محسن بن امام علی

ویکی شیعہ سے
(حضرت محسن سے رجوع مکرر)
محسن بن علیؐ
ناممحسن بن علیؑ
وجہ شہرتاولاد حضرت علی و حضرت فاطمہ(س)
شہادت11ھ
وجہ شہادتسقط
مدفنایک حدیث کے مطابق حضرت علیؑ کے دولت سرا میں
والدحضرت علیؑ
والدہحضرت فاطمہ
مشہور اقاربامام علیؑ و حضرت زہرا(س)
مشہور امام زادے
حضرت عباس، حضرت زینب، حضرت معصومہ، علی اکبر، علی اصغر، عبد العظیم حسنی، احمد بن موسی، سید محمد، سیدہ نفیسہ


محسن بن علی حضرت علیؑ اور حضرت فاطمہ(س) کے پانچویں فرزند ہیں جو ابو بکر کے طرفداروں کی طرف سے خلافت کے ابتدائی ایام میں حضرت علیؑ سے بیعت لینے کیلئے ان کے گھر پر ہجوم کے وقت سقط ہوئے۔ ان کی شہادت کی تاریخ واضح نہیں۔ اسلامی تاریخ کے محقق محمد ہادی یوسفی غروی (ولادت: 1327 ہجری شمسی) بعض تاریخی شواہد کی روشنی میں حضرت فاطمہؑ کے گھر پر حملہ اور سقط محسن کو رسول اللہ کے وصال کے 50 دن یا اس کے بعد مانتے ہیں۔ البتہ بعض افراد ربیع الاول کی ابتدائی تاریخوں کو ایام محسنیہ کا نام دے کر ان میں عزاداری کرتے ہیں۔ اہل تشیع میں اس سلسلے میں تاریخی حیثیت کے فقدان نیز اصلی مناسبتوں کے کم رنگ ہونے کے خدشے کے پیش نظر مراجع تقلید اس کام کی تائید نہیں کرتے ہیں۔

محسن بن علی کی شہادت کے سلسلہ میں عربی و فارسی میں کتابیں لکھی گئی ہیں۔ سید محمد مہدی موسوی خرسان کی تالیف کتاب "المحسن السبط مولودٌ أم سقطٌ" ان میں قابل ذکر ہے۔

امام علی و حضرت فاطمہ کے فرزند

محسن امام علی (ع) و حضرت فاطمہ زہرا کے فرزند ہیں۔[1] مختلف شیعہ و اہل سنت مصادر میں انہیں امام علی و حضرت فاطمہ کی اولاد میں شمار کیا گیا ہے۔[2] روایات کے مطابق ان کا یہ نام آنحضرت (ص) نے رکھا تھا۔[3] اور یہ نام مشبر (حضرت ہارون کے فرزند) کے نام کے ہم پلہ ہے۔[4] ابن حجر عسقلانی (متوفی 852 ھ) کے بقول: اہل سنت سیرت نگاروں نے یہ نام مُحَسّن ذکر کیا ہے۔[5]

شہادت

محسن کی وفات کی کیفیت کے سلسلہ میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ شیعہ مصادر میں ان کی شہادت کا سبب ان کا سقط ہونا ذکر ہوا ہے۔[6] اہل سنت منابع میں ان کی وفات کے سلسلہ میں مات صغیرا،[7] مات و ھو صغیر[8] و غیرہ[9] جیسی تعبیرات نقل ہوئی ہیں۔ جس سے یہ مطلب اخذ ہوتا ہے کہ وہ زندہ اس دنیا میں وارد ہوئے۔ اہل سنت عالم ابن حزم اندلسی (متوفی 456 ھ) کے مطابھ، ولادت کے فورا بعد ان کی وفات ہوگئی۔[10] حالانکہ محمد بن عبد الکریم شہرستانی (متوفی 548 ھ) نے اپنی کتاب الملل و النحل میں بزرگ معتزلی عالم ابراہیم بن سیار المعروف نظام معتزلی (متوفی 221 ھ) کے حوالے نقل کیا ہے کہ فاطمہ (ع) کے پہلو پر عمر بن خطاب کی ضربت محسن کے سقط کا سبب بنی۔[11] اسی طرح سے شارح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید معتزلی (متوفی 656 ھ) نے اپنے استاد ابو جعفر نقیب سے اپنے مناظرہ میں حضرت علی (ع) سے بیعت لینے کے واقعہ میں سقط محسن کی طرف اشارہ کیا ہے۔[12]

