1920 کا عراقی انقلاب انگلستان کے خلاف ایک قیام تھا۔ سنہ 1920ء میں عراق کو برطانوی کنٹرول میں دینے کا اعلان ہوا اور اسی سال کے موسم گرما میں عراقی عوام نے انگریزوں کے خلاف بغاوت کر دی۔

1920 کا عراقی انقلاب
ثورۃ العشرین
تاریخسنہ 1920ء
مقامعراق
علل و اسبابعراق پر انگلستان کا قبضہ
نتیجہعوام تحریک کی ناکامی
فریق 1عراقی عوام
فریق 2برطانیہ
نقصان 19000 سے زائد لوگوں کا قتل
نقصان 24 کروڑ پونڈ کا جنگی خرچہ اور 426 لوگ مارے گئے

عراقی قیام کا مقصد ایک آزاد حکومت کا قیام تھا۔ اس انقلاب کی تشکیل میں علما کا بڑا کردار تھا اور محمد تقی شیرازی اس قیام کے قائد اور سربراہ تھے۔ اس انقلاب کو "ثورۃ العشرین" کے نام سے جانا جاتا ہے۔

اس قیام کو انگریزوں نے چند مہینوں کے بعد کچل دیا۔

برطانیہ کا عراق پر قبضہ

پہلی جنگ عظیم کے آغاز میں انگلستان نے خلیج فارس سے عراق پر حملہ کیا جو سلطنت عثمانیہ کا ایک حصہ تھا۔ انگریزوں کی جارحیت کو پسپا کرنے کے لیے مختلف عراقی عوام اور قبائل نے عثمانی حکومت سے دلبرداشتہ ہونے کے باوجود ترکی کی فوجوں میں شمولیت اختیار کی۔[1] سید محسن حکیم جو بعد میں شیعہ مرجع تقلید بنے وہ بھی انگریزوں کے خلاف جنگ کرنے گئے۔[2]

شیعہ علماء بشمول [[محمد تقی شیرازی|مرزا محمد تقی شیرازی] نے سامرا میں انگریزوں کے ساتھ جنگ ​​کی ضرورت پر وجوب کا فتویٰ جاری کیا۔[3] کچھ عرصے بعد عراق کے اکثر علاقوں پر انگلستان نے قبضہ کیا اور پہلی جنگ عظیم کے ختم ہوتے ہوئے برطانیہ نے پورے عراق پر اپنا قبضہ جما لیا۔[4]

استصواب رائے

واقعات اور مسائل کے بعد برطانوی حکومت نے عراق میں ریفرنڈم کرانے کا فیصلہ کیا اور درج ذیل تین امور پر عراقی عوام کی رائے حاصل کی:

  • کیا لوگ ایک ایسی عرب ریاست کے قیام کو ترجیح دیتے ہیں جو ریاست موصل کی شمالی سرحدوں سے لے کر خلیج فارس تک پھیلی ہو اور برطانوی تحفظ میں ہو؟
  • اگر عوام اس نظام حکومت کو مانتے ہیں تو کیا وہ اس بات پر متفق ہیں کہ کسی عرب شہزادے یا رئیس کو اس کا سربراہ مقرر کیا جائے؟
  • اگر وہ اس اصول کو مانتے ہیں تو پھر وہ اس حکومت کا سربراہ کس کو چنتے ہیں؟[5]

محققین کا خیال ہے کہ برطانوی حکومت کوشش کر رہی تھی کہ ریفرنڈم کا نتیجہ عراق میں برطانیہ کی موجودگی کے حق میں ہوگا۔[6]

سنہ 1919ء میں محمد تقی شیرازی نے ریفرنڈم کے حوالے سے فتویٰ جاری کیا کہ "مسلمانوں پر حکومت کرنے کا حق کسی کو نہیں ہے"[7] سنہ 1919ء میں عراقی اہل سنت اور شیعوں کے نمائندوں نے اپنے ایک بیان میں موصل سے خلیج فارس تک ایک عربی ملک کے قیام کا مطالبہ کیا۔ اور یہ طے کیا کہ اس ملک کا سربراہ شریف حسین کے بیٹوں میں سے کوئی بادشاہ ہوگا۔ اس بادشاہ کے ساتھ ایک قانون ساز اسمبلی بھی بنائی جائے گی جس کا مرکز بغداد میں ہوگا۔[8] محققین کا خیال ہے کہ لوگوں کی مخالفت کے باوجود انگلستان کے نمائندوں نے صرف انگلستان کے طرفداروں کی رائے کو ثبت کیا اور اسی وجہ سے ریفرنڈم کے حقیقی نتیجے کو اہمیت نہیں دیا۔[9]

