صحابہ
صحابہ مسلمانوں کی اس جماعت کو کہا جاتا ہے جنہوں نے رسول اللہؐ کی زیارت کی ہو اور آخر عمر تک ایمان پر باقی رہے ہوں۔ رسول اللہ کے اصحاب کی تعداد ایک لاکھ تک بیان کی جاتی ہے۔
اہل سنت کے عقیدے کے مطابق تمام صحابہ عادل تھے اور اگر کبھی ان میں سے کوئی غلطی یا گناہ کا ارتکاب کرتے تو اسے اجتہاد میں غلطی کے نام سے تعبیر کرتے ہیں۔ لیکن شیعوں کے نزدیک اصحاب رسول خداؐ دوسرے مسلمانوں کی مانند ہیں ہر صحابی کی عدالت معتبر طریقے سے ثابت ہونی چاہیے۔
صدر اسلام کے اسی خصوصیت کے حامل مسلمان خواتین کے لئے صحابیات کی تعبیر استعمال کی جاتی ہے۔
تعریف
لغوی معنا
صحب کسی چیز کا دوسری چیز کے ساتھ ملنے پر دلالت کرتا ہے۔ اسی سے صاحب آتا اور اسکی جمع صَحْب ہے صَحْب ،صُّحبان ،صُحبة ،صِحاب۔[1] اصحاب صَحْب کے گروہ کو کہتے ہیں۔ صِحابۃ مصدر ہے۔[2] صاحب کی جمع صَحْبٌ وَأَصْحَابٌ والصِّحابة صاحب اس شخص کو کہا جاتا ہے جس نے کسی کو دیکھا ہو اور اسکی ہمنشینی اختیار کی ہو۔[3]
اصطلاحی معنا
صحابی کی مختلف تعریفیں بیان کی گئی ہیں۔[4] مشہور قول کی بنا پر اسکی تعریف کرتے ہوئے کہا گیا
- وہ مسلمان شخص ہے جس نے پیامبر اسلام(ص) سے ملاقات کی ہو اور رسول اللہ پر ایمان کی حالت میں اس دنیا سے رخصت ہو[5] ملاقات سے دیکھنا، ہمنشینی،ا ن کے ساتھ چلنا،ان کے پاس بیٹھنا مراد ہے اگرچہ ان سے گفتگو نہ کی ہو مثلا اگر کوئی نابینائی کی وجہ سے رسول اللہ کی زیادرت نہیں کرتا ہے تو وہ بھی صحابی ہی کہلائے گا۔[6] بعض نے تعریف کرتے ہوئے چند قیود و شرائط کا اضافہ کیا ہے جیسے طولانی مدت کیلئے رسول کے ہمنشینی اختیار کرنا،ان سے روایت نقل کرنا انکی ہمرکابی میں جنگ کرنا یا ان کی خدمت میں شہادت پانا وغیرہ لیکن علما کے نزدیک قیود و شروط کے بغیر تعریف قبول کی گئی ہے۔۔[7]
کہتے ہیں رسول اللہ کے وصال کے موقع پر آپ کے اصحاب کی تعداد ایک لاکھ چودہ ہزار (1،14،000) تھی[8] متواتر، مستفیض، شہرت اور خبر ثقہ کے ذریعے کسی شخص کے صحابی ہونے کا پہچانا جاتا ہے۔[9]
جنہوں نے کمسنی کے عالم میں رسول اللہ کو درک کرنے کی توفیق حاصل کی انہیں صحابۂ صغار کہتے ہیں۔ خواتین کی نسبت ٍصحابیۃ[10]اور صحابیات[11] کی تعبیر استعمال ہوتی ہے۔
صحابہ کا زمانہ
بعض صحابہ نے 100 سال قمری تک زندگی گزاری۔ اس بنا پر رحلت پیغمبر سے لے کر پہلی قرن کے آخر تک کے زمانے کو صحابہ کا زمانہ سمجھا جائے گا۔[12] عبدالله بن ابی اوفی آخری صحابی ہیں جو 86 ھ ق کو کوفہ میں فوت ہوئے اور مدینے میں فوت ہونے والے آخری صحابی کا نام سہل بن سعد ساعدی ہے جو زندگی کے سو سال مکمل کر کے ۹۱ ہجری قمری میں فوت ہوئے، بصرہ میں فوت ہونے والے آخری صحابی انس بن مالک ہیں جو 91 یا 93 ہجری قمری میں فوت ہوئے شام میں فوت ہونے والے آخری صحابی عبدالله بن یسر ہیں 88 ہجری قمری میں فوت ہوئے۔[13]
