عمل صالح
عمل صالح سے مراد نیک اعمال ہیں، جنہیں مذہبی کتابوں میں خدا پر ایمان کے ساتھ انسانی سعادت کی شرط قرار دیا گیا ہے۔ جو مومنین نیک اعمال انجام دیتے ہیں قرآن میں انہیں خدا کی مخلوقات میں بہترین مخلوق قرار گیا دیا ہے۔ قرآن مجید کی آیات کے مطابق قیامت کے دن جہنمیوں کی خواہش ہوگی کہ وہ دنیا میں لوٹ کر نیک اعمال بجا لائیں۔ قرآن میں ایمان کے ساتھ عمل صالح کا نتیجہ حیات طیبہ (اچھی زندگی) ہے۔ قرآن تمام انسانوں کو خسارے میں دیکھتا ہے، سوائے ان مومنوں کے جو نیک عمل بجا لاتے ہیں۔
صالح عمل میں کوئی بھی فردی اور سماجی نیک عمل شامل ہے۔ اعمال صالحہ کی چند مثالیں کچھ یوں بیان کی گئی ہیں: اللہ کی اطاعت، صدقہ، واجبات کو ادا کرنا اور حرام کو ترک کرنا، علم حاصل کرنا، عبادت کرنا، اور کوئی بھی ایسا کام جو معاشرے کی ترقی کا باعث بنتا ہو۔ قرآنی محققین کا کہنا ہے کہ ایمان اور عمل صالح کا ایک دوسرے پر گہرا اثر ہوتا ہے اور دونوں کا وجود ایک دوسرے کی ترقی کا باعث بنتے ہیں اور صرف ایمان یا صرف عمل صالح انسان کی نجات کا باعث نہیں بن سکتے۔
اہمیت
جو اپنے رب سے ملنے کی امید رکھتا ہے اسے چاہیے کہ عمل صالح کرے۔
قرآن میں ایمان کے ساتھ ساتھ اعمال صالحہ کو انسان کی نجات اور سعادت کے لیے شرط قرار دیا گیا ہے۔[1] اعمال صالحہ کرنے کی سفارش اور ایسا کرنے پر جنت کا ثواب قرآن مجید کی متعدد آیات[2] میں مذکور ہے۔[3] اعمال صالح کا لفظ قرآن مجید میں مختلف شکلوں میں 87 مرتبہ آیا ہے۔[4] لفظ "الَّذِينَ امَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحَات" قرآن مجید میں کثرت سے نظر آتا ہے۔[5] قرآن کے مطابق ہر وہ شخص جو مومن ہوتے ہوئے نیک عمل کرے گا وہ جنت میں جائے گا۔[6]
مفسرین نے اس بات پر زور دیا ہے کہ دین میں جو چیز اہم ہے اور جو چیز انسان کے لیے سعادت اور وقار کا باعث ہے وہ ایمان اور عمل صالح ہے۔[7] کہا گیا ہے کہ خدا کے ساتھ حقیقی دوستی وہ ہے جو اعمال صالحہ کی عکاسی کرتی ہو، ورنہ عمل صالح کے بغیر ایمان خود فریبی ہے۔[8]
عمل صالح کے معنی اور مثالیں
صالح عمل کو ایک کلی اور عمومی تصور سمجھا جاتا ہے جو نیک اور اچھے عمل کے معنی میں ہے۔[9] کہا جاتا ہے کہ ہر انفرادی، سماجی، عبادتی اور سیاسی شایستہ کام اس میں شامل ہے۔[10]
اطاعت الٰہی،[11] جہاد،[12] رسول اللہؐ کی پیروی،[13] واجبات کی دائیگی، حرام کاموں کو ترک کرنا،[14] عبادات کرنا، انفاق کرنا، علم حاصل کرنا، اور کوئی بھی ایسا نیک عمل جو انسانی معاشرے کے تمام شعبوں میں ترقی کا باعث ہو[15] یہ سب عمل صالح کی مثالیں ہیں۔
ایمان اور عمل صالح کا تعلق
جو شخص نیکی کرے خواہ وہ مرد ہو یا عورت، حالانکہ وہ مومن ہے، ہم اسے پاکیزہ زندگی عطا کریں گے۔
