حجرہ نبوی
حجرہ نبوی نبی اکرمؐ کا محل دفن ہے، جہاں آپ عائشہ کے ساتھ رہتے تھے۔ سبز گنبد (اَلْقُبَّۃُ الْخضراء) اسی حجرے پر واقع ہے۔ حجرہ نبوی مسجد نبوی کے مشرق میں رسول اللہؐ کے لیے بنائے گئے دو کمروں میں سے ایک تھا۔ اس کی پیمائش تقریباً 4.5×3.5 میٹر تھی اور اس کے دو دروازے تھے؛ ایک مسجد کی طرف اور دوسرا باہر کی طرف کھلتا تھا۔ اس کمرے کے پیچھے حضرت فاطمہؑ کا گھر تھا۔ رسول اللہؐ اسی حجرے میں بیمار ہوئے اور رحلت کر گئے۔ لوگوں نے آپ کی نماز جنازہ وہیں پر پڑھی۔ امام علیؑ کی تجویز پر پیغمبر اکرمؐ اسی گھر میں دفن ہوئے۔

نبی اکرمؐ کے بعد ابوبکر اور عمر کو بھی اسی حجرے میں دفن کیا گیا۔ امام حسنؑ نے بھی وصیت کی کہ آپ کو پیغمبر اکرمؐ کے جوار میں دفن کیا جائے؛ لیکن عائشہ اور بنی امیہ نے اس کی مخالفت کی۔ بعد کے ادوار میں مسجد نبوی کی توسیع میں پیغمبر کا حجرہ مسجد نبوی کا حصہ بن گیا اور حضرت فاطمہؑ کے گھر کے ساتھ ایک ضریح میں واقع ہوا۔ پیغمبر کا حجرہ مسلمانوں کے لئے قابل احترام ہے اور بڑی قیمتی اشیاء اس کے لئے عطیہ کی گئی ہیں، جن میں سے بعض کو روضہ رسول میں رکھا گیا ہے۔
معرفی

حجرہ نبوی (عربی: الحجرۃ النبويۃ الشريفہ)، جسے بیت النبی[2] اور پیغمبر اکرمؐ کا حجرہ بھی کہا جاتا ہے، جو پیغمبر اکرمؐ اور ان کی زوجہ عائشہ کا گھر ہے۔[3] مسجد نبوی کی تعمیر اور تکمیل کے بعد، رسول اللہؐ اور ان کی ازواج کے رہنے کے لیے مسجد کے ساتھ ہی دو کمرے بنائے گئے: ایک کمرہ سودہ کے لیے اور ایک کمرہ عائشہ کے لیے۔[4]
بعض روایات کے مطابق قبیلہ بنو نجار نے یہ کمرے رسول اللہؐ کے لیے بنائے تھے۔[5] یہ کمرے مسجد نبوی کے مشرق میں واقع تھے[6] اور رسول اللہؐ اپنی زندگی کے آخر تک ان میں رہے۔[7]
اس حجرے کی لمبائی تقریباً ساڑھے چار سے پانچ میٹر اور چوڑائی تقریباً ساڑھے تین میٹر ہے۔[8] سبز گنبد (اَلْقّبۃُ الْخضراء) پیغمبر اکرمؐ کے حجرے کے اوپر واقع ہے۔[9] حجرہ نبوی کے دو دروازے تھے؛ ایک مسجد نبوی کی طرف اور دوسرا باہر کی طرف کھلتا تھا۔[10]
حضرت فاطمہؑ کا گھر حجرہ نبوی کے پیچھے (شمال کی طرف) واقع تھا۔[11] ان دونوں گھروں کے درمیان ایک کھڑکی تھی[12] جس کے ذریعے نبی اکرمؐ اپنی بیٹی کی خیریت دریافت کرتے تھے۔[13] ایک رات، حضرت فاطمہؑ اور عائشہ کے درمیان جھگڑا ہوا، جس سے فاطمہؑ بہت ناراض ہوئی اور فاطمہؑ کی درخواست پر پیغمبر نے اس کھڑکی کو بند کر دیا۔[14]
نبی اکرمؐ کی تدفین
پیغمبر اکرمؐ کا انتقال مدینہ میں اسی گھر میں ہوا جہاں آپ عائشہ کے ساتھ رہتے تھے۔[15]

امام علی علیہ السلام کی تجویز[17] پر لوگ گروہ در گروہ گھر میں داخل ہوئے اور آپ پر نماز پڑھی۔[18] تدفین کی جگہ کے بارے میں کچھ اختلاف ہوا؛ لیکن آخر کار امام علیؑ کی تجویز پر پیغمبر اکرمؐ کو اسی جگہ دفن کیا گیا جہاں آپ کی وفات ہوئی تھی۔[19]
