رملہ بنت ابی سفیان

ویکی شیعہ سے
(رملہ بنت ابوسفیان سے رجوع مکرر)
رملہ بنت ابی سفیان (ام حبیبہ)
کوائف
مکمل نامرملہ بنت ابی سفیان بن صخر ...
کنیتام حبیبہ
محل زندگیمکہ، حبشہ، مدینہ
مہاجر/انصارمہاجر
اقاربرسول اللہ، معاویہ بن ابی سفیان، ابو سفیان
وفاتسنہ 44 ہجری
مدفنمدینہ
دینی معلومات
ہجرتحبشہ
وجہ شہرتصحابیہ ، ام المؤمنین


‌ رملہ بنت ابی سفیان (بعثت سے 17 سال پہلے- 44 ھ) معاویہ بن ابی سفیان کی بہن اور رسول اکرم (ص) کی زوجہ ہیں کہ جنکا نام بعض مآخذ میں ہند نقل ہوا ہے۔ اپنے اصل نام کی نسبت ام حبیبہ کی کنیت سے زیادہ مشہور ہیں۔ تاریخ پیدائش بعثت سے 17 سال پہلے (تقریبا 593 ء) ذکر ہوئی ہے۔[1] وہ پہلے عبیدالله بن جحش اسدی کے عقد میں تھیں۔[2] وہ ان پہلی خواتین میں سے ہیں جو اپنے شوہر کے ساتھ ہجرت کر کے مسلمانوں کے ساتھ حبشہ گئیں۔ [3] حبشہ میں عبیدالله بن جحش اسدی کی وفات کے بعد رسول اللہ نے سال 6 یا 7 ھ میں عمرو بن امیہ ضمری کو اپنا وکیل بنایا اور وہ ام حبیبہ کو آپ کی زوجہ قرار دے کر انہیں دوسرے مسلمانوں کے ہمراہ مدینہ لے آئے۔ [4]

زندگی نامہ

ازواج رسول خدا
خدیجہ بنت خویلد (ازدواج: 25 عام الفیل)
سودہ بنت زمعہ (ازدواج: قبل از ہجرت)
عائشہ بنت ابوبکر (ازدواج: 1 یا 2 یا 4 ہجری)
حفصہ بنت عمر (ازدواج: 3 ہجری)
زینب بنت خزیمہ (ازدواج: 3 ہجری)
ام سلمہ بنت ابوامیہ (ازدواج: 4 ہجری)
زینب بنت جحش (ازدواج: 5 ہجری)
جویریہ بنت حارث (ازدواج: 5 یا 6 ہجری)
رملہ بنت ابوسفیان (ازدواج: 6 یا 7 ہجری)
ماریہ بنت شمعون (ازدواج: 7 ہجری)
صفیہ بنت حیی (ازدواج: 7 ہجری)
میمونہ بنت حارث (ازدواج: 7 ہجری)

نام و نسب

  • نام: رَمْلَۃُ بنت ابی سفيان۔ بعض مآخذ میں ہند بھی نقل ہوا ہے۔[5]
  • نسب: رملہ بنت ابی سفیان بن صخر بن امیۃ بن عبد شمس بن عبد مناف بن قصئ۔[6] یہ خاندان بنو امیہ سے ہیں۔ معاویہ اور عنبسہ اسکے بھائی ہیں۔
  • کنیت: ام حبیبہ۔
  • اولاد: رسول اللہ سے پہلے عبید اللہ بن جحش اسدی کے عقد میں تھی[7] جس سے ایک بیٹی پیدا ہوئی۔ اس کا نام حبیبہ تھا۔ اسی مناسبت سے کنیت ام حبیبہ ہوئی۔[8]

پیدائش

تاریخ پیدائش 17 سال بعثت سے پہلے (593 ء) ذکر کرتے ہیں۔[9] یہ تاریخ ان روایات کے موافق ہے جو 7 ہجری میں ان کی عمر تیس سال سے کچھ زیادہ ذکر کرتی ہیں۔[10]