اہل سنت کتب میں منقول بعض روایات کے مطابھ، محسن کی ولادت آنحضرت (ص) کی زندگی میں ہوئی ہے۔[13]

تاریخ شہادت

محسن حضرت فاطمہؑ کے گھر پر حملہ میں سقط ہوئے ہیں۔[14] تاریخ اسلام کے محقق محمد ہادی یوسفی غروی (ولادت: 1327 ش) تاریخی شواہد کی بنیاد پر یہ مانتے ہیں کہ حضرت فاطمہ کے گھر پر حملہ کا واقعہ سقیفہ بنی ساعدہ اور ابوبکر کی بیعت کے فورا بعد پیش نہیں آیا ہے بلکہ آنحضرت (ص) کی رحلت کے تقریبا 50 دن یا اس سے زیادہ کے بعد پیش آیا ہے۔[15] اس کے باوجود بعض افراد ربیع الاول کے ابتدائی ایام کو ایام محسنیہ سے منسوب کرکے عزاداری کرتے ہیں۔[16] مراجع تقلید میں آیت اللہ مکارم شیرازی (ولادت: 1305 ش) کے بقول: بہتر ہے کہ ایام محسنیہ منعقد نہ ہوں کیونکہ شیعوں میں اس کا رواج نہیں رہا ہے۔ اس کا انعقاد دوسری اہم مناسبتوں کے کم رنگ ہونے کا سبب بنے گا۔[17]

قاضی عبد الجبار معتزلی (متوفی 415 ھ) کی گزارش کے مطابھ، بعض شیعہ مصر، دمشق، بغداد، الرملہ، عکا، صور، عسقلان و جبل البسماق کے علاقوں میں حضرت فاطمہ اور ان کے فرزند محسن کی عزاداری کرتے تھے۔[18]

محل دفن

تاریخی منابع میں محسن کے مقام دفن کی طرف اشارہ نہیں ہوا ہے۔ البتہ اس روایت کی بنیاد پر جس کا ذکر کتاب جامع النورین میں آیا ہے: حضرت علی (ع) نے حضرت فاطمہ کی خادمہ فضہ سے فرمایا: محسن کے جسد کو اپنے گھر میں دفنا دو۔[19]

عذابِ قاتل

کامل الزیارات میں منقول روایت کے مطابھ، قیامت کے روز خاندان رسول خدا میں سے سب سے پہلے محسن کا واقعہ خدا کے سامنے پیش ہوگا اور اس کے قاتل کا حساب لیا جائے گا۔[20]

مونوگرافی

محسن بن علی کے سلسلہ میں لکھی گئی عربی و فارسی کتابیں:

