مندرجات کا رخ کریں

آیت اہلہ

ویکی شیعہ سے
آیت اہلّہ
آیت کی خصوصیات
سورہبقرہ
آیت نمبر189
پارہ2
شان نزولچاند میں آنے والی تبدیلوں کے بارے میں پیغمبر اکرمؐ سے پوچھے گئے سوالات
محل نزولمدینہ
موضوعچاند کی تخلیق کا فلسفہ، دور جاہلیت کے خرافات کی نفی
مربوط آیاتسورہ یونس آیت نمبر 5، سورہ اسراء آیت نمبر 12


آیت اہِلّہ یا سورہ بقرہ آیت نمبر 189، چاند کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں نازل ہوئی۔ اس آیت میں چاند کی تخلیق کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے اسے تقویم اور حج جیسے بعض عبادتوں کے لئے شرعی اوقات کی تعیین کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔ مزید براں، یہ آیت تقویٰ کی طرف دعوت دینے کے ساتھ ساتھ، جاہلیت کے توہم پرستانہ عقائد جیسے حرام مہینوں میں گھروں کے عقبی دروازوں سے داخل ہونا، کی نفی کرتے ہوئے نیکی کو تقوی اور پرہیزگاری میں خلاصہ کرتی ہے۔

احادیث کے مطابق اس آیت میں ‘گھروں میں دروازوں سے داخل ہونے’ کا ذکر حقیقت میں اہل بیتؑ کی طرف رجوع کرنے کی طرف اشارہ ہے، جو ہدایت کا ذریعہ ہیں۔ اس آیت کی فلسفیانہ، سماجی اور اخلاقی تفسیر میں فطرت اور شریعت کے درمیان تعلق اور اخلاقی اصولوں کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔

شرعی اوقات کے تعین میں چاند کا کردار

سورہ البقرہ آیت نمبر 189 جو ‘آیت اہلّہ’ کے نام سے بھی جانی جاتی ہے،[1] ایک فقہی اور سماجی مسئلے کی نشاندہی کرتی ہے اور اس سوال کا جواب دیتی ہے جس میں پیغمبر اکرمؐ سے چاند کی تخلیق کے فلسفے کے بارے میں پوچھا گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس آیت کے مطابق چاند کی تخلیق کا مقصد لوگوں کے لیے تقویم اور حج وغیرہ کے ایام معین کرنا ہے۔[2]

علامہ طباطبائی کے مطابق آیت اہلّہ چاند کو شرعی امور کی تعیین کا ایک ذریعہ قرار دیتی ہے۔[3] شیعہ فقہا نے رؤیت ہلال،[4] قمری سال[5] اور مہینے[6] کی تعیین جیسے فقہی مباحث میں اس آیت سے استناد کیا ہے۔ شیعہ مفسر اور فقیہ آیت اللہ جوادی آملی اس آیت کو مضمون کے اعتبار سے سورہ یونس آیت نمبر 5 اور سورہ اسراء آیت نمبر 12 کے ساتھ شبیہ قرار دیتے ہیں، جو مہینوں اور دنوں کی تعیین میں چاند کی تبدیلیوں کی طرف اشارہ ہے۔[7]

مذکورہ آیت میں شرعی امور کی تعیین میں چاند کی تبدیلیوں کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے، مسلمانوں کو خرافات اور بے بنیاد اعمال سے دور رہنے اور تقویٰ پر مبنی معقول رویوں کو اپنانے کی ترغیب دیتی ہے۔[8]