جعفر سبحانی کے مطابق، قرآن مجید میں جہاں پر عمل صالح کا ذکر ہوا ہے وہیں زیادہ تر موارد میں خدا پر ایمان کا بھی ذکر ہوا ہے۔[16] ان کے مطابق ایمان اور اعمال صالحہ کا ایک دوسرے پر اثر ہوتا ہے اور ہر ایک کا وجود دوسرے کی ترقی کا باعث بنتا ہے۔[17] ایک جاپانی قرآنی اسکالر ایزٹسو (Izutsu) نے کہا ہے کہ یہ انحصار اتنا مضبوط ہے کہ ایمان کی تعریف عمل صالح سے اور عمل صالح کو ایمان سے کی جا سکتی ہے۔[18] مفسرین نے قرآن کی آیات کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ صرف وہی نیک اعمال قبول کیے جاتے ہیں جو ایمان کے ساتھ ہوں۔[19] وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ نیک اعمال ایمان کے درخت کا پھل ہیں[20] اور اسی سے پیدا ہوئے ہیں۔[21]
عمل صالح کا نتیجہ
قرآن مجید کے مطابق اعمال صالحہ کا پھل دنیا اور آخرت دونوں میں نظر آتا ہے[22] اور جس کے پاس زیادہ سے زیادہ ایمان اور عمل صالح ہو گا وہ اسی حد تک نجات کے اعلیٰ درجے کو پہنچے گا۔[23] سورہ بینہ کی آیت نمبر 7 میں نیک اعمال کرنے والے مومنوں کو خدا کی بہترین مخلوق قرار دیا گیا ہے۔[24] سورہ فاطر کی آیت نمبر 10 میں پاکیزہ کلام (صحیح عقیدہ) اور اعمال صالحہ کو روحانی قرب کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔[25] قرآن مجید کی بعض آیات[26] میں بیان کیا گیا ہے کہ قیامت کے دن جہنمی یہ خواہش ظاہر کریں گے اس دنیا میں لوٹ کر نیک اعمال انجام دیں۔[27] جنت کے اعلیٰ درجات کا وعدہ ان مومنوں سے کیا گیا ہے جنہوں نے نیک اعمال انجام دئے ہیں۔[28] قرآن تمام انسانوں کو خسارے میں دیکھتا ہے سوائے ان ایمان والوں کے جو نیک عمل انجام دیتے ہیں۔[29]
حوالہ جات
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ش، ج4، ص142 و ج16، ص141؛ منتظری، اسلام دین فطرت، 1385ش، ص298؛ مطہری، مجموعہ آثار، 1389ش، ج22، ص96.
- ↑ از جملہ، آیہ 10 و 37 سورہ فاطر، آیہ 97 سورہ نحل، آیہ 88 و 110 سورہ کہف، آیہ 9 سورہ تغابن، آیہ 3 سورہ عصر، آیہ 55 سورہ نور، آیہ 120 سورہ توبہ، آیہ 62 سورہ بقرہ، آیہ 15 سورہ جاثیہ، آیہ 67 سورہ قصص، آیہ 14، 23 و 56 سورہ حج، آیہ 12 سورہ محمد، آیہ 82 سورہ بقرہ، آیہ 75 سورہ طہ.
- ↑ سبحانی، منشور جاوید، قم، ج14، ص338 و 345؛ محسنی، انوار ہدایت، 1394ش، ج1، ص348.
- ↑ سبحانی، منشور جاوید، قم، ج14، ص338.
- ↑ مکارم شیرازی، اخلاق اسلامی در نہج البلاغہ (خطبہ متقین)، 1385ش، ج1، ص520.
- ↑ قرائتی، تفسیر نور، 1388ش، ج2، ص170.
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ش، ج1، ص282؛ قرائتی، تفسیر نور، 1388ش، ج1، ص129.
- ↑ مدرسی، تفسیر ہدایت، 1377ش، ج1، ص514.
- ↑ سبحانی، منشور جاوید، قم، ج14، ص339؛ خوشدل مفرد، «بررسی حوزہ معنایی عمل صالح در قرآن»، ص17.
- ↑ طباطبایی، المیزان، 1390ق، ج20، ص357؛ مکارم شیرازی، پیام قرآن، 1386ش، ج6، ص154؛ کاشانی، منہج الصادقین فی إلزام المخالفین، تہران، ج10، ص314.
- ↑ میبدی، کشف الاسرار و عدة الابرار، 1371ش، ج6، ص468.
- ↑ طباطبایی، المیزان، 1390ق، ج9، ص403.
- ↑ کاشانی، منہج الصادقین فی إلزام المخالفین، تہران، ج5، ص375.
- ↑ خوشدل مفرد، «بررسی حوزہ معنایی عمل صالح در قرآن»، ص17.
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ش، ج27، ص299.
- ↑ سبحانی، منشور جاوید، قم، ج14، ص340 و 341.