  • المحسن السبط مولودٌ أم سقطٌ؛ مولف سید محمد مہدی موسوی خرسان، عربی کتاب ہے جو مرکز الابحاث العقائدیہ کی طرف سے سنہ 1430 ھ میں 626 صفحہ میں شائع ہوئی ہے۔[21] مولف نے تاریخی متون کے تطبیقی مطالعہ سے یہ نتیجہ پیش کیا ہے کہ سقط محسن حضرت علی کے گھر پر حملہ کے دن ان ضربات و اذیت کی وجہ سے ہوا ہے جو حضرت فاطمہ پر وارد ہوئے ہیں۔[22]
  • غنچہ یاس؛ محسن بن علی، مولف: مہدی فاطمی، فارسی و عربی زبان میں سنہ 1386 ش میں نشر ہوئی ہے۔[23]
  • محسن بن علی؛ مولف: علی‌ اصغر رضوانی۔[24]
  • المحسن بن فاطمة الزهراء؛ مولف عبد المحسن عبد الزهراء القطیفی۔[25]
  • مسافر دریا حضرت محسن بن علی؛ مولف صادق داوری۔[26]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. برای نمونہ نگاه کریں: یعقوبی، تاریخ یعقوبی، دار صادر، ج2، ص213؛ قاضی نعمان، شرح الاخبار، 1414ھ، ج3، ص88؛ شیخ مفید، الارشاد، 1413ھ، ج1، ص355؛ ابن‌ صوفی، المجدی، 1422ھ، ص193.
  2. ابن‌ حنبل، مسند، 1421ھ، ج2، ص159، 246؛ بخاری، الادب المفرد، 1409ھ، ص286؛ ابن‌ قتیبة، المعارف، 1992م، ص211؛ بلاذری، انساب‌ الاشراف، 1394ھ، ج2، ص189؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ھ، ج5، ص153؛ حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، 1411ھ، ج3، ص180 ابن‌ حزم اندلسی، جمهرة انساب العرب، 1403ھ، ص16؛ ابن‌ اثیر، اسد الغابة، 1409ھ، ج4، ص299-300؛ سبط بن جوزی، تذکرة الخواص، 1418ھ، ص57؛ ابن‌ کثیر، البدایة و النهایة، 1408ھ، ج7، ص367؛ ابن‌ حجر عسقلانی، الاصابہ، 1415ھ، ج6، ص191.
  3. شیخ مفید، الارشاد، 1413ھ، ج1، ص355
  4. ابن‌ حنبل، مسند، 1421ھ، ج2، ص159، 246؛ شیخ مفید، الارشاد، 1413ھ، ج1، ص355.
  5. ابن‌ حجر عسقلانی، الاصابہ، 1415ھ، ج6، ص191.
  6. نگاه کریں: شیخ مفید، الارشاد، 1413ھ، ج1، ص355.
  7. ابن‌ اثیر، اسد الغابة، 1409ھ، ج4، ص300.
  8. ابن‌ قتیبة، المعارف، 1992م، ص211.
  9. مقدسی، البدء و التاریخ، مکتبة الثقافة الدینیة، ج5، ص75.
  10. ابن‌ حزم اندلسی، جمهرة انساب العرب، 1403ھ، ص38.
  11. شهرستانی، الملل و النحل، 1364ہجری شمسی، ج1، ص71.
  12. ابن‌ ابی‌ الحدید، شرح نهج‌ البلاغة، 1404ھ، ج14، ص192–193.
  13. ابن‌ اثیر، اسد الغابة، 1409ھ، ج4، ص299؛ ابن‌ حنبل، مسند، 1421ھ، ج2، ص159، 246؛ ابن عبدالبر، الاستیعاب، 1412ھ، ج1، ص384.
  14. مفید، الاختصاص، 1413ھ، ص185؛ خصیبی، الهدایة الکبری، 1419ھ، ص408؛ ابن‌ ابی‌ الحدید، شرح نهج‌ البلاغة، 1404ھ، ج14، ص192–193؛ شهرستانی، الملل و النحل، 1364ہجری شمسی، ج1، ص71.
  15. یوسفی غروی، «تاریخ هجوم بہ خانہ حضرت زهرا»، ص9-14.
  16. «اتفاقات هفتہ اول بعد از ماه صفر، ریشہ و اصل همہ مصائب جهان اسلام است»، پایگاه اطلاع‌ رسانی حضرت آیت‌ الله العظمی سید صادق روحانی.
  17. «نظر حضرت‌ عالی در مورد برگزاری مراسم ایّام محسنیہ بہ صورت عمومی در سطح شهر چیست؟»، پایگاه اطلاع‌ رسانی دفتر حضرت آیت‌ الله العظمی مکارم شیرازی.
  18. قاضی عبد الجبار، تثبیت دلائل النبوة، 1427ھ، ج2، ص595.
  19. سبزواری، ملا اسماعیل، جامع النورین، ص206
  20. ابن قولویہ، کامل الزیارات، النص، ص334
  21. موسوی خرسان، المحسن السبط مولودٌ أم سقطٌ، 1430ھ، شناسنامہ کتاب.
  22. الموسوی الخرسان، المحسن السبط مولود أم سقط، 1430ھ، ص207.
  23. غنچہ یاس، شبکہ جامع کتاب گیسوم
  24. محسن بن علی (ع)، مؤسسہ خانہ کتاب ایران و ادبیات ایران
  25. المحسن‌ بن‌ فاطمہ الزهراء مؤسسہ خانہ کتاب ایران.
  26. مسافر دریا: حضرت محسن بن علی، شبکہ جامع کتاب گیسوم.

