بسم اللہ الرحمن الرحیم

ویکی شیعہ سے
(بسملہ سے رجوع مکرر)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم، غلام حسین امیرخانی کے قلم سے
بسم اللہ الرحمن الرحیم، غلام حسین امیرخانی کے قلم سے
آیت کی خصوصیات
آیت کا نامبسم اللہ
سورہتوبہ کے علاوہ باقی تمام سورتیں
آیت نمبرتمام سورتوں کی ابتدا اور سورہ نمل میں آیت 30
پارہ19
صفحہ نمبر379
موضوععقائد


بسم اللہ الرحمن الرحیم یا بَسمَلَہ قرآن مجید کی ایک آیت ہے جو سوائے سورہ توبہ کے باقی تمام سوروں کے آغاز میں آیا ہے۔"بسم اللہ" کی فضیلت اور منزلت کے بارے میں بہت ساری روایات نقل ہوئی ہیں۔ فضیلت و کرامت کے لحاظ سے بسم اللہ قرآن مجید کی عظیم آیات میں شمار ہوتا ہے۔

علمائے اسلام بسم اللہ الرحمن الرحیم کو مہم ترین اسلامی شعار قرار دیتے ہیں اور تاکید کرتے ہیں کہ ہر بات اور ہر کام سے پہلے بسم اللہ کہا جائے۔

فقہاء کے فتوا کے مطابق جہاں بسم اللہ مکتوب ہے وہاں بغیر وضو کے مس کرنا حرام ہے نیز حیوانات کے شکار کے وقت اور انہیں شرعی طور پر ذبح کرتے وقت بسم اللہ الرحمن الرحیم کہنا واجب ہے۔

مذہب امامیہ اور بعض علمائے اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ قرآن مجید کے ہر سورے میں موجود بسملہ ایک مستقل آیت ہونے کے ساتھ ساتھ اس سورے کا جزء ہے؛ لیکن بعض اہل سنت کا کہنا ہے کہ بسملہ صرف سورہ حمد میں ایک مستقل آیت اور اس کا جزء ہے۔ اہل سنت علما میں سے بعض کا یہ بھی کہنا ہے کہ حتی سورہ حمد میں بھی یہ مستقل آیت نہیں ہے بلکہ سوائے سورہ توبہ کے باقی تمام سوروں کے آغاز میں صرف تبرکاً اس کی تلاوت کی جاتی ہے۔

بعض مورخین کے مطابق بسملہ کا سورہ حمد سمیت پہلی بار سلمان فارسی نے فارسی میں ترجمہ کیا ہے۔ فارسی زبان میں اس کا ترجمہ مختلف الفاظ کے ساتھ بیان ہوا ہے البتہ جو زیادہ رائج ہے وہ یہ ہے: «به‌ نام خداوند بخشندهٔ مهربان»، اسی طرح اردو میں بسملہ کا یہ ترجمہ رائج ہے: (شروع کرتا ہوں) اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔

اسلامی ثقافت میں بسم اللہ کی اہمیت

محمد جواد مَغنیّه نے اپنی تفسیر الکاشف میں لکھا ہے کہ "بسم الله الرَّحمن الرَّحیم"، شہادتین کے بعد مسلمانوں کا شعار شمار ہوتا ہے اور مسلمان اپنی ہر بات اور ہر کام کا آغاز اس کی تلاوت سے کرتے ہیں۔[1] مرتضی مطہری بھی اس سلسلے میں کہتے ہیں کہ یہ جملہ اسلامی مہم ترین شعاروں میں شمار ہوتا ہے۔ ہر کام میں اسے بھولنے سے بچنے کے لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ ایک خوبصورت بورڈ پر اسے تحریر کیا جائے اور اسے اپنے گھروں کی دیواروں پر نصب کرنا چاہیے اور ہر کام کو شروع کرنے سے پہلے اس کی اونچی آواز میں تلاوت کی جائے۔[2]

کہا جاتا ہے کہ ایران میں عام مسلمانوں کے ہاں رائج تھا کہ اپنے کاموں کو متبرک کرنے اور اہل خانہ کو ہر قسم کی بلا آفات سے محفوظ رہنے کے لیے بسم اللہ کی عبارت کو کسی پتھر یا کاشی پر نقش کرتے تھے اور گھروں کے مرکزی دروازے کے اوپر منصوب کرتے تھے۔[3] ہر کام کے آغاز میں "بسم‌ الله" کے بکثرت استعمال کی وجہ سے فارسی زبان دانوں کی ثقافت میں یہ بات شامل ہوچکی ہے کہ وہ لوگ دوسرے کچھ امور جیسے "آجائیں" "جلدی کریں" اور "شروع کریں" وغیرہ کے لیے بھی "بسم اللہ" کا لفظ استمعال کرتے ہیں۔[4] اسی طرح علمی مقالات اور کتابوں کے پہلے صفحے پر بھی "بسم الله الرَّحمن الرَّحیم" یا اس کا ترجمہ لکھا جاتا ہے۔[5]

