مندرجات کا رخ کریں

"کن فیکون" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی شیعہ سے
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں)
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں)
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 11: سطر 11:
[[سورہ غافر]] کی آیت نمبر 68 میں بھی "کُنْ فَیکونُ" کی عبارت استعمال ہوئی ہے: <font color=green>{{حدیث|هُوَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ ۖ فَإِذَا قَضَىٰ أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُونُ|ترجمہ=وہ وہی ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے وہ جب کسی کام کا فیصلہ کر لیتا ہے تو اس سے کہتا ہے کہ ہو جا تو وہ ہو جاتا ہے۔}}</font><ref>ترجمہ: محمد حسین نجفی</ref> [[سورہ نحل]] آیت نمبر 40 <font color=green>{{حدیث|إِنَّمَا قَوْلُنَا لِشَيْءٍ إِذَا أَرَدْنَاهُ أَن نَّقُولَ لَهُ كُن فَيَكُونُ|ترجمہ= ہم جب کسی چیز (کے پیدا کرنے) کا ارادہ کرتے ہیں تو ہمارا کہنا بس اتنا ہی ہوتا ہے کہ اس سے کہتے ہیں کہ ہو جا بس وہ ہو جاتی ہے۔}}</font><ref> ترجمہ: محمد حسین نجفی</ref> اور [[سورہ یس]] آیت نمبر 82:<font color=green>{{حدیث|إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَن يَقُولَ لَهُ كُن فَيَكُونُ|ترجمہ=اس کا معاملہ تو بس یوں ہے کہ جب وہ کسی چیز کے پیدا کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو کہہ دیتا ہے کہ ہو جا تو وہ (فوراً) ہو جاتی ہے۔}}</font><ref> ترجمہ: محمد حسین نجفی</ref> میں بھی یہ عبارت آئی ہے۔
[[سورہ غافر]] کی آیت نمبر 68 میں بھی "کُنْ فَیکونُ" کی عبارت استعمال ہوئی ہے: <font color=green>{{حدیث|هُوَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ ۖ فَإِذَا قَضَىٰ أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُونُ|ترجمہ=وہ وہی ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے وہ جب کسی کام کا فیصلہ کر لیتا ہے تو اس سے کہتا ہے کہ ہو جا تو وہ ہو جاتا ہے۔}}</font><ref>ترجمہ: محمد حسین نجفی</ref> [[سورہ نحل]] آیت نمبر 40 <font color=green>{{حدیث|إِنَّمَا قَوْلُنَا لِشَيْءٍ إِذَا أَرَدْنَاهُ أَن نَّقُولَ لَهُ كُن فَيَكُونُ|ترجمہ= ہم جب کسی چیز (کے پیدا کرنے) کا ارادہ کرتے ہیں تو ہمارا کہنا بس اتنا ہی ہوتا ہے کہ اس سے کہتے ہیں کہ ہو جا بس وہ ہو جاتی ہے۔}}</font><ref> ترجمہ: محمد حسین نجفی</ref> اور [[سورہ یس]] آیت نمبر 82:<font color=green>{{حدیث|إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَن يَقُولَ لَهُ كُن فَيَكُونُ|ترجمہ=اس کا معاملہ تو بس یوں ہے کہ جب وہ کسی چیز کے پیدا کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو کہہ دیتا ہے کہ ہو جا تو وہ (فوراً) ہو جاتی ہے۔}}</font><ref> ترجمہ: محمد حسین نجفی</ref> میں بھی یہ عبارت آئی ہے۔


