جامع مسجد بصرہ

ویکی شیعہ سے
جامع مسجد بصرہ
ابتدائی معلومات
بانیحاکم بصرہ عتبۃ بن غزوان
تاسیس14ویں صدی ہجری
استعمالمسجد
محل وقوعبصرہ
دیگر اسامیجامع البصرۃ • مسجد امام علیؑ • قد مگاه امام علیؑ • مسجد خُطوه امام علیؑ
مربوط واقعاتجنگ جمل کے بعد امام علیؑ نے اہل بصرہ کو خطبہ دیا• مکتب معتزلہ سے توبہ ابو الحسن اشعری
مشخصات
رقبہ200 مربع میٹر
موجودہ حالتفعال
معماری
تعمیر نومختلف سالوں میں


جامع مسجد بَصره عراق کی سب سے پرانی مسجد ہے جو بصرہ شہر میں واقع ہے۔ یہ مسجد شیعوں کے پہلے امام حضرت علیؑ کی رفت و آمد کی وجہ سے «مسجد خُطوَۃ امام علی» (قدم گاه امام علی) کے نام سے بھی مشہور ہے۔ جنگ جمل کے اختتام پر امام علیؑ نے اس مسجد میں تشریف لے جا کر لوگوں کو خطبہ دیا۔

مختلف سالوں میں جامع مسجد بصرہ کی مرمت اور تعمیر نو ہوتی رہی ہے۔ ان مرمتوں کے نتیجے میں مسجد کی پرانی عمارت کا صرف مینار اپنی پرانی حالت پر باقی ہے جس کے ساتھ جدید طرز تعمیر کی نئی مسجد تعمیر کی گئی ہے۔ جامع مسجد بصرہ شروع ہی سے درس و تدریس اور مختلف مکاتب فکر کی آمد و رفت کا مرکز رہی ہے۔ اہل عراق مختلف مذہبی مناسبتوں کے موقعوں پر اس مسجد کی طرف پیدل(مشی) چل کر جاتے ہیں۔

مسجد کا تعارف اور اہمیت

جامع مسجد بصرہ اسلام کی مشہور عبادت گاہ،[1] عراق کی پہلی اور اسلامی تاریخ کی تیسری مسجد ہے۔[2]جس چیز نے اس مسجد کی اہمیت اور شہرت میں چارچاند لگائی ہے وہ اس مسجد میں واقع ہونے والے سیاسی، قضائی، تعلیمی، تربیتی اور سماجی واقعات۔[3]

جامع مسجد بصرہ فقہ، حدیث، اصول فقہ اور فلسفہ کی پہلی درسگاہ کے طور پر جانی جاتی ہے جو مختلف ادوار میں علمی شخصیات کے درمیان نحوی، ادبی، مذہبی اور کلامی مباحثات اور مناظرات کا مرکز رہی ہے۔[4]اسی طرح مختلف موضوعات پر تشکیل ہونے والے درسی حلقوں اور مختلف مکاتب فکر کی رفت و آمد کے لئے اس مسجد کی جامعیت کی وجہ سے بصرہ کو «خزانہ اسلام» کا لقب دیا گیا۔[5]

کہا جاتا ہے کہ جامع مسجد بصرہ شیعوں کا مرکز تھی اور بنی امیہ کے خلاف شیعوں کی تمام فعالیتیں اسی مسجد میں انجام پاتی تھیں۔ یہی وہ جگہ ہے جسے اہل بیتؑ کے حقوق کی بازیابی کا مرکز بنایا گیا تھا۔[6]

ابوالحسن اشعری کی مکتب معتزلہ سے روگردانی کا اعلان اور توبہ[7] اور ہشام ابن حکم کا سنی متکلم عمرو ابن عبید کے ساتھ مناظرہ[8] اس مسجد میں رونما ہونے والے دیگر واقعات ہیں۔