کہا جاتا ہے کہ حضرت محمدؐ آغاز بعثت میں اپنے خطوط اور دوسرے کاموں کے آغاز میں "باسمك اللہم" کا جملہ استعمال کرتے تھے[6] پھر یہ آیت: "وَ قَالَ ارْكَبُوا فِيهَا بِسْمِ اللَّهِ مَجْرَاهَا وَ مُرْسَاهَا"[7] نازل ہوئی اس کے بعد آنحضرتؐ نے "بسم‌الله" پڑھنا شروع کیا اور سورہ اسراء آیت نمبر 110 نازل ہونے کے بعد "بسم الله الرحمن" پڑھنا شروع کیا، اس کے بعد جب إِنَّهُ مِنْ سُلَيْمَانَ وَإِنَّهُ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ[8] کے نزول کے بعد مکمل طور پر "بسم الله الرَّحمن الرَّحیم" استعمال کرنا شروع کیا۔[9] بعض علما کا عقیدہ ہے کہ "بسم الله الرَّحمن الرَّحیم" پہلی آیت ہے جو سورہ علق کے ساتھ پیغمبر خداؐ پر نازل ہوئی۔[10]

"بسم الله الرَّحمن الرَّحیم" کو "بَسمَلہ"[11] اور "تَسمیہ"[12] بھی کہا جاتا ہے۔

فضلیت

ہر کام کے شروع میں کہو: «بسم اللّه الرحمن الرحيم»۔

شیخ صدوق، کتاب التوحید، ص232۔

شیعہ اور اہل سنت منابع تفسیری اور روائی میں بسملہ کی فضیلت میں احادیث نقل ہوئی ہیں۔ قُرطُبی نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے حضرت علیؑ نے فرمایا کہ بسملہ ہر مرض کی دوا اور ہر دوا کی مددگار ہے۔[13] تفسیر عیاشی میں منقول امام رضاؑ کی ایک روایت کے مطابق یہ آیت قرآن کی عظیم اور باکرامت ترین آیات میں سے ہے۔[14] اسی طرح بعض دیگرروایات میں آیا ہے کہ بسم اللہ کی خبوصورت انداز میں تحریر اللہ تعالیٰ کی تعظیم،مغفرت و بخشش کا باعث ہے[15] اور اس کی قرائت جہنم کی آگ سے بچ جانے کا ذریعہ ہے۔[16] ایک روایت میں آیا ہے کہ تمام آسمانی کتب کے اسرار قرآن مجید مین جمع ہیں اور تمام قرآن میں جو کچھ ہیں وہ سورہ حمد میں جمع ہیں اور جو کچھ سورہ حمد میں ہیں وہ تمام کے تمام بسم اللہ الرحمن الرحیم میں ہیں۔[17]

اللہ کے نام سے کام کا آغاز

كلُّ أمر ذي بالٍ لمْ يُذكَر فيه بسم الله فهو أبتر؛ کوئی بھی قابل قدر کام اللہ کا نام لیے بغیر شروع کیا جائے تو وہ ناتمام رہے گا۔

علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج76، ص305۔

مفسرین کہتے ہیں کہ ہر کام کے ساتھ نام اور یاد خدا کی ہمراہی کے لیے ضروری ہے کہ اس کے آغاز میں "بسم الله الرحمن الرحیم" کہا جائے۔[18] سید محمدحسین طباطبایی تفسیر المیزان میں لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کا آغاز ہی اپنے نام کے ساتھ کیا ہے جو کہ عزیز ترین ناموں میں سے ہے تاکہ اپنا کلام اس کی یاد اور نام کے ساتھ ہو۔ اسی طرح بندوں کو یہ بتلایا ہے کہ اپنے کاموں اور تمام امور کا آغاز اللہ کے نام سے کریں تاکہ ان کا رفتار و گفتار اللہ کے نام سے ہو اور یہ امور الہی کہلا سکے اور ان میں اللہ کی نشانی موجود ہوں۔[19]

معنای بسم‌ الله

بعض مفسرین کے مطابق "بسم" میں مجود باء کے معنی "ابتدائیت" کے ہیں؛ یعنی جب کوئی کہتا ہے"بسم‌الله"، اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ اپنے کام کا آغاز اللہ کے نام سے کررہا ہے۔[20] بعض دیگر مفسرین کے مطابق یہاں حرف باء کے کوئی خاص معنی مد نظر نہیں ہے بلکہ بسم اللہ کہنا صرف اس لیے کہ اللہ کا نام لیا جائے اور اس کے نام سے کام کا آغاز اور انجام متبرک ہو۔[21]

