رقص

ویکی شیعہ سے

رَقْص اعضاء بدن کے موزون اور ہم آہنگ حرکت کو کہا جاتا ہے جو عموما گانے اور موسیقی کے ساتھ انجام پاتا ہے۔ اکثر فقہاء رقص کی تمام اقسام کو حرام سمجھتے ہیں؛ لیکن بعض فقہاء اس بات کے معتقد ہیں کہ رقص صرف اس صورت میں حرام ہے جب یہ کسی حرام کام کے ساتھ انجام پائے مثلا انسان کے شہوت کو ابھارنے کا سبب بنے۔ بعض وہ فقہاء جو رقص کو بذات خود حرام سمجھتے ہیں وہ عورتوں کے عورتوں کے لئے رقص کرنے اور عورت کے اپنے شوہر کے لئے رقص کرنے کو حرام نہیں سمجھتے ہیں۔

معانی

رَقْص اعضاء بدن کے موزون اور ہم آہنگ حرکت کو کہا جاتا ہے جو عموما گانے اور موسیقی کے ساتھ انجام پاتا ہے۔[1] فقہاء «مکاسب مُحَرَّمہ» (حرام تجاریتیں) اور «مسائل مُستَحَدثہ» (جدید مسائل) میں رقص سے بحث کرتے ہیں۔[2]

حکم

رقص کے شرعی احکام کے ضمن میں دو نظریے موجود ہیں: پہلا نظریہ رقص کو صرف اس صورت میں حرام قرار دیتے ہیں جب یہ کسی حرام کام کے ساتھ انجام پائے[3] یا انسان کے شہورت کو ابھارنے کا موجب بنے؛[4] لیکن دوسرے نظریے کے تحت جو اکثر فقہاء کا نظریہ ہے، رقص بذات خود حرام ہے۔[5]

حرام ہونے کی علت

فقہی کتابوں میں رقص کے حرام ہونے پر کئی دلائل پیش کی گئی ہیں جو درج ذیل ہیں:

  • رقص لہو و لعب کا مصداق ہے اور لہو و لعب حرام ہے۔[6]
  • پیغمبر اکرمؐ سے منقول ایک حدیث میں رقص کرنے سے منع کیا گیا ہے۔[7]
  • رقص فساد کا سبب ہے اور شرم و حیا کو ختم کر دیتا ہے۔[8]

میاں بیوی کا ایک دوسرے کے لئے رقص کرنا

ان فقہاء کی اکثریت جو رقص کو بذات خود حرام سمجھتے ہیں، عورت کا اپنے شوہر کے لئے رقص کرنے کو جائز سمجھتے ہیں۔[9] ان فقہاء میں سے بعض شوہر کا اپنی بیوی کے لئے رقص کرنے کو بھی جائز سمجھتے ہیں[10] جبکہ بعض فقہاء اسے بھی جائز نہیں سمجھتے ہیں۔[11]

آیت اللہ بہجت میاں بیوی کے ایک دوسرے کے لئے رقص کرنے کو بھی حرام سمجھتے ہیں۔[12]

عورت کا عورت کے لئے رقص کرنا

رقص کو بذات خود حرام سمجھنے والے بعض فقہاء کے فتوے کے مطابق عورت کا عورت کے لئے رقص کرنا جائز ہے۔[13] البتہ یہ حکم اس صورت میں ہے کہ اس کے ساتھ کوئی اور حرام کام جیسے غِنا وغیرہ انجام نہ پائے اور کوئی مرد حتی اس عورت کے محارم میں سے بھی کوئی مرد وہاں موجود نہ ہو۔[14]

سماع

صوفی حضرات رقص کی ایک قسم کو جو کسی خاص مکان یا زمان میں انجام پاتا ہے اور ان کے مطابق اس کام سے انسان وجد میں آتا ہے اور خدا سے نزدیک ہوتا ہے؛ کو صوفیوں کے لئے جائز سمجھتے ہیں[15] لیکن بعض اس رقص اور آواز کو صوفیوں کے لئے بھی جائز نہیں سمجھتے ہیں۔[16]

