سورہ اعلی
طارق | سورۂ اعلی | غاشیہ | |||||||||||||||||||||||
|
سورہ اعلٰی قرآن کی 87ویں اور مکی سورتوں میں سے ہے اور آخری پارے میں واقع ہے۔ اس سورت کا نام اس کی پہلی آیت سے لیا گیا ہے جس کے معنی "برتر" اور "افضل" کے ہیں۔ اس کی ابتدائی آیتوں میں پیغمبر اکرمؐ کو خدا کی تسبیح کرنے کی ترغیب دی گئی ہے جس کے بعد خدا کی 7 صفات کا تذکرہ ہوتا ہے۔ آگے چل کر مؤمنوں کو خدا کے سامنے خاشع جبکہ کافروں کو شقی قرار دیتے ہوئے ان دو گروہوں کی سعادت اور شقاوت کے عوامل کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
اس کی فضیلت اور تلاوت کے حوالے سے پیغمبر اکرمؐ سے منقول ہے: "جو شخص سورہ اعلی کی کی تلاوت کرے گا خدا حضرت ابراہیم، حضرت موسی اور حضرت محمدؐ پر نازل ہونے والے ہر حرف کے بدلے میں اسے دس نیکیاں عطا کرے گا۔ اسی طرح احادیث میں آیا ہے کہ رسول اکرمؐ اس سورت کو بہت زیادہ دوست رکھتے تھے۔
تعارف
- نام
سورہ اَعلیٰ کو عالی مرتبت پروردگار کی تسبیح سے آغاز ہونے کی وجہ سے "اعلی" نام رکھا گیا ہے۔[1] "اعلی" کے معنی ہر چیز سے برتر اور بلند و بالا کے ہیں۔[2]
- محل اور ترتیب نزول
سورہ اعلیٰ مکی سورتوں میں سے ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے 8ویں جبکہ موجودہ ترتیب کے اعبار سے 78ویں سورہ ہے۔[3] یہ سورہ قرآن کریم کے آخری پارے میں واقع ہے۔
- آیات کی تعداد اور دوسری خصوصیات
19 آیات، 72 کلمات اور 296 حروف پر مشتمل اس سورت کا شمار مُفَصّلات میں ہوتا ہے۔ یہ سورہ مُسَبّحات (خدا کی تسبیح سے شروع ہونے والی سورتیں) میں آخری سورہ ہے۔[4]
مضامین
تفسیر نمونہ کے مطابق سورہ اعلیٰ دو حصوں پر مشتمل ہے: پہلے حصے میں پیغمبر اکرمؐ کی ذات سے متعلق گفتگو ہوتی ہے اور آپؐ کو خدا کی تسبیح اور اپنی رسالت کے ادا کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔ اس حصے کے آخر میں خدا کی سات(7) صفات کا تذکرہ ہوتا ہے۔ دوسرے حصے میں مؤمنوں کو خدا کے سامنے خاشع اور کافروں کو شقی قرار دیتے ہوئے ان دو گروہوں کی سعادت اور شقاوت کے عوامل کو باین کیا گیا ہے۔[5]
پیغمبر کی الہی رسالت کی حقانیت | |||||||||||||||
دوسرا گفتار: آیہ۱۴-۱۹ دعوت توحید میں حقانیت پیغمبر کی دلیل | پہلا گفتار: آیہ ۱ - ۱۳ توحید کے بیان میں پیغمبر ذمہ داری | ||||||||||||||
پہلی دلیل: آیہ۱۴-۱۷ خداپرستوں کی ہدایت | پہلی ذمہ داری: آیہ ۱-۵ عظیم خدا کی تسبیح | ||||||||||||||
دوسری دلیل: آیہ ۱۸-۱۹ انبیاء کی کتابوں میں توحید کی گواہی | دوسری ذمہ داری: آیہ ۶-۱۳ حق طلبوں کو توحید کی دعوت | ||||||||||||||
تفسیر
پیغمبر اور قرآن کو فراموش نہ کرنا
سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنسَىٰ (ترجمہ: ہم آپ(ص) کو (ایسا) پڑھائیں گے کہ پھر آپ(ص) نہیں بھولیں گے۔)[7]
خداوند متعال اس آیت میں پیغمبر اکرمؐ کو یہ اطمینان دے رہے ہیں کہ آپ آیات الہی کے فراموش ہونے کا خوف نہ کھائیں کیوںکہ جس نے اسے نازل کیا ہے وہ خود اس کی حفاظت کرنے والا اور نگہبان ہے۔[8] علامہ طباطبایی تفسیر المیزان میں لکھتے ہیں کہ "اِقراء" کے معنی قاری کی قرأت میں غلطیوں کی نشاندہی کر کے اس کی تصحیح کرنے کو کہا جاتا ہے؛ البتہ یہ اس لفظ کا لغوی اور عرفی معنی ہے لیکن اس آیت میں اس کا معنی یہ ہے کہ خدا نے پیغمبر اکرمؐ ایک ایسی قدرت عطا کی ہے جس کی بدولت آپؐ قرآن کو بغیر کسی تحریف اور کمی بیشی کے بالکل اسی طرح پڑھ سکتے ہیں جس طرح اسے نازل کیا گیا ہے۔[9]