یَسْأَلُونَکَ عَنِ الْأَہِلَّۃِ قُلْ ہِیَ مَوَاقِیتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ وَلَیْسَ الْبِرُّ بِأَنْ تَأْتُوا الْبُیُوتَ مِنْ ظُہُورِہَا وَلَکِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَیٰ وَأْتُوا الْبُیُوتَ مِنْ أَبْوَابِہَا وَاتَّقُوا اللَّہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ
(اے رسول(ص)) لوگ آپ سے نئے چاندوں کے بارے میں پوچھتے ہیں (کہ وہ گھٹے بڑھتے کیوں ہیں؟) کہہ دیجئے کہ یہ لوگوں کے (دنیوی معاملات) کی تاریخیں اور حج کے لئے اوقات مقرر کرنے کا ذریعہ ہیں اور یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے کہ تم گھروں میں پچھواڑے کی طرف سے (پھاند کر) آؤ۔ بلکہ نیکی تو یہ ہے کہ (آدمی غلط کاری سے) پرہیزگاری اختیار کرے۔ اور گھروں میں ان کے دروازوں سے داخل ہوا کرو۔ اور خدا سے ڈرو (اس کے قہر و غضب سے بچو) تاکہ تم فلاح پاؤ۔



سورہ بقرہ، آیت 189


دینی معاملات میں اہل بیت کی مرجعیت

سورہ البقرہ آیت 189، قرآن کریم کی ان پندرہ آیات میں سے ایک ہے جو ‘یَسْأَلُونَکَ’ (وہ تم سے سوال کرتے ہیں) کے فقرے سے شروع ہوتی ہیں۔ قرآن میں اس تعبیر کا بار بار آنا دینی معاملات میں پیغمبر اکرمؐ کی مرجعیت کی دلیل اور لوگوں کے سوالات کے جواب دینے میں آپؐ کی دلچسپی اور خندہ پیشانی کا منہ بولتا ثبوت سمجھا جاتا ہے۔[9]

اس آیت کے حوالے سے نقل ہونے والی شیعہ احادیث میں کہا گیا ہے کہ اس آیت میں گھروں میں ان کے دروازوں سے داخل ہونے کا ذکر اہل بیتؑ کی طرف رجوع کرنے کی طرف اشارہ ہے۔ تیسری صدی ہجری کے محدث اور مفسر علی بن ابراہیم قمی حدیث مدینۃ العلم حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ مذکورہ آیت میں ‘دروازے’ سے مراد حضرت علیؑ ہیں۔[10] محمد بن حسن صفار قمی (وفات 290 ھ) نے امام باقرؑ سے ایک حدیث نقل کی ہے جس کے مطابق پیغمبر اکرمؐ اور ان کی آلؑ وہ دروازے ہیں جن کے ذریعے خدا کی طرف سفر کرنے کے لیے داخل ہونا چاہیے۔[11] فرات بن ابراہیم کوفی(وفات 352ھ) کی تفسیر کے مطابق پیغمبر اکرمؑ نے خود کو ‘باب اللہ’ اور حضرت علیؑ کو اپنا ‘دروازہ’ قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ جو کوئی کسی اور راستے سے آئے گا، وہ منزل مقصود تک نہیں پہنچے گا۔[12] معصومینؑ کے اقوال کی حیثیت اور مقام و مرتبے کو ثابت کرنے کے لیے بھی اس آیت سے استناد کیا گیا ہے۔[13]

مختلف تفسیری رجحانات

شیعہ مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں مختلف طریقے اختیار کیے ہیں۔ علامہ طباطبائی نے اپنی تفسیر ‘المیزان’ میں فلسفیانہ انداز میں اس آیت کو فطرت اور شریعت کے درمیان تعلق کا بیان قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ چاند کی تبدیلیاں فطرت میں الہیٰ نظم و ضبط کی ایک جھلک ہیں جو شرعی اور سماجی امور کو منظم کرنے میں مدد دیتی ہیں۔[14] چودھویں صدی ہجری کے شیعہ مفسرین جیسے آیت اللہ جوادی آملی اور اکبر ہاشمی رفسنجانی نے سماجی رجحانات کے ساتھ اس آیت کو زمان جاہلیت کے آداب و رسوم کی اصلاح اور ان کی جگہ منطقی اور اخلاقی اصولوں کی رعایت کرنے کی طرف اشارہ قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق قرآن اس آیت میں اسلامی معاشرے کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ نیکی اور اچھائی کا دار و مدار بے بنیاد اعمال اور خرافات کی پیروی میں نہیں، بلکہ اخلاقی اور منطقی اصولوں کی رعایت میں ہے۔[15] اسی طرح آیت اللہ جوادی آملی اور محسن قرائتی نے اخلاقی طرز تفکر کی بنیاد پر تصریح کی ہے کہ تقویٰ کو اس آیت میں نیکی کا محور قرار دیا گیا ہے اور دروازوں سے داخل ہونے سے مراد زندگی میں اخلاقی اصولوں کی رعایت اور غیر منطقی رویوں سے پرہیز کرنے کی نشاندہی کرتا ہے۔[16]

