرانی کے فتوے کے مطابق ان دونوں کا نکاح فوراً مسوخ (فسخ) ہو جائے گا اور وہ دوبارہ نکاح کر سکتے ہیں اور عدت گزر جانے تک انتظار کرنا مستحب ہے۔[74]
مہریہ
بعض فقہاء کے نزدیک فسخ نکاح کے فرضیے کے مطابق اگر جنسی تبدیلی سے پہلے جماع انجام پایا تو مرد کو چاہیے کہ پورے کا پورا مہر ادا کرے[75] اور دخول واقع نہ ہونے کی صورت میں امام خمینی کے فتوے کے مطابق حکم یہ ہے کہ قواعد کے مطابق پورا مہریہ ادا کرنا درست معلوم ہوتا ہے[76] اور حسین علی منتظری کے مطابق احتیاط مستحب یہ ہے کہ دونوں آپس میں مصالحہ کریں۔[77]
فاضل لنکرانی کے فتوے کے مطابق، اگر جنسی تبدیلی کا عمل عورت کی طرف سے ہو اور شوہر کی اجازت سے یہ عمل انجام پایا ہواور جنسی تبدیلی سے پہلے دخول واقع نہیں ہوئی ہے تو عورت کو پورا مہریہ ملے گا اگرچہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ اپنے مابین مصالحہ کریں۔ [78]
باپ کی سرپرستی
اگر کوئی مرد جو کسی نابالغ بچے کا ولی اور سرپرست ہے اپنی جنس تبدیل کر کے عورت بن جائے تو بعض فقہاء کے فتوی کے مطابق اس کی نابالغ اولاد پر اس کی ولایت ختم ہو جائے گی اور اگر کوئی عورت اپنی جنس تبدیل کر کے مرد بن جائے تو نابالغ اولاد پر اس کی ولایت برقرار نہیں ہوگی۔ مذکورہ صورتوں میں نابالغ بچوں کی سرپرستی کا حق ان کے دادا کو ملے گا اور وہ موجود نہ ہونے کی صورت میں حاکم شرع ان کے ولی ہونگے۔[79]
وراثت
فقہاء کے نزدیک وراثت کا معیار یہ ہے کہ مورث کی موت کے وقت مرد ہے یا عورت۔ مرد ہونے کی صورت میں مرد کا حکم اور عورت ہونے کی صورت میں عورت کا حکم لاگو ہوگا۔[80] اس بنا پر اگر کوئی شخص لڑکا ہے اور مورث کی موت سے پہلے اپنی جنس تبدیل کر لے تو اسے لڑکی کی طرح وراثت ملے گی اور اگر لڑکی ہو اور مورث کی موت سے پہلے اپنی جنس تبدیل کر دے تو اسے لڑکوں کی طرح وراثت ملے گی۔[81]
کتابیات
صنفی تبدیلی کے موضوع پر فقہی نگاہ سے لکھی گئی کچھ تصنیفات یہ ہیں:
- کتاب "تغییر جنسیت" جسے محمد مہدی کریمی نیا نے تالیف کی ہے: اس کتاب میں مصنف نے صنفی تبدیلی کی اقسام، اس موضوع پر کیے گئے استفتاءات اور اس سے متعلق دوسرے احکام کو نقل کر کے ان کا تجزیہ و تحلیل کیا گیا ہے؛ ساتھ ہی فقہاء کی آراء کو بھی بیان کیا ہے۔ 497 صفحات پر مشتمل یہ کتاب سنہ 2009ء میں "مرکز فقہی ائمہ اطہار(ع)" نے قم سے شائع کی ہے۔[82]