بعض شیعہ فقہاء کے نزدیک اعتکاف صرف مسجد الحرام، مسجد النبی، جامع مسجد کوفہ اور جامع مسجد بصرہ میں درست ہے؛ البتہ دیگر مساجد میں قصد رجاء کی نیت کے ساتھ اعتکاف میں کوئی اشکال نہیں۔[9] شیخ صدوق کے مطابق ان چار مساجد میں اعتکاف صحیح ہونے کی وجہ یہ ہے کہ امام عادل نے وہاں جمعہ کی نماز ادا کی ہے اور حضرت علیؑ نے بصرہ کی اسی مسجد میں بھی نماز جمعہ ادا کی ہے۔[10]

اس مسجد میں امام علیؑ کا قیام

تاریخی نقل کے مطابق جنگ جمل کے بعد امام علیؑ اس مسجد میں تشریف لائے اور منبر پر جا کر اہل بصرہ کو خطبہ دیا۔ [11]"دائرۃ المعارف تشیع" کے مطابق اہل بصرہ کے خلاف حضرت علیؑ کے شدید الفاظ میں دیے گئے خطبے نے انتہائی کم عرصہ میں بصرہ کو شیعوں کے اہم مراکز میں سے ایک قرار دیا۔[12] امام علیؑ کے یہاں قیام اور فعالیتوں کی وجہ سے یہ مسجد «مسجد خُطوه امام علیؑ» یا[13] «مسجد امام علیؑ»[14] کے نام سے بھی مشہور ہے۔ کتاب "الاشارات الی معرفۃ الزیارت" کے مطابق ہے اس مسجد کے مینار اور محراب کو امام علیؑ نے تعمیر کیا ہے۔[15]

جامع مسجد بصرہ میں امام علیؑ کا خطبہ

اے اہل بصرہ! اے عورت (عائشہ) کے سپاہیو اور اس چار ٹانگوں والے (اونٹ) کے پیچھے چلنے والو! میرے بارے میں تم لوگوں کا کیا خیال ہے؟! تم لوگ اس وقت تک لڑتے رہے جب تک کہ اونٹ بلبلاتا رہا! اور جب وہ زخمی ہوکر گرپڑا تو تم لوگ بھاگ گئے۔ تمہارے اخلاقیات پست ہیں، تمہارا عہد میں ناقابل اعتبار! تمہارا دین نفاق اور تمہارا پانی شور! ہے۔ تمہاری زمین پانی سے قریب تر اور آسمان سے دور ہے۔ خدا کی قسم ایک ایسا دن آئے گا جس دن تمہارا شہر پانی میں ڈوبا ہوا ہوگا، اس حالت میں کہ صرف مسجدوں کے مینار کشتی کے سینے کی طرح نمودار ہونگے۔ ابھی اپنے گھروں کو لوٹ جاؤ۔

مآخذ، دینوری، اخبار الطوال، ترجمه مهدوی دامغانی، ۱۳۷۱ہجری شمسی، ص۱۸۸۔

تعمیر اور مرمت کا تاریخچہ

جامع مسجد بصرہ کی تعمیر اور مرمت کئی مراحل سے گزری ہے جس کےساتھ اس میں کئی بار تعمیراتی تبدیلیاں وجود میں آئی ہیں۔[16]
یہ مسجد پہلی بار عمر بن خطاب کے دور میں شہر بصرہ کی تأسیس کے ساتھ سنہ 14ہجری کو بصرہ کے گورنر عتبہ بن غزوان کے توسط سے درختوں کے شاخوں کے ساتھ تعمیر ہوئی۔ اسی وجہ سے بعد میں آگ لگنے کی وجہ سے یہ مسجد مکمل طور پر جل گئی اور معاویہ کے دور میں بصرہ کے حاکم زیاد بن ابیہ نے اسے اینٹوں، چکنی مٹی کے گاروں اور پتھر کے ستونوں سے مضبوط کیا۔[17] بنی امیہ کے دور حکومت میں عبید الله بن زیاد کے توسط سے اس کی تعمیر نو کے ساتھ اسے مزید توسیع دی گئی۔[18] اس کے بعد اس مسجد کی سب سے بڑی توسیع سنہ 160 ہجری میں مہدی عباسی کے دور میں ہوئی اور ہارون عباسی نے دار الامارہ کو بھی مسجد کے صحن میں شامل کیا۔[19] کہا جاتا ہے کہ اس دوران مسجد میں تقریبا 20 ہزار نمازیوں کی گنجائش ہوتی تھی۔[20]