مفسرین کے ایک اور گروہ کا کہنا ہے کہ حرف باء کے معنی "مدد لینے" کے ہیں۔[22] اس صورت میں "بسم‌ الله" کے معنی یہ ہیں: میں اللہ سے مدد مانگتا ہوں۔[23] بعض شیعہ مفسرین[24] نے اس معنی کو ائمہ معصومینؑ سے منقول روایات کی روشنی میں[25] قبول کیا ہے۔ بعض دیگر مفسرین کہتے ہیں کہ چونکہ قرآن میں ایک ہی جملہ یا لفظ کا تکرار ممکن نہیں اس لیے ہر سورے کے آغاز میں موجود بسم اللہ کے معنی دوسیری جگہوں پر موجود بسم اللہ کے معنی سے الگ اور اسی سورت میں موجود مطالب سے مربوط ہیں۔[26] تفسیر عیاشی میں امام جعفر صادقؑ سے بسم اللہ کی تفسیر کے سلسلے میں ایک روایت منقول ہے جس کی بنیاد پر باء کے معنی "بہاء‌ الله: یعنی روشنی خدا"، سین کے معنی "سناء‌ الله: یعنی رفعت خدا" اور "میم" کے معنی "مجد الله ہیں جس کے معنی ہیں اللہ تعالی کی عظمت و بزرگی۔[27]

بسملہ کے چند فقہی احکام

فقہاء نے ابواب فقہ میں سے باب طہارت، نماز، نکاح، شکاری و ذباحہ اور اَطعمہ و اَشربہ میں بسملہ سے متعلق کچھ احکام شرعی بیان کیے ہیں جو کہ درج ذیل ہیں:

  • بسملہ کو مس کرنے کا حکم: مشہور شیعہ فقہاء کا نظریہ ہے کہ اگر کسی جگہ بسملہ مکتوب صورت میں ہو تو اس پر بغیر وضو کے مس کرنا چونکہ یہ آیت قرآن ہے[28] اور اللہ کی صفات الہی پر مشتمل ہے لہذا حرام ہے۔[29] اسی طرح مجنب شخص پر بسملہ کو چھونا حرام ہے۔[30]
  • نماز کی قرائت میں بسملہ کا حکم: تمام شیعہ فقہاء کا اجماع ہے کہ بسملہ چونکہ سوائے سورہ توبہ کے تمام سوروں کا جزء ہے لہذا نماز کے سوروں میں اس کی قرائت کرنا واجب ہے۔[31]
  • شکاری اور ذبح شرعی میں اس کا حکم: فقہاء کے فتوا کے مطابق ذبح شرعی کے تحقق کے لیے بسم اللہ کا کہنا لازمی شرط ہے۔[32] اسی طرح شکاری کو شکار کی طرف روانہ کرتے ہوئے اور اس کی طرف تیر پھینکتے ہوئے بسم اللہ کہنا ضروری ہے چنانچہ اگر جان بوجھ کر اس دوران بسم اللہ نہیں کہا تو اس شکار کا گوشت کھانا حلال نہیں ہوگا[33]

وضو کرتے وقت،[34] مجامعت کے آغاز میں [35] اور کھانے پینے سے پہلے[36] بسم‌ الله کہنا مستحب ہے۔

کیا بسملہ ایک مستقل آیت ہے؟

اہل سنت مفسر قرآن رشید رضا (1282-1354ھ) کہتے ہیں کہ چونکہ بسم اللہ الرحمن الرحیم سورہ نمل آیت نمبر 30 کا ایک حصہ ہے اس لیے تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ یہ قرآن کی آیات میں سے ہے؛[37] لیکن کیا یہ قرآنی سوروں کے آغاز میں بھی ایک مستقل آیت ہے یا نہیں؛ اس سلسلے میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔[38] ایک اور اہل سنت مفسر قرآن، آلوسی نے اس سلسلے میں دس نظریات بیان کیے ہیں[39] ان میں سے چند یہ ہیں:

  • امامیہ، بعض صحابہ اور تابعین، شافعی اور اس کے اکثر پیروکار اسی طرح قراء سبع میں سے عاصم اور کسائی کا نظریہ یہ ہے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم خود ایک مستقل آیت ہے اور سوائے سورہ توبہ کے باقی تمام سوروں کا حصہ ہے۔[40] ان کی کچھ دلائل یہ ہیں:
  1. اصحاب کا اجماع ہے کہ مُصحَفِ اول میں ہر سورت کے آغاز میں بسملہ وارد ہوا ہے سوائے سورہ توبہ کے۔[41]
  2. شیعہ اور اہل سنت کے روائی منابع میں پیغمبر خداؐ اور ائمہ معصومینؑ سے احادیث منقول ہیں جن میں بسملہ کو ایک مستقل آیت اور ہر سورے کا جزء قرار دیا گیا ہے۔[42]
  3. عصر رسول خداؐ سے تمام مسلمانوں کی یہ سیرت رہی ہے کہ وہ سوائے سورہ توبہ کے تمام سوروں کے آغاز میں بسملہ کی قرائت کرتے تھے اور اگر بسملہ قرآن کا جزء نہ ہوتا تو پیغمبر خداؐ پر لازم تھا کہ اسے صراحتاً بتادیتے تاکہ مسلمان اس سلسلے میں گمراہی کا شکار نہ ہو۔[43]
  • مالک بن اَنَس، ابوحنیفہ اور اس کے پیروکاران، بصری قاریوں مین سے ابو عمر و یعقوب بن اسحاق اور دیگر علما بسملہ کو ایک مستقل آیت سمجھتے ہیں جو کہ تبرک اور آغاز کے لیے ہر سورے کے شروع اور ان کے درمیان میں آیا ہے[44] اور سوائے سورہ نمل آیت 30 کے کسی سورے کا حصہ نہیں ہے۔[45]
  • احمد بن حنبل، قراء سبعہ میں سے حمزة ‌بن حبیب اور کچھ دیگر افراد کا عقیدہ ہے کہ بسملہ صرف سورہ حمد میں ایک مستقل آیت ہے اور اس سورے کا حصہ شمار ہوتا ہے۔[46]