- کتاب "تغییر جنسیت ہاں یا نہیں؟" ید اللہ دوز دوزانی کے درس خارج فقہ کے دروس پر مشتمل کتاب: اس کتاب کے مندرجات «تَزیینُ الرَّجُل بما یَختَصُّ بالنِّساء و بالعکس» کے ذیل میں بحث کردہ دروس کا نتیجہ ہیں۔[83] یہ کتاب محسن دلیر نے جمع کی تھی اور 152 صفحات پر اضافے کے ساتھ سنہ 2008ء میں شائع ہوئی تھی۔[84]
حوالہ جات
- ↑ کریمی نیا، تغییر جنسیت، 1389شمسی، ص27۔
- ↑ دلیری، تغییر جنسیت آری یا نہ؟ (درس خارج فقہ آیت اللہ دوزدوزانی تبریزی)، 1393شمسی، ص4؛ کریمی نیا، تغییر جنسیت، 1389شمسی، ص27۔
- ↑ کریمی نیا، تغییر جنسیت، 1389شمسی، ص27۔
- ↑ ملاحظہ کیجیے: مکارم شیرازی، استفتائات جدید، 1427ھ، ج1، ص469؛ تبریزی، استفتائات جدید، 1427ھ، ج2، ص479؛ خویی، استفتائات، مؤسسۃ الخوئی الإسلامیۃ، ص386۔
- ↑ ملاحظہ کیجیے: منتظری، احکام پزشکی مطابق با فتاوای آیتاللہ منتظری، 1381شمسی، ص113؛ محسنی، الفقہ و المسائل الطبیۃ، انتشارات یاران، ص117؛ مکارم شیرازی، احکام پزشکی، 1429ھ، ص107؛ علوی گرگانی، استفتائات پزشکی، 1395شمسی، ص119-120۔
- ↑ ملاحظہ کیجیے: سبحانی، «تغییر جنسیت از دیدگاہ فقہ اسلامی»، ص69؛ خرازی، «تغییر جنسیت»، ص104؛ مؤمن قمی، «سخنی دربارہ تغییر جنسیت»، ص91۔
- ↑ ملاحظہ کیجیے: دلیری، تغییر جنسیت آری یا نہ؟ (درس خارج فقہ آیت اللہ دوزدوزانی تبریزی)، 1393شمسی، ص5۔
- ↑ ہمسادی، جبری شمس الدین، «حکم تحویل الجنس: دراسۃ تقویمیۃ فی ضوء مقاصد الشریعۃ»، ص52۔
- ↑ کریمی نیا، تغییر جنسیت، 1389شمسی، ص43؛ ابوشادی، التحول الجنسی بین الفقہ و الطب و القانون، 2016ء، ص508۔
- ↑ ملاحظہ کیجیے: Bizic and others, Sex reassignment surgery, p 10-11
- ↑ قاسمی، دانشنامہ فقہ پزشکی، 1395شمسی، ج2، ص42؛ کریمینیا، تغییر جنسیت، 1389شمسی، ص58۔
- ↑ خمینی، تحریر الوسیلہ، 1379شمسی، ج2، ص596۔
- ↑ جمعی از نویسندگان، فرہنگ فقہ فارسی، 1387شمسی، ج2، ص553۔
- ↑ مشکینی، مصطلحات الفقہ، 1381شمسی، ص154۔
- ↑ مشکینی، مصطلحات الفقہ، 1381شمسی، ص154۔
- ↑ Oxford learner,s dictionaries'
- ↑ کریمینیا، تغییر جنسیت، 1389شمسی، ص59۔
- ↑ کریمی نیا، تغییر جنسیت، 1389شمسی، ص50۔
- ↑ کریمی نیا، تغییر جنسیت، 1389شمسی، ص132۔
- ↑ خمینی، تحریر الوسیلہ، 1379شمسی، ج2، ص596۔
- ↑ «تغییر جنسیت در ایران»، سایت خبری بیبی سی.
- ↑ کریمینیا، تغییر جنسیت، 1389شمسی، ص136۔
- ↑ کریمینیا، تغییر جنسیت، 1389شمسی، ص136۔
- ↑ «سالانہ بیش از 270 ایرانی تغییر جنسیت میدہند/ 56 درصد متقاضیان میخواہند زن شوند.»، سایت خبر آنلاین.