==مختلف تفسیریں==<!--
==مختلف تفسیریں==
در [[مجمع البیان فی تفسیر القرآن (کتاب)|مجمع البیان]] سہ دیدگاہ از [[تفسیر قرآن|مفسران]] مسلمان در تفسیر این عبارت نقل شدہ است: دیدگاہ اول این عبارت را نوعی تمثیل می‌داند؛ با این دلیل کہ آنچہ اکنون موجود نیست، نمی‌تواند مخاطب قرار گیرد و بہ آن امر شود۔ دیدگاہ دوم می‌گوید: امر خداوند بہ موجودن شدن چیزی، واقعی است و خداوند این کار را برای آن انجام می‌دہد کہ فرشتگان بدانند موجود جدیدی خلق شدہ است۔ بر طبق دیدگاہ سوم ہم امرْ واقعی است۔ برپایہ آن، ازآنجا کہ ہر موجودی پیش از بہ‌وجودآمدن، نزد خدا معلوم است، خداوند می‌تواند بہ لحاظ آن، امر کند کہ موجود شود۔<ref>طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱، ص۳۶۸۔</ref>
تفسیر [[مجمع البیان فی تفسیر القرآن (کتاب)|مجمع البیان]] میں اس عبارت کی تفیسر سے متعلق [[تفسیر قرآن|مفسرین]] کے تین نظریات بیان ہوئی ہیں:
*'''پہلا نظریہ''': اس عبارت کو ایک قسم کی تمثیل قرار دیتے ہیں کیونکہ جو چیز ابھی موجود ہی نہیں اسے مخاطب قرار دے کر امر کرنا معقول نہیں ہے۔
*'''دوسرا نظریہ''': خدا حقیقتا کسی چیز کے موجود ہونے کا امر کرتا ہے اور یہ کام خدا اس لئے انجام دیتا ہے تاکہ فرشتے جان لیں کہ کوئی نئی موجود خلق ہوئی ہے۔
*'''تیسرا نظریہ''': اس نظریے میں بھی امر خداوندی کو حقیقی قرار دیتے ہیں کیونکہ ہر موجود خلق ہونے سے پہلے بھی خدا کو معلوم ہے اس بنا پر خدا اسے مخاطب قرار دے کر امر کر سکتا ہے۔<ref>طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱، ص۳۶۸۔</ref>


[[فضل بن حسن طبرسی|طَبرسی]] از مفسران [[شیعہ]] قرن ششم قمری، تفسیر نخست را پذیرفتہ و دو تفسیر اخیر را بہ برخی از علمای اہل سنت نسبت دادہ است۔<ref>طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱، ص۳۶۸۔</ref> آلوسی از مفسران قرن سیزدہمِ [[اہل سنت]]، گفتہ است کہ بیشتر علمای اہل سنت، معتقدند کہ خداوند واقعا می‌گوید: «کُنْ» (باش)؛ چراکہ معنای لفظی آیہ این را می‌گوید۔<ref>آلوسی، روح المعانی، ۱۴۱۵ق، ج۱۲، ص۵۵۔</ref> در مقابل مفسران شیعہ بر این باورند کہ مراد از چنین بیانی این است کہ خداوند ہمین‌کہ ارادہ کند، چیزی موجود شود، موجود می‌شود۔<ref>طباطبائی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۲، ص۲۴۹؛ طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۶، ص۵۵۶؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ ش، ج۱۱، ص۲۳۳۔</ref>
آٹھویں صدی کے شیعہ مفسر [[فضل بن حسن طبرسی|طَبرسی]] ان تین نظریات میں سے پہلے نظریے کو قبول کرتے ہوئے باقی دو تفسیر کو بعض اہل سنت علماء کی طرف نسبت دیتے ہیں۔<ref>طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱، ص۳۶۸۔</ref> تیرہویں صدی ہجری کے اہل سنت مفسر [[آلوسی]] کہتے ہیں کہ اکثر اہل سنت مفسرین اس بات کے خدا حقیقتا لفظ "کُنْ" کہتا ہے کیونکہ آیت کا لفظی معنا یہی کہتا ہے۔<ref>آلوسی، روح المعانی، ۱۴۱۵ق، ج۱۲، ص۵۵۔</ref> ان کے مقابلے میں شیعہ مفسرین اس بات کے معتقد ہیں اس طرح کے بیانات کا ملطب یہ ہے کہ جب بھی خدا کسی چیز کی خلقت کا ارادہ کرتا ہے تو وہ چیز خلق ہوجاتی ہے۔<ref>طباطبائی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۲، ص۲۴۹؛ طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۶، ص۵۵۶؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ ش، ج۱۱، ص۲۳۳۔</ref>