بسم الله الرحمن الرحیم کا ترجمہ

کہا جاتا ہے کہ بسملہ کا سورہ حمد کی باقی آیتوں کے ساتھ سب سے پہلے سلمان فارسی نے فارسی زبان دانوں کی درخواست پر فارسی میں ترجمہ کیا[47] انہوں نے فارسی میں یوں ترجمہ کیا:"به‌نام یزدان بخشاونده."[48] بسملہ کے فارسی زبان میں دیگر کچھ ترجمے یہ ہیں:

  • پانچویں صدی ہجری کے اہل سنت مفسر اسفراینی: "ابتدا کردم به‌ نام خدای قادر بر آفرینش خلقان، خواهان روزی‌دادن خلقان، خواهان آمرزیدن مطیعان.»[49]
  • چھٹی صدی ہجری کے مفسر قرآن رشید الدین ابوالفضل میبدی: "به‌نام خداوندِ جهان‌دارِ دشمن‌ پرور به‌بخشایندگی و دوست‌بخشای به مهربانی."[50]
  • پانچویں صدی ہجری کے شیعہ مفسر ابو الفتوح رازی: "به‌ نام خدای مهربانِ بسیار بخشنده.»[51]
  • نویں صدی ہجری کے شیعہ مفسر ملاحسین واعظ کاشفی: «به‌ نام خدای سزای پرستش و بخشنده بر خلق به وجود و حیات‌بخشیدن و بخشاینده بر ایشان به بقا و زنده‌داشتن به قدرت و حکمت، از آفات محافظت نمودن.»[52]
  • قدیمی ترین ترجمهٔ، تفسیر طبری: «به‌ نام خدای مهربان بخشاینده.»[53]
  • چودہویں اور پندرہویں صدی ہجری کے فارسی تراجم میں بھی مختلف ترجمے موجود ہیں۔ مشہور تجمہ فارسی یہ ہے: «به‌نام خداوند بخشندهٔ مهربان»[54]

بسم اللہ میں موجود دو صفات رحمن اور رحم میں فرق

ایک پرانے گھر کے دروازے کے فوقانی حصے میں ٹائل پر تحریر بسم اللہ الرحمن الرحیم

رحمان اور رحیم اللہ تعالیٰ کی دو صفتیں ہیں جو اکثر مفسرین کے مطابق[55] لفظ "رحمت" سے ماخوذ ہیں۔[56] اکثر مفسرین[57] کہتے ہیں کہ "رحمان" اللہ تعالیٰ سے مختص صفت ہے[58] اور اس کے معنی رحمت عمومی ہے جو اللہ کی جانب سے مومن و کافر سب کے شامل حال ہوتی ہے جبکہ صفت "رحیم" کے معنی ہمیشہ اور مداوم رہنے والی رحمت کا نام ہے جو صرف بندگان مومن کے ساتھ مختص ہے۔[59]

بعض مفسرین کے مطابق رحمانیت میں عمومی رحمت موجود ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات عالم کو تخلیق فرمایا اور اور ان سب کے لیے رزق کا اہتمام کیا۔[60] رحیمیت کی رحمت خاصہ مومنین کے ساتھ مختص ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو دنیا میں توفیق الہی عطا فرماتا ہے اور آخرت میں انہیں جنت عنایت فرماتا ہے اور ان کے گناہوں کو بخش دیتا ہے۔طبرسی، مجمع البیان، 1415ھ، ج1، ص54۔</ref>