شانِ نزول

تفسیری احادیث کے مطابق سورہ بقرہ آیت نمبر 189 کی مختلف شانِ نزول بیان کئے گئے ہیں:

  • فضل بن حسن طبرسی (وفات 548ھ) کی نقل کے مطابق یہ آیت چاند کی تخلیق کے فلسفہ اور مقصد کے بارے میں یہودیوں کی طرف سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں نازل ہوئی۔ انہوں نے پیغمبر اکرمؐ سے چاند میں آنے والی تبدیلیوں کی وجہ پوچھی تو اللہ نے اس آیت کے نزول کے ذریعے چاند کی تخلیق کا مقصد واضح کیا۔[17] اہل سنت مفسر فخر رازی (وفات 606ھ) کے مطابق پیغمبر اکرمؐ سے یہ سوال انصار میں سے دو صحابہ معاذ بن جبل اور ثعلبۃ بن غنم نے پوچھا تھا۔[18]
  • تفسیر المنار کے مطابق جاہلیت کے دور میں کچھ لوگ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ احرام کی حالت میں گھروں کے دروازوں سے داخل ہونا احرام کے ممنوعات میں سے ہے اور اسے ترک کرنا چاہیے۔ قرآن نے اس عقیدے کو رد کیا اور تاکید کی کہ نیکی تقویٰ میں ہے، نہ کہ خرافی عادات کی پیروی میں، اور حکم دیا کہ گھروں میں معمول کے راستوں سے داخل ہوں۔[19]
  • ایک اور نقل کے مطابق اسلام سے قبل جاہلیت کے دور میں، اگر کوئی شخص کسی کام میں ناکام ہو جاتا تھا، تو گھر کے دروازے سے داخل ہونے کے بجائے، اس کے پچھواڑے سے داخل ہوتا تھا اور یہ عادت ایک سال تک جاری رکھتا تھا۔ اللہ نے اس آیت میں ایسے خرافی رویے سے منع کیا اور تاکید کی کہ نیکی پرہیزگاری اور اللہ پر توکل میں ہے، نہ کہ ایسی بے بنیاد عقائد کی پیروی میں۔[20]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. ہاشمی شاہرودی،‌ فرہنگ فقہ، 1385ش،‌ ص183۔
  2. قرائتی، تفسیر نور،‌ 1388ش، ج1، ص297۔
  3. طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن،‌ 1390ھ، ج2، ص56۔
  4. رجوع کریں: سید مرتضی، رسائل الشریف المرتضی، 1405ھ، ج1،‌ص158؛ علامہ حلی، مختلف الشیعۃ، 1374ش، ج3،‌ ص497۔
  5. رجوع کریں: شیخ طوسی،‌ المبسوط، 1387ھ، ج3، ص254۔
  6. رجوع کریں: شیخ طوسی، الخلاف، 1407ھ، ج5، ص60۔
  7. جوادی آملی، تفسیر تسنیم، 1388ش، ج9، ص536-537۔
  8. جمعی از پژوہشگران، موسوعۃ الفقہ الإسلامی، 1423ھ، ج3، ص339-340۔
  9. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ش،‌ ج2، ص13-14۔
  10. قمی، تفسیر القمی، 1404ھ، ج1، ص68۔
  11. صفار، بصائر الدرجات،‌ 1404ھ، ج1، ص499۔
  12. کوفی، تفسیر فرات الکوفی، 1410ھ، ص63-64۔
  13. بروجردی،‌ منابع فقہ شیعہ، 1387ش،‌ج1، ص420۔
  14. طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن،‌ 1390ھ، ج2، ص56۔
  15. جوادی آملی، تفسیر تسنیم، 1388ش، ج9، ص546-547؛ ہاشمی رفسنجانی، تفسیر راہنما،‌ 1386ش، ج1، ص477-478۔
  16. جوادی آملی، تفسیر تسنیم، 1388ش، ج9، ص549-550؛ قرائتی، تفسیر نور،‌ 1388ش، ج1، ص299۔
  17. طبرسی،‌ مجمع‌البیان، 1408ھ، ج2، ص508۔
  18. فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج5، ص281۔
  19. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ش،‌ ج2، ص12۔
  20. ابن‌کیسان، تفسیر ابی بکر الاصمّ، 1428ھ، ص120۔

