ہاجرہ

ویکی شیعہ سے
(حضرت ہاجرہ سے رجوع مکرر)
ہاجرہ
کوائف
نام:ہاجرہ
مشہور اقارب:حضرت ابراہیمؑ، حضرت اسماعیلؑ
وجہ شہرت:زوجہ حضرت ابراہیمؑ و مادر حضرت اسماعیلؑ
مقام پیدائشمصر
محل زندگی:مکہ
مدفن:حجر اسماعیل
مذہب:دین حنیف
دینی خدمات:صفا و مروہ کے درمیان حضرت اسماعیلؑ کے لئے پانی کی تلاش، آب زمزم


ہاجَرہ حضرت ابراہیمؑ کی زوجہ اور حضرت اسماعیلؑ کی والدہ ہیں۔ ہاجرہ پادشاہ مصر کی کنیز تھیں جنہیں حضرت ابراہیم کی زوجہ سارہ کے لئے بطور ہدیہ دیا گیا تھا اور سارہ نے انہیں حضرت ابراہیمؑ کو بیچ دیا تھا پھر کچھ عرصے بعد آپ کے بطن سے حضرت اسماعیلؑ پیدا ہوئے۔

حضرت اسماعیلؑ کی ولادت کے بعد سارہ نے ہاجرہ سے حسادت اور ناراضگی کا اظہار شروع کیا تو حضرت ابراہیم نے خدا کے حکم سے ہاجرہ اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل کو شام سے مکہ منتقل کیا، جو اس وقت ایک خشک بیابان تھا جس کی وجہ سے وہاں کوئی آبادی نہیں تھی۔ اسلامی مآخذ کے برخلاف توریت میں ہاجرہ کی شام سے مکہ ہجرت، حضرت اسماعیل کی بجائے حضرت اسحاقؑ کی ولادت کے بعد قرار دی گئی ہے اور تورات کے مطابق اس سفر میں حضرت ابراہیمؑ بھی ان کے ہمراہ نہیں تھے۔

خاندان

حجر اسماعیل اور ہاجرہ کا مدفن

ایک روایت کے مطابق ہاجرہ پادشاہ مصر کی بیٹی تھیں اور عین‌ الشمس کے بعض افراد کی جانب سے پادشاہ مصر کے خلاف اٹھنے والی بغاوت میں آپ اسیر ہو کر مصر کے نئے بادشاہ کی کنیزی میں آگئی تھیں۔[1] پیغمبر اکرمؐ نے اپنے اصحاب کو آپ کی خاطر مصر کے لوگوں کے ساتھ نرمی سے پیش آنے کا حکم دیا۔[2]

ہاجرہ حجر اسماعیل کے اندر مدفون ہیں۔[3] بعض احادیث کے مطابق آپ کی قبر کے احترام کی وجہ سے مسلمان خانہ کعبہ کے طواف کے دوران حجر اسماعیل کے باہر سے چکر لگاتے ہیں تاکہ آپ کی قبر کی بے احترامی نہ ہو۔[4]

سارہ کی کنیزی

ابن اثیر کی گزارش کے مطابق حضرت ابراہیمؑ کو تقریبا 70 سال کی عمر میں خدا کی طرف سے بابل سے مہاجرت کرنے کا حکم ملا؛[5] یوں آپ اپنی زوجہ سارہ، بھتیجے حضرت لوط اور بعض دیگر پیروکاروں کے ساتھ مصر چلے گئے۔ جب مصر کے پادشاہ نے سارہ کی طرف بری نظر سے دیکھنا شروع کیا تو حضرت ابراہیمؑ نے تقیہ کے طور پر اپنا تعارف سارہ کے بھائی کے عنوان سے کیا۔ ابن اثیر کے مطابق جب بھی پادشاہ مصر سارہ کی جانب بری نیت سے دیکھتا تو اس کا ہاتھ شل ہو جاتا تھا۔ تین دفعہ یہ واقعہ تکرار ہوا یہاں تک کہ پادشاہ نے سارہ سے دعا کی درخواست کی تاکہ اس کا ہاتھ دوبارہ ٹھیک ہو جائے۔ سارہ کی دعا کے بعد پادشاہ نے آپ کو چھوڑ دیا اور ہاجرہ جو ایک قبطی کنیز تھیں آپ کو بخش دی۔[6]