تفسیر عرفانی

دینی اور عرفانی متون میں بسم اللہ کے حروف کی باطنی تفسیریں بیان کی گئی ہیں۔[61] بعض کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے باءِ بسم‌ الله کے ذریعے تمام موجودات کو خلق فرمایا۔[62] ابن‌ عربی نے باء کی شکل اور اس کے نقطے اور حرکت کو عوالم ثلاثہ پر تطبیق کی ہے؛ یعنی شکل باء عالم ملکوت کی طرف اشارہ ہے، اس کا نقطهٔ عالم جبروت کی طرف اشارہ ہے جبکہ اس کی حرکت عالم شہود کی طرف اشارہ ہے۔[63] عبد الرزاق کاشانی نے اپنی تفسیر میں بسم اللہ میں موجود حرف باء کو عقل اول یا صادر اول کی طرف اشارہ جانا ہے۔[64]

ملا حسین واعظ کاشفی اپنی تفسیر جَواہرالتَّفسیر میں لکھتے ہیں: حرف الف ذات اقدس کی طرف اشاره ہے اور چونکہ یہ حروف تہجدی میں پہلا حرف ہے خداوند متعال سے مناسبت رکھتا ہے، جو کہ اول اشیاء کی طرف اشارہ ہے۔ چونکہ نقطے سے خالی ہے لہذا یہ اللہ کے تمام قیودات سے مجرد ہونے کی طرف اشارہ ہے۔ [65]

عرفان سے متعلق بعض متون اور تفاسیر میں "رحمٰن" کے معنی یوں بیان کیے گئے ہیں: رحمن یعنی تمام مخلوقات کو ان کی حکمت اور قابلیت کی بنیاد پر وجود اور کمال عطا اور افاضہ کرنے والا[66] اور "رحیم" کے معنی ہیں انسان کو ایک خاص معنوی کمال عطا کرنے والا۔[67]

فن پاروں میں بسم اللہ کا استعمال

ترکی کے خطاط محمد اوزچائی کی بسم اللہ کی خطاطی

بسملہ ان آیات میں سے ہے جس کی تحریر پر خطاطی کے فنکاروں نے بہت زیادہ توجہ دی ہے اور پوری تاریخ میں مختلف شکلوں میں اس کی خطاطی کی گئی ہے۔[68] بسم اللہ کے رسم الخط کو ٹائل کے کام کے فن میں بھی دیکھا جاسکتا ہے، جو ایران کے آرائشی فنون اور فن تعمیر میں سے ایک ہے اور اس کے مختلف کام گھروں کے دروازوں کے فوقانی حصوں، مساجد کے محرابوں اور مقدس مقامات پر نصب کیے جاتے ہیں۔[69] اس کے علاوہ بھی مسلمان فنکاروں نے نقاشی اور خطاطی کے سلسلے میں مختلف کام تخلیق کیے ہیں۔ فارسی شعر و ادب میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بسم اللہ۔۔ کسی شعر کا ایک مصرع قرار پایا ہے [70]اور کبھی اس کے مضمون و مفہوم کے بارے میں نظمیں لکھی گئی ہیں اور خدا کے نام سے کاموں کو شروع کرنے کی تاکید میں اشعار کہے گئے ہیں۔[71]

فارسی ادب میں بسم اللہ کی مختلف اصطلاحات بھی مستعمل ہیں؛ جیسے "مرغ بسمل" جس کا مطلب ہے سر کٹا ہوا مرغا، "مرغ نیم بسمل" جس کا مطلب ہے نیم مردہ مرغا اور "بسمل گاہ" جس کا مطلب ہے قربان گاہ۔[72]

