التمہید فی علوم القرآن (کتاب)

ویکی شیعہ سے
التمہید فی علوم القرآن
مشخصات
مصنفآیت اللہ معرفت
موضوععلوم قرآن
زبانعربی
تعداد جلد10 جلد
طباعت اور اشاعت
ناشرمؤسسہ فرہنگی انتشاراتی التمہید
مقام اشاعتقم
سنہ اشاعت1430ھ


اَلتّمْہید فی عُلومِ الْقُرْآن، علوم قرآن میں آیت اللہ معرفت (1349-1427ھ) کی عربی زبان میں لکھی گئی کتاب ہے۔ التمہید علوم قرآن میں موجودہ دور کی سب سے مفصل کتاب قرار دی گئی ہے، چھ جلدوں پر مشتمل ہے جس میں وحی، نزول قرآن، تاریخ قرآن، مختلف قرائتوں، ناسخ و منسوخ، محکم و متشابہ اور اعجاز قرآن سے بحث کی گئی ہے۔ اس کتاب کی تین جلدوں میں اعجاز قرآن کے مبانی اور خصوصیات سے بحث کی ہیں۔ آیت اللہ معرفت نے اس کتاب کی تألیف میں شیعہ سنی دونوں منابع کے علوم قرآ­ن، تفسیر اور تاریخی موضوعات سے استفادہ کیا ہے۔ التمہید کو جہاں مختلف تحقیقات میں منبع اصلی کی حیثیت حاصل ہے وہاں یہ کتاب مختلف دینی درسگاہوں، کالج اور یونیورسٹیوں کے درسی نصاب میں بھی شامل ہے۔

التمہید کی بعض خصوصیات یہ ہیں: پراکندگی سے دوری اور موضوع کو واضح اور آشکار بیان کرنا، اہل سنت اور اہل تشیع دونوں منابع سے استفادہ اور مباحث میں انتقادی نگاہ رکھنا۔ التمہید کو شیعوں کے یہاں قرآنی موضوع پر کسی مجموعے کے نہ ہونے کے خلاء کا جبران کننده تصور کیا جاتا ہے۔

التمہید کی تین جلدیں سنہ 1409ھ تک انتشارات مرکز مدیریت حوزہ علمیہ قم کی طرف سے شایع ہو چکی ہے۔ اس کے بعد دفتر انتشارات اسلامی نے اسے چھ جلدوں میں اور آخری بار مؤسسہ التمہید نے اسے دس جلدوں میں منتشر کیا ہے جس میں پہلی چھ جلدوں کے علاوہ تین کتابوں شبہات و ردود، صیانۃ القرآن من التحریف اور التفسیر و المفسرون کو بھی اس میں شامل کیا ہے۔ یہ آخری تین کتابیں اس سے پہلے مستقل طور پر شایع ہوتی تھیں۔ فارسی زبان میں التمہید کے مختلف ترجمے اور خلاصے شایع ہو چکے ہیں اس کے علاوہ اس کے مختلف حصے مستقل طور پر بھی شایع ہو چکے ہیں؛ من جملہ ان میں کتاب تناسب آیات اور التمہید ڈیجیٹل سافٹ ویر شامل ہیں جسے دفتر تبلیغات اسلامی حوزہ علمیہ قم نے نشر کیا ہے۔

مجموعی جائزہ

کتاب التمہید فی علوم القرآن جس کے مصنف آیت اللہ معرفت ہیں، علوم قرآن میں مصنف کی یادداشتوں کا مجموعہ ہے جسے آخر میں کتاب کی شکل دے دی گئی ہے۔ مصنف اس کتاب کو الوسیط نامی تفسیر کیلئے مقدمہ قرار دیتے ہیں۔[1]