[[سیدمحمدحسین طباطبایی]] در [[المیزان]] با بیان تمثیلی‌بودن عبارت «کُنْ فَیکونُ»، آوردہ است کہ [[خداوند]] در ایجاد موجودات، حقیقتا از لفظ «کن» استفادہ نمی‌کند؛ چراکہ ہم مستلزم [[تسلسل|تَسَلسُل]] است و ہم بی‌فایدہ است۔ از آن رو مستلزم تسلسل است کہ برای ایجاد ہمین «کُنْ» ہم بہ «کُنْ» دیگری نیاز ہست و برای ایجاد «کُنْ» اخیر نیز بہ «کُنْ» دیگر و ہمین‌طور تا بی‌نہایت۔ بی‌فایدہ‌بودن آن ہم بہ این دلیل است کہ اولا ہنوز موجودی نیست کہ مخاطب «کُنْ» قرار بگیرد و ثانیا اگر موجودی باشد، نیازی بہ لفظ «کن» ندارد؛ زیرا پیش از آن موجود شدہ است۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۷، ص۱۱۵۔</ref>
[[سیدمحمدحسین طباطبایی|علامہ طباطبائی]] [[تفسیر المیزان]] میں اس عبارت کے تمثیل ہونے کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: [[خداوند عالم]] موجودات کی خلقت میں حقیقتا لفظ "کن" استعمال نہیں کرتا کیونکہ اس سے [[تسلسل|تَسَلسُل]] لازم آتا ہے اور دوسری طرف سے یہ ایک بے فائدہ کام ہے۔ تسلسل اس طرح لازم آتا ہے کہ اسی "کن" کو کہنے کیلئے بھی "کن" کہنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ بھی لفظ کا ایجاد ہے پھر اس آخری "کن" کیلئے ایک اور "کن" کہنے کی ضرورت ہے اسی طرح یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہو گا اور یہ باطل ہے۔ اس کا بے فائدہ ہونا اس طرح ہے کہ شروع میں کوئی موجود ہی نہیں ہے تاکہ اسے مخاطب قرار دے اور اسے کہیں "کن" لیکن اگر وہ چیز موجود ہے تو پھر "کن" کہنے کی ضرورت نی نہیں ہے کیونکہ اس سے "کن" کہنے سے پہلے سے ہو موجود ہو چکا ہے۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۷، ص۱۱۵۔</ref>


این معنا در برخی از روایات شیعی ہم آمدہ است۔ برای مثال در [[بحار الانوار]] از [[امام علی]](ع) نقل شدہ است کہ [[خداوند]] ہرگاہ ارادہ چیزی کند، می‌گوید: «موجود باش» و بی‌درنگ موجود می‌شود؛ نہ بہ این معنا کہ صدایی از او در گوش‌ہا بنشیند یا فریادی شنیدہ شود، بلکہ سخن خداوند ہمان چیزی است کہ ایجاد می‌کند و صورت می‌بخشد و پیش از آن چیزی وجود نداشت۔<ref>مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۴ق، ج۴، ص۲۵۴و۲۵۵۔</ref>
یعنی معنا بعض شیعہ احادیث میں بھی آیا ہے۔ مثلا [[بحار الانوار]] میں [[امام علیؑ]] سے نقل ہوئی ہے کہ [[|خدا|خداوند عالم]] جب بھی کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو کہتے ہیں: "ہوجاؤ" تو وہ چیز بغیر کسی فاصلے کی ہو جاتا ہے؛ اس کا معنا یہ نہیں ہے ہے کہ خدا سے کوئی آواز آتی ہو، بلکہ خدا کا یہ "کن" کہنا حقیقت میں ان چیزوں کی ایجاد اور انہیں صورت بخشنا ہے جن کا خدا نے ارادہ کیا تھا جو اس سے پہلے موجود نہیں تھیں۔<ref>مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۴ق، ج۴، ص۲۵۴و۲۵۵۔</ref>