حوالہ جات

  1. مغنیه، التفسیر الکاشف، دار الانوار، ج1، ص24۔
  2. مطهری، پانزده گفتار، 1389شمسی، ص162-163۔
  3. موسوی آملی، «سر در نوشته‌های قرآن»، سایت پرتال علوم اسلامی۔
  4. معینی، فرهنگ امثال و تعابیر قرآنی، 1394شمسی، ص153-155۔
  5. «ترتیب پایان نامه نویسی»، سایت کلام سبز۔
  6. قلقشندی، صبح الاعشی فی صناعه الانشاء، دار الکتب العلمیة، ج1، ص480۔
  7. سوره هود، آیه 41۔
  8. سوره نمل، آیه 30۔
  9. جصاص، احکام القرآن، 1415ھ، ج1، ص7۔
  10. ملاحظہ کیجیے: طبری، جامع البیان، 1412ھ، ج1، ص38۔
  11. ملاحظہ کیجیے: هوشنگی، «بسمله»، ص426۔
  12. ملاحظہ کیجیے: ابوالفتوح رازی، روض الجنان، 1376شمسی، ج1، ص41؛ زمخشری، الکشاف، 1407ھ، ج1، ص1۔
  13. قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، 1364شمسی، ج1، ص107۔
  14. عیاشی، تفسیر العیاشی، 1380شمسی، ج1، ص21۔
  15. سیوطی، درالمنثور، دار الفکر، ج1، ص27۔
  16. بحرانی، البرهان فی تفسیر القرآن، 1415ھ، ج1، ص99۔
  17. قندوزی، ینابیع المودة، 1422ھ، ج1، 213۔
  18. ملاحظہ کیجیے: طبرسی، مجمع البیان، 1415ھ، ج1، ص54؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج1، ص103؛ طباطبایی، المیزان، 1363شمسی، ج1، ص15-17؛ طیب، اطیب البیان، 1378شمسی، ج1، ص93۔
  19. طباطبایی، المیزان، 1363شمسی، ج1، ص15۔
  20. ملاحظہ کیجیے: ابن‌قتیبه، تفسیر غریب القرآن، 1411ھ، ص39؛ طبرسی، مجمع البیان، 1415ھ، ج1، ص54؛ طباطبایی، المیزان، 1363شمسی، ج1، ص17؛ حکیم، تفسیر سورة الحمد، 1420ھ، ص152-153۔
  21. خمینی، تفسیر القرآن الکریم، 1418ھ، ج1، ص95۔
  22. ملاحظہ کیجیے: عروسی حویزی، تفسیر نور الثقلین، 1415ھ، ج1، ص12-13؛ طیب، اطیب البیان، 1378شمسی، ج1، ص93۔
  23. عروسی حویزی، تفسیر نور الثقلین، 1415ھ، ج1، ص12-13؛ طیب، اطیب البیان، 1378شمسی، ج1، ص93؛ حکیم، تفسیر سورة الحمد، 1420ھ، ص152۔
  24. ملاحظہ کیجیے: عروسی حویزی، تفسیر نور الثقلین، 1415ھ، ج1، ص12-13؛ طیب، اطیب البیان، 1378شمسی، ج1، ص93۔
  25. علامہ مجلسی، بحار الانوار، 1983ء، ج3، ص41۔
  26. قشیری، لطائف الاشارات، 2000ء، ج1، ص44؛ خمینی، تفسیر القرآن الکریم، 1418ھ، ج1، ص96۔
  27. عیاشی، تفسیر العیاشی، 1380شمسی، ج1، ص22۔
  28. حکیم، مستمسک العروة، 1391ق، ج2، ص272۔
  29. طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1417ھ، ج1، ص352۔
  30. طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1417ھ، ج1، ص509۔
  31. حکیم، مستمسک العروة، 1391ق، ج6، ص174-175۔
  32. نجفی، جواهر الکلام، 1362شمسی، ج36، ص113۔
  33. نجفی، جواهر الکلام، 1362شمسی، ج36، ص30۔
  34. شهید ثانی، الروضة البهیة، ج1، ص79۔
  35. طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1417ھ، ج5، ص482؛ حکیم، مستمسک العروة، 1391ھ، ج14، ص10۔
  36. نجفی، جواهر الکلام، 1362شمسی، ج36، ص451۔
  37. رشیدرضا، تفسیر المنار، 1990ء، ج1، ص33۔
  38. رشیدرضا، تفسیر المنار، 1990ء، ج1، ص33۔
  39. آلوسی، روح المعانی، 1415ھ، ج1، ص41۔