التمہید چھ (6) جلدوں پر مشتمل ہے جس میں علوم قرآن سے متعلق سات (7) موضوعات پر بحث کی گئی ہے جن میں وحی، نزول قرآن، تاریخ قرآن، مختلف قرائتیں، ناسخ و منسوخ، محکم و متشابہ اور اعجاز قرآن شامل ہیں۔[2] پہلی جلد وحی، نزول قرآن اور تاریخ قرآن سے متعلق ہے، دوسری جلد میں مختلف قرائتوں اور ناسخ اور منسوخ آیات سے بحث کی گئی ہے، تسیری جلد محکم و متشابہ کے مباحث پر مشتمل ہے[3] اور چوتھی، پانچویں اور چھٹی جلد اعجاز قرآن سے مربوط مباحث من جملہ مبانی اعجاز، اعجاز بیانی قرآن کریم، اعجاز علمی، غیب سے باخبر کرنا اور قرآن کریم کی تشیریعی اعجاز جیسے مباحث پر مشتمل ہیں۔[4]

التمہید کو علوم قرآن میں ایک جامع اور مفصل کتاب کا عنوان دیا گیا ہے جس میں علوم قرآن سے مربوط اکثر و بیشتر مباحث سے بحث کی گئی ہے۔[5] اس کتاب میں گذشتہ کتابوں کے برخلاف متقدمین کے مباحث کو تکرار کرنے کے بجائے گذشتہ آثار کی غلطیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے آگے کی سمت ایک قدم اٹھایا گیا ہے۔[6] سنہ 1400ھ میں آیت اللہ معرفت نے اس کتاب کی پہلی تین جلدوں کو جو اس سے پہلے شایع ہو چکی تھی، نئے اضافات کے ساتھ دوبارہ شایع کیا۔[7]

مصنف نے التمہید کی تصنیف میں اہل سنت اور اہل تشیع دونوں مکاتب فکر کے بہت سارے علوم قرآن، تفسیر، حدیث، تاریخی، اعتقادی، کلامی، فقہی، اصولی اور ادبی آثار سے استفادہ کئے ہیں۔[8] التمہید فی علوم القرآن جہاں اس سلسلے میں انجام پانے والے تحقیقات میں اصلی منابع کی حیثیت رکھتی ہے اور موصولہ اطلاعات کے مطابق یہت سے تھیسز اور دیگر علمی آثار کو اسی کتاب سے مستند کر کے لکھے گئے ہیں وہاں مختلف کالجز اور یونیورسٹیوں اور دینی درسگاہوں کے درسی نصاب میں شامل کیا گیا ہے۔[9]

مصنف کے بارے میں

آیت اللہ معرفت (1349-1427ھ) شیعہ فقہاء، محدثین اور علوم قرآن اور تفسیر قرآن کریم کے نامور محققین میں سے ہیں۔[10] آپ کربلا میں پیدا ہوئے[11] اور وہیں پر ہی دینی علوم میں مشغول ہو گئے۔[12] سنہ 1381ھ سے آپ نے نجف اشرف میں آیت اللہ حکیم، آیت اللہ خوئی، شیخ حسین حلی اور امام خمینی جیسے اساتید کے دروس میں شرکت کرنا شروع کیا۔[13] حصول تعلیم کے ساتھ ساتھ آپ نے تدریس، تحقیق اور عربی زبان میں تصنیف کا سلسلہ بھی شروع کیا۔ آپ کے اکثر علمی آثار کا فارسی میں بھی ترجمہ ہوا ہے۔[14] سنہ 1392ھ کو عراق سے ایرانیوں سمیت دیگر ممالک کے طلاب اور اساتید کو جبری نکالے جانے کے بعد آپ حوزہ علمیہ قم میں درس و تدریس میں مشغول ہوئے۔[15]

آیت اللہ معرفت قم میں میرزا ہاشم آملی کے درس میں شرکت کرنے کے ساتھ ساتھ رسائل، مکاسب اور کفایہ پھر فقہ اور اصول کے درس خارج دینے لگے اور مدرسہ حقانی میں علوم قرآنی کی تدریس بھی شروع کئے[16] اور اسی سلسلے میں سنہ 1400ھ تک آپ کی کتاب، التمہید فی علوم القرآن کی تین جلدیں منظر عام پر آگئیں۔[17] سنہ 1399ھ میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد حوزہ علمیہ قم میں تفسیر اور علوم قرآن کی کلاسوں کا باقاعدہ آغاز کے بعد ان علوم میں درس و تدریس کیلئے معلمین کی تربیت میں مشغول ہوئے اور اسی سلسلے میں ایران کے مختلف مناطق میں علوم قرآن سے متعلق 14 کالجز کا قیام عمل میں لے آئے۔[18]