===وجود اشیاء ہمان تکلم خداوند است===
===اشیاء کا وجود ہی خدا کا تکلم ہے===<!--
برخی از [[عرفان|عارفان]] «کُنْ فَیکونُ» را امری وجودی و ہمان نفس ظہور اشیاء دانستہ‌اند۔ از دیدگاہ اینان وجود اشیاء، ہمان سخن گفتن خداوند بہ وسیلہ آنہا است۔ بہ عبارت دیگر ہمہ اشیاء کلام وجودی [[خداوند]] ہستند۔<ref>صمدی آملی، شرح دفتر دل علامہ حسن‎زادہ آملی، بی‌تا، ص۵۲۔</ref>
برخی از [[عرفان|عارفان]] «کُنْ فَیکونُ» را امری وجودی و ہمان نفس ظہور اشیاء دانستہ‌اند۔ از دیدگاہ اینان وجود اشیاء، ہمان سخن گفتن خداوند بہ وسیلہ آنہا است۔ بہ عبارت دیگر ہمہ اشیاء کلام وجودی [[خداوند]] ہستند۔<ref>صمدی آملی، شرح دفتر دل علامہ حسن‎زادہ آملی، بی‌تا، ص۵۲۔</ref>



نسخہ بمطابق 11:49، 9 نومبر 2018ء



"کُنْ فَیَکونُ" "ہو جاؤ پس ہو جاتا ہے" کے معنی میں ہے۔ یہ عبارت قرآن کی مختلف آیتوں میں آئی ہے؛ من جملہ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 117 میں ارشاد رب العزت ہے: إِذا قَضی أَمْراً فَإِنَّما یقُولُ لَہُ کنْ فَیکونُ (ترجمہ: جب وہ(خدا) کسی کام کے کرنے کا فیصلہ کر لیتا ہے۔ تو اسے بس اتنا ہی کہتا ہے کہ ہو جا اور وہ ہو جاتا ہے۔)

اہل سنت اکثر مفسرین کہتے ہیں: خدا موجودات میں سے ہر ایک کی خلقت میں خود لفظ "کُن" (ہوجاؤ) کا استعمال کرتا ہے؛ لیکن شیعہ مفسرین اس عبارت کی تفسیر میں ائمہ معصومین سے منقول احادیث کی روشنی میں اس بات کے متعقد ہیں کہ "کُنْ فَیکونُ" ایک حقیت کی تمثیلی بیان ہے اور وہ یہ کہ "کسی چیز کی خلقت میں خدا کا ارادہ اس چیز کی ایجاد کے مساوی ہے"۔ اس بنا پر ایسا نہیں ہے کہ خدا موجودات کی خلقت میں خود لفظ "کن" کا استعمال کرتا ہو۔ بلکہ اس لفظ کے ادا کرنے ضرورت ہی نہیں کیونکہ جونہی خدا کسی چیز کی خلقت کا ارادہ کرتا ہے تو وہ چیز خلق ہو جاتی ہے۔

بعض عرفاء کہتے ہیں کہ اہل بہشت اور عرفاء خدا کی اذن سے مقام "کُنْ فَیکونُ" کے مالک ہوتے ہیں۔

قرآن میں تذکرہ

"کُنْ فَیکونُ" کی عبارت "ہو جاؤ پس ہو جاتا ہے" کے معنی میں ہے۔ یہ عبارت قرآن کی آٹھ(8) آیتوں میں مختلف موضوعات جسیے حضرت عیسیؑ کی پیدائش، قیامت کی خلقت اور اس کے وقوع کے بارے میں استعمال ہوئی ہے۔[1] مثلا سورہ بقرہ آیت نمبر 117، سورہ مریم آیت نمبر 35 اور سورہ آل عمران آیت نمبر 37 میں حضرت عیسیؑ کی ولادت سے متعلق آیا ہے: إِذا قَضی أَمْراً فَإِنَّما یقُولُ لَہُ کنْ فَیکونُ (ترجمہ: جب وہ(خدا) کسی کام کے کرنے کا فیصلہ کر لیتا ہے۔ تو اسے بس اتنا ہی کہتا ہے کہ ہو جا اور وہ ہو جاتا ہے۔)[2]

