"حدیث من مات" کے نسخوں کے درمیان فرق
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
||
سطر 35: | سطر 35: | ||
===[[اہل سنت]]=== | ===[[اہل سنت]]=== | ||
[[اہل سنت]] حضرات اس [[حدیث]] سے | [[اہل سنت]] حضرات اس [[حدیث]] سے کوئی اور مفہوم اور تفسیر پیش کرتے ہیں: [[اہل سنت]] اس روایت میں امام سے عام اسلامی حکمران مراد لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ معاشرے کی بقا اور وحدت کی خاطر ان کی پیروی اور اتباع ضروری ہے۔<ref>صہیب عبدالجبار، الجامع الصحیح، ۲۰۱۴م، ج۴، ص۲۳۴، پاورقی۔</ref> ان کے مطابق اطاعت واجب ہونے میں تمام اسلامی حکمران شامل ہیں اور حکمرانوں کا ظالم اور گناہگار ہونا ان کی پیروی کے واجب ہونے میں کوئی خلل ایجاد نہیں کرتا۔ [[ابن تیمیہ]] نے اس [[حدیث]] کی تفسیر میں [[یزید بن معاویہ|یزید]] کی پیروی اور اطاعت کو تمام صحابہ اور تابعین پر واجب ہونا استنباط کی ہے۔<ref>ابن تیمیہ، مختصر منہاج السنہ، ۱۴۲۶ھ، ج۱، ص۴۹۔</ref> | ||
البتہ بعض [[اہل سنت]] منابع میں اس [[حدیث]] میں امام سے [[پیغمبر اکرمؐ]] مراد لیتے ہوئے پیغمبر اکرمؐ پر ایمان لانے کو واجب قرار دیتے ہیں کیونکہ آپؐ اس دنیا میں تمام اہل زمین کے امام اور پیشوا ہیں۔<ref>ابنحبان، صحیح ابن حبان، ۱۴۱۴ھ، ج۱۰، ص۴۳۴۔</ref> | |||
البتہ بعض [[اہل سنت]] منابع | |||
==حوالہ جات == | ==حوالہ جات == |
نسخہ بمطابق 12:55، 23 اکتوبر 2024ء
پیغمبر اسلامؐ کا ارشاد ہے:
مَنْ ماتَ وَ لَمْ يَعْرِفْ إمامَ زَمانِہِ فَقَدْ مَاتَ مِيتَۃً جَاہِلِيَّۃ؛ جو شخص اپنے زمانے کے امام کی معرفت کے بغیر مرجائے، تو یقینا وہ جاہلیت کی موت اس دنیا سے چلا جائے گا۔
مناقب ابن شہرآشوب، ۱۳۷۹ھ،ج۱، ص۲۴۶؛
حدیث مَنْ ماتَ، رسول اللہ کی ایک معروف حدیث ہے، جس کے مطابق اپنے زمانے کے امام کی شناخت اور معرفت کے بغیر مرنے والا گویا جاہلیت کی موت اس دنیا سے چلا گیا ہے ۔یہ حدیث مختلف الفاط کے ساتھ شیعہ اور اہل سنت مآخذ میں نقل ہوئی ہے اسی بنا پر اسے شیعہ اور اہل سنت کا مورد اتفاق حدیث قرار دی جاتی ہے۔
البتہ شیعہ اور اہل سنت اس حدیث سے مختلف مفہوم اور مطلب اخذ کرتے ہیں: شیعہ اس حدیث کو امامت کے مسئلے سے مختص قرار دیتے ہوئے اس حدیث سے امام کی شناخت اور اطاعت کا واجب اور ضروری ہونا استنباط کرتے ہیں ۔ لیکن اہل سنت اس حدیث کو عام مسلم حکمرانوں سے مربوط قرار دیتے ہوئے مسلمانوں پر ان حکمرانوں کی اطاعت اور پیروی کو ضروری قرار دیتے ہیں۔
اہمیت
اسلامی منابع میں «من ماتَ» کی تعبیر کے ساتھ مختلف احادیث نقل ہوئی ہیں؛[1] لیکن معروف "حدیث من مات" سے مراد پیغمبر اکرمؐ کا یہ کلام ہے: «مَنْ ماتَ وَ لَمْ یعْرِفْ إمامَ زَمانِہِ مَاتَ مِیتَۃً جَاہِلِیۃ؛ جو شخص اپنے زمانے کے امام کی معرفت کے بغیر مرجائے، تو یقینا وہ جاہلیت کی موت اس دنیا سے چلا جائے گا۔[2]