ازدواج

وہ پہلے عبیداللہ بن جحش اسدی کی زوجہ تھیں۔[11] وہ ان پہلی خواتین میں سے ہے جو اپنے شوہر کے ہمراہ حبشہ ہجرت کر کے گئیں۔[12]

رسول خدا سے ازدواج

حبشہ میں عبیدالله کی وفات کے بعد پیامبر (ص) نے سال 6 یا 7 ھ میں عمرو بن امیہ ضمری کو اپنا وکیل بناکر نجاشی کے پاس بھیجا تا کہ ‌ام حبیبہ کو آپ کی زوجہ بنا کر دوسرے مسلمانوں کے ہمراہ مدینہ لے آئے[13] نجاشی نے 400 دینار رسول کی طرف سے حق مہر دیا۔[14]۔ نجاشی نے ام حبیبہ کو دوسرے مسلمانوں کی نسبت جلدی یا انکے ہمراہ ہدایا دے کے مدینہ روانہ کیا۔[15]

جہاں ابو سفیان دشمنان اسلام میں سے تھا تو وہیں ابن عباس اس آیت :عَسَی اللّه أَن یجْعَل بَینَکم وَ بَین الَّذین عادَیتُم مِنْهُم مَوَدَّةً [16] (ترجمہ: بہت ممکن ہے کہ اللہ تمہارے درمیان اور ان لوگون کے درمیان جن سے (آج) تمہاری دشمنی ہے کبھی محبت پیدا کر دے) کو ابو سفیان کی بیٹی ام حبیبہ کی رسول اللہ سے ازدواج سے مرتبط سمجھتے ہیں۔[17]

فتح مکہ کے بعد ابو سفیان تجدید صلح حدیبیہ کیلئے مدینے آیا۔ وہ جب اپنی بیٹی ام حبیبہ کے پاس گیا تو انہوں نے اسے مشرک سمجھا اور اسے رسول اللہ کی جگہ پر بیٹھنے کی اجازت نہیں دی۔[18]

سیاسی فعالیت

ام حبیبہ نے عثمان کے قتل کے بعد ان کا خون آلودہ قمیض نعمان بن بشیر کے ہاتھ معاویہ کے پاس دمشق بھجوایا۔[19] اسی طرح انہوں نے محمد بن ابی بکر کی شہادت کے بعد بکرے کے گوشت کے کباب بنا کر مسرت کا اظہار کیا اور اس کی بہن عائشہ کو بھی بھیجے۔ عائشہ نے اس فعل سے ناراض ہو کر کہا: قاتل اللّه ابنة العاهرة، والله لا اکلت شواء ابدا خدا اس بدکار عورت کی بیٹی یعنی ہندہ کی بیٹی ام حبیبہ، کو قتل کرے۔ بخدا میں یہ کباب ہر گز نہیں کھاؤں گی۔[20] [21]

راویہ حدیث

ام حبیبہ نے رسول اللہ (ص) سے روایات نقل کی ہیں۔[22]۔ ان سے منقول احادیث کی تعداد 50 ہے[23]۔ ان کے بھائی: معاویہ اور عنبسہ نیز انس بن مالک، ابوبکر بن سعید ثقفی، ابو جراح قرشی اور دیگر افراد نے اس سے روایت نقل کی ہے۔[24]

وفات

وہ سنہ 44 ہجری میں 74 سال کی عمر گزار کر فوت ہوئیں۔[25] روایت میں آیا ہے کہ انہوں نے دمشق کا سفر کیا [26] بلکہ بعض نے ان کی وفات دمشق میں ہی ذکر کی ہے۔ نیز باب الصغیر نامی قبرستان میں ان کے نام سے مزار منسوب ہے۔ [27] لیکن معتبر روایات میں ان کی وفات اور دفن مدینے میں مذکور ہے۔[28]