عید کی نماز اور زکات فطرہ
تفسیر مجمع البیان میں آیا ہے کہ بعض مفسرین کے مطابق اس سورت کی آیت نمبر 14 اور 15 میں تزکیہ اور صلاۃ سے مراد زکات فطرہ اور عید کی نماز ہے۔ لیکن ممکن ہے اس پر یہ اعتراض کیا جائے کہ یہ سورت مکی سورتوں میں سے ہے اس زمانے میں نہ زکات واجب ہوئی تھی اور نہ عید کی نماز۔ اس اعتراض کا یوں جواب دیا گیا ہے کہ ممکن ہے اس سورت کی ابتدائی آیات مکے میں نازل ہوئی ہوں اور اس کی آخری آیتیں من جملہ مذکورہ آیات مدینے میں نازل ہوئی ہوں۔ [10]
سید ہاشم بحرانی تفسیر البرہان میں آیت نمبر 14 کے ذیل میں لکھتے ہیں کہ امام صادقؑ سے منقول ہے: روزہ زکات فطرہ کے ادا کرنے کے ساتھ کامل ہو جاتا ہے جس طرح نماز پیغمبر اکرمؐ پر درود بھیجنے سے کمال تک پہنچ جاتی ہے۔ پس جو بھی روزہ رکھے لیکن عمدا زکات فطرہ ادا نہ کرے تو گویا اس نے روزہ ہی نہیں رکھا ہے جس طرح کوئی شخص نماز پڑھے لیکن پیغمبر اکرمؐ پر صلوات نہ بھیجے تو گویا اس نے نماز پڑھی ہی نہیں ہے۔ خدا نے زکات فطرہ کو نماز عید سے پہلے بیان فرمایا ہے: {{حدیث|قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّہِ فَصَلَّىٰ"۔[11]
انبیاء اور آسمانی کتابوں کی تعداد
سورہ اعلی کی آخری آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم اور حضرت موسی کے اوپر بھی آسمانی کتابیں نازل ہوئی تھیں۔ ایک حدیث میں ابوذر نقل کرتے ہیں: پیغمبر اکرمؐ کی خدمت میں انبیا کی تعداد سے متعلق سوال کیا تو آپؐ نے فرمایا: انبیا کی کل تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار تھی۔ اس کے بعد آپؐ نے فرمایا اے ابوذر ان میں سے چہار انبیا عرب تھے: ہود، صالح، شعیب اور تمہارے نبی۔ میں نے کہا اے رسول خدا! خدا نے کتنی کتابیں نازل فرمائی ہیں؟ فرمایا: 104 کتابیں۔ دس کتابیں حضرت آدم پر، پچاس(50) کتابیں حضرت شیث پر، اخنوخ جو کہ حضرت ادریس ہیں ان پر تیس(30) کتابیں اور وہ پہلے انسان ہیں جنہوں نے قلم کے ذریعے لکھنا شروع کیا تھا، حضرت ابراہیم پر دس(10) کتابیں نازل فرمائی اسی طرح توریت کو حضرت موسی، انجیل کو حضرت عیسی، زبور کو حضرت داوود اور فرقان (قرآن) کو پیغمبر اسلام یعنی مجھ پر نازل فرمایا۔[12]
آیات مشہورہ
- إِنَّهُ يَعْلَمُ الْجَهْرَ وَمَا يَخْفَىٰ (ترجمہ: بےشک وہ ظاہر کو بھی جانتا ہے اور اس کو بھی جو چھپا ہوا ہے۔) (آیت 7)
اس آیت کی تفسیر میں آیا ہے کہ خدا کے لئے آشکار اور چھپا ہوا دونوں ایک ہے؛ کیونکہ جو کچھ بھی ہی چاہے و آشکار ہو یا چھپا ہوا وہ خدا ہی کی مخلوق ہے۔[13] ملا صدرا لکھتے ہیں یہ آیت علم خدا کو ثابت کرتی ہے خدا سے جہالت کو دور کرتی ہے۔[14]
فضیلت اور خواص