علامہ طباطبایی کا کہنا ہے کہ ابراہیم کی طرف سے سارا کو اپنی بہن کے نام سے معرف کرنا نبوت کے مقام کے ساتھ سازگار نہیں ہے اور یہ بات تورات کی تناقض گوئی ہے جو وہاں سے اہل سنت کے حدیثی اور تاریخی مآخذ میں منتقل ہوئی ہیں۔[7] اسی طرح علامہ طباطبائی نے الکافی سے نقل کیا ہے کہ اس واقعے میں سارہ کو اپنی بیوی معرفی کیا ہے اور جب بھی بادشاہ کا ہاتھ خشک ہوتا تھا تو ابراہیم کی دعا سے ٹھیک ہوتا تھا۔[8]

شام سے مکہ ہجرت

حضرت ابراہیمؑ کو سارہ سے کوئی اولاد نہیں ہوئی اس لئے سارہ نے اپنی کنیز ہاجرہ حضرت ابراہیمؑ کے ہاتھوں بیچ دیا تاکہ حضرت ابراہیمؑ ان کے ذریعے صاحب اولاد ہو سکیں۔[9] کچھ عرصے بعد ہاجرہ کے بطن سے حضرت اسماعیلؑ پیدا ہوئے[10] جو سارہ کی ناراضگی کا سبب بنا؛ کیونکہ وہ خود صاحب اولاد نہیں تھیں۔[11]حضرت اسماعیلؑ کی ولادت اور سارہ کی ناراضگی کے بعد خدا نے حضرت ابراہیمؑ کو حضرت اسماعیلؑ اور ان کی ماں کو شام سے مکہ منتقل کرنے کا حکم دیا۔[12] حضرت ابراہیمؑ ان دونوں کو مکہ لے آئے جو اس وقت ایک خشک بیاباں تھا اور وہاں کوئی آبادی بھی نہیں تھی۔ جس جگہ حضرت ابراہیمؑ نے حضرت اسماعیلؑ اور ان کی والدہ کو رکھا وہاں بعد میں خانہ کعبہ تعمیر کیا گیا اور آب زم زم کا چشمہ بھی وہیں پھوٹ پڑا تھا۔[13] قرآن میں ہاجرہ کا نام نہیں آیا ہے لیکن سورہ ابراہیم میں شام سے مکہ کی طرف آپ کی نقل مکانی کی طرف اشارہ ہوا ہے۔[14]

ہاجرہ اور حضرت ابراہیمؑ کی گفتگو

'"کیا ہمیں ایک ایسی جگہ چھوڑ رہے ہو جہاں نہ کوئی یار و مددگار ہے اور نہ کھانے پینے کی چیزیں۔
حضرت ابراہیمؑ نے کہا:
وہ خدا جس نے مجھ اس کام کا حکم دیا ہے وہ تمھارے لئے کافی ہے

قمی، تفسیر القمی، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۶۰۔

امام صادقؑ سے منقول ایک حدیث کے مطابق جب حضرت ابراہیمؑ ہاجرہ اور حضرت اسماعیلؑ کو مکہ چھوڑ کر چلے گئے تو حضرت اسماعیلؑ کو پیاس لگی اور ہاجرہ نے پانی کی تلاش میں سات دفعہ صفا اور مروہ کا چکر لگایا لیکن پانی میسر نہیں ہوا۔ ہاجرہ جب تھک ہار کر حضرت اسماعیلؑ کے پاس واپس آئیں تو دیکھا وہ پیاس کی شدت سے زمین پر پاؤں رگڑ رہے تھے اور ان کے پاؤں کے نیچے سے پانی بہہ رہا تھا جو بعد میں آب زم زم کے نام سے مشہور ہو گیا۔ یہ واقعہ حج کے اعمال میں صفا اور مروہ کے درمیان سعی کے واجب ہونے کا سبب بنا ہے۔[15]