یہ حدیث مختلف تعابیر کے ساتھ نقل ہوئی ہے جو ایک دوسرے سے قدرے مختلف ہیں۔ مثال کے طور پر کتاب کافی میں یہ حدیث امام صادقؑ سے یوں نقل ہوئی ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا: «مَنْ مَاتَ وَ لَیسَ لَہُ إِمَامٌ فَمِیتَتُہُ مِیتَۃٌ جَاہِلِیۃٌ؛ جو بھی دنیا سے اس حالت میں چلا جائے کہ اس کا کوئی امام نہ ہو تو گویا اس کی موت جاہلیت کی موت ہے۔»[3] اسی طرح اہل سنت کے بعض منابع میں یہ حدیث پیغمبر اسلامؐ سے یوں نقل ہوئی ہے: «مَنْ مَاتَ بِغَیرِ إِمَامٍ مَاتَ مِیتَۃً جَاہِلِیۃً؛ جو شخص بغیر امام کے مرجائے اس کی موت جاہلیت کی موت ہے۔»[4]
علامہ مجلسی اس حدیث کو شیعہ اور اہل سنت کے یہاں متواتر قرار دیتے ہیں۔[5] شیخ بہایی بھی کہتے ہیں کہ یہ حدیث شیعہ اور اہل سنت کے یہاں مورد اتفاق ہے۔[6]
جاہلیت کی موت سے مراد
پیغمبر اسلامؐ:
مَنْ مَاتَ بِغَیرِ إِمَامٍ مَاتَ مِیتَۃً جَاہِلِیۃً؛ جو شخص بغیر امام کے مرجائے اس کی موت جاہلیت کی موت ہے۔
احمد بن حنبل، مسند احمد، ۱۴۲۱ھ، ج۲۸، ص۸۸
کلینی نے حدیث «من مات» کو امام صادقؑ نقل کی ہے جس میں «جاہلیت کی موت» کی تعریف کی گئی ہے اس حدیث کا متن کتاب کافی میں یوں ہے:
ابن ابی یعفور نقل کرتے ہیں کہ: امام صادقؑ سے پیغمبر اکرمؐ کے اس حدیث: «جو شخص اس حالت میں مر جائے کی اس کا کوئی امام نہ ہو تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہے» کے بارے میں سوال کیا: «آیا اس حدیث سے مراد کفر کی حالت میں مرنا ہے؟» امام صادقؑ نے جواب دیا: «اس سے مراد گمراہی کی حالت میں مرنا ہے۔ میں نے کہا جو شخص اس وقت ہمارے دور میں بھی مرے لیکن اس کا کوئی امام یا پیشوا نہ ہو تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہے؟» امامؑ نے فرمایا: «ہاں»۔[7]
حدیث کے منابع
شیعہ اور اہل سنت کے بعض وہ منابع جن میں حدیث «من مات» نقل ہوئی ہے، درج ذیل ہیں:
شیعہ مآخذ
- کافی، تحریر کلینی[8]
- کمال الدین و تمام النعمۃ، تحریر شیخ صدوق[9]
- کفایۃ الاثر فی النص علی الائمۃ الاثنی عشر، تحریر خزاز رازی۔[10]
اہل سنت مآخذ
- مسند احمد بن حنبل[11]
- مسند ابوداود سلیمان بن داود طیالسی[12]
- مسند الشامیین، ابوالقاسم طبرانی[13]
شیعہ اور اہل سنت علماء کے نزدیک اس حدیث کا مفہوم
شیعہ اور اہل سنت علما نے اپنے اپنے کلامی اعتقادات کے مطابق اس حدیث سے مختلف معانی اور مفہوم اخذ کئے ہیں:
شیعہ