- ↑ «سازمان پزشکی قانونی: آمار زنان متقاضی تغییر جنسیت از مردان بیشتر است.»، سایت ایندیپندنت فارسی.
- ↑ خمینی، تحریرالوسیلۃ، 1379شمسی، ج2، ص596۔
- ↑ منتظری، دراسات فی المکاسب المحرمہ، 1415ھ، ص517-518؛ منتظری، احکام پزشکی مطابق با فتاوای منتظری، 1385شمسی، ص66۔
- ↑ جناتی، رساله توضیح المسائل (استفتائات)، 1388شمسی، ج2، ص254-256۔
- ↑ کریمی نیا، تغییر جنسیت، 1389شمسی، ص423۔
- ↑ محسنی، الفقہ و المسائل الطبیۃ، ص118۔
- ↑ امامی اہوازی، التحول الجنسی، 1442ھ، ص91-92۔
- ↑ مکارم شیرازی، استفتائات جدید، 1427ھ، ج1، ص469۔
- ↑ فیاض، المسائل الطبیۃ، ص92۔
- ↑ خرازی، «تغییر الجنسیۃ»، ص241۔
- ↑ خرازی، «تغییر الجنسیۃ»، ص241۔
- ↑ کریمی نیا، تغییر جنسیت، 1389شمسی، ص206۔
- ↑ منتظری، دراسات فی المکاسب المحرمہ، 1415ھ، ص517؛ منتظری، احکام پزشکی مطابق با فتاوای منتظری، 1385شمسی، ص66؛ مؤمن قمی، «سخنی دربارہ تغییر جنسیت»، ص96۔
- ↑ خرازی، «تغییر الجنسیۃ»، ص241۔
- ↑ منتظری، احکام پزشکی مطابق با فتاوای منتظری، 1385شمسی، ص66؛ مؤمن قمی، «سخنی دربارہ تغییر جنسیت»، ص96۔
- ↑ خرازی، «تغییر الجنسیۃ»، ص241۔
- ↑ خرازی، «تغییر الجنسیۃ»، ص241۔
- ↑ خمینی، کتاب البیع، 1421ھ، ج1، ص41-42؛ مؤمن قمی، کلمات سدیدۃ، 1415ھ، ص163-164۔
- ↑ خرازی، «تغییر الجنسیۃ»، ص241۔
- ↑ خویی، استفتائات، مؤسسۃ الخوئی الإسلامیۃ، ص386۔
- ↑ گلپایگانی، ارشاد السائل، 1413ھ، ص70۔
- ↑ تبریزی، فقہ الاعذار الشرعیۃ و المسائل الطبیۃ، 1422ھ، ص112۔
- ↑ بہجت، استفتائات، 1396شمسی، ص259۔
- ↑ صافی گلپایگانی، استفتائات پزشکی، 1396شمسی، ص237۔
- ↑ «عمل تغییر جنسیت»، سایت پایگاہ اطلاع رسانی دفتر مقام معظم رہبری.