اسلامی مآخذ کے مطابق ہاجرہ کی مکہ کی طرف ہجرت حضرت اسحاق کی ولادت سے پہلے اور حضرت اسماعیلؑ کی ولادت کے بعد سارہ کی ناراضگی کی وجہ سے پیش آئی؛[16] جبکہ توریت کے مطابق ہاجرہ نے حضرت اسحاق کی ولادت کے بعد ہجرت کی ہے۔[17] توریت میں اس نقل مکانی کی علت یہ بیان کی گئی ہے کہ جب سارہ نے دیکھا کہ حضرت اسماعیلؑ حضرت اسحاق کو اذیت پہنچاتا ہے تو اس نے حضرت ابراہیمؑ سے کہا میرے بیٹے اسحاق کی موجودگی میں اس کنیز (ہاجرہ) کا بیٹا (حضرت اسماعیلؑ) کبھی بھی آپ کا جانشین نہیں بن سکتا پس وہ اور اس کے بیٹے کو اس گھر سے باہر لے جاؤ۔[18] اسی طرح اسلامی مآخذ کے برخلاف توریت میں آیا ہے کہ [19] اس ہجرت میں حضرت ابراہیمؑ ہاجرہ اور حضرت اسماعیلؑ کے ساتھ نہیں گئے۔[20]

متعلقہ صفحات

حوالہ جات

  1. بلعمی، تاریخ نامہ طبری، ۱۳۷۳ش، ج۳، ص۵۰۳۔
  2. ابن اثیر، الکامل، ۱۳۸۵ق، ج۱، ص۱۰۱۔
  3. شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۹۳۔
  4. شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۹۳۔
  5. ابن اثیر، الکامل،۱۳۸۵ق، ج۱، ص۱۰۰
  6. ابن اثیر، الکامل، ۱۳۸۵ق، ج۱، ص۱۰۱۔
  7. علامہ طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۷، ص۲۲۶-۲۲۹.
  8. علامہ طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۷، ص۲۳۱-۲۳۲.
  9. علامہ طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۷، ص۲۳۱.
  10. ابن اثیر، الکامل، ۱۳۸۵ق، ج۱، ص۱۰۱۔
  11. علامہ طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۲۸۸۔
  12. علامہ طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۲۸۸۔
  13. علامہ طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۲۸۸۔
  14. سورہ ابراہیم، آیہ ۳۷۔
  15. شیخ صدوق، علل الشرایع، ۱۳۸۵ش، ج۲، ص۴۳۲۔
  16. علامہ طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۲۸۸۔
  17. کتاب مقدس، تکوین، ۲۱: ۹-۱۲۔
  18. کتاب مقدس، تکوین، ۲۱: ۹-۱۲۔
  19. شیخ صدوق، علل الشرایع، ۱۳۸۵ش، ج۲، ص۴۳۲؛ قمی، تفسیر القمی، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۶۰۔
  20. کتاب مقدس، تکوین، ۲۱: ۹-۱۲۔

مآخذ

  • قرآن
  • کتاب مقدس۔
  • ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، بیروت، ‌دار صادر -‌ دار بیروت، ۱۳۸۵ ھ۔
  • بلعمی، تاریخنامہ طبری، تحقیق محمد روشن، تہران، انتشارات البرز، ۱۳۷۳شمسی ہجری۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، علل الشرایع، قم، کتاب فروشی داوری، ۱۳۸۵شمسی ہجری/۱۹۶۶ء۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، تصحیح علی اکبر غفاری، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، ۱۴۱۳ھ۔
  • علامہ طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، مکتبۃ النشر الإسلامی، چاپ پنجم، ۱۴۱۷ھ۔
  • قمی، علی بن ابرہیم، تفسیر القمی، تصحیح طیب موسوی جزائری، قم، دار الکتاب، ۱۴۰۴ھ۔