سورہ غافر کی آیت نمبر 68 میں بھی "کُنْ فَیکونُ" کی عبارت استعمال ہوئی ہے: هُوَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ ۖ فَإِذَا قَضَىٰ أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُونُ (ترجمہ: وہ وہی ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے وہ جب کسی کام کا فیصلہ کر لیتا ہے تو اس سے کہتا ہے کہ ہو جا تو وہ ہو جاتا ہے۔)[3] سورہ نحل آیت نمبر 40 إِنَّمَا قَوْلُنَا لِشَيْءٍ إِذَا أَرَدْنَاهُ أَن نَّقُولَ لَهُ كُن فَيَكُونُ (ترجمہ: ہم جب کسی چیز (کے پیدا کرنے) کا ارادہ کرتے ہیں تو ہمارا کہنا بس اتنا ہی ہوتا ہے کہ اس سے کہتے ہیں کہ ہو جا بس وہ ہو جاتی ہے۔)[4] اور سورہ یس آیت نمبر 82:إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَن يَقُولَ لَهُ كُن فَيَكُونُ (ترجمہ: اس کا معاملہ تو بس یوں ہے کہ جب وہ کسی چیز کے پیدا کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو کہہ دیتا ہے کہ ہو جا تو وہ (فوراً) ہو جاتی ہے۔)[5] میں بھی یہ عبارت آئی ہے۔

مختلف تفسیریں

تفسیر مجمع البیان میں اس عبارت کی تفیسر سے متعلق مفسرین کے تین نظریات بیان ہوئی ہیں:

  • پہلا نظریہ: اس عبارت کو ایک قسم کی تمثیل قرار دیتے ہیں کیونکہ جو چیز ابھی موجود ہی نہیں اسے مخاطب قرار دے کر امر کرنا معقول نہیں ہے۔
  • دوسرا نظریہ: خدا حقیقتا کسی چیز کے موجود ہونے کا امر کرتا ہے اور یہ کام خدا اس لئے انجام دیتا ہے تاکہ فرشتے جان لیں کہ کوئی نئی موجود خلق ہوئی ہے۔
  • تیسرا نظریہ: اس نظریے میں بھی امر خداوندی کو حقیقی قرار دیتے ہیں کیونکہ ہر موجود خلق ہونے سے پہلے بھی خدا کو معلوم ہے اس بنا پر خدا اسے مخاطب قرار دے کر امر کر سکتا ہے۔[6]

آٹھویں صدی کے شیعہ مفسر طَبرسی ان تین نظریات میں سے پہلے نظریے کو قبول کرتے ہوئے باقی دو تفسیر کو بعض اہل سنت علماء کی طرف نسبت دیتے ہیں۔[7] تیرہویں صدی ہجری کے اہل سنت مفسر آلوسی کہتے ہیں کہ اکثر اہل سنت مفسرین اس بات کے خدا حقیقتا لفظ "کُنْ" کہتا ہے کیونکہ آیت کا لفظی معنا یہی کہتا ہے۔[8] ان کے مقابلے میں شیعہ مفسرین اس بات کے معتقد ہیں اس طرح کے بیانات کا ملطب یہ ہے کہ جب بھی خدا کسی چیز کی خلقت کا ارادہ کرتا ہے تو وہ چیز خلق ہوجاتی ہے۔[9]

علامہ طباطبائی تفسیر المیزان میں اس عبارت کے تمثیل ہونے کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: خداوند عالم موجودات کی خلقت میں حقیقتا لفظ "کن" استعمال نہیں کرتا کیونکہ اس سے تَسَلسُل لازم آتا ہے اور دوسری طرف سے یہ ایک بے فائدہ کام ہے۔ تسلسل اس طرح لازم آتا ہے کہ اسی "کن" کو کہنے کیلئے بھی "کن" کہنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ بھی لفظ کا ایجاد ہے پھر اس آخری "کن" کیلئے ایک اور "کن" کہنے کی ضرورت ہے اسی طرح یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہو گا اور یہ باطل ہے۔ اس کا بے فائدہ ہونا اس طرح ہے کہ شروع میں کوئی موجود ہی نہیں ہے تاکہ اسے مخاطب قرار دے اور اسے کہیں "کن" لیکن اگر وہ چیز موجود ہے تو پھر "کن" کہنے کی ضرورت نی نہیں ہے کیونکہ اس سے "کن" کہنے سے پہلے سے ہو موجود ہو چکا ہے۔[10]