رسول اللہ کو دیکھنے والے آخری صحابی عامر بن واثلہ ہیں[14] مختار بن ابی عبید ثقفی کی فوج میں پرچم دار تھے جو ۱۰۰ قمری کے بعد دنیا سے رخصت ہوئے۔[15]
صحابہ نگاری
پہلی صدی میں صحابہ کے اسما کی فہرست نویسی کا کام شروع ہوا۔ یہ کام حقیقت میں علم نسب کی ایک ذیلی شاخ نہیں تو کم از کم زمانۂ جاہلیت میں رائج ثقافت سے لیا گیا تھا۔ اس لحاظ سے نام کی وضاحت،اس کی شخصی خصوصیات اور قبیلے کے نام کے ذکر کرنے نے اہمیت حاصل کی۔ دوسرے الفاظ میں صحابہ نگاری حقیقت میں معجم نویسی تھی۔ جب سیرت نگاری کا آغاز ہوا تو جنگوں میں لوگوں کی شرکت، شہدا کی تعداد، ہر قبیلے کے شہدا کی تعداد اور ان جیسے دوسرے مسائل کی فہرست بنانے کے آغاز سے صحابہ نگاری کا آغاز ہوا۔ جیسا کہ سیرت ابن اسحاق اور موسی بن عقبہ کی مغازی میں ہم دیکھتے ہیں کہ پہلی اور دوسری بیعت عقبہ میں کن اشخاص نے شرکت کرنے والوں یا جنگ بدر میں شہید ہونے والوں کی فہرست بیان ہوئی ہے۔[16]
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ صحابہ کی فہرست نویسی یعنی صحابہ کا نام ذکر کرنا، کی روش میں تبدیلی آئی اور یہ ایک مستقل علم کی صورت اختیار کر گئی۔ طبقات اور تاریخ کے عناوین کے ساتھ لکھی گئی راویان احادیث کے تراجم کی کتابوں میں صحابہ کے اسما کی فہرست کا ایک مخصوص حصہ قابل توجہ حصے پر مشتمل ہوتا ہے۔ واقدی نے الطبقات کے نام سے کتاب لکھ کر سب سے پہلے یہ کام شروع کیا اگرچہ اسکی تالیف ہمارے پاس موجود نہیں ہے لیکن اسکے شاگرد اور کاتب ابن سعد نے بہت سے مطالب الطبقات الکبریٰ میں بہت سے مطالب واقدی سے نقل کئے ہیں۔ ابن سعد نے اس کتاب میں اکثر اصحاب کو انکے نام کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ اگرچہ اسکی یہ افراد کے اسما کا ذکر حروف تہجی کی ترتیب سے نہیں ہے ۔حروف تہجی کے لحاظ سے اسما لکھنے کا کام بعد شروع ہوا۔ طبقات الکبریٰ میں جغرافیائی کا رنگ غالب ہے جیسے مکہ میں رہنے والے اصحاب کا نام یا طائف میں رہنے والے اصحاب کا نام و ...[17]
ان جیسی کتابوں کے ہمراہ تسمیہ اسما کے عنوان سے مستقل کتابیں لکھی گئیں۔ ان میں قدیمی ترین کتاب امام علی (ع) کے کاتب عبیدالله بن ابی رافع نے تسمیة من شهد مع امیرالمؤمنین(ع) علی بن ابی طالب الجمل و صفین و نهروان لکھی۔ یہ کتاب بھی موجود نہیں ہے لیکن قاضی نعمان مصری، نے اسے اپنی کتاب شرح الاخبار کے آخر میں اسے ذکر کیا ہے۔[18]
معرفۃ الصحابہ اور معجم الصحابہ کے نام سے بڑی کتابیں لکھی گئیں۔ تیسری صدی میں علی بن مدینی سنہ 234 ہجری، حلوانی حسن بن علی سنہ 242 ہجری، عَبّاد بن یعقوب رَواجنی (۲۵۰ ہجری قمری یا ۲۷۱ ہجری قمری)، عَبدان، ابو محمد عبدالله بن محمد بن عیسی مروزی ( ۲۹۳ هجری قمری) اور چوتھی صدی کے شروع میں ابو منصور باوَردی نے معرفہ الصحابہ کے عنوان سے لکھیں۔ معجم الصحابہ کے عنوان سے سب سے پہلے ابو یعلی موصلی (۳۰۷ ہجری قمری) نے لکھی۔[19]