حوالہ جات

  1. ابن حجر عسقلانی، الاصابہ، ج۴، ص۳۰۵.
  2. ابن اسحاق، السیر و المغازی، ص۲۵۹؛ ابن ہشام، السیرة النبویۃ، ج۱، ص۲۳۸.
  3. ابن اسحاق، السیر و المغازی، ص۲۵۹؛ ابن سعد، الطبقات الکبیر، ج۸، ص۶۸؛ طبری، تاریخ، ج۳، ص۱۶۵.
  4. ابن اسحاق، السیر و المغازی، ص۲۵۹؛ ابن سعد، الطبقات الکبیر، ج۸، ص۷۰؛ ابن حبیب، المحبر، ص۷۶.
  5. بلاذری، انساب الاشراف، ج۱،ص۴۳۸؛ ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج۴، ص۱۸۴۳و ۱۹۲۹.
  6. ذہبي (748 ھ)، سير أعلام النبلاء،2/219/23، مؤسسہ الرسالہ، ثالثہ، 1405 ھ/ 1985 ء
  7. ابن اسحاق، السیر و المغازی، ص۲۵۹؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج۱، ص۲۳۸.
  8. ابن اسحاق، السیر و المغازی، ص۲۵۹؛ ابن سعد، الطبقات الکبیر، ج۸، ص۶۸.
  9. ابن حجر عسقلانی، الاصابہ، ج۴، ص۳۰۵.
  10. ابن سعد، الطبقات الکبیر، ج۸، ص۷۰؛ طبری، المنتخب من کتاب الذیل المذیل، ص۶۰۷؛ ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق : تراجم النساء، کوشش سکینہ شہابی، ج۱، ص۸۷.
  11. ابن اسحاق، السیر و المغازی، ص۲۵۹؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج۱، ص۲۳۸.
  12. ابن اسحاق، السیر و المغازی، ص۲۵۹؛ ابن سعد، الطبقات الکبیر، ج۸، ص۶۸؛ طبری، تاریخ، ج۳، ص۱۶۵.
  13. ابن اسحاق، السیر و المغازی، ص۲۵۹؛ ابن سعد، الطبقات الکبیر، ج۸، ص۷۰؛ ابن حبیب، المحبر، ص۷۶.
  14. ذہبي ( 748هـ)، سير أعلام النبلاء،2/220/23،مؤسسہ الرسالہ،ثالثہ ، 1405 هـ / 1985 م
  15. ابن سعد، الطبقات الکبیر، ج۸، ص۷۰؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج۱، ص۴۳۹؛ ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق : تراجم النساء، کوشش سکینہ شہابی، ج۱، صص ۷۶، ۷۹، ۸۰.
  16. ممتحنہ /۶۰/۷.
  17. ابن سعد، الطبقات الکبیر، ج۸، ص۷۰؛ بیہقی، دلائل النبوة، ج۳، ص۴۵۹.
  18. ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج۴، ص۳۸؛ نیز: ج۳، ص۳۰۶.
  19. مسعودی، مروج الذہب، ج۲، ص۳۵۳.
  20. تذكرة الخواص، ص102
  21. احادیث ام المومنین عائشہ، ج1،ص35ص
  22. احمد بن حنبل، مسند، ج۶، صص۳۲۸- ۳۲۵، ۴۲۸- ۴۲۵.
  23. ذہبي ( 748هـ)، سير أعلام النبلاء،2/219/23، مؤسسة الرسالہ، ثالثہ، 1405 هـ / 1985 ء
  24. بلاذری، انساب الاشراف، ج۱، ص۴۴۱؛ ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق: تراجم النساء، کوشش سکینہ شہابی، ج۱، صص۷۰، ۷۶.
  25. ابن سعد، الطبقات الکبیر، ج۸، ص۷۱؛ بسوی، المعرفۃ و التاریخ، ج۳، ص۳۱۸؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج۱، ص۴۴۰.
  26. ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق : تراجم النساء، کوشش سکینہ شہابی، ج۱، ص۷۰، ۷۶.
  27. ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق : تراجم النساء، کوشش سکینہ شہابی، ج۱، ص۷۰؛ ابن بطوطہ، رحلہ، ص۵۹؛ تنوخی، الاہتداء الی قبر معاویہ بن ابی سفیان بدمشق ص۴۶۹؛ احمد رضا، آراء و انباء، قبر معاویہ...، ص۲۸۴.
  28. ابن سعد، الطبقات الکبیر، ج۸، ص۷۱؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج۱، ص۴۴۰؛ ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق : تراجم النساء، کوشش سکینہ شہابی، ج۱، ص۷۰؛ ابن قدامہ، التبیین فی انساب القرشیین، ص۸۲.

