حق الناس

ویکی شیعہ سے

حَق ‌ُّالناس یا حقوق عباد ان حقوق کی طرف اشارہ ہے جو لوگوں کی طرف سے کسی انسان کے ذمہ ہوتے ہیں۔ حق الناس، حق اللہ کے مقابل میں ذکر ہوتا ہے۔ حق الناس مالی حقوق سے مخصوص نہیں ہے بلکہ اس میں انسانی جان اور عزت بھی شامل ہے۔ حق الناس کو دو قسموں محض جیسے جان و مال انسان اور غیر محض جیسے چوری اور قَذْف، جن میں حق اللہ اور حق الناس دونوں حق پائے جاتے ہیں، میں تقسیم کیا گیا ہے۔

امام سجاد علیہ السلام نے رسالہ حقوق میں انسان کے ذمے ہونے والے 50 سے زیادہ حقوق اور فرائض کا ذکر کیا ہے۔ احادیث کے مطابق انسان کی گردن پر باقی حق الناس اس کی دعا قبول ہونے میں مانع بنتے ہیں۔

توبہ کرنے اور اللہ تعالی کی راہ میں شہید ہونے سے بہت سارے گناہ پاک ہوتے ہیں لیکن حق الناس معاف نہیں ہوتا۔ حق الناس میں لوگوں کا یا حق ادا ہو جائے یا جس کا حق ہے وہ معاف کر دے۔ اسلام میں عدالتی احکام میں بھی حق الناس اور حق اللہ میں فرق پایا جاتا ہے؛ مثال کے طور پر حق الناس میں فیصلہ کرنے کے لیے حقدار کی طرف سے مطالبہ اور درخواست کرنے کی ضرورت ہے جبکہ حق اللہ میں کسی کی طرف سے مطالبہ یا درخواست کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور حق الناس میں دقت اور احتیاط پر بناء رکھی جاتی ہے جبکہ حق اللہ میں بنیاد آسانی اور تخفیف پر ہے۔

مفہوم‌ شناسی

اسلام میں حقوق کو حق الناس اور حق اللہ میں تقسیم کیا گیا ہے۔[1] حق الناس سے مراد وہ حقوق ہیں جو کسی انسان کے ذمے لوگوں کے حقوق ہوتے ہیں، جبکہ حق اللہ سے مراد بندوں پر اللہ کے حقوق ہیں۔[2] حق الناس بھی ایک حوالے سے حق اللہ شمار ہوتے ہیں؛[3] لیکن یہ اصطلاح جب حق اللہ کے مقابلے میں آتی ہے تو اس سے مراد صرف اور صرف وہ حقوق ہیں جو انسان کے ذمے ہوتے ہیں۔[4]

فقہی اور حدیثی مصادر میں حق الناس کے لیے حقوق العباد،[5] حق آدمی،[6]آدمی کے حقوق[7] اور حقوق مسلمین[8] جیسی اصطلاحات استعمال ہوئی ہیں۔

مصادیق

بعض فقہا نے حق الناس کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے: خالص حق الناس، جیسے انسان کی جان اور مال، جب کہ غیر خالص حق الناس سے مراد وہ حقوق ہیں جس میں حق اللہ اور جق الناس دونوں پہلو پائے جاتے ہیں؛ جیسے چوری، [9] تعزیر[10] اور قذف[11]

حق‌الناس سے مراد صرف مالی حقوق ہی نہیں بلکہ جان اور عزت بھی اس میں شامل ہیں۔[12] اسی لئے غیبت،[13] تہمت، چغل خوری اور لوگوں کو تنگ کرنا حق الناس میں شمار ہوتے ہیں۔[14] امام سجادؑ کے رسالہ حقوق سے مشہور حدیث میں پچاس سے زیادہ دوسروں کے حقوق بیان ہوئے ہیں۔[15]