مآخذ

  • ابن ابی الحدید(م656ھ), شرح نہج البلاغہ، تحقیق حمحد ابوالفضل ابراہیم، قاہره، ط2,‌دار احیاء الکتب العربیہ, قاہره, 1387ھ/1967ء افست قم 1404ھ۔
  • ابن اثیر, عز الدین علی بن ابی الکرم (م630ق)، اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ، تہران، اسماعیلیان, بی‌تا۔
  • ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، بیروت، دار صادر-‌دار بیروت، 1385ھ/1965ء۔
  • ابن حبان بستی (م 354ق)، کتاب الثقات، چاپ أول، بیروت، مؤسسۃ الکتب الثقافیہ، (مجلس دائرة المعارف العثمانیہ۔ بحیدر آباد الدکن الہند)، 1393ھ۔
  • ابن حجر، احمد بن علی العسقلانی (م852ق)، الاصابہ فی تمییز الصحابہ، تحقیھ، الشیخ عادل احمد عبد الموجودالشیخ علی محمد معوض, بیروت، ط1، دارالکتب العلمیہ, 1415ھ/1995ء۔
  • ابن حزم، ابومحمد علی بن احمد بن حزم الاندلسی (م456)، جمہرة انساب العرب، تحقیق لجنہ من العلماء، ط 1، بیروت،‌ دار الکتب العلملیہ، 1403 ھ/1983ء۔
  • ابن دمشقی، شمس الدین أبی البرکات محمد بن أحمد الدمشقی الباعونی الشافعی (م 871 ه)، جواهر المطالب فی مناقب الإمام علی بن أبی طالب علیہ السلام، تحقیق: الشیخ محمد باقر المحمودی، قم، مجمع إحیاء الثقافہ الاسلامیہ، الطبعہ الأولی، 1415ھ۔
  • ابن شہر آشوب, محمد بن علی مازندرانی (م588ه)، مناقب آل ابی طالب، تحقیق لجنہ من اساتذه النجف, نجف، مکتبہ الحیدریہ,1376ھ/1956ء۔
  • ابن صباغ، علی بن محمد بن أحمد المالکی المکی (م 855 هق) الفصول المہمة فی معرفۃ الأئمہ، تحقیق: علیہ سامی الغریری، قم،‌دار الحدیث، 1379 ہجری شمسی، ص125۔
  • ابن عبد البر، یوسف بن عبد الله قرطبی، (م463ھ)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، تحقیق, الشیخ علی محمد معوض-الشیخ عادل احمد عبد الموجود، ط1، بیروت،‌ دار الکتب العلمیہ, 1415ھ/1995ء۔
  • ابن عساکر، الحافظ أبی القاسم علی بن الحسن بن ہبة الله الشافعی المعروف بابن عساکر(م 571 ق)، ترجمہ الإمام الحسن بن علی بن أبی طالب علیہما السلام من تاریخ مدینۃ دمشھ، تحقیق: الشیخ محمد باقر المحمودی، بیروت، موسسہ المحمودی للطباعہ و النشر، الطبعہ الاولی،1400ھ/ 1980ء۔
  • ابن عساکر، ترجمہ الإمام الحسین علیہ السلام من تاریخ مدینہ دمشھ، تحقیق: الشیخ محمد باقر المحمودی، قم، مجمع إحیاء الثقافۃ الاسلامیہ، الطبعہ الثانیہ، 1414 ه۔
  • ابن قتیبہ، عبد الله بن مسلم دینوری، المعارف، تحقیق, ثروت عکاشہ, ط1, قم، منشورات الشریف الرضی, 1415 ھ/1373 ہجری شمسی۔