قیام

 
محمد تقی شیرازی کی قبر پر 1920 کے انقلاب کی قیادت کی طرف اشارہ

عراق کے کچھ علاقوں کے لوگوں نے سنہ 1920ء کے موسم گرما میں برطانوی حکومت کے خلاف بغاوت کی۔[10] یہ قیام "ثورۃ العشرین" کے نام سے مشہور ہوئی[11] اور یہ تین ماہ تک جاری رہی۔[12]

قیام کے اسباب

محققین نے سنہ 1920ء کے قیام کے مختلف معاشی، سماجی اور سیاسی عوامل کا ذکر کیا ہے۔[13] لیکن اس قیام کی سب سے اہم وجہ سیاسی اور مذہبی عوامل کو سمجھا جاتا ہے؛ عراق پر قبضے کے بعد سے سنہ 1920 تک برطانوی حکومت عراقیوں کو آزادی اور خودمختاری کا وعدہ دے رہی تھی۔ یہ وعدے بیانات، تقاریر حتیٰ کہ ریفرنڈم کے ذریعے عوام تک پہنچائے گئے۔ یہاں تک کہ سنہ 1920ء تک، "سان ریمو" کانفرنس میں، اتحادیوں نے عراق پر انگلستان کی سرپرستی کو قبول کر لیا، اور عراقی عوام اپنی آزادی سے مکمل طور پر مایوس ہوئے۔[14]

قیام کا آغاز

"عراق کے لوگوں پر واجب ہے کہ وہ اپنے حقوق کا مطالبہ کریں، اور ان پر واجب ہے کہ وہ اپنے مطالبات کو پورا کرنے کے لیے اقدام کرتے ہوئے امن و سلامتی کو برقرار رکھیں، اور اگر انگریز عوام کے مطالبات کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیں تو یہ عوام کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنے دفاع کے لیے طاقت کا سہارا لیں۔[15]

تاریخ بایگانی

آیت اللہ شیرازی کے جہاد کے فتوے اور مسلح تصادم کی منظوری کے بعد، لوگوں اور قبائل کو انگلستان کے خلاف انقلاب کی ترغیب دی گئی۔[15] یہ قیام 3 اگست کو ہونے والا تھا؛ لیکن کچھ واقعات کی وجہ سے 30 جولائی کو شروع ہوا۔[16]

اس بغاوت کا مقصد برطانوی حملہ آوروں کو بھگانا اور ایک آزاد حکومت قائم کرنا تھا۔[10] یہ قیام ملک کے ایک تہائی حصے پر محیط تھا[17] اور فرات کے بعض درمیانی علاقے اور ناصریہ جیسے بعض صوبوں میں واقع ہوا۔[18] محققین کا خیال ہے کہ زیادہ تر اہل سنت قبائل اس قیام میں شامل نہیں ہوئے۔[19]

بہت سے لوگ شریف حسین کے بچوں میں سے ایک کی سربراہی میں اسلامی عربی حکومت اور قانون ساز اسمبلی چاہتے تھے۔[20]

محققین نے 1920 کے عراقی انقلاب میں علما کے کردار کو بہت اہم اور کلیدی قرار دیا ہے[21] جس کی قیادت محمد تقی شیرازی کر رہے تھے۔[22] سید ابوالقاسم کاشانی، شیخ محمودجواد الجزایری اور سید ہبۃالدین شہرستانی جیسے علما نے اس انقلاب میں نمایاں کردار ادا کیا۔[22] رہبران و روسای عشایر نیز تاثیر عمدہ ای در قیام داشتند.[23]

برطانیہ نے اس انقلاب میں بیرونی ممالک بشمول جرمنی، ترکی اور حتیٰ کہ امریکہ کی مداخلت کا دعوا کیا تھا۔[24]

قیام کی شکست

انگریز اسلحے کے لحاظ سے عراقیوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ترقی یافتہ تھے اور ان کے بھاری ہتھیاروں کا حجم بہت زیادہ تھا۔ اس جنگ میں انگلستان نے اپنی فضائی قوت کا بھی بہت زیادہ استعمال کیا جو کہ بہت کارآمد رہا[25] اس کے علاوہ ایران اور ہندوستان سے بھی برطانوی معاون فوجیں عراق بھیجی گئیں اور یہ سب عراق پر فوجی برتری اور عراق کی شکست کا سبب بنے۔[26]

محمد تقی شیرازی سنہ 1920ء قیام کے دوران انتقال کر گئے جس کا قیام پر بہت برا اثر پڑا۔[27]

نتائج

اس قیام میں مارے جانے والے عراقیوں کی تعداد 9 ہزار سے زائد تھی۔ اور 426 برطانوی لوگ مارے گئے اور اس جنگ میں انہیں 40 ملین پاؤنڈ کا نقصان پہنچا۔[25]