احادیث کی روشنی میں اہمیت

حق‌ الناس کو احادیث میں دعا قبول نہ ہونے کے عوامل میں سے قرار دیا گیا ہے۔[16] امام جعفر صادقؑ مومن کا حق ادا کرنے سے بالاتر کوئی عبادت نہیں سمجھتے ہیں۔[17] رسول اکرمؐ کی حدیث مَناہی، میں آیا ہے کہ کسی کے ذمے دوسرے کا حق ہو اور ادا کرنے کی استطاعت بھی رکھتے ہوئے اسے ٹال دے تو اس کے نامہ اعمال میں ہر دن عَشّار کے برابر گناہ درج ہونگے۔[18] عشار اس شخص کو کہا گیا ہے جو ظالم حاکم کے حکم سے لوگوں کے مال کا دسواں حصہ زبردستی وصول کرتا تھا۔[19]

فقہ اور حقوق میں مقام

فقہی میں حق الناس کے بارے میں زیادہ بحث قضائی احکام والے حصے میں ہوتی ہے۔[20] بعض اسلامی ممالک کے قوانین میں بھی اس پر توجہ ہوئی ہے۔[21] مثال کے طور پر دیت، قصاص اور حق الناس میں بعض توہین جیسے تعزیراتی جرائم کو جرم قرار دیا گیا ہے۔[22]

حق اللہ سے فرق

حق اللہ اور حق الناس میں بہت سارے فرق بیان ہوئے ہیں ان میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں:

  • قاضی کے ہاں حق اللہ کی نسبت حق ‌الناس کو ثابت کرنا آسان ہے؛ کیونکہ حق اللہ ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی یا ایک مرد اور قسم سے یا صرف خواتین کی گواہی سے ثابت نہیں ہوتا ہے؛ لیکن بعض حق الناس کو ان کے ذریعے ثابت کیا جا سکتا ہے۔[23]
  • حق الناس میں حکم جاری ہونا حقدار کی درخواست پر موقوف ہے؛ لیکن حق اللہ میں کسی کی درخواست کی ضرورت نہیں ہے۔[24] ایران کے قانونِ تعزیرات کے آرٹیکل 159 کے تحت حق الناس میں مجرم کا تعاقب اور مجرم کو سزا دینا حقدار یا اس کا وکیل کی درخواست کے اوپر موقوف ہے۔[25]
  • حق‌الناس میں حق اللہ کے برخلاف، قاضی مجرم کو اقرار کرنے سے منصرف نہیں کر سکتا ہے۔[26]
  • حق الناس کے بعض موارد کو معاف کیا جا سکتا ہے اور دوسروں کی طرف منتقل بھی ہو سکتے ہیں۔ لیکن حق اللہ میں جس شخص پر جرم واقع ہوا ہے اس کی طرف سے معاف کرنا یا اس کے راضی ہونے سے حق ختم نہیں ہو سکتا ہے۔[27]
  • حق‌ الناس‌ توبہ کے ذریعے ساقط نہیں ہوتے ہیں، لیکن بعض حق اللہ توبہ سے ختم ہوتے ہیں۔[28]
  • حق‌ الناس احتیاط اور دقت و توجہ پر مبتنی ہے جبکہ حق اللہ میں آسانی اور سہولت مدنظر ہے۔[29] کہا گیا ہے کہ بعض فقہا نے عدالتی امور میں حق اللہ اور حق الناس کا بنیادی فرق کی وجہ اسی کو قرار دیا ہے۔[30]
  • حق‌ الناس اللہ کی راہ میں شہید ہونے سے معاف نہیں ہوتے ہیں؛ جبکہ حق اللہ شہادت کے ذریعے سے معاف کئے جاتے ہیں۔[31] اسی لئے کہا گیا ہے کہ امام حسینؑ نے شب عاشورا اپنے اصحاب سے کہا کہ جس پر حق الناس ہے وہ اس لشکر میں نہ رہے۔[32]

ازالہ

حق الناس میں توبہ کرنے کے علاوہ یا حقدار کے حقوق ادا کرنا ہونگے یا حقدار اسے معاف کر دے۔[33] بعض فقہاء کا کہنا ہے اس میں وہ حقوق بھی شامل ہیں جو انسان بالغ ہونے سے پہلے ضائع کئے ہیں۔[34]

