مندرجات کا رخ کریں

جائز غیبت

ویکی شیعہ سے

مستثنیاتِ غیبت، ان موارد کو کہا جاتا ہے، جن میں غیبت کرنا جائز ہے۔ غیبت کرنے میں اس کی حرمت سے زیادہ بڑی مصلحت موجود ہونا اور متجاہر بالفسق (وہ لوگ جو کھلم کھلا گناہ کرتے ہیں اور اس کی کوئی پرواہ نہیں کرتے) کی غیبت، منجملہ ان موارد میں سے ہیں۔

وہ اہم مصلحتیں جن کی وجہ سے غیبت جائز ہو جاتی ہے ان میں: مشورہ (کسی معاملے یا رشتے کے بارے میں) دریافت کرنا، نہی عن المنکر، کسی بدعت کی روک تھام، کسی مسلمان کو خطرے یا نقصان سے آگاہ کرنا اور ظلم کے خلاف فریاد اور انصاف کے لیے رجوع کرنا وغیرہ شامل ہیں۔

غیبت

غیبت کا مطلب کسی شخص کی پیٹھ پیچھے اس کی برائی بیان کرنا اور عیجب جوئی کرنا ہے۔ یہ عمل فقہی اعتبار سے گناہِ کبیرہ میں شمار ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں اس گناہ کو مُردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔[1] صرف غیبت کرنا ہی نہیں، بلکہ اسے سننا بھی حرام ہے۔ یہ گناہ حقُ النّاس میں سے ہے، اسی لیے بعض احادیث کے مطابق اس گناہ سے توبہ بھی تب ہی قبول ہوتی ہے جب غیبت ہونے والا شخص اسے معاف کر دے۔[2]

غیبت جائز ہونے کے موارد

فقہا اور علمائے اخلاق کا اس پر اتفاق ہے کہ درج ذیل صورتوں میں غیبت کرنا جائز ہے:

  1. وہ موارد جہاں کوئی بڑی مصلحت درکار ہو۔[3]
  2. متجاہر بالفسق (کھلم کھلا گناہ کرنے والے) افراد کی غیبت۔[4]
  3. کسی شخص کی تحقیر کے بغیر اس کی ظاہری عیبوں کا ذکر، بشرطیکہ وہ شخص ناراض نہ ہو۔[5]

اہم مصلحت کی بنیاد پر جائز ہونا

جب کسی شخص کے پوشیدہ عیب کو ظاہر کرنا، اس کی برائی چھپانے سے زیادہ شرعی مصلحت رکھتا ہو، تو غیبت جائز ہوتی ہے۔[6] اس کی چند مثالیں درج ذیل ہیں:

  1. مشورے کی غرض سے: اگر کوئی شخص کسی سے کاروبار یا شادی کا ارادہ رکھتا ہو، اور اس شخص کے بارے میں مشورہ کرے تو اس شخص کے عیوب کو ظاہر کرنا جائز ہے، لیکن صرف اسی حد تک جتنا کہ اس معاملے سے متعلق ہو۔[7]
  2. نہی عن المنکر[8]،
  3. بدعت کو روکنے کے لیے: اگر کوئی شخص دین میں بدعت پیدا کر رہا ہو، تو اس کا پردہ چاک کرنا جائز ہے تاکہ لوگ گمراہی سے بچ سکیں۔[9]
  4. کسی مسلمان کو کسی خطرے سے آگاہ کرنے کے لیے: اگر کوئی شخص کسی مسلمان کو نقصان پہنچانے کا ارادہ رکھتا ہو، تو اس کے بارے میں اطلاع دینا جائز ہے۔
  5. انصاف کے لیے فریاد: اگر کوئی شخص مظلوم ہے اور وہ کسی ایسے شخص کے سامنے ظالم کی شکایت کر رہا ہے جو انصاف کر سکتا ہو، تو یہ غیبت میں شمار نہیں ہوگی۔[10]