حوالہ جات

  1. مہربانی، «رقص»،‌ ص۲۱۵۔
  2. مؤسسہ دایرۃالمعارف اسلامی، فرہنگ فقہ، ۱۳۸۹ش، ج۴، ص۱۲۴۔
  3. خویی، صراط‌ النجاۃ، ۱۴۱۶ق، ج۱، ص۳۷۲۔
  4. خامنہ ای، اجوبۃ الاستفتائات، ۱۴۲۴ق، ص۲۵۶۔
  5. ملاحظہ کریں: گلپایگانی، ارشاد السائل، ۱۴۱۴ق، ص۱۵۶؛ منتظری، رسالہ استفتائات، بی‌تا، ج۱، ص۱۴۴؛ سیستانی، الفتاوی المیسرہ، ۱۴۱۶ق، ص۴۳۶و۴۳۷؛ مکارم شیرازی، استفتائات جدید، ۱۴۲۷ق، ج۱، ص۱۵۵۔
  6. اردبیلی، رسالۃ فی الغناء، ۱۴۱۸ق، ص۲۷؛ تبریزی، استفتائات جدید، ج۱، ص۲۱۹۔
  7. منتظری، رسالہ استفتائات، بی‌تا، ج۱، ص۱۴۴۔
  8. فاضل لنکرانی، جامع‌ المسائل، ۱۴۲۵ق، ص۴۴۳۔
  9. ملاحظہ کریں: تبریزی، صراط‌ النجاۃ، بی‌تا، ج۵، ص۳۸۵؛ شیرازی، استفتائات‌ الغنا، بی‌تا، ص۴۸؛ مکارم شیرازی، استفتائات جدید، ۱۴۲۷ق، ج۱، ص۱۵۵۔
  10. تبریزی، صراط‌ النجاۃ، بی‌تا، ج۵، ص۳۸۵؛ شیرازی، استفتائات‌ الغنا، بی‌تا، ص۴۸۔
  11. مکارم شیرازی، استفتائات جدید، ۱۴۲۷ق، ج۱، ص۱۵۵۔
  12. بہجت، استفتائات، ۱۴۲۸، ج۴، ص۵۳۱۔
  13. فاضل لنکرانی، اجوبۃ السائلین، ۱۴۱۶ق، ص۱۴۸؛ تبریزی، استفتائات جدید، بی‌تا، ج۲، ص۲۱۹۔
  14. ملاحظہ کریں: تبریزی، استفتائات جدید، بی‌تا، ج۲، ص۲۱۹۔
  15. نوروزی طلب،‌ «مطالعہ تطبیقی رقص شیوا و رقص سماع»،‌ ص۱۹۔
  16. کاشانی، مصباح الہدایہ، ۱۳۷۶ش، ص۱۷۸۔

مآخذ

  • اردبیلی، میرزا یوسف، رسالۃ فی الغناء، تحقیق و تصحیح علی‌ اکبر زمانی‌ نژاد، قم، مرصاد، چاپ اول، ۱۴۱۸ق۔
  • بہجت، محمد تقی، استفتائات، قم، دفتر حضرت آیت‌ اللہ بہجت، چاپ اول، ۱۴۲۸۔
  • تبریزی، جواد، استفتائات جدید، چاپ اول، بی‌تا۔
  • تبریزی، جواد، صراط‌ النجاۃ، بی‌تا۔
  • خامنہ‌ای، سید علی، اجوبۃ الاستفتائات، قم، دفتر مقام معظم رہبری در قم، چاپ اول، ۱۴۲۴ق۔
  • خویی، سید ابو القاسم، صراط‌ النجاۃ، قم، مکتب نشر المنتخب، چاپ اول، ۱۴۱۶ق۔
  • سیستانی، سید علی، الفتاوی المیسرہ، جمع‌آوری سید عبد الہادی حکیم، قم، دفتر حضرت آیت ‌اللہ سیستانی، چاپ اول، ۱۴۱۶۔
  • شیرازی، سید صادق، استفتائات‌ الغنا، بی‌تا۔
  • فاضل لنکرانی، محمد، اجوبۃ السائلین، قم، دفتر آیت‌اللہ فاضل لنکرانی، چاپ اول، ۱۴۱۶ق۔
  • فاضل لنکرانی، محمد، جامع‌ المسائل، قم، امیر قلم، چاپ اول، ۱۴۲۵ق۔
  • کاشانی، عز الدین محمود، مصباح الہدایہ و مفتاح الکفایہ، تصحیح جلال ‌الدین ہمایی، تہران، نشر ہما، ۱۳۷۶ش۔
  • گلپایگانی، سید محمد رضا، ارشاد السائل، بیروت، دار الصفوہ، چاپ دوم، ۱۴۱۴ق۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، استفتائات جدید، قم، انتشارات مدرسہ امام علی بن ابی‌ طالب، چاپ دوم، ۱۴۲۷ق،
  • منتظری، حسین ‌علی، رسالہ استفتائات، قم، چاپ اول، بی‌تا۔
  • مہربانی،‌ امین، «رقص»، در دانشنامہ جہان اسلام، تہران، مؤسسہ فرہنگی ہنری کتاب مرجع، ۱۳۹۴ش۔
  • مؤسسہ دایرۃالمعارف اسلامی، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل‌بیت، قم، نشر دایرۃ المعارف فقہ اسلامی،‌ چاپ اول، ۱۳۸۹ش۔
  • نوروزی طلب، علی رضا،‌ عادلوند، «مطالعہ تطبیقی رقص شیوا و رقص سماع»،‌ پدیدہ، در مجلہ باغ نظر، تہران، مرکز پژوہشی ہنر، معماری و شہرسازی نظر، ۱۳۹۳ش۔