روضۃ النبی
روضۃ النبی جسے روضۂ مطہرہ اور روضۂ شریفہ بھی کہا جاتا ہے، مسجد نبوی میں منبر اور حجرۂ نبوی کے درمیان واقع ہے، جسے رسول خداؐ نے "جنت کے باغوں میں سے ایک باغ" قرار دیا ہے۔ زائرین اس جگہ پر عبادات انجام دیتے ہیں اور اس مقام پر عبادت کی اہمیت کی وجہ سے یہاں ہمیشہ بھیڑ رہتی ہے۔ اسی وجہ سے زائرین روضہ میں باری باری سے داخل ہوتے ہیں۔

روضۃ النبیؐ منبرِ پیغمبر اسلامؐ اور حجرۂ نبوی کے درمیان واقع ہے اور محراب؛ جہاں نبی اکرمؐ نماز پڑھا کرتے تھے؛ بھی اسی مقام پر واقع ہے۔ روضہ مسجد نبوی کے جنوب مشرقی حصے میں ہے۔ روضۃ النبی مشرق کی جانب سے حجرہ پیغمبر خداؐ، جنوب میں مسجد کی اس دیوار سے جو نبیؐ کے زمانے میں تھی اور مغرب کی جانب سے منبر سے جا ملتا ہے۔ اکثر شیعہ علما کا عقیدہ ہے کہ حضرت فاطمہ الزہراء(س) روضہ میں مدفون ہیں۔ منبرِ رسولؐ، جس پر بیٹھ کر آپ خطبہ دیتے تھے اور مسجد نبوی کے کئی ستون بھی روضہ میں شامل ہیں۔

روضۃ النبیؐ کی اہمیت
روضۃ النبی مسجد نبوی میں [2] منبر رسولؐ اور حجرۂ نبوی کے درمیان واقع ہے۔ ایک روایت میں رسول خداؐ نے اسے "جنت کے باغوں میں سے ایک باغ" قرار دیا ہے۔[3] شیعہ روایات میں سفارش کی گئی ہے کہ حضرت فاطمہؑ کی زیارت روضہ النبیؐ سے کی جائے۔[4] اہل سنت کے نزدیک بھی اس جگہ پر نفل نمازیں پڑھنا مسجد نبوی کے دیگر حصوں سے زیادہ فضیلت رکھتا ہے۔[5]
روضۃ النبی کو روضۂ مطہرہ اور روضۂ شریفہ بھی کہا جاتا ہے۔[6] اس کی لمبائی تقریباً 22 میٹر، چوڑائی 15 میٹر[7] اور مجموعی رقبہ تقریباً 330 مربع میٹر ہے۔[8] کثیر تعداد میں زائرین یہاں نماز پڑھنے کے خواہشمند ہوتے ہیں۔[9] اسی وجہ سے مسجد نبوی کی انتظامیہ نے یہاں جانے کے لیے کچھ پابندیاں لگا رکھی ہیں، مثلاً افراد کو گروہ یا انفرادی طور پر پیشگی نام نویسی کروانی ہوتی ہے اور مقررہ وقت پر ہی روضہ میں داخل ہونے کی اجازت دی جاتی ہے۔ سعودی حکومت کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 2024ء میں دس ملین سے زیادہ زائرین روضہ شریفہ میں داخل ہو سکے ہیں۔[10]
روضۃ النبیؐ کے بارے میں وارد شدہ حدیث کی تفسیر
روضۃ النبیؐ سے متعلق حدیثِ رسولؐ ہے کہ "روضۃ النبی جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے"۔ اس حدیث کی تفسیر میں علما نے مختلف آراء پیش کی ہیں، جن میں سے چند یہ ہیں:[11]
- اس مقام پر عبادت کرنے سے انسان جنت کا مستحق ہوگا اور وہ جنتی باغوں میں سے ایک باغ پا لے گا۔[12]