- ↑ سبحانی، منشور جاوید، قم، ج14، ص338.
- ↑ ایزوتسو، مفاہیم اخلاقی دینی در قرآن مجید، 1394ش، ص415.
- ↑ قرائتی، تفسیر نور، 1388ش، ج4، ص577؛ ارزانی، «ہمراہی اثربخش ایمان و عمل صالح (با تکیہ بر المیزان)»، ص122.
- ↑ مکارم شیرازی، پیام قرآن، 1386ش، ج6، ص153؛ مکارم شیرازی، اخلاق اسلامی در نہج البلاغہ (خطبہ متقین)، 1385ش، ج1، ص520.
- ↑ سبحانی، منشور جاوید، قم، ج14، ص346.
- ↑ سبحانی، منشور جاوید، قم، ج14، ص344.
- ↑ مصباح یزدی، رستگاران، قم، ص144.
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ش، ج27، ص208؛ ارزانی، «ہمراہی اثربخش ایمان و عمل صالح (با تکیہ بر المیزان)»، ص134.
- ↑ سبحانی، منشور جاوید، قم، ج14، ص348؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ش، ج18، ص194.
- ↑ آیہ 100 سورہ مؤمنون، آیہ 12 سورہ سجدہ، آیہ 37 سورہ فاطر.
- ↑ ابوالفتوح رازی، روض الجنان و روح الجنان، 1408ق، ج14، ص51؛ قرائتی، تفسیر نور، 1388ش، ج7، ص308؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ش، ج18، ص275.
- ↑ طباطبایی، المیزان، 1390ق، ج14، ص183.
- ↑ ارزانی، «ہمراہی اثربخش ایمان و عمل صالح (با تکیہ بر المیزان)»، ص121.
مآخذ
- ابو الفتوح رازی، حسین بن علی، روض الجنان و روح الجنان فی تفسیر القرآن، مشہد، آستان قدس رضوی، بنیاد پژوہشہای اسلامی، 1408ھ۔
- ارزانی، حبیبرضا، و محمدرضا ارزانی، «ہمراہی اثربخش ایمان و عمل صالح (با تکیہ بر المیزان)»، اخلاق، شمارہ 9، سال سوم، بہار 1392ہجری شمسی۔
- ایزوتسو، توشیہیکو، مفاہیم اخلاقی دینی در قرآن مجید، ترجمہ فریدون بدرہای، تہران، فرزان روز، 1394ہجری شمسی۔
- خوشدل مفرد، حسین، «بررسی حوزہ معنایی عمل صالح در قرآن»، پژوہشنامہ علوم و معارف قرآن کریم، شمارہ4، پاییز 1388.
- سبحانی، جعفر، منشور جاوید، قم، مؤسسہ امام صادق (علیہ السلام)، بیتا.
- طباطبایی، سید محمدحسین. المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسة الأعلمی للمطبوعات، 1390ھ۔
- قرائتی، محسن، تفسیر نور، تہران، مرکز فرہنگی درسہایی از قرآن، 1388ش،
- کاشانی، فتحاللہ بن شکراللہ، منہج الصادقین فی إلزام المخالفین، تہران، کتابفروشی اسلامیہ، بیتا.
- محسنی، محمد آصف، انوار ہدایت، کابل، رسالات مرکز حفظ و نشر آثار حضرت آیتاللہ العظمی محسنی، 1394ہجری شمسی۔
- مدرسی، سید محمد تقی، تفسیر ہدایت، مشہد، آستان قدس رضوی، بنیاد پژوہشہای اسلامی، 1377ہجری شمسی۔
- مصباح یزدی، محمد تقی، رستگاران، تدوین و نگارش: محمدمہدی نادری قمی، قم، انتشارات مؤسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی(رہ)، بیتا.
- مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار، تہران، صدرا، 1389ہجری شمسی۔
- مکارم شیرازی، ناصر، اخلاق اسلامی در نہج البلاغہ (خطبہ متقین)، تہیہ و تنظیم: اکبر خادم الذاکرین، قم، نسل جوان، 1385ہجری شمسی۔
- مکارم شیرازی، ناصر، پیام قرآن، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، 1386ہجری شمسی۔
- مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الإسلامیہ، 1371ش،
- منتظری، حسینعلی، اسلام دین فطرت، تہران، نشر سایہ، 1385ہجری شمسی۔
- میبدی، احمد بن محمد، کشف الاسرار و عدة الابرار، بہ اہتمام علی اصغر حکمت، تہران، امیرکبیر، 1371ہجری شمسی۔