ایک حدیث نبوی کے مطابق قیامت کے میں جس شخص پر دوسروں کے حقوق ہونگے اس کی نیکیاں ان لوگوں کو دی جائیں گی اور اگر اس کی نیکیاں کم پڑے تو ان کے گناہ اس کے نامہ اعمال میں درج کریں گے پھر اسے جہنم میں ڈالا جائے گا۔[35] لئالی الاخبار میں امام صادقؑ سے ایک روایت نقل ہوئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ قیامت میں انسان کی سب سے بری حالت اس وقت ہوگی جب زکات اور خمس کے مستحق اس کا راستہ روکیں گے اور اللہ تعالی اس کی نیکیاں خمس اور زکات کے بدلے انہیں دے گا۔[36]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. مراجعہ کریں: ابن‌ شعبہ، تحف العقول، ۱۴۰۴ق، ص۲۵۵.
  2. مراجعہ کریں: عاملی، الاصطلاحات الفقہیہ، ۱۴۱۳ق، ص۷۱.
  3. ملاحظہ کریں: شہید اول، القواعد و الفوائد، ۱۴۰۰ق، ج۲، ص۴۳؛ موسوی اردبیلی، فقہ القضاء، ۱۴۲۳ق، ج۲، ص۱۸۸.
  4. شہید اول، القواعد و الفوائد، ۱۴۰۰ق، ج۲، ص۴۳؛ ملاحظہ کریں: موسوی اردبیلی، فقہ القضاء، ۱۴۲۳ق، ج۲، ص۱۸۸.
  5. القواعد و الفوائد، ۱۴۰۰ق ، ج۱، ص۱۹۵.
  6. شیخ طوسی، المبسوط، ۱۳۸۷ق، ج۲، ص۳۷۰.
  7. شیخ طوسی، المبسوط، ۱۳۸۷ق، ج۲، ص۳۷۰.
  8. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۷، ص۲۲۰.
  9. شیخ طوسی، المبسوط، ۱۳۸۷ق، ج۸، ص۱۶۳.
  10. محقق داماد، قواعد فقہ، ۱۴۰۶ق، ج۴، ص۲۰۹.
  11. محقق داماد، قواعد فقہ، ۱۴۰۶ق، ج۳، ص۱۶۰.
  12. ملاحظہ ہو: علامہ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۷۴، ص۱۶۰.
  13. نگاہ کریں علامہ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۷۴، ص۱۶۰.
  14. علامہ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۷۲، ص۱۵۰.
  15. ابن‌ شعبہ، تحف‌ العقول، ۱۴۰۴ق، ص۲۵۵-۲۷۲.
  16. علامہ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۹۰، ص۳۲۱.
  17. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۱۷۰.
  18. شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳ق، ج۴، ص۱۶-۱۷.
  19. طریحی، مجمع البحرین، ۱۴۱۶ق، ج۳، ۴۰۴.
  20. مثال کے طور پر ملاحظہ کریں: شیخ طوسی، المبسوط، ۱۳۸۷ق، ج۸، ص۱۶۳.
  21. ملاحظہ کریں: شیری، سقوط مجازات در حقوق کیفری اسلام و ایران، ۱۳۷۲ش، ص۱۱۲؛ مجموعہ جرائم و مجازات‌ہا، ۱۳۸۵ق، ج۲، ص۶۰۵-۶۰۶.
  22. شیری، سقوط مجازات در حقوق کیفری اسلام و ایران، ۱۳۷۲ش، ص۱۱۹-۱۲۰
  23. شیخ طوسی، المبسوط، ۱۳۸۷ق، ج۷، ص۲۴۸-۲۴۹.
  24. منتظری، دراسات فی ولایۃ الفقیہ، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۲۰۱.
  25. شیری، سقوط مجازات در حقوق کیفری اسلام و ایران، ۱۳۷۲ش، ص۱۱۲.
  26. محقق داماد، قواعد فقہ، ۱۴۰۶ق، ج۳، ص۳۳.
  27. ملاحظہ فرمائیں: شہید اول، القواعد و الفوائد، ۱۴۰۰ق، ج۲، ص۴۳-۴۴.
  28. اردبیلی، زبدة البیان، المکتبة الجعفریہ لاحیاء الآثار الجعفریہ، ص۳۰۸-۳۰۹.
  29. شیخ طوسی، المبسوط، ۱۳۸۷ق، ج۸، ص۱۶۳.
  30. مرقایی، «حق اللہ و حق الناس»، ج۱۳.
  31. شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳ق، ج۳، ص۱۸۳؛ کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۵، ص۹۴.
  32. شوشتری، احقاق الحق، ۱۴۰۹ق، ج۱۹، ص۴۳۰.
  33. ملاحظہ کریں: کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۵، ص۹۴.
  34. ملاحظہ فرمائیں: مراغی، العناوین الفقہیہ، ۱۴۱۷ق، ج۲، ص۶۶۰.
  35. علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج۶۹، ص۶.
  36. تویسرکانی، لئالی الاخبار، علامہ، ج۳، ص۲۱۴.