- ↑ علوی گرگانی، استفتائات پزشکی، 1395شمسی، ص119۔
- ↑ دلیر، تغییر جنسیت آری یا نہ؟ (درس خارج فقہ آیتاللہ دوزدوزانی)، 1387شمسی، ص31۔
- ↑ دلیر، تغییر جنسیت آری یا نہ؟ (درس خارج فقہ آیتاللہ دوزدوزانی)، 1387شمسی، ص40۔
- ↑ سورہ نساء، آیات 117-119؛ خرازی، «تغییر الجنسیۃ»، ص241-242۔
- ↑ خرازی، «تغییر الجنسیۃ»، ص241-242؛ دلیر، تغییر جنسیت آری یا نہ؟ (درس خارج فقہ آیتاللہ دوزدوزانی)، 1387شمسی، ص46۔
- ↑ حر عاملی، وسائل الشیعہ، باب تحریم تشبہ الرجال بالنساء و النساء بالرجال، 1412ھ، ج17، ص284؛ دلیر، تغییر جنسیت آری یا نہ؟ (درس خارج فقہ آیتاللہ دوزدوزانی)، 1387شمسی، ص53۔
- ↑ دلیر، تغییر جنسیت آری یا نہ؟ (درس خارج فقہ آیتاللہ دوزدوزانی)، 1387شمسی، ص53-54؛ سبحانی، «تغییر جنسیت در فقہ اسلامی»، ص8۔
- ↑ کریمی نیا، تغییر جنسیت، ص154۔
- ↑ قاسمی، دانشنامہ فقہ پزشکی، 1395شمسی، ج2، ص50۔
- ↑ ملاحظہ کیجیے: تبریزی، فقہ الاعذار الشرعیۃ و المسائل الطبیۃ، 1422ھ، ص112؛ علوی گرگانی، استفتائات پزشکی، 1395شمسی، ص120؛ صافی گلپایگانی، استفتائات پزشکی، 1396شمسی، ص245۔
- ↑ منتظری، احکام پزشکی مطابق با فتاوای آیتاللہ منتظری، 1385شمسی، ص66۔
- ↑ فاضل لنکرانی، احکام پزشکان و بیماران، 1427ھ، ص127۔
- ↑ خرازی، «تغییر الجنسیۃ»، ص242۔
- ↑ سبحانی، «تغییر جنسیت از دیدگاہ فقہ»، ص11۔
- ↑ شیرازی، المسائل الطبیۃ، 1428ھ، ص50۔
- ↑ گلپایگانی، ارشاد السائل، 1413ھ، ص70؛ خرازی، «تغییر الجنسیۃ»، ص243۔
- ↑ خرازی، «تغییر الجنسیۃ»، ص243؛ مؤمن قمی، «سخنی دربارہ تغییر جنسیت»، ص95؛ سبحانی، «تغییر جنسیت از دیدگاہ فقہ اسلامی»، ص4۔
- ↑ ملاحظہ کیجیے: صافی گلپایگانی، استفتائات پزشکی، 1396شمسی، ص243؛ علوی گرگانی، استفتائات پزشکی، 1395شمسی، ص119؛ دلیر، تغییر جنسیت آری یا نہ؟ (درس خارج فقہ آیتاللہ دوزدوزانی)، 1387شمسی، ص57-58؛ سبحانی، تغییر جنسیت از دیدگاہ فقہ اسلامی»، ص4-5۔
- ↑ امامی اہوازی، التحول الجنسی، 1442ھ، ص31۔
- ↑ منتظری، دراسات فی المکاسب المحرمۃ، 1415ھ، ج2، ص517۔
- ↑ خامنہای، اجوبۃ الاستفتائات، 1415ھ، ج2، ص34۔
- ↑ خرازی، «تغییر الجنسیۃ»، ص242۔
- ↑ ملاحظہ کیجیے: خمینی، تحریر الوسیلہ، 1379شمسی، ج2، ص597؛ منتظری، احکام پزشکی مطابق با فتاوای آیت اللہ منتظری، 1385شمسی، ص69؛ فاضل لنکرانی، احکام بیماران و پزشکان، 1427ھ، ص134؛ علوی گرگانی، استفتائات پزشکی، 1396شمسی، ص120؛ خرازی، «تغییر الجنسیۃ»، ص247؛ مؤمن قمی، «سخنی دربارہ تغییر جنسیت»، ص97۔
- ↑ خمینی، تحریر الوسیلہ، 1379شمسی، ج2، ص597۔