موجودہ جدید عمارت

مسجد کی پرانی عمارت اب ختم ہوچکی ہے[21] اور صرف اس کا ایک مینار باقی رہ چکا ہے۔[22] سنہ 2000ء میں پرانی مسجد کی حدود سے باہر مسجد کی نئی عمارت بنائی گئی۔[23] مسجد کی نئی عمارت کا رقبہ 200 مربع میٹر اور ایک بڑے صحن پر مشتمل ہے۔ [24]البتہ کہا جاتا ہے کہ نئی عمارت مسجد کی اہمیت اور مقام و مرتبے کے ساتھ متناسب نہیں اور اس کا طرز تعمیر مساجد کے طرز تعمیر کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتی ہے۔[25] شیعیان عراق مختلف مناسبتوں جیسے روز عاشورا، روز رحلت پیغمبر خداؐ، روز شہادت امام علیؑ اور نیمہ شعبان|امام مہدی(عج) کی ولادت کے موقع پر بصرہ اور دوسرے شہروں سے اس مسجد کی طرف پیدل سفر کرتے ہیں۔[26]

تصویری گیلری

حوالہ جات

  1. هروی، الاشارات الی معرفۃ الزیارت، 1423ھ، ص72.
  2. شانواز و منتشلو، «بررسی جایگاه مسجد جامع بصره از تأسیس تا پایان امویان»، ص70.
  3. شانواز و منتشلو، بررسی جایگاه مسجد جامع بصره از تأسیس تا پایان امویان، ص79.
  4. شانواز و منتشلو، «بررسی جایگاه مسجد جامع بصره از تأسیس تا پایان امویان»، ص90.
  5. شانواز و منتشلو، «بررسی جایگاه مسجد جامع بصره از تأسیس تا پایان امویان»، ص90.
  6. شانواز و منتشلو، «بررسی جایگاه مسجد جامع بصره از تأسیس تا پایان امویان»، ص79.
  7. سبحانی، مدخل «اهل سنت»، دانشنامه کلام اسلامی، 1387ہجری شمسی، ج1، ص581و582.
  8. «مناظره هشام بن حکم و عمرو بن عبید»، پایگاه اطلاع‌رسانی حوزه.
  9. خمینی، تحریر الوسیله، 1392ہجری شمسی، ج1، ص322؛ فلاح‌زاده، احکام مسجد، 1378ہجری شمسی، 57و58.
  10. صدوق، المقنع، 1373ہجری شمسی، ص209.
  11. دینوری، اخبار الطوال، 1373ہجری شمسی، ص151.
  12. حاج سیدجوادی و دیگران، دائره المعارف تشیع، 1380ہجری شمسی، ج3، ص262.
  13. «مسجد خطوه امام علی(ع) معروف به مسجد جامع بصره در عراق»، خبرگزاری صداوسیما.
  14. مقدس، راهنمای اماکن زیارتی و سیاحتی در عراق، 1387ہجری شمسی، ص280.
  15. هروی، الاشارات الی معرفۃ الزیارت، 1423ھ، ص72.
  16. «مسجد خطوۃ أمیر المؤمنین الإمام علی (علیه‌السلام)»، شبکۃ الامام علی(ع).
  17. ابن‌قتیبه، المعارف، 1992ء، ص564.
  18. ابن‌قتیبه، المعارف، 1992ء، ص564.
  19. شانواز و منتشلو، «بررسی جایگاه مسجد جامع بصره از تأسیس تا پایان امویان»، ص72.
  20. «جامع البصرۃ.. أول مسجد فی الإسلام خارج مکۃ والمدینۃ المنورۃ»، وبگاه البیان.
  21. «مسجد خطوه امام علی(ع)» معروف به مسجد جامع بصره در عراق»، خبرگزاری صداوسیما.
  22. شانواز و منتشلو، «بررسی جایگاه مسجد جامع بصره از تأسیس تا پایان امویان»، ص72.
  23. «مسجد خطوۃ أمیر المؤمنین الإمام علی (علیه‌السلام)»، شبکۃ الامام علی(ع).
  24. «نخستین مسجد در عراق»، وبگاه شیعه‌نیوز
  25. «مسجد خطوة أمیر المؤمنین الإمام علی (علیه‌السلام)»، شبکة الامام علی(ع).
  26. «مسجد خطوۃ أمیر المؤمنین الإمام علی (علیه‌السلام)»، شبکۃ الامام علی(ع).