معجم نویسی میں کبھی پہلے حرف کی ترتیب کی رعایت کی جاتی اور کبھی پہلے اور دوسرے حرف کی ترتیب کی رعایت کی جاتی ہے۔ دوسری قسم کا لحاظ چھٹی صدی کے بعد رائج ہوا۔[20]
عدالت صحابہ
مفصل مضمون: عدالت صحابہ
اہل سنت برادران چند اصحاب کے علاوہ تمام صحابہ کے عادل ہونے کے قائل ہیں۔[21] اگرچہ اسیا ظاہر ہوتا ہے کہ بعض علمائے اہل سنت اس نظریے کو قبول نہیں کرتے ہیں لہذا اس بنا پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ تمام علمائے اہل سنت عدالت صحابہ کے قائل ہیں ۔[22] مثلا ابن ابی الحدید (سنی معتزلی) جنگ جمل برپا کرنے والوں کے متلعق لکھتا ہے:
اسی طرح وہ شام اور صفین کے لشکروں کے متعلق لکھتا ہے :
اسی طرح خوارج کے متعلق لکھتا ہے
عدالت صحابہ
صحابہ کی عدالت کیلئے چند قرآنی آیات سے استدلال کیا گیا ہے:
- وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (توبہ100)
- اور مہاجرین اور انصار میں سے جو ایمان لانے میں سبقت کرنے والے ہیں اور جن لوگوں نے حسنِ عمل میں ان کی پیروی کی اللہ ان سے راضی ہے۔ اور وہ اللہ سے راضی ہیں۔ اور اس نے ان کے لیے ایسے بہشت مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔ اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔
مسلمانوں میں سے بعض علما کے نزدیک یہ آیت تمام صحابہ کی عدالت پر دلالت نہیں کرتی ہے کیونکہ قرآن پاک میں خود کچھ اصحاب کے متعلق آیا ہے ان کے دلوں مرض ہے۔[24] ان میں سے بعض منافقوں کیلئے جاسوسی کرتے ہیں اور بعض ان میں سے فاسق ہیں۔ پیغمبر گرامی نے ان میں سے بعض کے کاموں سے بیزاری اختیار کی اسلئے خدا کا ان سے راضی ہونا درست نہیں ہے کیونکہ فَإِنَّ اللَّـهَ لَا يَرْضَىٰ عَنِ الْقَوْمِ الْفَاسِقِينَتوبہ 96۔ بے شک خداوند فاسقین سے راضی نہیں ہے۔
نیز انکی برتری اور خدا کی رضایت انکے ایمان اور عمل صالح سے مشروط ہے کیونکہ اس آیت میں مؤمنین کی مدح اس سیاق میں آئی ہے کہ منافقین کی کفر اور انکے برے کاموں کی وجہ سے ان کی سرزنش بیان ہوئی ہے۔
اسکے علاوہ اس نظریے کا اعتقاد رکھنا سورۂ توبہ کی آیت نمبر 96 کی واضح تکذیب اور جھٹلانا ہے کہ جس میں خداوند کریم فاسقوں سے ناخوشی کا اظہار کرتا ہے۔ اسی طرح نساء کی آیت نمبر 123 کو جھٹلانا ہے کہ جس میں ارشاد خداوندی ہے کہ جو شخص بھی بدی انجام دے گا وہ اس کی جزا پائے گا۔ اسی طرح دیگر بہت سی آیات اس نظریے کی مخالفت کرتی ہیں۔[25]
- كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاس (آل عمران11) تم بہترین امت ہو جسے لوگوں (کی راہنمائی) کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ تم اچھے کاموں کا حکم دیتے ہو اور برے کاموں سے منع کرتے ہو۔
بعض علمائے دین کے مطابق یہ آیت بھی کسی طرح عدالت صحابہ کی بیانگر نہیں ہے کیونکہ بہترین امت ہونے کیلئے کافی ہے کہ ایک گروہ ایسا ہو جو دوسری امتوں میں نہ ہو، اسکے علاوہ یہ تمام امت اسلامی کے عادل ہونے پر دلالت کرے تو امت کے درمیان منافق اور مرتد نہیں ہونے چاہئیں حالانکہ یقینی طور پر ایسا نہیں ہے۔[26]
