نخیلہ

ویکی شیعہ سے

نخیلہ، کوفہ کے نزدیک ایک فوجی چھاونی تھی۔ امام علی (ع) نے اپنی فوج کے لئے یہاں خطبہ ارشاد فرمایا تھا۔ اسی طرح سے واقعہ کربلا میں ابن زیاد نے نخیلہ کے مقام سے ہی امام حسین (ع) سے جنگ کے سلسلہ میں عمر بن سعد کی مدد کے لئے لشکر روانہ کیا تھا۔ یہ جگہ عباسیات کے نام سے مشہور ہے۔

محل وقوع

نخیلہ، کوفہ کے پاس اور شام کی راہ میں ایک مقام تھا۔[1] آج یہ جگہ عباسیات کے نام سے معروف ہے۔[2] اسی طرح سے نخیلہ، مغیثہ و عقبہ کے نزدیک (شہر کوفہ کے جنوب میں) ایک چشمہ کا نام تھا۔[3]

تاریخی واقعات

حضرت علی (ع) نے جنگ صفین میں اس مقام پر فوجی چھاونی بنائی اور اپنے اصحاب کے لئے خطبہ دیا اور اسی طرح سے یہیں سے اپنے عمال و ریاستوں کے والیوں کے لئے خطوط لکھے اور ان سے چاہا کہ وہ ان کے لشکر کے ساتھ ملحق ہو جائیں اور یہاں سے شام کی طرف حرکت کریں۔[4]

نقل ہوا ہے کہ جس وقت بسر بن ارطاۃ یمن پر مسلط ہو گیا تو حضرت علی (ع) نے اسی مقام پر خطبہ ارشاد فرمایا اور اس خطبہ میں اہل کوفہ کی مذمت کی۔[5]

ابن زیاد واقعہ کربلا میں اسی مقام سے عمر بن سعد کے لئے کربلا مدد بھیجتا تھا۔[6] جس وقت عمر بن سعد کے قاصد نے ابن زیاد کے پاس امام حسین (ع) کے یزید کی بیعت سے انکار کی خبر کوفہ بھیجی۔ اس نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ نخیلہ میں چھاونی بنائی اور حصین بن نمیر، حجاز بن ابجر، شبث بن ربعی اور شمر بن ذی الجوشن کو عمر بن سعد کی مدد کے لئے روانہ کیا۔[7]

اسی طرح سے نخیلہ توابین کے لشکر کے جمع ہونے کا مقام ہے۔[8] توابین نے 5 ربیع الاول میں وہاں سے شام کی طرف حرکت کی۔[9]

مسجد نخیلہ

کوفہ کے نزدیک کفل شہر میں ایک مسجد، مسجد نخیلہ کے نام سے مشہور ہے۔ جس کی قدمت دور الجایتو کی طرف پلٹتی ہے۔[10] نقل ہوا ہے کہ یہ مسجد اس مقام پر بنائی گئی ہے جہاں حضرت علی (ع) نے جنگ صفین کے لئے جانے سے پہلے نماز پڑھی تھی۔[11] البتہ بعض مورخین نے اس بات کو رد کیا ہے اور ذکر کیا ہے کہ تاریخی مصادر میں ملتا ہے کہ امام علی (ع) نے فرات کی طرف جانے سے پہلے نخیلہ کے مقام پر قیام کیا تھا۔ جبکہ یہ جگہ فرات کے بعد واقع ہے۔ اسی طرح سے مشرق رقہ (شام) سے تقریبا 25 کیلو میٹر کے فاصلہ پر ایک نخیلہ نامی جگہ موجود ہے جسے وہاں کے باشندے جنگ صفین میں امام علی (ع) کے محل اقامت کے طور پر مانتے ہیں۔[12]

حوالہ جات

  1. حموی، معجم البلدان، ۱۹۹۵ع، ج۵، ص۲۷۸.
  2. مقرم، مقتل الحسین، ص۲۳۷ بہ نقل از محدثی، فرہنگ عاشورا، ۱۳۸۸ق، ص۴۷۹.
  3. حموی، معجم البلدان، ۱۹۹۵ع، ج۵، ص۲۷۸.
  4. دینوری، اخبارالطوال، ۱۳۶۸ش، ۱۶۵-۱۶۶.
  5. مسعودی، مروج الذہب، ۱۴۰۹ق، ج۳، ص۱۴۲.
  6. ابن‌ سعد، الطبقات ‌الکبری، البطقہ الخامسہ، ۱۴۱۴ق، ج۱، ص۴۶۶.
  7. دینوری، اخبارالطوال، ۱۳۶۸ش، ص۲۵۴.
  8. ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ۱۳۸۶ق، ج۸، ص۲۷۶، ۲۷۷.
  9. ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ۱۳۸۶ق، ج۴، ص۱۷۸.
  10. مجلہ فرہنگ زیارت، مہر ۱۳۸۸ش، شماره ۳، انتشار: ۱۴ اردیبہشت ۱۳۹۴ش، بازبینی: ۲۸ فروردین ۱۳۹۶ش.
  11. حرز الدین، مراقد المعارف، ۱۹۷۱ع، ص۲۹۴: بہ نقل از خامہ یار ص‌۶۸.
  12. خامہ یار، پژوہشی در مسیر امام علی (ع) بہ صفین و محل جنگ صفین، ص۶۷-۶۸.

مآخذ

  • ابن اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، بیروت،‌ دار صادر، ۱۳۸۶ق.
  • ابن کثیر، اسماعیل، البدایہ و النہایہ، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۴۰۸ق.
  • ابن سعد، محمد، الطبقات الکبری (الطبقہ الخامسہ)، تحقیق محمد بن صامل السلمی، الطائف، مکتبہ الصدیق، ۱۴۱۴ق/۱۹۹۳ع
  • حرز الدین، محمد، مراقد المعارف، تحقیق محمد حسین حرز الدین، مطبعة الآداب، ۱۹۷۱ع
  • حموی، یاقوت بن عبد الله، معجم البلدان، بیروت، دار صادر، ۱۹۹۵ع
  • خامہ یار، احمد، پژوہشی در مسیر امام علی (ع) بہ صفین و محل جنگ صفین، پژوہش‌ نامہ علوی، شماره ۳، تابستان ۱۳۹۰ش.
  • دینوری، احمد بن داود، الاخبار الطوال، تحقیق عبد المنعم جمال الدین شیال، قم، منشورات الرضی، ۱۳۶۸ش.
  • مجلہ فرہنگ زیارت، مہر ۱۳۸۸ش، شماره ۳، انتشار: ۱۴ اردیبہشت ۱۳۹۴ش.
  • محدثی، جواد، فرہنگ عاشورا، قم، نشر معروف، چاپ سیزدہم، ۱۳۸۸ق.
  • مسعودی، علی بن حسین، مروج الذہب و معادن الجوہر، تحقیق اسعد داغر، قم، دار الہجره، ۱۴۰۹ق.