اس کی فضیلت اور تلاوت کے حوالے سے تفسیر مجمع البیان میں پیغمبر اکرمؐ سے منقول ہے: "جو شخص سورہ اعلی کی کی تلاوت کرے گا خدا حضرت ابراہیم، حضرت موسی اور حضرت محمدؐ پر نازل ہونے والے ہر حرف کے بدلے میں اسے دس نیکیاں عطا کرے گا۔ اسی طرح امام علیؑ سے نقل ہوئی ہے کہ رسول اکرمؐ اس سورت کو بہت زیادہ دوست رکھتے۔[15] امام صادقؑ سے بھی نقل ہوئی ہے کہ جو شخص سورہ اعلی کو اپنی واجب یا مستحب نمازوں میں پڑھے گا قیامت کے دن اس سے کہا جائے گا کہ بہشت کے جس دروازے سے چاہو داخل ہو جاؤ ان شاء اللہ۔[16]
متن اور ترجمہ
سوره اعلی
|
ترجمہ
|
---|---|
سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى ﴿1﴾ الَّذِي خَلَقَ فَسَوَّى ﴿2﴾ وَالَّذِي قَدَّرَ فَهَدَى ﴿3﴾ وَالَّذِي أَخْرَجَ الْمَرْعَى ﴿4﴾ فَجَعَلَهُ غُثَاء أَحْوَى ﴿5﴾ سَنُقْرِؤُكَ فَلَا تَنسَى ﴿6﴾ إِلَّا مَا شَاء اللَّهُ إِنَّهُ يَعْلَمُ الْجَهْرَ وَمَا يَخْفَى ﴿7﴾ وَنُيَسِّرُكَ لِلْيُسْرَى ﴿8﴾ فَذَكِّرْ إِن نَّفَعَتِ الذِّكْرَى ﴿9﴾ سَيَذَّكَّرُ مَن يَخْشَى ﴿10﴾ وَيَتَجَنَّبُهَا الْأَشْقَى ﴿11﴾ الَّذِي يَصْلَى النَّارَ الْكُبْرَى ﴿12﴾ ثُمَّ لَا يَمُوتُ فِيهَا وَلَا يَحْيَى ﴿13﴾ قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّى ﴿14﴾ وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّهِ فَصَلَّى ﴿15﴾ بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا ﴿16﴾ وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ وَأَبْقَى ﴿17﴾ إِنَّ هَذَا لَفِي الصُّحُفِ الْأُولَى ﴿18﴾ صُحُفِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى ﴿19﴾ |
(اے نبی(ص)) اپنے بلند و برتر پروردگار کے نام کی تسبیح کیجئے۔ (1) جس نے (ہر چیزکو) پیدا کیا پھر درست کیا (تناسب قائم کیا)۔ (2) جس نے تقدیر مقرر کی (ہر چیز کا اندازہ مقرر کیا) اور (سیدھی) راہ دکھائی۔ (3) اس نے (جانوروں کیلئے) زمین سے چارہ نکالا۔ (4) پھر اسے (خشک کرکے) سیاہی مائل کوڑا بنا دیا۔ (5) ہم آپ(ص) کو (ایسا) پڑھائیں گے کہ پھر آپ(ص) نہیں بھولیں گے۔ (6) مگر جو اللہ چاہے (بھلا دے) بےشک وہ ظاہر کو بھی جانتا ہے اور اس کو بھی جو چھپا ہوا ہے۔ (7) اور ہم آپ(ص) کو آسان (شریعت) کی سہولت دیں گے۔ (8) پس آپ(ص) نصیحت کیجئے اگر نصیحت کچھ فائدہ پہنچائے۔ (9) وہ شخص نصیحت قبول کرے گا جو (خدا و آخرت سے) ڈرتا ہوگا۔ (10) اور جو بدبخت ہے وہ اس سے گریز کرے گا۔ (11) جو بڑی آگ میں داخل ہوگا۔ (12) پھر وہ اس میں نہ مرے گا نہ جئے گا۔ (13) وہ شخص فائز المرام ہوا جس نے اپنے آپ کو (بداعتقادی و بدعملی سے) پاک کیا۔ (14) اور اپنے پروردگار کا نام یاد کیا اور نماز پڑھی۔ (15) مگر تم لوگ دنیا کی زندگی کو (آخرت پر) ترجیح دیتے ہو۔ (16) حالانکہ آخرت بہتر ہے اور پائیدار ہے۔ (17) یقیناً یہ بات پہلے صحیفوں میں بھی ہے۔ (18) یعنی ابراہیم(ع) اور موسیٰ(ع) کے صحیفوں میں۔ (19) |
پچھلی سورت: سورہ طارق | سورہ اعلی | اگلی سورت:سورہ غاشیہ |
