قیام (نماز)
(قیام نماز سے رجوع مکرر)
یہ ایک توصیفی مقالہ ہے جو عبادات کی انجام دہی کیلئے معیار نہیں بن سکتا لہذا اس مقصد کیلئے اپنے مجتہد کی توضیح المسائل کی طرف مراجعہ فرمائیں۔ |
بعض عملی اور فقہی احکام |
---|
قیام نماز کے واجبات میں سے ایک ہے۔ نماز میں چار طرح کے قیام ہیں جن میں سے دو رکن کی حیثیت رکھتے ہیں۔ان دو میں سے اگر کسی ایک رکن کو بھول کر یا جان بوجھ کر چھوڑ دیا جائے تو نماز باطل ہو جاتی ہے۔
تعریف
قیام کا لفط ق ی م سے نکلا ہے جس کا معنی اٹھنا ہے[1] اور اقامہ برپا کرنے کے معنی کو بیان کرتا ہے اور قرآن کریم میں 46 مرتبہ نماز برپا کرنے کے معنی میں بیان ہوا ہے۔فقہی اصطلاح کے مطابق قیام، نماز کے واجبات میں کھڑے ہونے کے معنی میں بیان ہوتا ہے۔
اقسام
- تکبیرۃ الاحرام کے وقت کا قیام۔
- رکوع میں جانے سے پہلے کا قیام
- حمد، سورت اور تسبیحات اربعہ پڑھنے کے وقت کا قیام۔
- رکوع کے بعد کا قیام۔
قیام کی پہلی اور دوسری قسم نماز کے ارکان میں سے ہے۔ پس ان کے عمدی یا سہوی چھوٹ جانے کی وجہ سے نماز باطل ہوتی ہے۔ لیکن قیام کی تیسری اور چوتھی قسم نماز کے واجبات میں سے ہے انہیں اگر جان بوجھ کر چھوڑا جائے تو نماز باطل ہوتی ہے ورنہ نماز باطل نہیں ہے۔[2]
احکام
- عام حالات میں قیام نماز کیلئے واجب ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ نماز پڑھتے ہوئے سیدھے کسی سہارے کے بغیر کھڑا ہونا ہے۔[3]
- فاتحہ ،سورت یا تسبیحات اربعہ پڑھتے وقت اگر کوئی قیام نہ کر سکے تو اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ تکبیرۃ الاحرام کے وقت قیام کی حالت میں تکبیر کہے اور رکوع میں جانے سے پہلے والے قیام کو ادا کرے تا کہ نماز کے رکن ادا ہو سکیں۔[4]
- قیام کی حالت میں بدن کو حالت سکون میں ہونا چاہئے البتہ مختصر سی حرکت اس کیلئے مانع نہیں ہے۔[5]
- نماز میت کو حالت قیام میں ہی پڑھا جاتا ہے۔[6]
- مستحبی نمازوں کو بیٹھ کر پڑھا جا سکتا ہے۔لیکن اس صورت میں ان کا ثواب نصف شمار ہو گا۔
بیرونی روابط
حوالہ جات
- ↑ قاموس قرآن، چاپ دارالکتب الاسلامیہ، ۱۳۶۷ش، ج۶، ص۴۷
- ↑ یزدی،عروۃ الوثقیٰ 2/477
- ↑ یزدی،عروۃ الوثقیٰ 2/477
- ↑ امام خمینی ،رسالہۂ امام خمینی مسئلہ 972
- ↑ توضیح المسائل مراجع مسئلہ 967
- ↑ توضیح المسائل مراجع مسئلہ 600
مآخذ
- طباطبائی یزدی، سید محمد کاظم، عروۃ الوثقی (المحشی)، مصحح: احمد محسنی سبزواری، قم، دفتر انتشارات اسلامی، ۱۴۱۹ھ۔
- قاموس قرآن، سید علی اکبر قریشی، دارالکتب الاسلامیہ، ۱۳۶۷ہجری شمسی۔