  • ابن کثیر، ابوالفداء اسماعیل بن کثیر الدمشقی(م774ھ), تحقیق, علی شیری, البدایہ والنہایہ، ط1, بیروت،‌دار احیاء التراث العربی, 1408ھ۔
  • ابوالفداء، اسماعیل بن عباد، المختصر فی اخبار البشر۔
  • أحمد بن حنبل، مسند و بہامشہ منتخب کنز العمال فی سنن الأقوال والافعال، بیروت،‌دار صادر، بی‌تا۔
  • اربلی، ابو الحسن علی بن عیسی بن أبی الفتح الأربلی (م 693 ھ)، کشف الغمہ فی معرفہ الأئمہ، بیروت،‌دار الأضواء، ط 2، 1405 ه/ 1985ء۔
  • بخاری، امام محمد بن إسماعیل، (م 256 ه(، الأدب المفرد، بیروت، مؤسسہ الکتب الثقافیہ، الطبعہ الأولی، 1406ھ - 1986ء۔
  • بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، تحقیق, سہیل زکار و ریاض زرکلی, ط 1, بیروت،‌دار الفکر, 1417 ھ/1996ء۔
  • بیہقی, احمد بن الحسین بن علی,(م458ھ), السنن الکبری، بیروت،‌دار الفکر, بی‌تا۔
  • خصیبی، أبی عبد الله الحسین بن حمدان (م334 هق)، الہدایہ الکبری، بیروت، مؤسسہ البلاغ للطباعہ والنشر والتوزیع، لبنان۔ الطبعہ الرابعہ، 1411 ه - 1991 م، ص392 و ص417۔
  • ذہبی، شمس الدین محمد بن عثمان(م 748ق)، سیر اعلام النبلاء، تحقیق, شعیب الارنووط-ابراہیم الزبیق,ط9, بیروت، موسسہ الرسالہ, 1413 ھ۔
  • دولابی، ابوبشر احمد بن حماد(م310), الذریۃ الطاہره، تحقیق,سعد المبارک حسن, ط1, کویت،‌دار السلفیہ, 1407ھ، ص61 -62۔
  • زرندی، جمال الدین محمد بن یوسف بن الحسن بن محمد الزرندی الحنفی المدنی (م 750ھ)، نظم درر السمطین فی فضائل المصطفی والمرتضی والبتول والسبطین، بی‌جا، الطبعۃ الأولی، 1377ھ - 1958ء۔
  • سبط بن جوزی، تذکرة الخواص۔
  • سبزواری،ملااسماعیل، جامع النورین، تہران، علمیہ اسلامیہ، بی‌تا، ص 206۔
  • سید مرتضی، الشافي في الإمامہ، شريف مرتضى‏، مؤسسہ الصادق ع‏، تہران‏، 1410 ق‏، چاپ دوم‏، تحقيق و تعليق از سيد عبد الزہراء حسينى‏۔
  • شیخ طوسی، تلخيص الشافي‏، انتشارات المحبين‏، قم‏، 1382 ہجری شمسی‏، چاپ اول‏، ملاحظات مقدمہ و تحقيق از حسين بحر العلوم‏۔
  • صفوری شافعی، عبد الرحمن بن عبد السلام(894 ھ)،نزہۃ المجالس ومنتخب النفائس، المطبعہ الکاستلیہ، مصر، 1283ھ۔
  • شامی، محمد بن یوسف صالحی(م942ق), سبل الہدی والرشاد فی سیره خیر العباد، تحقیق, الشیخ عادل احمد عبد الموجود, بیروت، ط1,‌دار الکتب العلمیہ, 1414ھ، ج 6، ص358 و ج 11، ص50 و ص55۔
  • شہرستانی، أبی الفتح محمد بن عبد الکریم بن أبی بکر أحمد (م 479 - 548)، الملل والنحل، تحقیق: محمد سید گیلانی، بیروت،‌دار المعرفہ، بی‌تا۔