مآخذ

  • قرآن کریم ؛
  • ابن اسحاق، محمد، السیر و المغازی، کوشش سہیل زکار، بیروت،۱۳۹۸ ھ / ۱۹۷۸ء
  • ابن بطوطہ، رحلہ، بیروت، ۱۳۸۴ ھ/۱۹۶۵ء
  • ابن جوزی(654 ھ)، سبط، تذکره الخواص، منشورات شریف رضی، قم، 1418ھ
  • ابن حبیب، محمد، المحبر، کوشش ایلزه لیشتن اشتتر، حیدرآباد دکن، ۱۳۶۱ ھ/۱۹۴۲ء
  • ابن حجر عسقلانی، احمد، الاصابہ، قاہره، ۱۳۲۸ھ
  • ابن سعد، محمد، الطبقات الکبیر، کوشش بروکلمان، لیدن، ۱۳۲۱ھ
  • ابن عبدالبر، یوسف، الاستیعاب، کوشش علی محمد بجاوی، قاہره، ۱۳۸۰ ھ /۱۹۶۰ء
  • ابن عساکر، علی، تاریخ مدینہ دمشق، تراجم النساء، کوشش سکینہ شہابی،ج۱، دمشق، ۱۴۰۲ ھ /۱۹۸۱ء
  • ابن قدامہ، عبدالله، التبیین فی انساب القرشیین، کوشش محمد نایف دلیمی، بیروت، ۱۴۰۸ ھ /۱۹۸۸ء
  • ابن ہشام، عبدالملک، السیرة النبویہ، کوشش مصطفی سقا و دیگران، قاہره، ۱۳۵۵ ھ / ۱۹۳۶ء
  • احمد بن حنبل، مسند، بیروت، دارصادر.
  • بسوی، یعقوب، المعرفہ و التاریخ، کوشش اکرم ضیاء عمری، بغداد، ۱۳۹۶ ھ /۱۹۷۶ء
  • بلاذری، احمد، انساب الاشراف، کوشش محمد حمیدالله، قاہره، ۱۹۵۹ء
  • بیہقی، احمد، دلائل النبوة، کوشش عبدالمعطی قلعجی، بیروت، ۱۹۸۵ء
  • تنوخی، عزالدین، الاہتداء الی قبر معاویہ بن ابی سفیان بدمشق، مجلہ المجمع العلمی العربی، دمشق، شم ۱۵،۱۳۵۵ ھ /۱۹۳۷ء
  • رضا، احمد، آراء و انباء، قبر معاویہ...، مجلہ المجمع العلمی العربی، دمشق، شم۲۰، ۱۳۶۴ ھ /۱۹۴۵ء
  • طبری، المنتخب من کتاب الذیل المذیل، ہمراه ج ۱۱ تاریخ.
  • طبری، تاریخ.
  • مسعودی، علی، مروج الذہب، کوشش یوسف اسعد داغر، بیروت، ۱۳۸۵ ھ /۱۹۶۵ء

بیرونی روابط