شیعہ امامت کے مسئلے میں حدیث «من مات» سے استناد کرتے ہوئے اس حدیث کو ہر زمانے میں امام کے موجود ہونے کی ضرورت[14]امام کی شناخت و معرفت نیز اس کی پیروی اور اطاعت کے واجب ہونے پر دلیل قرار دیتے ہیں۔[15] شیعہ اعتقادات کے مطابق اس روایت میں امام سے مراد اہل بیتؑ اور ائمہ معصومین ہیں اور موجودہ دور میں امام مہدی پر اعتقاد رکھنا ضروری ہے۔[16]
اہل سنت
اہل سنت حضرات اس حدیث سے کوئی اور مفہوم اور تفسیر پیش کرتے ہیں: اہل سنت اس روایت میں امام سے عام اسلامی حکمران مراد لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ معاشرے کی بقا اور وحدت کی خاطر ان کی پیروی اور اتباع ضروری ہے۔[17] ان کے مطابق اطاعت واجب ہونے میں تمام اسلامی حکمران شامل ہیں اور حکمرانوں کا ظالم اور گناہگار ہونا ان کی پیروی کے واجب ہونے میں کوئی خلل ایجاد نہیں کرتا۔ ابن تیمیہ نے اس حدیث کی تفسیر میں یزید کی پیروی اور اطاعت کو تمام صحابہ اور تابعین پر واجب ہونا استنباط کی ہے۔[18]
البتہ بعض اہل سنت منابع میں اس حدیث میں امام سے پیغمبر اکرمؐ مراد لیتے ہوئے پیغمبر اکرمؐ پر ایمان لانے کو واجب قرار دیتے ہیں کیونکہ آپؐ اس دنیا میں تمام اہل زمین کے امام اور پیشوا ہیں۔[19]
حوالہ جات
- ↑ نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: برقی، المحاسن، ۱۳۷۱ھ، ج۱، ص۸۸۔
- ↑ سید بن طاووس، الاقبال بالاعمال الحسنہ، ۱۴۱۵ھ، ج۲، ص۲۵۲؛ شیخ صدوھ، کمال الدین، ۱۳۹۵ھ، ج۲، ص۴۱۰؛ تفتازانی، شرح مقاصد، ۱۴۰۹ھ، ج۵، ص۲۳۹، قندوزی، ينابيع المودۃ، ۱۴۱۳ھ، ج۳، ص۴۵۶۔
- ↑ کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۱، ص۳۷۶
- ↑ احمد بن حنبل، مسند احمد، ۱۴۲۱ھ، ج۲۸، ص۸۸؛ ابو داوود، مسند ابوداود، ۱۴۱۹ھ، ج۳، ص۴۲۵؛ طبرانی، مسند الشامیین، ۱۴۰۵ھ، ج۲، ص۴۳۷۔
- ↑ علامہ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ھ، ج۸، ص۳۶۸۔
- ↑ شیخ بہائی، الأربعون حديثا، ۱۴۳۱ھ، ج۱، ص۴۳۱۔
- ↑ کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۱، ص۳۷۶۔
- ↑ کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۱، ص۳۷۶۔
- ↑ شیخ صدوق، کمال الدین، ۱۳۹۵ھ، ج۲، ص۴۰۹
- ↑ خزاز رازی، کفایۃ الأثر، ۱۴۰۱ھ، ص۲۹۶۔
- ↑ ابن حنبل، مسند احمد، ۱۴۲۱ھ، ج۲۸، ص۸۸۔
- ↑ ابو داوود، مسند ابوداوود، ۱۴۱۹ھ، ج۳، ص۴۲۵۔
- ↑ طبرانی، مسند الشامیین، ۱۴۰۵ھ، ج۲، ص۴۳۷۔
- ↑ ابوالفتوح رازی، روض الجنان، ج۴، ص۱۷۳
- ↑ ملاصدرا، شرح أصول الكافي، ۱۳۸۳ش، ج ۲، ص ۴۷۴.
- ↑ علامہ مجلسی، مرآۃ العقول، ۱۴۰۴ھ، ج۴، ص۲۷، شیخ بہایی، الاربعون حدیثا، ۱۴۳۱ھ، ج۱، ص۴۳۱۔
- ↑ صہیب عبدالجبار، الجامع الصحیح، ۲۰۱۴م، ج۴، ص۲۳۴، پاورقی۔
- ↑ ابن تیمیہ، مختصر منہاج السنہ، ۱۴۲۶ھ، ج۱، ص۴۹۔
- ↑ ابنحبان، صحیح ابن حبان، ۱۴۱۴ھ، ج۱۰، ص۴۳۴۔
مآخذ
- ابن ابیعاصم، أبوبکر بن أبی عاصم، السنہ، المحقق: محمد ناصر الدين الألباني، بیروت، المكتب الإسلامي، چاپ اول، ۱۴۰۰ق.