1.فاتحہ 2.بقرہ 3.آلعمران 4.نساء 5.مائدہ 6.انعام 7.اعراف 8.انفال 9.توبہ 10.یونس 11.ہود 12.یوسف 13.رعد 14.ابراہیم 15.حجر 16.نحل 17.اسراء 18.کہف 19.مریم 20.طہ 21.انبیاء 22.حج 23.مؤمنون 24.نور 25.فرقان 26.شعراء 27.نمل 28.قصص 29.عنکبوت 30.روم 31.لقمان 32.سجدہ 33.احزاب 34.سبأ 35.فاطر 36.یس 37.صافات 38.ص 39.زمر 40.غافر 41.فصلت 42.شوری 43.زخرف 44.دخان 45.جاثیہ 46.احقاف 47.محمد 48.فتح 49.حجرات 50.ق 51.ذاریات 52.طور 53.نجم 54.قمر 55.رحمن 56.واقعہ 57.حدید 58.مجادلہ 59.حشر 60.ممتحنہ 61.صف 62.جمعہ 63.منافقون 64.تغابن 65.طلاق 66.تحریم 67.ملک 68.قلم 69.حاقہ 70.معارج 71.نوح 72.جن 73.مزمل 74.مدثر 75.قیامہ 76.انسان 77.مرسلات 78.نبأ 79.نازعات 80.عبس 81.تکویر 82.انفطار 83.مطففین 84.انشقاق 85.بروج 86.طارق 87.اعلی 88.غاشیہ 89.فجر 90.بلد 91.شمس 92.لیل 93.ضحی 94.شرح 95.تین 96.علق 97.قدر 98.بینہ 99.زلزلہ 100.عادیات 101.قارعہ 102.تکاثر 103.عصر 104.ہمزہ 105.فیل 106.قریش 107.ماعون 108.کوثر 109.کافرون 110.نصر 111.مسد 112.اخلاص 113.فلق 114.ناس |
حوالہ جات
- ↑ دانشنامہ قرآن و قرآنپژوہی، ۱۳۷۷ش، ج۲، ص۱۲۶۳.
- ↑ دہخدا، لغتنامہ، ذیل واژہ اعلی.
- ↑ معرفت، آموزش علوم قرآن، ۱۳۷۱ش، ج۱، ص۱۶۶.
- ↑ دانشنامہ قرآن و قرآنپژوہی، ۱۳۷۷ش، ج۲، ص۱۲۶۳.
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۶۶ش، ج۲۶، ص۳۸۰.
- ↑ خامہگر، محمد، ساختار سورہہای قرآن کریم، تہیہ مؤسسہ فرہنگی قرآن و عترت نورالثقلین، قم، نشر نشرا، چ۱، ۱۳۹۲ش.
- ↑ سورہ اعلی، آیہ 6.
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۶۶ش، ج۲۶، ص۳۹۳.
- ↑ طباطبایی، المیزان، ۱۹۷۴م، ج۲۰، ص۲۶۶.
- ↑ طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱۰، ص۷۲۲.
- ↑ بحرانی، البرہان، ۱۴۱۷ق، ج۵، ص۶۳۷.
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۶۶ش، ج۲۶، ص۴۰۵.
- ↑ فضل اللہ، من وحی القرآن، ۱۴۱۹ق، ج۲۴، ص۲۰۹.
- ↑ ملا صدرا، تفسیر القرآن الکریم، ۱۳۶۶ش، ج۷، ص۳۷۶.
- ↑ طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱۰، ص۷۱۷.
- ↑ علی بابایی، برگزیدہ تفسیر نمونہ، ۱۳۸۷ش، ج۵، ص۴۷۵.
مآخذ
- قرآن کریم، ترجمہ محمد حسین نجفی (سرگودھا)۔
- بحرانی، سید ہاشم، البرہان فی تفسیر القرآن، قم، مؤسسة البعثة، چاپ اول، ۱۴۱۷ق۔
- جعفری، عالیہ، «تأثیر قرآن در شعر فارسی»، مجلہ بشارت، ش۶۷، ۱۳۸۷ش۔
- دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، ج۲، بہ کوشش بہاء الدین خرمشاہی، تہران: دوستان-ناہید، ۱۳۷۷ش۔
- طباطبایی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسة الأعلمي للمطبوعات، چاپ دوم، ۱۹۷۴م۔
- طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تحقیق و مقدمہ محمد جواد بلاغی، تہران، انتشارات ناصر خسرو، چاپ سوم، ۱۳۷۲ش۔
- علی بابایی، احمد، برگزیدہ تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، ۱۳۸۷ش۔
- فضل اللہ، سید محمد حسین، تفسیر من وحی القرآن، بیروت، دارالملاک للطباعة و النشر، چاپ دوم، ۱۴۱۹ق۔
- مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، ۱۳۶۶ش۔
- معرفت، محمد ہادی، آموزش علوم قرآن، [بیجا]، مرکز چاپ و نشر سازمان تبلیغات اسلامی، چاپ اول، ۱۳۷۱ش۔
- ملا صدرا، محمد بن ابراہیم، تفسیر القرآن الکریم، بہ تحقیق محمد خواجوی، قم، انتشارات بیدار، چاپ دوم، ۱۳۶۶ش (نسخہ رایانہای نور)۔