ذی قار

ویکی شیعہ سے

ذی‌ قار عراق کے جنوب میں واقع ایک خطہ ہے جہاں پیامبر اسلامؐ کی بعثت کے بعد ساسانیوں اور عربوں کے درمیان جنگ ہوئی۔ اس جنگ میں عربوں نے فتح حاصل کی۔ امام علیؑ نے سنہ 36 ہجری میں جمل کے افراد کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لیے خطہ ذی‌قار میں توقف اختیار کیا تھا اور وہاں اپنے اصحاب کے لیے ایک خطبہ ارشاد فرمایا جو نہج البلاغہ میں نقل ہوا ہے۔
موجودہ زمانے میں ذی‌قار جنوب عراق کے ایک صوبے کا نام ہے جس کا مرکز ناصریہ ہے۔ ذی‌قار صوبے کی آبادی 20 لاکھ سے زیادہ ہے جن میں زیادہ تر شیعہ مکتب سے تعلق رکھنےوالے ہیں۔ شہر اُر اس صوبے کی قدیم یادگاروں میں سے ایک ہے، جو حضرت ابراہیمؑ کی جائے پیدائش ہے اور اس میں زیگوراٹ کا مندر واقع ہے۔

جغرافیہ اور وجہ تسمیہ

ذی‌ قار کا خطہ عراق کے جنوب میں بصره اور کوفہ کے درمیان میں واقع ہے۔[1] ماہر جغرافیہ یاقوت حموی کے مطابق اس خطے میں قبیلہ بَکرِ بن وائِل سے متعلق پانی کا ایک کنواں تھا جس کا نام ذوقار تھا۔ [2] چھٹی صدی ہجری کے دانشمند ابوالحسن بیہقی نے بھی اس کی وجہ تسمیہ یوں بیان کی ہے کہ اس خطے میں پانی کا ایک کنواں تھا جس کے پانی کا رنگ تارکول جیسا کالا تھا۔[3]

واقعات

ذی‌ قار میں رونما ہونے والے واقعات میں سے ایک عربوں اور ساسانیوں کے درمیان چھڑی جانے والی جنگ ہے۔ دوسرا واقعہ یہ کہ امام علیؑ نے جنگ جمل کے لیے جاتے ہوئے یہاں قیام کیا۔

ذی‌قار کی جنگ

خطہ ذی‌قار میں جنگ ذی‌قار قبیلہ بَکر بن وائل اور ہرمزان کے درمیان چھڑی۔ ہرمزان ساسانی دور کے ایرانی اشرافیہ نسل کا ایک آدمی تھا جسے خسروپرویز نے ذی‌قار کی جانب بھیجا تھا[4] کہا جاتا ہے کہ خسروپرویز کے ہاتھوں عرب قبیلہ کے ایک سردار نُعمان بن مُنذر لَخمی کے قتل کے سبب یہ جنگ چھڑ گئی۔[5] جنگ ذی‌قار اس وقت لڑی گئی جب پیامبرؐ کی عمر مبارک 40 سال تھی۔ البتہ بعض مورخین کے مطابق جنگ ذی‌قار جنگ بدرکے بعد واقع ہوئی جس وقت پیغمبر خداؐ مدینہ می تشریف فرما تھے۔[6] اس جنگ میں عربوں نے خسرو پرویز کی جانب سے بھیجے گئے لوگوں کو شکست سے دوچار کیا۔ اس سلسلے میں رسول خدا کا قول نقل کیا گیا ہے جس میں آپؐ نے فرمایا: یہ پہلا موقع ہے کہ میری بدولت عربوں نے غیر عربوں سے اپنے حقوق چھین لیے اور انہیں شکست دی۔[7]

جنگ جمل کا راستہ

تاریخی ذرائع کے مطابق، امام علیؑ اپنی فوج کے ساتھ عائشہ، طلحہ اور زبیر کا مقابلہ کرنے لے لیے مدینہ سے عراق کی جانب حرکت کی اور عراق میں داخل ہوتے ہی ذی‌قار کے علاقے میں توقف اختیار کیا۔ [8] عبد اللہ بن عباس سے منقول ہے: جب ہم امام علیؑ کی رکاب میں جنگ لڑنے ذی‌قار کے مقام پر پہنچے تو ہم نے امامؑ سے کہا: کوفہ سے بہت کم لوگ آپ کی مدد کو آئے ہیں۔ امامؑ نے فرمایا: کم و بیش 6560 لوگ میری مدد کو آئیں گے۔ [9]اس کے بعد ہم 15 دن ذی‌قار میں ہی رکے رہے یہاں تک کہ گھوڑوں اور خچروں کے ٹاپوں کی آوازیں آنے لگیں دیکھا کہ کوفہ سے لشکر پہچ گئی ہے۔ ابن عباس مزید کہتا ہے: میں نے ان کو شمار کیا تو دیکھا کہ ان کی وہی تعداد ہیں جس کا امام نے اعلان کیا تھا۔[10]