مآخذ

  • ابن‌ شعبہ حرانی، حسن بن علی، تحف‌ العقول، تصحیح علی‎ اکبر غفاری، قم، جامعہ مدرسین، ۱۴۰۴ق.
  • اردبیلی، احمد بن محمد، زبدۃ البیان فی احکام القرآن، تصحیح محمد باقر بہبودی، تہران، المکتبۃ الجعفریہ لاحیاء الآثار الجعفریہ، بی‌تا.
  • آخوندی، محمود، آئین دادرسی کیفری، تہران، ۱۳۶۸ش.
  • تویسرکانی، محمد نبی بن احمد، لئالی الاخبار، قم، علامہ، بی‌تا.
  • شبکہ جامع کتاب گیسوم
  • شوشتری، قاضی نور اللہ، احقاق الحق و ازہاق الباطل، مقدمہ: آیت‌ اللہ مرعشی نجفی، قم، مکتبۃ آیۃ اللہ المرعشی النجفی، ۱۴۰۹ق.
  • شہید اول، محمد بن مکی، القواعد و الفوائد، تحقیق سید عبد الہادی حکیم، نجف، ۱۴۰۰ق (افست، قم، کتاب فروشی مفید).
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، تصحیح: علی‌ اکبر غفاری، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، ۱۴۱۳ق.
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، المبسوط فی فقہ الامامیہ، تصحیح سید محمد تقی کشفی، تہران، المکتبۃ المرتضویہ لاحیاء آلآثار الجعفریہ، ۱۳۸۷ق.
  • شیری، عباس، سقوط مجازات در حقوق کیفری اسلام و ایران، تہران، مرکز انتشارات جہاد دانشگاہی شہید بہشتی، ۱۳۷۲ش.
  • عاملی، یاسین عیسی، الاصطلاحات الفقہیہ فی الرسائل العلمیہ، بیروت، دارالبلاغہ، ۱۴۱۳ق.
  • علامہ طباطبایی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، ۱۴۱۷ق.
  • علامہ مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۴۰۳ق.
  • طریحی، فخر الدین، مجمع البحرین، تصحیح: سید احمد حسینی، تہران، کتاب فروشی، مرتضوی، ۱۴۱۶ق.
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح: علی اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، ۱۴۰۷ق.
  • مجموعہ جرائم و مجازات‌ہا، تہران، معاونت پژوہش تدوین و تنقیح قوانین و مقررات مجمع تشخیص مصلحت نظام، ۱۳۸۵ق.
  • محقق داماد، سید مصطفی، قواعد فقہ، تہران، مرکز نشر علوم اسلامی، ۱۴۰۶ق.
  • مراغی، سید میر عبد الفتاح، العناوین الفقہیہ، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، ۱۴۱۷ق.
  • مرقایی، سید طہ، «حق اللہ و حق الناس» در دانشنامہ جہان اسلام.
  • منتظری، حسین علی، دراسات فی ولایۃ الفقیہ و فقہ الدولہ الاسلامیہ، قم، تفکر، ۱۴۰۹ق.
  • موسوی اردبیلی، سید عبد الکریم، فقہ القضاء، قم، ۱۴۲۳ق.
  • نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام فی شرح شرائع الاسلام، تصحیح:‌ عباس قوچانی و علی آخوندی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۴۰۴ق.
  • نورلیب، شناسامہ کتاب نگاہی بہ حق الناس