- ↑ فاضل لنکرانی، احکام بیماران و پزشکان، 1427ھ، ص143۔
- ↑ خمینی، تحریر الوسیلہ، 1379شمسی، ج2، ص597؛ منتظری، احکام پزشکی، ص69؛ خرازی، «تغییر الجنسیۃ»، ص249۔
- ↑ خمینی، تحریر الوسیلہ، 1379شمسی، ج2، ص597۔
- ↑ منتظری، احکام پزشکی مطابق با فتاوای آیتاللہ منتظری، 1385شمسی، ص69۔
- ↑ فاضل لنکرانی، احکام پزشکان و بیماران، 1427ھ، ص143۔
- ↑ ملاحظہ کیجیے: خمینی، تحریر الوسیلہ، ج2، ص597؛ احکام پزشکان و بیماران، 1427ھ، ص144؛ خرازی، «تغییر الجنسیۃ»، ص259۔
- ↑ خرازی، «تغییر الجنسیۃ»، ص260۔
- ↑ خمینی، تحریر الوسیلہ، 1379شمسی، ج2، ص598؛ فاضل لنکرانی، احکام پزشکان و بیماران، 1427ھ، ص144؛ صافی گلپایگانی، استفتائات پزشکی، 1396شمسی، ص244؛ خرازی، «تغییر الجنسیۃ»، ص259-260؛ مؤمن قمی، «سخنی دربارہ تغییر جنسیت»، ص106۔
- ↑ کریمینیا، تغییر جنسیت، 1389شمسی، ص20۔
- ↑ دلیر، تغییر جنسیت، آری یا نہ؟، 1387شمسی، ص6۔
- ↑ دلیر، تغییر جنسیت، آری یا نہ؟، 1387شمسی، ص1۔
نوٹ
مآخذ
- ابوشادی، انس عبدالفتاح، «التحول الجنسی بین الفقہ و الطب و القانون»، مجلۃ الدرایۃ، شمارہ 16، سال 2016ء۔
- امامی اہوازی، مصطفی، التحول الجنسی، دراسۃ فقہیۃ تبحث عن تغییر الجنس من ذکر لانثی و العکس، قم، دار التہذیب، 1442ھ۔
- بہجت، محمدتقی، استفتائات، قم، دفتر آیت اللہ محمدتقی بہجت، 1396ہجری شمسی۔
- تبریزی، میرزا جواد، استفتائات جدید، قم، انتشارات سرور، چاپ سوم، 1385ہجری شمسی۔
- تبریزی، میرزا جواد، فقہ الاعذار الشرعیۃ و المسائل الطبیۃ، قم،دار الصدیقۃ الشہیدۃ، 1422ھ۔
- «تغییر جنسیت در ایران»، سایت خبری بیبی سی، تاریخ درج مطلب: 19 مہ 2006م، تاریخ بازدید: 21 تیر 1401ہجری شمسی۔
- جمعی از نویسندگان، فرہنگ فقہ فارسی، قم، مؤسسہ دایرۃ المعارف الفقہ الاسلامی، 1387ہجری شمسی۔
- جناتی، محمدابراہیم، رسالہ توضیح المسائل (استفتائات)، قم، انصاریان، 1388ہجری شمسی۔
- حر عاملی، محمد بن الحسن، وسائل الشیعۃ، قم، مؤسسہ آل البیت(ع)، 1412ھ۔
- خامنہای، سید علی، اجوبۃ الاستفتائات، کویت، دار النبأ، چاپ اول، 1415ھ۔
- خرازی، سیدمحسن، «تغییر جنسیت»، فصلنامہ فقہ اہل بیت(ع)، شمارہ 23، پاییز 1379ہجری شمسی۔
- خمینی، سید روح اللہ، تحریر الوسیلہ، قم، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، بیتا۔
- خمینی، سید روح اللہ، کتاب البیع، تہران، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، چاپ اول، 1421ھ۔
- خویی، سید ابوالقاسم، استفتائات، قم، مؤسسۃ الخوئی الإسلامیۃ، بیتا.