- بعض علما کے مطابق اس سے مراد یہی زمین ہے جو منبر اور حجرہ نبوی کے درمیان واقع ہے،[13] اور حقیقت میں ہی یہ جنت کا ایک ٹکڑا ہے اور آخرت میں اسی جنت میں منتقل ہوجائیں گے۔[14]

مجموعی احاطہ
روضۃ النبی مسجد نبوی کے جنوب مشرقی حصے میں، قبلہ رخ واقع ہے۔[15] خود پیغمبر خداؐ نے روضۃ النبی کا احاطہ مشرق کی جانب سے حجرہ نبوی اور مغرب کی جانب سے منبر پیغمبر خداؐ قرار دیا ہے۔[16] جنوب کی جانب سے مسجد کی وہ دیوار جو نبی خداؐ کے زمانے میں تھی اور جس میں نبیؐ کا محراب واقع ہے۔[17] شیعہ علماء کے مطابق، شمالی سمت میں روضۃ النبیؐ محراب سے چوتھے ستون تک پھیلا ہوا ہے، جو اہلِ سنت کے بیان کردہ دائرے سے ایک ستون زیادہ ہے۔[18]

ضریحِ پیغمبر خداؐ
مسجد نبوی میں ہونے والی تبدیلیوں اور توسیع کے بعد، روضۃ النبیؐ کا کچھ حصہ ضریحِ پیغمبرخداؐ کے اندر شامل ہوگیا، جس کے بعد زائرین کی یہاں رسائی ممکن نہیں رہی۔[19] ولید بن عبد الملک (خلیفہ اموی: 86ھ تا 96ھ) نے حجرۂ نبوی کے ارد گرد پانچ کونوں والی دیوار تعمیر کی تاکہ وہ کعبہ سے مشابہ نہ ہو۔[20] اس توسیع میں حجرہ نبوی مسجد نبوی میں شامل ہوگیا۔[21] شیعہ تاریخ دان رسول جعفریان لکھتے ہیں کہ سنہ 668ھ میں بَیْبَرْس نے اس پانچ کونوں والے حصے کے گرد جالی دار دیوار بنوائی، جس سے حضرت فاطمہؑ کا گھر اور روضۂ شریفہ کا کچھ حصہ ضریح میں شامل ہوگیا۔[22]
حضرت فاطمہ زہرا(س) کی قبر

حضرت فاطمہ الزہراء(س) کے محلِ دفن کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے: شیخ مفید نے کتاب المقنعہ میں لکھا ہے کہ حضرت فاطمہؑ روضۃ النبی میں مدفون ہیں۔[23] شیعہ محدث شیخ طوسی کے مطابق بھی اکثر شیعہ علما کا یہی عقیدہ ہے۔[24] چھٹی صدی ہجری کے شیعہ مفسر اور متکلم امین الاسلام طبرسی[25] نیز چھٹی صدی ہجری ہی کے مفسر اور محدث ابن شہر آشوب[26] اس امکان کا ذکر کرتے ہیں کہ حضرت فاطمہؑ اپنے ہی گھر میں دفن ہیں۔ شیخ طوسی دونوں امکانات کو یکساں قوی قرار دیتے ہیں۔[27] علامہ محمد باقر مجلسی نے ان دونوں اقوال کو جمع کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ روضۃ النبی میں حضرت فاطمہؑ کا گھر بھی شامل ہے، اس لیے دونوں آرا ایک ساتھ درست ہو سکتی ہیں۔[28]
محرابِ نبیؐ اور روضہ کے ستون