شیعہ نظریہ
شیعہ عقیدے کے مطابق رسول اللہ کے صحابہ دوسرے افراد کی مانند ہیں صرف صحابی ہونے کی بنا پر انکی عدالت ثابت نہیں ہوتی ہے ۔[27] صحابہ کی ایک لاکھ چودہ ہزار کی تعداد کو مد نظر رکھتے ہوئے عادی طور پر محال ہے کہ صرف رسول اللہ کی ملاقات اور ایمان کی بنا پر وہ عادل قرار پائیں کیونکہ اتنی بڑی تعداد مختلف رجحانات اور میلانوں کے ہوتے ہوئے تھوڑی سی مدت میں تقوا کے اس درجے تک پہنچ جائیں اور وہ گناہان کبیرہ انجام نہ دیں یا گناہان صغیرہ پر اصرار نہ کریں در حالانکہ ان میں کچھ تو اپنی خواہش و ارادے کے مطابق مسلمان ہوئے اور کچھ تو خوف و ہراس کی بنا پر اور کچھ تالیف قلوب کی بنا پر اسلام لائے ۔
نظریہ عدالت صحابہ کی بنا پر کہنا چاہئے کہ اگر صحابی ہونا گناہ سے مانع ہے تو پھر عبیداللہ بن جحش[28] ، عبیداللہ بن خطل[29] و ربیعہ بن امیہ بن خلف[30] اور اشعث بن قیس[31] جیسے اصحاب مرتد کیوں ہو گئے ۔[32]
اسکے علاوه صحابہ نے ایسے کام انجام دیئے جو عدالت کے ساتھ سازگار نہیں تھے جیسے کاموںعادل امام کے خلاف جنگ برپا کرنا،بے گناہ افراد کو قتل کرنا ،ناحق لوگوں کے اموال کو لوٹنا اور امیر المؤمنین علی بن ابی طالب کو نا سزا کہنا وغیرہ سے تاریخی کتابیں بھری پڑی ہیں۔ مثلا حضرت عثمان کے دور میں مروان بن حکم کے کام مشہور ہیں اسی طرح بسر بن ارطاه و مغیره بن شعبہ، اور ولید بن عقبہ کہ یہ سب اصحاب رسول خدا میں سے تھے۔[33]
شیعہ عقیدے کے مطابق امیرالمؤمنین (ع) اصحاب میں سے افضل ترین اور پھر انکے دو بیٹے امام حسن اور امام حسین شمار ہوتے ہیں۔[34]
حوالہ جات
- ↑ ابن فارس،مقاییس اللغہ3/124۔
- ↑ فراہیدی،العین،مادۂ صحب
- ↑ فیومی،المصباح المنیر فی غریب الشرح الکبیر1/33 المكتبہ العلميہ - بيروت
- ↑ ر ک: ابن حجر عسقلاني، الاصابہ في تمييز الصحابہ، ج۱، ص۷-۹.
- ↑ ابن حجر، الاصابہ، ج۱، ص۱۵۸.
- ↑ شہید ثانی، الرعایۃ فی علم الدرایۃ، ص۳۳۹.
- ↑ ر.ک: ابن حجر، الاصابہ، ج۱، ص۱۵۹.
- ↑ شہید الثانی، الرعایہ فی علم الدرایہ، ص۳۴۵.
- ↑ شہید الثانی، الرعایہ فی علم الدرایہ، صص۳۴۲-۳۴۳.
- ↑ ابن حجر عسقلانی، الإصابہ في تمييز الصحابہ،7/679،8/113،..... دار الجيل - بيروت الطبعہ الأولى ، 1412
- ↑ ابن الجوزي ، الموضوعات 1/92دار الكتب العلميہ۔ابن حجر،الاصابہ،8/7،دار الكتب العلميہ . بيروت
- ↑ شہابی، ادوار فقہ، ج۱، ص۳۹۲.
- ↑ شہابی، ادوار فقہ، ج۱، ص۳۹۳.
- ↑ ابن حجر عسقلانی، الاصابہ فی تمییز الصحابہ فی تمییز الصحابہ، ج۳، ص۲۴۳
- ↑ شہابی، ادوار فقہ، ج۱، ص۳۹۳.
- ↑ ہدایت پناه، دانش صحابہ نگاری، ص۵.
- ↑ ہدایت پناه، دانش صحابہ نگاری، ص۶.
- ↑ ہدایت پناه، دانش صحابہ نگاری، ص۶.
- ↑ ہدایت پناه، دانش صحابہ نگاری، ص ۸و۹.
- ↑ ہدایت پناه، دانش صحابہ نگاری، ص۹.
- ↑ ابن حجر، الاصابہ، ج۱، ص۱۶۲.
- ↑ امین، اعیان الشیعہ، ج۱، ص۱۱۳.