آیت اللہ معرفت اس کے علاوہ بعض دوسرے آثار من جملہ التفسیر الاثری الجامع،[19] صیانۃ القران من التحریف،[20] اور کتاب شبہات و ردود قرآن سے متعلق مستشرقین اور اسلامی دنیا کے روشنفکروں کے سوالات اور اعتراضات کے جواب میں،[21] اور دو جلدوں پر مشتمل کتاب التفسیر و المفسرون[22] کے مصنف بھی ہیں۔ آخر الذکر دو کتابیں مستقل شایع ہونے کے ساتھ ساتھ کتاب التمہید فی علوم القرآن کے ضمت میں بھی شایع ہوئی ہیں۔[23] اسی طرح آپ مختلف فقہی آثار کے بھی مالک ہیں جن میں تمہید القواعد، حدیث لاتعاد، ولایۃ الفقیہ، مالکیۃ الأرض اور مسائل فی القضاء شامل ہیں۔[24]

خصوصیات اور طرز تحریر

آیت اللہ معرفت نے کتاب التمہید میں بعض مواقع پر وحی اور اعجاز جیسے اصطلاحات کی تعریف اور بعض مواقع پر اسباب نزول جیسے موضوعات کی اہمیت بان کی ہیں۔[25]

التمہید فی علوم القرآن میں پراکندہ‌ گویی سے دوری اختیار کرتے ہوئے ہر حصے کی ابتداء میں اس حصے سے متعلق سؤالات کے ذریعے بحث کو واضح کرنے کی کوشش کی ہیں۔[26] اس کتاب میں نزول وحی کی کیفیت، پہلی اور آخری آیت اور اسباب نزول جیسے موضوعات کے بارے میں اہل سنت اور اہل تشیع دونوں مکاتب فکر کی احادیث نقل کی ہیں۔[27]

مصنف، کتاب کے مقدمے میں تصریح کرتے ہیں کہ آپ نے اس کتاب میں صرف ایسے مطالب کا ذکر کئے ہیں جن کی صحیح اور یقینی ہونے پر انہیں اطمینان حاصل ہوا ہے۔[28] اسی بنا پر اس کتاب کے منظر عام پر آنے سے پہلے انہوں نے اس کے مطالب درس و تدریس کے وقت حوزہ علمیہ کے اساتید اور طلاب کے سامنے پیش کر کے ان مطالب کے بارے میں ان کی تنقید اور نظریات کو بھی شامل کر کے انہیں تکمیل کرنے کی کوشش کی ہیں۔[29]

کتاب التمہید کی تلخیص

کتاب التمہید کی دوسری خصوصیات یہ ہیں: شیعوں کے درمیان قرآنی موضوعات پر کسی مجموعے کے نہ ہونے کا جبران،[30] علوم قرآن میں شیعوں کی ترجمانی،[31] اور مباحث کو تنقیدی انداز میں بان کرنا کہ بعض مواقع پر جدیت اور قاطعیت کے ساتھ آیت اللہ خوئی اور علامہ طباطبایی کے نظرات پر تنقید کی گئی ہے۔[32]