روضۂ شریفہ میں وہ ستون بھی موجود تھے جو زمانۂ رسول خداؐ میں مسجد نبوی کا حصہ تھے، اور ہر ستون کا اپنا نام[29] اور ہر ایک کے ساتھ ایک تاریخی واقعہ منسوب ہے۔[30] اُس زمانے میں یہ ستون کھجور کے تنے سے بنے ہوئے تھے۔ بعد کی تعمیرات میں عین اسی جگہ پتھر کے ستون تعمیر کیے گئے۔[31] روضۂ شریفہ میں واقع اہم مقامات میں سے ایک محرابِ رسول خداؐ ہے،[32] جو منبر کے قریب واقع ہے۔[33] نبی خداؐ اسی جگہ نماز ادا کرتے تھے اور صحابہ آپؐ کی اقتدا کرتے تھے۔[34] زمانۂ رسالت کا یہ محراب آج کل کے محرابوں کی طرح اندر سے خالی نہیں تھا، بلکہ ایک سیدھی دیوار کی طرح بنا ہوا تھا۔ بعد میں ولید بن عبد الملک کے دور میں اس کو موجودہ طرز کے محراب میں تبدیل کر دیا گیا۔[35]
حوالہ جات
- ↑ خلیلی، موسوعۃ العتبات المقدسۃ، 1987ء، ج3، ص328۔
- ↑ «الروضۃ الشریفۃ»، المدینہ۔
- ↑ کلینی، الکافی، 1407ھ، ج4، ص553۔
- ↑ شہید اول، المزار، 1410ھ، ص20۔
- ↑ «الروضۃ الشریفۃ»، الہیئۃ العامۃ للعنایۃ بشوون المسجد الحرام و المسجد النبوی۔
- ↑ جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، 1387شمسی، ج1، ص215۔
- ↑ «الروضۃ الشریفۃ»، الہیئۃ العامۃ للعنایۃ بشوون المسجد الحرام و المسجد النبوی۔
- ↑ «الروضۃ الشریفۃ»، الہیئۃ العامۃ للعنایۃ بشوون المسجد الحرام و المسجد النبوی۔
- ↑ الأنصاری، عمارۃ و توسعۃ المسجد النبوی الشریف، 1996ء، ص67۔
- ↑ «الروضۃ الشریفۃ»، الہیئۃ العامۃ للعنایۃ بشوون المسجد الحرام و المسجد النبوی۔
- ↑ «الروضۃ الشریفۃ»، اسلام ویب۔
- ↑ مجلسی، ملاذ الأخیار، 1406ھ، ج9، ص20۔
- ↑ مجلسی، ملاذ الأخیار، 1406ھ، ج9، ص20۔
- ↑ «الروضۃ الشریفۃ»، اسلام ویب۔
- ↑ جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، 1387شمسی، ج1، ص215۔
- ↑ کلینی، الکافی، 1407ھ، ج4، ص553۔
- ↑ «الروضۃ الشریفۃ»، اسلام ویب۔
- ↑ جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، 1387شمسی، ج1، ص217۔
- ↑ الأنصاری، عمارۃ و توسعۃ المسجد النبوی الشریف، 1996ء، ص66۔
- ↑ الأنصاری، عمارۃ و توسعۃ المسجد النبوی الشریف عبر التاریخ، 1996ء، ص63۔
- ↑ ابن کثیر دمشقی، البدایۃ و النہایۃ، 1407ھ، ج9، ص75۔
- ↑ جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، 1387شمسی، ص243۔
- ↑ شیخ مفید، المقنعۃ، 1413ھ، ص459۔
- ↑ شیخ طوسی، مصباح المتہجد، 1411ھ، ج2، ص711۔
- ↑ طبرسی، تاج الموالید، 1422ھ، ص80۔
- ↑ ابن شہر آشوب، مناقب، 1379شمسی، ج3، ص365۔
- ↑ شیخ طوسی، تہذیب الاحکام، 1407ھ، ج6، ص9۔
- ↑ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج97، ص193۔
- ↑ «أساطین المسجد النبوی من شواہد السیرۃ النبویۃ»، وکالۃ الأنباء السعودیۃ۔
- ↑ «ما ہی "الأساطین" التی ارتبطت بتاریخ المسجد النبوی»، العربیہ۔