متجاہر بالفسق کی غیبت

وہ شخص جو کھلم کھلا گناہ کرے اور اسے اس کی پرواہ نہ ہو کہ لوگ اس کے بارے میں جانتے ہیں، تو اس کی غیبت کرنا جائز ہے،[11] بعض علماء کے نزدیک یہ غیبت نہیں کہلاتی، کیونکہ ایسا شخص خود ہی اپنے گناہ کو ظاہر کر رہا ہوتا ہے۔[12]

ان موارد میں غیبت جائز ہونے کی دلیل، عقلی دلائل کے ساتھ ساتھ احادیث بھی اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ ایسے شخص کی غیبت جائز ہے۔ امام باقرؑ کا فرمان ہے کہ: ثَلاثَۃٌ لَیسَتْ لَہُمْ حُرْمَۃٌ، صاحِبُ ہَوی مُبتَدِعٌ، وَالإمامُ الْجائِرُ، وَالْفاسِقُ الْمُعْلِنُ الْفِسْقَ[13] (ترجمہ: "تین افراد کا کوئی احترام نہیں: بدعتی، ظالم حکمران، اور وہ فاسق جو علانیہ گناہ کرتا ہو۔")

ظاہری عیبوں کا ذکر

کسی کے ایسے عیب، جو سب پر ظاہر ہوں، بیان کرنا جائز ہے، بشرطیکہ: مقصد تحقیر اور تمسخر نہ ہو، صرف تعارف کے لیے ذکر کیا جائے اور متعلقہ شخص خود بھی اس لقب سے نالاں نہ ہو۔[14] مثلا کسی نابینا یا لنگڑے شخص کو بطور پہچان "کانا" یا "لنگڑا" کہنا۔

کفار اور مشرکین کی غیبت

شیعہ اثنا عشریہ کے مخالفین اور کفار کی غیبت جائز ہے۔[15]

حوالہ جات

  1. سورہ حجرات، آیہ 12۔
  2. نک:حر عاملی، وسائل الشیعہ، 1416ھ، ج12، ص281۔
  3. شیخ انصاری، کتاب المکاسب، 1415ھ، ج1، ص118۔
  4. میرزاخانی، سرطان ایمان، 1369شمسی، ص105
  5. دستغیب، گناہان کبیرہ، 1375شمسی، ج2، ص283۔
  6. شیخ انصاری، کتاب المکاسب، 1415ھ، ج1، ص118۔
  7. میرزاخانی، سرطان ایمان، 1369شمسی، ص125
  8. میرزاخانی، سرطان ایمان، 1369شمسی، ص128
  9. میرزاخانی، سرطان ایمان، 1369شمسی، ص128
  10. میرزاخانی، سرطان ایمان، 1369شمسی، ص118
  11. میرزاخانی، سرطان ایمان، 1369شمسی، ص105
  12. میرزاخانی، سرطان ایمان، 1369شمسی، ص109
  13. مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج72، ص253۔
  14. دستغیب، گناہان کبیرہ، 1375شمسی، ج2، ص283۔
  15. نراقی، معراج السعادہ، ص453

مآخذ

  • حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ الی تحصیل مسائل الشریعہ، قم، موسسہ آل البیت لاحیا التراث، چاپ دوم، 1416ھ۔
  • شیخ انصاری، مرتضی، کتاب المکاسب، بیروت، موسسہ الاعلمی للمطبوعات،‌ 1415ھ۔
  • علامہ مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار الجامعۃ لدرر اخبار الائمۃ الاطہار، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ سوم، ‌1403ھ۔
  • نراقی، ملا احمد، معراج السعادہ، قم، موسسہ انتشارات ہجرت، 1378ہجری شمسی۔
  • دستغیب، سید عبدالحسین، گناہان کبیرہ،قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین، چاپ نہم، 1375ہجری شمسی۔
  • میرزاخانی، حسین، سرطان ایمان، قم، مرکز انتشارات دفتر تبلیغات اسلامی، 1369ہجری شمسی۔