خلاصہ، ترجمہ اور اشاعت

کتاب التمہید فی علوم القرآن اب تک تین انتشارات کے ذریعے شایع ہو چکی ہیں۔ سنہ 1399ھ تک مرکز مدیریت حوزہ علمیہ قم نے اس کتاب کو تین جلدوں میں تین بار شایع کی،[33] جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم سے مربوط انشاراتی ادارے نے اسے چھ جلدوں میں کئی بار یہاں تک کہ اس کے بعض مجلدات کو پانجویں بار منتشر کیا[34] اور مؤسسہ التمہید نے اسے دس (10) جلدوں میں شایع کی۔[35] دس جلدی نسخے کے متعلق خود مصنف فرماتے ہیں کہ اس میں التمہید کی چھ جلدوں کے علاوہ تین اور کتابیں شبہات و ردود، صیانۃ القرآن من التحریف اور التفسیر و المفسرون کو بھی اس کے ساتھ شامل کر کے شایع کی گئی ہے۔[36] آخر الذکر تین کتابیں اس سے پہلے مستقل طور پر منظر عام پر آ چکی ہیں۔[37]

التمہید فی علوم القرآن کی چھ جلدوں کا خلاصہ، تلخیص التمہید کے نام سے دو جلدوں میں دینی درسگاہوں میں تدریس کیلئے مرتب کیا گیا ہے۔[38] یہ خلاصہ انتشارات اسلامی اور موسسہ التمہید کے توسط سے کئی بار شایع ہو چکا ہے۔[39] اسی طرح تاریخ قرآن کے نام سے اس کتاب کی پہلی دو جلدوں کا خلاصہ کالج اور یونیورسٹیوں میں تدریس کیلئے مرتب کیا گیا ہے۔[40] اس کے علاوہ التمہید فی علوم القرآن اور صیانۃ القرآن من التحریف کا خلاصہ فارسی زبان میں علوم قرآن کے نام سے شایع کیا گیا ہے۔[41]

تناسب آیات کے نام سے شایع ہونے والی کتاب، التمہید کے پانچویں جلد کا خلاصہ ہے جسے عزت اللہ مولائی ‌‌نیا ہمدانی نے سنہ 1415ھ میں شایع کی۔[42] اب تک التمہید کے متعدد ترجمے منظر عام پر آگئے ہیں من جملہ ان میں آموزش علوم قرآن، مترجم: ابو محمد وکیلی؛ علوم قرآن پر ایک مقدمہ، مترجم: جواد ایروانی اور ترجمہ التمہید فی علوم القرآن، مترجم: میرزا علی زادہ و مجتبی خطاط کا نام لیا جا سکتا ہے۔[43]

التمہید ڈیجیٹل سافٹ ویئر

التمہید ڈیجیٹل سافٹ ویر

دفتر تبلیغات اسلامی حوزہ علمیہ قم سے وابستہ ادارے مرکز اطلاعات و مدارک اسلامی نے التمہید فی علوم القرآن ڈیجیٹل سافٹ ویئر مرتب کیا ہے۔[44] اس سافت ویئر میں کتاب التمہید فی علوم القرآن کی دس جلدیں سمیت علوم قرآن سے متعلق 10 ہزار سے زاید اصطلاحات شامل ہیں۔[45]