ابوبکر اور عمر کی وفات کے بعد انہیں بھی اسی حجرے میں دفن کیا گیا۔ ابوبکر کا سر رسول اکرمؐ کے کندھے کے برابر میں اور عمر کا سر ابوبکر کے کندھے کے برابر میں قرار دیا گیا ہے۔[20] عمر کی تدفین کے بعد عائشہ نے اپنی رہائش اور قبروں کے درمیان ایک پردہ لگایا۔[21] جس کی علت یہ بتائی جاتی ہے کہ عمر ان کے نامحرم تھے۔[22]
امام حسن علیہ السلام نے وصیت کی کہ آپ کو رسول اللہ کے جوار میں دفن کیا جائے، چونکہ آپ خود کو دوسروں سے زیادہ اس کا حقدار سمجھتے تھے۔[23] لیکن پیغمبر کی زوجہ عائشہ نے امام حسنؑ کو پیغمبر اکرمؐ کے جوار مین دفن ہونے سے روکا۔[24]
مرمت
اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک (حکومت: 86 ہجری-96 ہجری) نے نبی اکرمؐ کے گھر کو پتھر سے دوبارہ تعمیر کیا۔ پھر اس نے حجرے کے چاروں طرف دیواریں بنائیں جس کے پانچ اضلاع تھے۔ اس کی وجہ خانہ کعبہ سے مشابہت نہ ہونا بتایا گیا ہے۔[25] ولید کے زمانے میں مسجد میں اس طرح سے توسیع ہوئی کہ رسول اللہؐ کا گھر مسجد کے اندر آگیا۔[26] سنہ 557 ہجری میں، قبرِ نبوی کے ارد گرد، تہہ خانے میں سیسہ ڈالا گیا تاکہ عیسائی قبر نبی تک رسائی حاصل نہ کر سکیں؛ کیونکہ وہ لوگ بحیرہ احمر کے راستے حملہ کرنے اور دراندازی کرنے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔[27]
سنہ 668 ہجری میں بَیْبَرْس (Baybars) نے اس پانچ ضلعی ڈھانچے کے ارد گرد مستطیل نما جالی کی دیوار تعمیر کی اور حضرت فاطمہ (س) کا گھر بھی اس کے اندر آ گیا۔[28] مسجد نبوی کی اس مرمت میں حجرہ نبوی اور حضرت فاطمہ (س) کا گھر جو کہ لوہے کی جالیوں سے گھرا ہوا تھا، مسجد کے اندر مشرقی دیوار سے چند میٹر کے فاصلے پر قرار پایا۔[29]

حجرے کا اندرونی حصہ
ساتویں صدی ہجری میں مصر کے اسماعیلی حکمران ابن ابی الہیجا نے نبی اکرمؐ کی قبر پر ایک پردہ ڈال دیا جس پر سورہ یس لکھی ہوئی تھی۔[31] یہ روایت اب تک برقرار ہے اور قبر پر ہمیشہ کپڑا ڈالا جاتا ہے۔[32]
پیغمبر کا حجرہ مسلمانوں کے یہاں قابل احترام ہے جس کی بنا پر مختلف شخصیات اور بادشاہوں نے وہاں کے لئے قیمتی اشیاء عطیہ کیے ہیں۔[33] پرانے تحفوں میں سونے اور چاندی سے ڈھکے فانوس بھی ہیں جو کعبہ کے اندر موجود فانوس جیسے ہیں۔[34]
آل سعود کی حکمرانی سے پہلے، 12ویں صدی ہجری میں نبی اکرمؐ کی مدحت میں ضریح کے چاروں طرف سونے سے ایک قصیدہ لکھا گیا تھا۔ آل سعود کی حکمرانی کے بعد اس قصیدے کے بعض مصرعوں کو مٹا دیا گیا کیونکہ ان کے عقیدے کے مطابق ان کے بعض الفاظ شرک پر مشتمل تھے؛ البتہ دوسروں کے مطابق یہ اشعار توسل کی مشروعیت پر مشتمل تھے۔[35]
حوالہ جات
- ↑ الحربی، «تعرف علی أبرز موجودات وتفاصیل الحجرۃ النبویۃ»، العربیہ۔
- ↑ الأنصاری، عمارۃ و توسعۃ المسجد النبوی الشریف عبر التاریخ، 1996ء، ص61۔
- ↑ «الحجرۃ النبویۃ. الملائکۃ یحفون بالقبر الشریف»، المدینۃ۔
- ↑ پیشوایی، «چرا پیامبر اسلام در خانہ خود بہ خاک سپردہ شد؟»، پرتال جامع علم انسانی۔