- ↑ ابن ابی الحدید ،شرح نہج البلاغہ 1/9
- ↑ ر.ک: مثلا آیت ۴۹ سوره انفال.
- ↑ طباطبائی، المیزان فی تفسیر القرآن،9/374و375۔
- ↑ امین عاملی، اعیان الشیعہ، ج۱، ص۱۱۴.
- ↑ شہید ثانی، الرعایۃ فی علم الدرایہ، ص۳۴۳؛ امین، اعیان الشیعہ، ج۱، ص۱۱۳.
- ↑ عبد الرؤوف المناوی،اليواقيت والدرر في شرح نخبۃ ابن حجر،الناشر مكتبۃ الرشد2/206
- ↑ علی بن نایف،المفَصَّلُ في أصولِ التخريجِ ودراسةُِ الأسانيدِ1/499
- ↑ علی بن نایف،المفَصَّلُ في أصولِ التخريجِ ودراسةُِ الأسانيدِ1/499
- ↑ ذہبی، سير أعلام النبلاء،مؤسسہ الرسالہ،2/39
- ↑ امین، اعیان الشیعہ، ج۱، ص۱۱۴.
- ↑ امین عاملی، اعیان الشیعہ، ج۱، ص۱۱۴.
- ↑ شہید الثانی، الرعایہ فی علم الدرایہ، ص۳۴۴.
مآخذ
- ابن ابی الحدید، عبد الحمید، شرح نہج البلاغہ، بہ کوشش محمد ابو الفضل ابراہیم، قاہره، ۱۳۷۸-۱۳۸۴ق/۱۹۵۹-۱۹۶۴ء
- امین عاملی، السید محسن، اعیان الشیعہ، تحقیق و تخریج: حسن امین عاملی، بیروت: دار التعارف، (سافٹ ویئر کتابخانہ اہل البیت نسخہ دوم).
- فیومی، المصباح المنیر فی غریب الشرح الکبیر1/33 المكتبہ العلميہ - بيروت
- ابن حجر، الاصابہ، تحقیق: عادل احمد عبد الموجود، علی محمد معوض، بیروت: دار الکتب العلمیہ، ۱۴۱۵ق. (سافٹ ویئر کتابخانہ اہل البیت نسخہ دوم).
- شہید الثانی، الرعایہ، فی علم الدرایہ، تحقیق: عبد الحسین محمد علی بقال، قم: مکتبہ آیت اللہ العظمی المرعشی النجفی، ۱۴۰۸ق.
- شہابی، محمود، ادوار فقہ، تہران: وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، ۱۳۶۶ش.
- حمیدی، محمد بن فتوح، الجمع بین الصحیحین البخاری و مسلم، تحقیق: علی حسین البواب، بیروت: دار ابن حزم، ۱۴۱۹ق/۱۹۹۸ء
- جوہری، اسماعیل بن حماد، الصحاح تاج اللغہ وصحاح العربیہ، تحقیق: احمد عبد الغفور عطار، بیروت: دار العلم للملایین، افست تہران، انتشارات امیری، ۱۳۶۸ش.
- طباطبائی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم: جماعہ المدرسین فی الحوزة العلمیہ، بی تا.
- معلوف، لویس، المنجد فی اللغہ والاعلام، ترجمہ محمد بندر ریگی، تہران: انتشارات اسلامی، ۱۳۸۷ش.
- ہدایت پناه، محمد رضا، دانش صحابہ نگاری، در دانشنامہ سیره نبوی (ص)، ج۱، قم: پژوہشگاه حوزه و دانشگاه، ۱۳۸۹ش.
- یعقوب، احمد حسین، نظریہ عدالت صحابہ و رہبری سیاسی در اسلام، ترجمہ مسلم صاحبی، تہران: سازمان تبلیغات اسلامی، ۱۳۷۲ش.
- عبد الرؤوف المناوي، اليواقيت والدرر في شرح نخبۃ ابن حجر،الناشر مكتبۃ الرشد
- علی بن نایف، المفَصَّلُ في أصولِ التخريجِ و دراسةُِ الأسانيدِ۔ سافت ویئر مکتبہ الشاملہ۔
- ذہبی، سير أعلام النبلاء، مؤسسہ الرسالہ۔
- ابن فارس، أبو الحسين أحمد بن فارس بن زكريا، معجم مقاییس اللغہ، دار الفكر، الطبعہ : 1399هـ - 1979ء
- أبي عبد الرحمن الخليل بن أحمد الفراہيدي، دار مكتبہ الہلال