متعلقہ صفحات

حوالہ جات

  1. خرقانی، «التمہید و جایگاہ آن در میان آثار قرآن‌پژوہی»، ص۲۵۷۔
  2. نصیری، «نقد و بررسی کتاب التمہید فی علوم القرآن»، ص۶۰۔
  3. نصیری، «نقد و بررسی کتاب التمہید فی علوم القرآن»، ص۶۰۔
  4. نصیری، «نقد و بررسی کتاب التمہید فی علوم القرآن»، ص۶۱۔
  5. خرقانی، «التمہید و جایگاہ آن در میان آثار قرآن ‌پژوہی»، ص۲۷۱۔
  6. خرقانی، «التمہید و جایگاہ آن در میان آثار قرآن‌ پژوہی»، ص۲۷۱۔
  7. خرقانی، «التمہید و جایگاہ آن در میان آثار قرآن‌پژوہی»، ص۲۷۲۔
  8. خرقانی، «التمہید و جایگاہ آن در میان آثار قرآن‌ پژوہی»، ص۲۷۳-۲۷۴۔
  9. خرقانی، «التمہید و جایگاہ آن در میان آثار قرآن‌ پژوہی»، ص۲۷۵۔
  10. بہجت‌پور، «سیری در زندگی علمی آیت اللہ معرفت»، ص۱۸۱۔
  11. معرفت، «زندگی خود نوشت استاد معرفت»، ص۱۶۵۔
  12. معرفت، «زندگی خود نوشت استاد معرفت»، ص۱۶۶-۱۶۷۔
  13. معرفت، «زندگی خود نوشت استاد معرفت»، ص۱۶۷۔
  14. بہجت‌پور، «سیری در زندگی علمی آیت اللہ معرفت»، ص۱۷۸۔
  15. معرفت، «زندگی خودنوشت استاد معرفت»، ص۱۶۹۔
  16. معرفت، «زندگی خود نوشت استاد معرفت»، ص۱۷۰۔
  17. معرفت، «زندگی خود نوشت استاد معرفت»، ص۱۷۰۔
  18. معرفت، «زندگی خود نوشت استاد معرفت»، ص۱۷۰۔
  19. بہجت‌ پور، «سیری در زندگی علمی آیت اللہ معرفت»، ص۱۸۱۔
  20. معرفت، «زندگی خود نوشت استاد معرفت»، ص۱۷۰۔
  21. بہجت‌پور، «سیری در زندگی علمی آیت اللہ معرفت»، ص۱۸۰۔
  22. معرفت، «زندگی خود نوشت استاد معرفت»، ص۱۷۱۔
  23. معرفت، «زندگی خود نوشت استاد معرفت»، ص۱۷۱۔
  24. معرفت، «زندگی خود نوشت استاد معرفت»، ص۱۷۱-۱۷۲۔
  25. خرقانی، «التمہید و جایگاہ آن در میان آثار قرآن‌ پژوہی»، ص۲۶۷۔
  26. خرقانی، «التمہید و جایگاہ آن در میان آثار قرآن ‌پژوہی»، ص۲۶۸۔
  27. خرقانی، «التمہید و جایگاہ آن در میان آثار قرآن ‌پژوہی»، ص۲۶۸۔
  28. نصیری، «نقد و بررسی کتاب التمہید فی علوم القرآن»، ص۶۴۔
  29. نصیری، «نقد و بررسی کتاب التمہید فی علوم القرآن»، ص۶۴-۶۵۔
  30. نصیری، «نقد و بررسی کتاب التمہید فی علوم القرآن»، ص۸۵۔
  31. نصیری، «نقد و بررسی کتاب التمہید فی علوم القرآن»، ص۸۵۔
  32. نصیری، «نقد و بررسی کتاب التمہید فی علوم القرآن»، ص۸۷۔
  33. معرفت، التمہید فی علوم القرآن، ۱۳۶۷ش، چاپ سوم۔
  34. معرفت، التمہید فی علوم القرآن، ج۳، ۱۳۹۰ش، چاپ پنجم؛ معرفت، التمہید فی علوم القرآن، ج۴، ۱۳۹۱ش، چاپ پنجم۔
  35. معرفت، التمہید فی علوم القرآن، ۱۳۸۶ش۔
  36. معرفت، علوم قرآنی، ۱۳۸۱ش، ص۱۷؛ «التمہید فی علوم القرآن»۔
  37. معرفت، علوم قرآنی، ۱۳۸۱ش، ص۱۷؛ «التمہید فی علوم القرآن»۔
  38. معرفت، علوم قرآنی، ۱۳۸۱ش، ص۱۷۔
  39. معرفت، تلخیص التمہید، ۱۳۹۴ش، چاپ نہم؛ معرفت، تلخیص التمہید، ۱۳۹۷ش، چاپ پنجم۔
  40. معرفت، علوم قرآنی، ۱۳۸۱ش، ص۱۷۔
  41. معرفت، علوم قرآنی، ۱۳۸۱ش، ص۱۷۔
  42. معرفت، تناسب آیات، ۱۳۷۳ش۔
  43. خرم شاہی، دانش نامہ قرآن و قرآن‌ پژوہی، ۱۳۷۷ش، ج۱، ص۸۰۹۔
  44. «التمہید فی علوم القرآن»۔
  45. «التمہید فی علوم القرآن»۔