  • شیخ مفید, محمدبن‌نعمان, (م 413ق)، الارشاد، تحقیق, موسسہ آل‌البیت لتحقیق‌التراث, قم، ط 1, دارالمفید, قم بی‌تا۔
  • طبرسی, الفضل بن الحسن(م548 ه), اعلام الوری باعلام الہدی، تحقیق, موسسہ آل البیت لاحیاء التراث,قم، ط1,موسسہ آل البیت, 1417ھ۔
  • طبری، محمد بن جریر (م 310)، تاریخ الرسل والامم والملوک، تحقیق : مراجعة وتصحیح وضبط : نخبة من العلماء الأجلاء، الطبعه الرابعہ، بیروت، مؤسسہ الأعلمی للمطبوعات، 1403 - 1983 م،قوبلت هذه الطبعة علی النسخة المطبوعة بمطبعة "بریل" بمدینة لندن فی سنہ 1879 م)۔
  • طبری، محمدبن جریر(م قرن 4)، دلائل الامامہ، تحقیق قسم الدراسات الإسلامیہ - مؤسسہ البعثہ، قم، مؤسسہ البعثہ، 1413ھ۔
  • طبری، احمد بن عبد اللہ(م 694ق)، ذخائر العقبی، قاہره، مکتبہ القدسی لصاحبہا حسام الدین القدسی، عن نسخہ دار الکتب المصریہ، ونسخہ الخزانہ التیموریہ، تہران، انتشارات جہان، 1356۔
  • علوی, علی بن محمد العلوی العمری النسابہ(مق 5), المجدی فی انساب الطالبیین، تحقیق, احمد مہدوی دامغانی, قم، ط1, مکتبہ المرعشی, 1409ھ۔
  • قاضی نعمان, ابوحنیفه نعمان بن محمد التمیمی المغربی(م363ق), شرح الاخبار فی فضائل الائمۃ الاطہار، تحقیق, السید محمد الحسینی الجلالی, قم، ط2, موسسہ النشر الاسلامی,1414ھ، ج 3، ص88۔
  • قندوزی، الشیخ سلیمان بن إبراہیم الحنفی (1220 - 1294 ه)، ینابیع المودة لذوی القربی، تحقیق: سید علی جمال أشرف الحسینی، تہران،‌دار الأسوة للطباعہ والنشر، الطبعہ الأولی، 1416 ه۔ ھ۔
  • کوفی، محمد بن سلیمان الکوفی القاضی، مناقب الامام أمیر المؤمنین علی بن أبی طالب علیہ السلام، تحقیق: الشیخ محمد باقر المحمودی، قم، مجمع احیاء الثقافہ الاسلامیہ، الطبعہ الأولی، محرم الحرام 1412 ھ۔
  • مسعودی, علی بن الحسین(م346) مروج الذہب و معادن الجوہر، قم، ط2,‌دار الہجره, 1363 ش/1965ء۔
  • نویری، احمد بن شہاب، نهایۃ الارب(فارسی)، ج 5، 257 – 258۔
  • نیشابوری، محمد بن محمد حاکم (م405ق), المستدرک علی الصحیحین، تحقیق, یوسف المرعشلی, بیروت،‌دار المعرفہ, 1406ھ۔
  • ہلالی، سلیم‌بن قیس، کتاب سلیم‌بن قیس الہلالی، تحقیق محمدباقر انصاری، قم، ہادی چاپ اول، 1405ھ۔
  • ہیثمی،الحافظ نور الدین علی بن أبی بکر (م 807 ق)، مجمع الزوائد و منبع الفوائد، بیروت،‌دار الکتب العلمیہ، 1408 ه۔ - 1988ء۔
  • یعقوبی، احمد بن واضح(م282), تاریخ الیعقوبی، بیروت،‌دار صادر, بی‌تا۔
  • یوسفی غروی، محمدہادی، موسوعہ التاریخ الاسلامی، قم، مجمع الفکر الاسلامی، 1429ھ۔