- ↑ القرشی، «ما ہی "الأساطین" التی ارتبطت بتاریخ المسجد النبوی»، العربیہ۔
- ↑ خلیلی، موسوعۃ العتبات المقدسۃ، 1987ء، ج3، ص328۔
- ↑ «ماذا تعرف عن المحراب النبوی بالروضۃ الشریفۃ؟»، العربیہ۔
- ↑ صبری باشا، موسوعۃ مرآۃ الحرمين الشريفين وجزيرۃ العرب 2004ء، ج3، ص36۔
- ↑ جمعی از نویسندگان، مفاہیم اسلامیہ، ج1، ص 273۔
مآخذ
- ابن کثیر دمشقی، اسماعیل بن عمر، البدایۃ و النہایۃ، بیروت، دارالفکر، 1407ھ۔
- «أساطین المسجد النبوی من شواہد السیرۃ النبویۃ»، وکالۃ الأنباء السعودیۃ، تاریخ بازدید: 14 اسفند 1403ھ۔
- الأنصاری، ناجی محمد، عمارۃ و توسعۃ المسجد النبوی الشریف عبر التاریخ، مدینہ، نادی المدینہ المنورہ، 1996ء۔
- جعفریان، رسول، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، تہران، مشعر، 1387ہجری شمسی۔
- جمعی از نویسندگان، مفاہیم اسلامیہ، بینا، بیجا، بیتا۔
- خلیلی، جعفر، موسوعۃ العتبات المقدسۃ، بیروت، مؤسسۃ الأعلمي، 1987ء۔
- «الروضۃ الشريفۃ»، اسلام ویب، تاریخ درج مطلب: 28 سپتامبر 2016م، تاریخ بازدید: 14 اسفند 1403ھ۔
- «الروضۃ الشریفۃ»، الہیئۃ العامۃ للعنایۃ بشوون المسجد الحرام و المسجد النبوی، تاریخ بازدید: 16 فروردین 1404ہجری شمسی۔
- «الروضۃ الشريفۃ»، المدینہ، تاریخ بازدید: 14 اسفند 1403ھ۔
- شہید اول، محمد بن مکی، المزار فی کیفیۃ زیارات النبی و الأئمۃ(ع)، قم، مدرسہ امام مہدی(عج)، چاپ اول، 1410ھ۔
- شیخ طوسی، محمد بن حسن، مصباح المتہجد و سلاح المتعبد، بیروت، مؤسسۃ فقہ الشیعہ، 1411ھ۔
- شیخ مفید، محمد بن محمد، المقنعۃ، قم، کنگرہ جہانی ہزارہ شیخ مفید، 1413ھ۔
- صبری باشا، ایوب، موسوعۃ مرآۃ الحرمین الشریفین و جزیرۃ العرب ترجمہ ماجدہ معروف، حسین مجیب المصری، عبدالعزیز عوض، قاہرہ، دارالآفاق العربیۃ، 2004ء۔
- طبرسی، فضل بن حسن، تاج الموالید، بیروت، دارالقاری، 1422ھ۔
- القرشی، حامد، «ماذا تعرف عن المحراب النبوي بالروضۃ الشريفۃ؟»، العربیہ، تاریخ درج مطلب: 20 فوریہ 2022ء، تاریخ بازدید: 14 اسفند 1403ھ۔
- کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تحقیق و تصحیح: علیاکبر غفاری، محمد آخوندی، تہران، دارالکتب الإسلامیۃ، چاپ چہارم، 1407ھ۔
- مجلسی، محمد باقر، بحار الأنوار، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، 1403ھ۔
- مجلسی، محمد باقر، ملاذ الأخیار فی فہم تہذیب الأخبار، محقق و مصحح: مہدی رجائی، قم، کتابخانہ آیۃ اللہ مرعشی نجفی، چاپ اول، 1406ھ۔