یعنی معنا بعض شیعہ احادیث میں بھی آیا ہے۔ مثلا بحار الانوار میں امام علیؑ سے نقل ہوئی ہے کہ [[|خدا|خداوند عالم]] جب بھی کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو کہتے ہیں: "ہوجاؤ" تو وہ چیز بغیر کسی فاصلے کی ہو جاتا ہے؛ اس کا معنا یہ نہیں ہے ہے کہ خدا سے کوئی آواز آتی ہو، بلکہ خدا کا یہ "کن" کہنا حقیقت میں ان چیزوں کی ایجاد اور انہیں صورت بخشنا ہے جن کا خدا نے ارادہ کیا تھا جو اس سے پہلے موجود نہیں تھیں۔[11]

اشیاء کا وجود ہی خدا کا تکلم ہے

حوالہ جات

  1. سورہ بقرہ، آیہ ۱۱۷؛ سورہ آل عمران، آیات ۴۷و۵۹؛ سورہ انعام، آیہ ۷۳؛ سورہ نحل، آیہ ۴۰؛ سورہ مریم، آیہ ۳۵؛ سورہ یس، آیہ ۸۲؛ سورہ غافر، آیہ۶۸۔
  2. ترجمہ: محمد حسین نجفی
  3. ترجمہ: محمد حسین نجفی
  4. ترجمہ: محمد حسین نجفی
  5. ترجمہ: محمد حسین نجفی
  6. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱، ص۳۶۸۔
  7. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱، ص۳۶۸۔
  8. آلوسی، روح المعانی، ۱۴۱۵ق، ج۱۲، ص۵۵۔
  9. طباطبائی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۲، ص۲۴۹؛ طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۶، ص۵۵۶؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ ش، ج۱۱، ص۲۳۳۔
  10. طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۷، ص۱۱۵۔
  11. مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۴ق، ج۴، ص۲۵۴و۲۵۵۔

منابع

  • قرآن کریم، ترجمہ محمدمہدی فولادوند۔
  • آلوسی، سیدمحمود، روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، ۱۴۱۵ق۔
  • آشتیانی، جلال‌الدین، شرح بر زادالمسافر، قم، بوستان کتاب، ۱۳۸۱ش۔
  • سعدی، مواعظ، غزل ۲۵۔
  • صدرالمتالہین، الحکمۃ المتعالیۃ فی الاسفار العقلیۃ الاربعۃ، بیروت، دار احیاء التراث، ۱۹۸۱م۔
  • صدرالمتالہین، تفسیر القرآن الکریم، قم، انتشارات بیدار، ۱۳۶۶ش۔
  • صمدی آملی، داوود، شرح دفتر دل علامہ حسن‌زادہ آملی، بی‌جا، ناشر چاپی: نبوغ؛ ناشر دیجیتالی: مرکز تحقیقات رایانہ‌ای قائمیہ اصفہان، بی‌تا۔
  • طباطبائی، سیدمحمدحسین، المیزان، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ پنجم، ۱۴۱۷ق۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تہران، ناصرخسرو، چاپ سوم، ۱۳۷۲ش۔
  • عطار نیشابوری، دیوان اشعار، قصیدہ ۵۔
  • فیض کاشانی، محمد بن شاہ مرتضی‌، علم الیقین، قم، انتشارات بیدار، ۱۴۱۸ق۔
  • مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت، انتشارات موسسہ الوفاء، ۱۴۰۴ق۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الإسلامیۃ، ۱۳۷۴ش۔
  • مولوی، دیوان شمس، غزل ۱۳۴۴۔
  • نظامی، خمسہ، لیلی و مجنون، بخش ۱۔