  40. رشیدرضا، تفسیر المنار، 1990ء، ج1، ص33؛ آلوسی، روح المعانی، 1415ھ، ج1، ص41۔
  41. رشیدرضا، تفسیر المنار، 1990ء، ج1، ص33۔
  42. ملاحظہ کیجیے: حاکم نیشابوری، المستدرک على الصحیحین، 1411ھ، ج1، 356-357؛ کلینی، الکافی، 1407ھ، ج3، 312-313؛ بیهقی، السنن الکبری، 1424ھ، ج2، ص67؛ بروجردی، جامع الاحادیث الشیعه، 1415ھ، ج5، ص128-130۔
  43. خویی، البیان، مؤسسة احیاء آثار الامام الخوئی، ص447-448۔
  44. رشید رضا، تفسیر المنار، 1990ء، ج1، ص34؛ آلوسی، روح المعانی، 1415ھ، ج1، ص41۔
  45. فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج1، ص172۔
  46. رشیدرضا، تفسیر المنار، 1990ء، ج1، ص34؛ آلوسی، روح المعانی، 1415ھ، ج1، ص41۔
  47. سرخسی، المبسوط، 1414ھ، ج1، ص37۔
  48. شعیبی، معجم مصنفات القرآن، 1403ھ، ج2، ص12۔
  49. اسفراینی، تاج التراجم، 1375شمسی، ص39۔
  50. میبدی، کشف الاسرار، 1371شمسی، ج1، ص2۔
  51. رازی، روض الجنان، 1376شمسی، ج15، ص182۔
  52. کاشفی، جواهر التفسیر، 1379شمسی، ص330۔
  53. طبری، ترجمه تفسیر طبری، 1356شمسی، ج1، ص10۔
  54. ملاحظہ کیجیے: ساجدی، «معادل فارسی «بِسْم اللَّه الرَّحْمَن الرَّحیم» در ترجمه‌های قدیم و جدید قرآن»، ص26-30۔
  55. قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، 1364شمسی، ج1، ص104۔
  56. ابن‌ قتیبه، تفسیر غریب القرآن، 1411ھ، ص12؛ طباطبایی، المیزان، 1363شمسی، ج1، ص18؛ قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، 1364شمسی، ج1، ص104۔
  57. قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، 1364شمسی، ج1، ص105۔
  58. ملاحظہ کیجیے: شیخ طوسی، التبیان، دار إحیاء التراث العربی، ج1، ص29۔
  59. شیخ طوسی، التبیان، دار إحیاء التراث العربی، ج1، ص29؛ طباطبایی، المیزان، 1363شمسی، ج1، ص18-19؛ عروسی حویزی، تفسیر نور الثقلین، 1415ھ، ج1، ص12۔
  60. طبرسی، مجمع البیان، 1415ھ، ج1، ص54؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج1، ص166۔
  61. ملاحظہ کیجیے: قشیری، لطائف الاشارات، 2000ء، ج1، ص44؛ ابن‌عربی، فتوحات المکیة، دار إحیاء التراث العربی، ج1، ص102؛ کاشانی، تفسیر ابن‌عربی (تأویلات عبدالرزاق)، 1422ھ، ج1، ص7۔
  62. ملاحظہ کیجیے: قشیری، لطائف الاشارات، 2000ء، ج1، ص44؛ ابن‌عربی، فتوحات المکیة، دار إحیاء التراث العربی، ج1، ص102۔
  63. ابن‌عربی، فتوحات المکیة، دار إحیاء التراث العربی، ج1، ص102۔
  64. کاشانی، تفسیر ابن‌عربی (تأویلات عبدالرزاق)، 1422ھ، ج1، ص7۔
  65. کاشفی، جواهر التفسیر، 1379ش، ص334-335۔
  66. کاشانی، تفسیر ابن‌عربی (تأویلات عبدالرزاق)، 1422ھ، ج1، ص7؛ قونوی، اعجاز البیان، 1381شمسی، ص173؛ سلطان علیشاه، بیان السعادة، 1408ھ، ج1، ص28۔
  67. کاشانی، تفسیر ابن‌عربی (تأویلات عبدالرزاق)، 1422ھ، ج1، ص7۔
  68. مطیع، «تسمیه»، ص326۔
  69. مطیع، «تسمیه»، ص326۔
  70. برای نمونه نگاه کنید به نظامی، کلیات دیوان حکیم نظامی گنجه‌ای، 1335شمسی، ص9۔
  71. مطیع، «تسمیه»، ص326۔
  72. معینی، فرهنگ امثال و تعابیر قرآنی، 1394شمسی، ص159؛ مطیع، «تسمیه»، ص326۔