مآخذ

  • «التمہید فی علوم القرآن»، سایت پژوہش کدہ مدیریت اطلاعات و مدارک اسلامی، تاریخ درج مطلب: ۵ آذر ۱۳۹۰ش، تاریخ بازدید: ۷ آذر ۱۳۹۷ش۔
  • «التمہید فی علوم القرآن»، سایت حفظ و نشر آثار آیت اللہ معرفت، تاریخ بازدید: ۸ آذر ۱۳۹۷ش۔
  • بہجت‌ پور، عبد الکریم، «سیری در زندگی علمی آیت اللہ معرفت»، در کتاب معرفت قرآنی: یادنگار آیت اللہ محمد ہادی معرفت، زیر نظر گروہ قرآن ‌پژوہی پژوہش گاہ فرہنگ و اندیشہ اسلامی، بہ کوشش علی نصیری، ج۱، تہران، سازمان انتشارات پژوہش گاہ فرہنگ و اندیشہ اسلامی، ۱۳۸۷ش۔
  • خرقانی، حسن، «التمہید و جایگاہ آن در میان آثار قرآن‌ پژوہی»، در مجلہ الہیات و حقوق، ش۲۶، زمستان ۱۳۸۶ش۔
  • خرم شاہی، بہاءالدین، دانشنامہ قرآن و قرآن‌ پژوہی، تہران، دوستان - ناہید، ۱۳۷۷ش۔
  • معرفت، محمد ہادی، التمہید فی علوم القرآن، قم، انتشارات التمہید، ۱۳۸۶ش۔
  • معرفت، محمد ہادی، التمہید فی علوم القرآن، ج۳، قم، مؤسسہ انتشارات اسلامی، ۱۳۹۰ش۔
  • معرفت، محمد ہادی، التمہید فی علوم القرآن، ج۴، قم، مؤسسہ انتشارات اسلامی، ۱۳۹۱ش۔
  • معرفت، محمد ہادی، التمہید فی علوم القرآن، ج۳، قم، مرکز مدیریت حوزہ علمیہ قم، ۱۳۶۷ش۔
  • معرفت، محمد ہادی، تلخیص التمہید، چاپ نہم، قم، دفتر انتشارات اسلامی جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، ۱۳۹۴ش۔
  • معرفت، محمد ہادی، تلخیص التمہید، چاپ پنجم، قم، مؤسسۃ التمہید، ۱۳۹۷ش۔
  • معرفت، محمد ہادی، تناسب آیات، ترجمہ عزت اللہ مولائی‌نیا ہمدانی، قم، بنیاد معارف اسلامی، ۱۳۷۳ش۔
  • معرفت، محمد ہادی، «زندگی خود نوشت استاد معرفت»، در کتاب معرفت قرآنی: یادنگار آیت اللہ محمد ہادی معرفت، زیر نظر گروہ قرآن‌ پژوہی پژوہش گاہ فرہنگ و اندیشہ اسلامی، بہ کوشش علی نصیری، ج۱، تہران، سازمان انتشارات پژوہشگاہ فرہنگ و اندیشہ اسلامی، ۱۳۸۷ش۔
  • معرفت، محمد ہادی، علوم قرآنی، قم، مؤسسہ فرہنگی تمہید، ۱۳۸۱ش۔
  • نصیری، علی، «نقد و بررسی کتاب التمہید فی علوم القرآن»، در کتاب معرفت قرآنی، یادنگار آیت اللہ محمد ہادی معرفت، زیر نظر گروہ قرآن‌ پژوہی پژوہش گاہ فرہنگ و اندیشہ اسلامی، بہ کوشش علی نصیری، ج۳، تہران، سازمان انتشارات پژوہشگاہ فرہنگ و اندیشہ اسلامی، ۱۳۸۷ش۔