مآخذ

  • ابن‌قتیبه، عبدالله بن مسلم، المعارف، قاهره، الهیئۃ المصریۃ العامۃ للکتاب، 1992ء.
  • «جامع البصرۃ.. أول مسجد فی الإسلام خارج مکۃ والمدینۃ المنورۃ»، وبگاه البیان، تاریخ بازدید: 3 مهر 1402ہجری شمسی.
  • حاج سیدجوادی و دیگران، دائره المعارف تشیع، نشر شهید سعید محبی، 1380ہجری شمسی.
  • خمینی، سید روح‌الله، تحریر الوسیله، تهران، مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی، 1392ہجری شمسی.
  • دینوری، احمد بن داوود، اخبار الطوال، ترجمه: محمود مهدوی دامغانی تهران، نشر نی، 1371ہجری شمسی.
  • دینوری، احمد بن داوود، اخبار الطوال، تحقیق: محمد عبدالمنعم عامر و جمال‌الدین شیال، قم، منشورات الشریف الرضی، 1373ہجری شمسی.
  • سبحانی، جعفر، «اهل سنت»، در دانشنامه کلام اسلامی، قم، مؤسسه امام صادق، 1387ہجری شمسی.
  • شانواز، بلال؛ منتشلو، جمشید، «بررسی جایگاه مسجد جامع بصره از تأسیس تا پایان امویان»، تاریخ فرهنگ و تمدن اسلامی، سال ششم، زمستان 1394ہجری شمسی، شماره 21.
  • صدوق، محمد بن علی، المقنع، قم، مؤسسۃ الامام الهادی، 1373ہجری شمسی.
  • فلاح‌زاده، محمدحسین، احکام مسجد، نورالسجاد، 1378ہجری شمسی.
  • «مسجد خطوۃ أمیر المؤمنین الإمام علی (علیه‌السلام)»، شبکۃ الامام علی(ع)، تاریخ بازدید: 3 مهر 1402ہجری شمسی.
  • «مسجد خطوه امام علی(ع) معروف به مسجد جامع بصره در عراق»، خبرگزاری صداوسیما، تاریخ انتشار: 31 مرداد 1400، تاریخ بازدید: 3 مهر 1402ہجری شمسی.
  • مقدس، احسان، راهنمای اماکن زیارتی و سیاحتی در عراق، مشعر، 1387ہجری شمسی.
  • «مناظره هشام بن حکم و عمرو بن عبید»، پایگاه اطلاع‌رسانی حوزه، تاریخ بازدید: تاریخ انتشار: 7 اسفند 1396ش، تاریخ بازدید: 3 مهر 1402ہجری شمسی.
  • «نخستین مسجد در عراق»، وبگاه شیعه‌نیوز، تاریخ بازدید: 3 مهر 1402ہجری شمسی.
  • هروی، علی بن ابوبکر، الاشارات الی معرفۃ الزیارت، قاهره، مکتبۃ الثقافۃ الدینیۃ، 1423ھ.