برطانوی حکومت نے آخر کار عراق میں اپنے مفادات اور طاقت کو برقرار رکھتے ہوئے عرب حکومت کو اقتدار میں لانے کا فیصلہ کیا[28] سنہ 1921ء میں شریف حسین کے بیٹے "فیصل" کو انگریزوں نے عراق کا بادشاہ منتخب کیا۔[29] شیعوں نے اس حقیقت کے باوجود کہ وہ شریف حسین کے بچوں میں سے ایک کو بادشاہ بنانا چاہتے تھے لیکن فیصل کی مخالفت کی۔ اس مخالفت کی دو وجوہات تھیں:

  • انگریزوں نے فیصل کو اس عہدے پر منتخب کر کے اقتدار میں لایا تھا۔[30]
  • فیصل کی حکومت میں دس اہم عہدیداروں، پینتیس ضلعی ذمہ داروں اور پچاسی محلی منتظمین کے علاوہ مذہبی شہروں میں کوئی شیعہ شخص نہیں تھا اور یہی وجہ تھی کہ شیعوں نے مخالفت کی تھی۔[31]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. ویلی، نہضت اسلامی شیعیان عراق، 1373ش، 31ص.
  2. ویلی، نہضت اسلامی شیعیان عراق، 1373ش، ص31.
  3. دادفر، نعمتی، مراجع ایرانی و قیام 1920 شیعیان عراق، ص82.
  4. ویلی، نہضت اسلامی شیعیان عراق، 1373ش، ص32.
  5. نفیسی، نہضت شیعیان در انقلاب اسلامی عراق، 1364ش، ص 102.
  6. نفیسی، نہضت شیعیان در انقلاب اسلامی عراق، 1364ش، ص 102.
  7. ویلی، نہضت اسلامی شیعیان عراق، 1373ش، ص33.
  8. نفیسی، نہضت شیعیان در انقلاب اسلامی عراق، 1364ش، ص 110.
  9. نفیسی، نہضت شیعیان در انقلاب اسلامی عراق، 1364ش، ص 110- 114.
  10. 10.0 10.1 «انقلاب 1920 عراق (ثورہ العشرین) چہ بود؟»، خبرگزاری اویس.
  11. دادفر، نعمتی، مراجع ایرانی و قیام 1920 شیعیان عراق، ص81.
  12. ویلی، نہضت اسلامی شیعیان عراق، 1373ش، ص35.
  13. نفیسی، نہضت شیعیان در انقلاب اسلامی عراق، 1364ش، ص 115- 120.
  14. دادفر، نعمتی، مراجع ایرانی و قیام 1920 شیعیان عراق، ص86.
  15. 15.0 15.1 صادقی تہرانی، تاریخ انقلاب اسلامی 1920 عراق، 1390ش، ص67.
  16. الأسدی، موجز تاریخ العراق السیاسی الحدیث، 2001م، ص30.
  17. ویلی، نہضت اسلامی شیعیان عراق، 1373ش، ص35.
  18. الأسدی، موجز تاریخ العراق السیاسی الحدیث، 2001م، ص30 و 36.
  19. ویلی، نہضت اسلامی شیعیان عراق، 1373ش، ص35.
  20. دادفر، نعمتی، مراجع ایرانی و قیام 1920 شیعیان عراق، ص95.
  21. صادقی تہرانی، تاریخ انقلاب اسلامی 1920 عراق، 1390ش، ص38.
  22. 22.0 22.1 الأسدی، موجز تاریخ العراق السیاسی الحدیث، 2001م، ص33.
  23. الأسدی، موجز تاریخ العراق السیاسی الحدیث، 2001م، ص33.
  24. نفیسی، نہضت شیعیان در انقلاب اسلامی عراق، 1364ش، ص136.
  25. 25.0 25.1 ویلی، نہضت اسلامی شیعیان عراق، 1373ش، ص35.
  26. الکاتب، تجربہ الثورہ الاسلامیہ فی العراق، 1981م، ص52.
  27. صفار، «قصۃ ثورۃ العشرين وفتواہا من كربلاء»، سایت وکالۃ نون الخبریۃ.
  28. نفیسی، نہضت شیعیان در انقلاب اسلامی عراق، 1364ش، ص 150.
  29. نفیسی، نہضت شیعیان در انقلاب اسلامی عراق، 1364ش، ص 160.
  30. نفیسی، نہضت شیعیان در انقلاب اسلامی عراق، 1364ش، ص 164.
  31. ویلی، نہضت اسلامی شیعیان عراق، 1373ش، ص35.

مآخذ