مآخذ

  • ابن‌کیسان، عبدالرحمن، تفسیر ابی‌بکر الاصمّ، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، چاپ اول، 1428ھ۔
  • بروجردی،‌ سید حسین، منابع فقہ شیعہ، تہران، فرہنگ سبز، چاپ اول، 1386ہجری شمسی۔
  • جمعی از پژوہشگران، موسوعۃ الفقہ الإسلامي طبقا لمذہب أہل البیت علیہم السلام، قم، مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی بر مذہب اہل بيتؑ، چاپ اول، 1423ھ۔
  • جوادی آملی، عبداللہ، تفسیر تسنیم، قم، اسراء، 1388ہجری شمسی۔
  • سید مرتضی، علی بن حسین، رسائل الشریف المرتضی، قم، دارالقرآن الکریم، چاپ اول، 1405ھ۔
  • شیخ طوسی،‌ محمد بن حسن، کتاب الخلاف، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین، چاپ اول، 1407ھ۔
  • شیخ طوسی،‌ محمد بن حسن، المبسوط فی فقہ الامامیۃ، تہران، مکتبۃ المرتضویۃ، چاپ سوم، 1387ھ۔
  • صفار، محمد بن حسن، بصائر الدرجات،‌ قم، مكتبۃ آيۃاللہ المرعشی النجفی‏، چاپ دوم، 1404ھ۔
  • طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن،‌ بیروت، الاعلمی فی المطبوعات، 1390ھ۔
  • طبرسی،‌ فضل بن حسن، مجمع‌ البیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دارالمعرفۃ، چاپ دوم، 1408ھ۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، مختلف الشیعۃ في أحکام الشریعۃ، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین، چاپ دوم، 1374ش
  • فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ سوم، 1420ھ۔
  • قرائتی، محسن، تفسیر نور،‌ تہران، مرکز فرہنگی درس‌ہایی از قرآن، چاپ اول، 1388ہجری شمسی۔
  • قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، قم، دار الکتاب، چاپ سوم، 1404ھ۔
  • کوفی، فرات بن ابراہیم، تفسیر فرات الکوفی، تہران، مؤسسۃ الطبع و النشر فی وزارۃ الإرشاد الإسلامی‏، چاپ اول، 1410ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الاسلامیۃ، چاپ سی و دوم، 1374ہجری شمسی۔
  • ہاشمی رفسنجانی، اکبر، تفسیر راہنما،‌ قم، بوستان کتاب، چاپ پنجم، 1386ہجری شمسی۔
  • ہاشمی شاہرودی، محمود، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیتؑ، قم، مؤسسۃ دائرۃ معارف الفقہ الاسلامی، 1385ہجری شمسی۔