ابن عباس سے یہ بھی روایت ہے: ایک دن جب میں ذی‌قار کے علاقے میں امام علیؑ کی خدمت میں پہنچا تو آپ اپنے جوتے کو پیوند لگا رہے تھے آپ نے مجھ سے پوچھا: اس جوتے کی قیمت کیا ہوگی؟میں نے کہا: مولا! اس کی کوئی قیمت نہیں۔ امامؑ نے فرمایا: خدا کی قسم یہ پھٹا ہوا جوتا تم لوگوں پر حکومت کرنے سے زیادہ محبوب ہے جب تک کہ میں حق کو حقدار تک پہنچا سکوں اور باطل کو دفع کر سکوں۔ پھر امامؑ باہر آئے اور لوگوں کے درمیان خطبہ پڑھا۔[11] یہ خطبہ بھی نہج البلاغہ میں موجود ہے۔ امام علیؑ نے اس خطبے میں اپنی برتری اور مخالفین کی مذمت کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے۔ [12]

ذی‌قار کا صوبہ

عراق کے صوبہ ذی‌قار کا نقشہ
اُر شہر میں زیگوراٹ مندر

عراق میں ذی‌قار نام کا ایک صوبہ ہے جس کا مرکز ناصریہ ہے جو بصرہ سے 180 کلومیٹر اور بغداد سے 360 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔[13] یہ صوبہ اپنی تشکیل کے آغاز میں «المُنتَفَک» کے نام سے جانا جاتا تھااور جمہورت کے دور میں اسے ناصریہ کا نام دیا گیا۔ عراق کی بعثی حکومت نے سنہ 1969ء میں اس کا نام تبدیل کر کے ذی‌قار رکھا۔[14]
ذی‌قار صوبے کی آبادی 20 لاکھ سے زیادہ ہے جن میں زیادہ تر شیعہ مکتب سے تعلق رکھنےوالے ہیں. ذی‌قار کے دیگر باشندے اہل سنت، صابئین اور عیسائی ہیں۔ اُر شہر اس خطے کی قدیم یادگاروں میں سے ایک ہے، جہاں سمیری اور اکادی باشندے رہتے ہیں[15] و زادگاه حضرت ابراہیمؑ[16] اور زیگوراٹ مندر یہاں واقع ہے۔ [17]

حوالہ جات

  1. طریحی، مجمع البحرين، 1375شمسی، ج‏3، ص464.
  2. حموى، معجم البلدان، 1995م، ج‏4، ص293.
  3. بیہقی، معارج نہج البلاغہ، 1409ق، ص122.
  4. مسعودی، مروج الذہب، 1409ق، ج‏1، ص307.
  5. الطبری، تاریخ الامم و الملوک، 1967م، ج2، ص206.
  6. مسعودی، مروج الذہب، 1409ق، ج‏1، ص307.
  7. مسعودی، مروج الذہب، 1409ق، ج‏1، ص307.
  8. ابن اثیر، الکامل، 1385 ہجری، جلد 3، ص226
  9. ابن‌ابی‌الحدید، شرح نہج‌البلاغہ، 1404ق، ج2، ص187.
  10. ابن‌ابی‌الحدید، شرح نہج‌البلاغہ، 1404ق، ج2، ص187.
  11. ابن‌ابی‌الحدید، شرح نہج‌البلاغ، 1404ق، ج2، ص185.
  12. نہج‌البلاغہ، صبحی صالح، ص77، خ33.
  13. آشنایی با استان ذی‌قار، عراق‌یار
  14. آشنایی با استان ذی‌قار، عراق‌یار
  15. آشنایی با استان ذی‌قار، عراق‌یار.
  16. ابن‎‌ابی‌حاتم، تفسير القرآن العظيم، 1419ق، ج‏8، ص2777.
  17. آشنایی با استان ذی‌قار، عراق‌یار.

مآخذ

  • آشنایی با استان ذی‌قار، عراق‌یار، تاریخ درج 26 شہریور 1399شمسی، تاریخ اخذ 23 آذر 1400شمسی.
  • ابن‌ابى‌حاتم، عبدالرحمن، تفسير القرآن العظيم، عربستان سعودى، مكتبۃ نزار مصطفى الباز، چاپ سوم، 1419ھ۔
  • ابن‌ابی‌الحدید، عبدالحمید بن ہبۃالله، شرح نہج البلاغہ، تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم، قم، کتابخانہ آیت‌الله مرعشی نجفی، 1404ھ۔
  • ابن‌اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، بیروت، دار صادر، بیروت، چاپ اول، 1385ھ۔
  • بیہقی، علی بن زید، معارج نہج البلاغہ، قم، کتابخانہ حضرت آيت‌الله العظمی مرعشی نجفی، 1409ھ۔
  • حموی، ياقوت بن عبدالله، معجم البلدان، بيروت، دار صادر، چاپ دوم، 1995ء.
  • طبری، محمد بن جرير، تاريخ الامم و الملوک، دار التراث، بيروت، چاپ دوم، 1967ء.
  • طریحی، فخرالدین بن محمد، مجمع البحرین، تحقیق و تصحیح احمد حسینی اشکوری، تہران، مرتضوی، 1375شمسی.
  • مسعودی، على بن حسين، ‏مروج الذہب‏، تحقيق اسعد داغر، قم، دار الہجرۃ، چاپ دوم، 1409ھ۔
  • نہج‌البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، قم، نشر ہجرت‏، چاپ اول‏، 1414ھ۔