مآخذ

  • آلوسی، محمود بن عبد اللہ، روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم و السبع المثانی، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، 1415ھ۔
  • ابوالفتوح رازی، حسین بن علی، روض الجنان و روح الجنان فی تفسیر القرآن، مشہد، بنیاد پژوہش‌ہای اسلامی، 1376ہجری شمسی۔
  • ابن‌ عربی، محمد بن علی، الفتوحات المکیۃ، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، بی‌تا.
  • ابن‌ قتیبہ، عبد اللہ بن مسلم، تفسیر غریب القرآن، بیروت، دار و مکتبۃ الہلال، 1411ھ۔
  • اسفراینی، شہفور بن طاہر، تاج التراجم، تصحیح علی‌ اکبر الہی خراسانی، تہران، شرکت انتشارات علمی و فرہنگی، 1375ہجری شمسی۔
  • بحرانی، ہاشم بن سلیمان، البرہان فی تفسیر القرآن، قم، مؤسسۃ البعثۃ، 1415ھ۔
  • بروجردی، سید حسن، جامع الاحادیث الشیعہ، قم، انتشارات مہر، 1415ھ۔
  • بیہقی، احمد بن حسین، السنن الکبری، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، 1424ھ۔
  • «ترتیب پایان نامہ نویسی»، سایت کلام سبز، تاریخ درج مطلب: 18 فروردین 1402شمسی، تاریخ بازدید: 10 دی 1402ہجری شمسی۔
  • جصاص، احمد بن علی، احکام القرآن، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، 1415ھ۔
  • حاکم نیشابوری، محمد بن عبداللہ، المستدرک علی الصحیحین، بیروت، المکتبۃ العصریۃ، 1420ھ۔
  • حکیم، سید محمد باقر، تفسیر سورۃ الحمد، قم، مجمع الفکر الإسلامی، 1420ھ۔
  • حکیم، سید محسن، مستمسک العروۃ، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، 1391ھ۔
  • خمینی، سید مصطفی، تفسیر القرآن الکریم، قم، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، 1418ھ۔
  • خویی، سید ابو القاسم، البیان، قم، مؤسسۃ احیاء آثار الامام الخوئی، بی‌تا.
  • رشیدرضا، محمد، تفسیر المنار، مصر، الہیئۃ المصریۃ العامۃ للکتاب، 1990ء۔
  • زمخشری، محمود بن عمر، الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل، بیروت، دار الکتاب العربی، 1407ھ۔
  • ساجدی، اکبر، «معادل فارسی «بِسْم اللَّہ الرَّحْمَن الرَّحیم» در ترجمہ‌ ہای قدیم و جدید قرآن»، حسنا، شمارہ 34، بہار و تابستان 1397ہجری شمسی۔
  • سرخسی، محمد بن احمد، المبسوط، بیروت، دار المعرفۃ، 1414ھ۔
  • سلطان علی شاہ، سلطان محمد بن حیدر، بیان السعادۃ فی مقامات العبادۃ، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، 1408ھ۔
  • سیوطی، جلال الدین، الدر المنثور، بیروت، دار الفکر، بی‌تا.
  • شعیبی، علی شواخ اسحاق، معجم مصنفات القرآن، ریاض، دار الرفاعی، 1403ھ۔
  • شہید ثانی، علی بن زین الدین، الروضۃ البہیۃ، قم، انتشارات دفتر تبلیغات اسلامی حوزہ علمیہ قم، چاپ اول، 1412ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، بی‌تا.
  • طباطبایی یزدی، سید محمد کاظم، العروۃ الوثقی، قم، مؤسسۃ النشر الإسلامی، 1417ھ۔
  • طباطبایی، سید محمد حسین، المیزان فی التفسیر القرآن، قم، انتشارات اسماعیلیان، 1363ہجری شمسی۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، 1415ھ۔
  • طبری، ابن جریر، جامع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دار المعرفۃ، 1412ھ۔
  • طبری، محمد بن جریر، ترجمہ تفسیر طبری، تہران، انتشارات توس، 1356ہجری شمسی۔
  • طیب، عبد الحسین، اطیب البیان، تہران، انتشارات اسلام، 1378ہجری شمسی۔
  • عروسی حویزی، عبد علی بن جمعۃ، تفسیر نور الثقلین، قم، اسماعیلیان، چاپ چہارم، 1415ھ۔
  • علامہ مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، بیروت، مؤسسۃ الوفاء، 1983ء۔
  • عیاشی، محمد بن مسعود، تفسیر العیاشی، تہران، المطبعۃ العلمیۃ، چاپ اول، 1380ھ۔
  • فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، 1420ھ۔
  • قرطبی، محمد بن احمد، الجامع لاحکام القرآن، تہران، انتشارات ناصر خسرو، 1364ہجری شمسی۔
  • قشیری، عبد الکریم بہ ہوازن، لطائف الاشارات، قاہرہ، الہیئۃ المصریۃ العامۃ للکتاب، 2000ء۔
  • قلقشندی، احمد بن علی، صبح الاعشی فی صناعہ الانشاء، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، بی‌تا.
  • قندوزی، سلیمان بن ابراہیم، ینابیع المودۃ، قم، دار الاسوۃ، 1422ھ۔
  • قونوی، محمد بن اسحاق، اعجاز البیان فی تفسیر ام القرآن، قم، بوستان کتاب، 1381ہجری شمسی۔
  • کاشانی، عبد الرزاق، تفسیر ابن‌عربی (تأویلات عبدالرزاق)، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، 1422ھ۔
  • کاشفی، حسین بن علی، جواہر التفسیر، تہران، مرکز پژوہشی میراث مکتوب، 1379ہجری شمسی۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح علی‌اکبر غفاری، دار الکتب الاسلامیۃ، 1407ھ۔
  • معینی، محسن، فرہنگ امثال و تعابیر قرآنی، تہران، نشر فرہنگ معاصر، چاپ سوم، 1394ہجری شمسی۔
  • مطہری، مرتضی، پانزدہ گفتار، قم، انتشارات صدرا، 1389ہجری شمسی۔
  • مطیع، مہدی، «تسمیہ»، در دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی، تہران، مرکز دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی، 1387ہجری شمسی۔
  • مغنیہ، محمد جواد، التفسیر الکاشف، بیروت، دار الانوار، بی‌تا.
  • موسوی آملی، سید محسن، «سر در نوشتہ‌ہای قرآن»، سایت پرتال علوم اسلامی، تاریخ بازدید: 17 دی 1402ہجری شمسی۔
  • میبدی، احمد بن محمد، کشف الاسرار، تہران، انتشارات امیرکبیر، 1371ہجری شمسی۔
  • نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، 1362ہجری شمسی۔
  • نظامی، ابومحمد الیاس بن یوسف، کلیات دیوان حکیم نظامی گنجہ‌ای، تہران، انتشارات امیرکبیر، 1335ہجری شمسی۔
  • ہوشنگی، لیلا، «بسملہ»، در دانشنامہ جہان اسلام، تہران، بنیاد دایرۃ المعارف اسلامی، چاپ سوم، 1386ہجری شمسی۔