- ↑ مقریزی، إمتاع الأسماع، 1420ھ، ج1، ص67۔
- ↑ الأنصاری، عمارۃ و توسعۃ المسجد النبوی الشریف عبر التاریخ، 1996ء، ص61۔
- ↑ پیشوایی، «چرا پیامبر اسلام در خانہ خود بہ خاک سپردہ شد؟»، پرتال جامع علم انسانی۔
- ↑ «الحجرۃ النبویۃ، المسجد من الداخل»، دلیلک الی المدینہ النبویۃ۔
- ↑ اسماعیل، «تفاصیل وأسرار "یرویہا" قلیلون دخلوا الحجرۃ النبویۃ الشریفۃ»، العربیہ۔
- ↑ پیشوایی، «چرا پیامبر اسلام در خانہ خود بہ خاک سپردہ شد؟»، پرتال جامع علم انسانی۔
- ↑ قائدان، درسنامہ اماکن مذہبی مکہ مکرمہ و مدینہ، 1390شمسی، ص177۔
- ↑ الصغیر، الامام علی علیہ السلام سیرتہ وقیادتہ فی ضوء المنہج التحلیلی، 2002ء۔ ج1، ص31۔
- ↑ سمہودی، وفاء الوفاء، 2006ء، ج2، ص57۔
- ↑ صبری باشا، موسوعۃ مرآۃ الحرمین الشریفین و جزیرۃ العرب، 2004ء، ج3، ص262۔
- ↑ ابن العمرانی، الإنباء، 2001ء، ص45۔
- ↑ «الحجرۃ النبویۃ.. قبر الرسول المصطفی و صاحبیہ أبوبکر و عمر»، وکالۃ الأنباء السعودیۃ۔
- ↑ شیخ مفید، الارشاد، 1413ھ، ج1، ص188۔
- ↑ ابن سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج2، ص220۔
- ↑ محدث اربلی، کشف الغمۃ، 1421ھ، ج1، ص19۔
- ↑ الأنصاری، عمارۃ و توسعۃ المسجد النبوی الشریف عبر التاریخ، 1996ء، ص62۔
- ↑ الأنصاری، عمارۃ و توسعۃ المسجد النبوی الشریف عبر التاریخ، 1996ء، ص62۔
- ↑ الأنصاری، عمارۃ و توسعۃ المسجد النبوی الشریف عبر التاریخ، 1996ء، ص62۔
- ↑ شیخ طوسی، الأمالی، 1414ھ، ص160۔
- ↑ یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، بیروت، ج2، ص225۔
- ↑ الأنصاری، عمارۃ و توسعۃ المسجد النبوی الشریف عبر التاریخ، 1996ء، ص63۔
- ↑ ابن کثیر دمشقی، البدایۃ و النہایۃ، 1407ھ، ج9، ص75۔
- ↑ جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، 1387شمسی، ص256۔
- ↑ جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، 1387شمسی، ص256۔
- ↑ پیشوایی، «چرا پیامبر اسلام در خانہ خود بہ خاک سپردہ شد؟»، پرتال جامع علم انسانی۔
- ↑ «العثمانیون. من قصف الکعبۃ إلی سرقۃ مقتنیات الحجرۃ الشریفۃ»، المدینہ۔
- ↑ جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، 1387شمسی، ص256۔
- ↑ اسماعیل، «تفاصیل وأسرار "یرویہا" قلیلون دخلوا الحجرۃ النبویۃ الشریفۃ»، العربیہ۔
- ↑ مزید معلومات کے لئے: صابان، «مقتنیات الحجرۃ النبویۃ الشریفۃ بموجب تقریر عثمانی عام 1326 ہ»
- ↑ اسماعیل، «تفاصیل وأسرار "یرویہا" قلیلون دخلوا الحجرۃ النبویۃ الشریفۃ»، العربیہ۔
- ↑ «الحجرۃ النبویۃ، المسجد من الداخل»، دلیلک الی المدینہ النبویۃ۔
مآخذ
- ابن سعد کاتب واقدی، محمد، الطبقات الکبری، ترجمہ محمود مہدوی دامغانی، تہران، انتشارات فرہنگ و اندیشہ، 1374ہجری شمسی۔
- ابن العمرانی، محمد بن علی، الإنباء فی تاریخ الخلفاء، تحقیق قاسم السامرائی، القاہرۃ، دارالآفاق العربیۃ، 2001ء۔