- دلیر، محسن، تغییر جنسیت آری یا نہ؟ (درس خارج فقہ آیت اللہ دوزدوزانی تبریزی)، قم، آثار امین، 1393ہجری شمسی۔
- «سازمان پزشکی قانونی: آمار زنان متقاضی تغییر جنسیت از مردان بیشتر است.»، سایت ایندیپندنت فارسی، تاریخ درج مطلب: 18 اسفند 1400ش، تاریخ بازدید: 3 مرداد 1401ہجری شمسی۔
- «سالانہ بیش از 270 ایرانی تغییر جنسیت میدہند/ 56 درصد متقاضیان میخواہند زن شوند.»، سایت خبر آنلاین، تاریخ درج مطلب: 13 آذر 1391ش، تاریخ بازدید: 3 مرداد 1401ہجری شمسی۔
- سبحانی، جعفر، «تغییر جنسیت از دیدگاہ فقہ اسلامی»، فصلنامہ فقہ اہل بیت(ع)، شمارہ 69، بہار 1391ہجری شمسی۔
- شیرازی، سیدصادق، المسائل الطبیۃ، قم، یاس الزہراء، چاپ دوم، 1428ھ۔
- صافی گلپایگانی، لطفاللہ، استفتائات پزشکی، قم، دفتر تنظیم و نشر آثار آیتاللہ العظمی صافی گلپایگانی، 1396ہجری شمسی۔
- علوی گرگانی، سید محمدعلی، استفتائات پزشکی، قم، انتشارات فقیہ اہل بیت(ع)، 1395ہجری شمسی۔
- «عمل تغییر جنسیت»، سایت پایگاہ اطلاع رسانی دفتر مقام معظم رہبری، تاریخ درج مطلب: 19 آذر 1398ش، تاریخ بازدید: 20 تیر 1401ہجری شمسی۔
- فاضل لنکرانی، محمد، احکام پزشکان و بیماران، قم، مرکز فقہی ائمہ اطہار(ع)، چاپ اول، 1427ھ۔
- فیاض، محمداسحاق، المسائل الطبیۃ، قم، بینا، بیجا۔
- قاسمی، محمدعلی، دانشنامہ فقہ پزشکی، قم، مرکز فقہی ائمہ اطہار(ع)، 1395ہجری شمسی۔
- کریمینیا، محمدمہدی، تغییر جنسیت، قم، مرکز فقہی ائمہ اطہار(َع)، چاپ اول، 1389ہجری شمسی۔
- گلپایگانی، سید محمدرضا، ارشاد السائل، بیروت،دار الصفوۃ، 1413ھ۔
- مؤمن قمی، محمد، «سخنی دربارہ تغییر جنسیت»، فصلنامہ فقہ اہل بیت(ع)، شمارہ 7، سال 1375ہجری شمسی۔
- مؤمن قمی، محمد، کلمات سدیدۃ فی مسائل جدیدۃ، قم، مؤسسہ النشر الاسلامی، 1415ھ۔
- محسنی، محمدآصف، الفقہ و المسائل الطبیۃ، قم، انتشارات یاران، بیتا۔
- مشکینی، علی، مصطلحات الفقہ، قم، انتشارات الہادی، 1381ہجری شمسی۔
- مکارم شیرازی، ناصر، استفتائات جدید، قم، مدرسہ الامام علی بن ابی طالب(ع)، چاپ دوم، 1427ھ۔
- مکارم شیرازی، ناصر، احکام پزشکی، قم، مدرسہ الامام علی بن ابی طالب(ع)، چاپ اول، 1429ھ۔
- منتظری، حسین علی، احکام پزشکی مطابق با فتاوای منتظری، تہران، انتشارات سایہ، چاپ سوم، 1385ہجری شمسی۔
- منتظری، حسین علی، دراسات فی المکاسب المحرمۃ، قم، نشر تفکر، 1415ھ۔
- ہمسادی، فرحان و مصطفی بن محمد جبری شمس الدین، «حکم تحویل الجنس: دراسۃ تقویمیۃ فی ضوء مقاصد الشریعۃ»، الفقہ و اصول الفقہ، 2018ء۔
- »Transexual»، Oxford learner,s dictionaries، seen in: 16 July 2022.
- Bizic, Marta and others, Sex reassignment surgery, Medical youth, Jun 2015.