- ابن تيمِيَّہ، تقي الدين، مختصر منہاج السنہ، خلاصہ:عبد الله بن محمد الغنيمان، صنعاء، دار الصديق، چاپ دوم، ۱۴۲۶ق.
- ابن شہرآشوب، المناقب، قم، علامہ، ۱۳۷۹ق.
- ابوالفتوح رازی، حسین بن علی، روض الجنان و روح الجنان فی تفسیرالقرآن، تحقیق: دکتر یاحقی، محمد جعفر، دکتر ناصح، محمد مہدی، مشہد، بنیاد پژوہشہای اسلامی آستان قدس رضوی، ۱۴۰۸ق.
- أبوالقاسم طبرانی، سلیمان بن أحمد، مسند الشامیین، بیروت، مؤسسہ الرسالہ، چاپ اول، ۱۴۰۵ق.
- ابونعیم اصفہانی، أحمد بن عبد اللہ، حلیۃ الاولیاء و طبقات الاصفیاء، السعادة، بجوار محافظہ مصر، ۱۳۹۴ق.
- أحمد بن محمد بن حنبل، أبو عبداللہ، مسند احمد، تحقیق: الأرنؤوط، شعیب، مرشد، عادل و دیگران، اشراف: ترکی، عبد الله بن عبد المحسن، مؤسسہ الرسالہ، بیروت، چاپ اول، ۱۴۲۱ق.
- برقی، ابو جعفر احمد بن محمد بن خالد، المحاسن، محقق و مصحح: محدث، جلال الدین، قم، دار الکتب الإسلامیہ، چاپ دوم، ۱۳۷۱ق.
- حلیمی، ابو عبدالله، منہاج فی شعب الایمان، المحقق: حلمي محمد فودة، دار الفکر، ۱۳۹۹ق.
- دینوری، ابو حنیفہ احمد بن داود، الاخبار الطوال، قم، منشورات الرضی، ۱۳۶۸ش.
- سید ابن طاووس، رضی الدین علی، الاقبال بالاعمال الحسنہ، محقق و مصحح: قیومی اصفہانی، جواد، انتشارات دفتر تبلیغات اسلامی، قم، چاپ اول، ۱۴۱۵ق.
- شیخ صدوق، کمال الدین و تمام النعمہ، محقق و مصحح: غفاری، علی اکبر، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، چاپ دوم، ۱۳۹۵ق.
- صہیب عبدالجبار، الجامع الصحيح للسنن والمسانيد، پاورقی ج ۴، ص ۲۳۴، بیجا، ۲۰۱۴م.
- طیالسی بصری، أبوداود سلیمان بن داود، مسند ابی داود الطیالسی، محقق: ترکی، محمد بن عبدالمحسن، مصر، دار ہجر، چاپ اول، ۱۴۱۹ق.
- قشیری نیشابوری، مسلم بن حجاج، المسند الصحیح المختصر بنقل العدل عن العدل إلی رسول اللہ(ص)(صحیح مسلم)، محقق: عبدالباقی، محمد فؤاد، دارالاحیاء التراث العربی، بیروت، بیتا.
- کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، محقق و مصحح: غفاری، علی اکبر، آخوندی، محمد، تہران، دار الکتب الإسلامیہ، چاپ چہارم، ۱۴۰۷ق.
- مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، چاپ دوم، ۱۴۰۳ق.
- مجلسی، محمد باقر، مرآة العقول فی شرح أخبار آل الرسول، محقق و مصحح: رسولی، سید ہاشم، دار الکتب الإسلامیہ، تہران، چاپ دوم، ۱۴۰۳ق.
- محمد بن حبان أبو حاتم، صحیح ابن حبان، محقق، شعیب الأرنؤوط، مؤسسہ الرسالہ، بیروت، چاپ دوم، ۱۴۱۴ق.
- ملاصدرا، صدرالدین، شرح أصول الکافی، محقق و مصحح: خواجوی، محمد، مؤسسہ مطالعات و تحقیقات فرہنگی، تہران، چاپ اول، ۱۳۸۳ش.