- ابن کثیر دمشقی، اسماعیل بن عمر، البدایۃ و النہایۃ، بیروت، دار الفکر، 1407ھ۔
- اسماعیل، فراج، «تفاصیل وأسرار "یرویہا" قلیلون دخلوا الحجرۃ النبویۃ الشریفۃ»، العربیہ، تاریخ اشاعت: 30 مارچ 2006ء، تاریخ مشاہدہ: 9 دی 1403ہجری شمسی۔
- الأنصاری، ناجی محمد، عمارۃ و توسعۃ المسجد النبوی الشریف عبر التاریخ، مدینہ، نادی المدینہ المنورہ، 1996ء۔
- بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، تحقیق سہیل زکار، بیروت، دار الفکر، چاپ اول، 1417ھ۔
- پیشوایی، مہدی، «چرا پیامبر اسلام در خانہ خود بہ خاک سپردہ شد؟»، پرتال جامع علوم انسانی، فرہنگ کوثر، شمارہ 4، 1376ہجری شمسی۔
- جعفریان، رسول، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، تہران، مشعر، 1387ہجری شمسی۔
- «الحجرۃ النبویۃ، المسجد من الداخل»، دلیلک الی المدینہ النبویۃ، تاریخ مشاہدہ: 9 دی 1403ہجری شمسی۔
- «الحجرۃ النبویۃ. الملائکۃ یحفون بالقبر الشریف»، المدینۃ، تاریخ اشاعت: 30 جولائی2021ء، تاریخ مشاہدہ: 9 دی 1403ہجری شمسی۔
- «الحجرۃ النبویۃ.. قبر الرسول المصطفی و صاحبیہ أبوبکر و عمر»، وکالۃ الأنباء السعودیۃ، تاریخ اشاعت: 10 مئی 2019ء، تاریخ مشاہدہ: 9 دی 1403شمسی
- الحربی، محمد، «تعرف علی أبرز موجودات وتفاصیل الحجرۃ النبویۃ»، العربیہ، تاریخ اشاعت: 20 مئی 2020ء، تاریخ مشاہدہ: 9 دی 1403شمسی
- سمہودی، علی بن عبداللہ، وفاء الوفاء بأخبار دار المصطفی، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، 2006ء۔
- شیخ طوسی، محمد بن حسن، الامالی، قم، دار الثقافۃ، چاپ اول، 1414ھ۔
- شیخ مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، قم، کنگرہ شیخ مفید، چاپ اول، 1413ھ۔
- صابان، سہیل، «مقتنیات الحجرۃ النبویۃ الشریفۃ بموجب تقریر عثمانی عام 1326 ہ»، مجلہ المدینۃ المنورۃ، جمادی الأولی، 1422ھ۔
- صبری باشا، ایوب، موسوعۃ مرآۃ الحرمین الشریفین و جزیرۃ العرب، ترجمہ ماجدہ معروف، قاہرہ، دارالآفاق العربیۃ، 2004ء۔
- الصغیر، محمدحسین، الامام علی علیہ السلام سیرتہ و قیادتہ فی ضوء المنہج التحلیلی، بی جا، مؤسسۃ العارف، 2002ء۔
- «العثمانیون. من قصف الکعبۃ إلی سرقۃ مقتنیات الحجرۃ الشریفۃ»، المدینہ، تاریخ اشاعت: 26 فروری 2020ء، تاریخ مشاہدہ: 9 دی 1403شمسی
- قائدان، اصغر، تاریخ و آثار اسلامی مکہ و مدینہ، قم، الہادی، 1381ہجری شمسی۔
- محدث اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمۃ فی معرفۃ الأئمۃ، قم، منشورات الرضی، چاپ اول، 1421ھ۔
- مقریزی، احمد بن علی، امتاع الأسماع بما للنبی من الأحوال و الأموال و الحفدۃ و المتاع، تحقیق: محمد عبدالحمید نمیسی، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، چاپ اول، 1420ھ۔
- یعقوبی، احمد بن أبی یعقوب، تاریخ الیعقوبی، بیروت، دار صادر، چاپ اول، بی تا.