جوا

ویکی شیعہ سے

جُوا یاقِمار اس کھیل کو کہا جاتا ہے جس میں جیتنے والے کو مال دئے جانے کی شرط رکھی جاتی ہے۔ فقہ میں قمار بازی کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ جوے کی حرمت پر فقہاء کے مستندات میں سے ایک سورہ مائدہ کی آیت نمبر 90 ہے جس میں جوا کھیلنے کو پست اور شیطانی عمل قرار دیا گیا ہے۔

فقہاء ہر قسم کی شرط بندی کو حرام قرار نہیں دیتے بلکہ احادیث کی روشنی میں گھڑ سواری، تیر اندازی اور شمشیر زنی جیسے کھیلوں میں شرط لگانا بھی قمار میں شامل نہیں ہے۔ فقہاء کے فتوے کے مطابق آلات قمار کے ساتھ کھیلنا شرط کے ساتھ ہو یا بفیر شرط کے دونوں صورتوں میں حرام ہے۔

فقہی تعریف

فقہی کتابوں میں جوے کی مختلف تعریفیں کی گئی ہیں۔ شیخ انصاری کے مطابق قِمار یا جوا اس کھیل کو کہا جاتا ہے جو مخصوص آلات اور (جیتے والے کو دینے کیلئے) کسی چیز کو گروی رکھ کر کھیلا جاتا ہے۔[1]

بعض فقہاء آلات قمار کے ذریعے کھیلنے کو جوا قرار دیتے ہیں چاہے اس میں شرط رکھی گئی ہو یا نہ رکھی گئی ہو۔[2] آیت اللہ مشکینی نے کتاب "مُصطَلَحات الفقہ" میں قِمار اس کھیل کو قرار دیا ہے جس میں ہارنے والے کی طرف سے جیتنے والے کو کوئی چیز دینے کی شرط رکھی گئی ہو۔[3]

البتہ فقہاء ہر قسم کی شرط‌ بندی‌ کو جوا قرار نہیں دیتے۔ اسی بنا پر وہ فتوا دیتے ہیں کہ گھڑ سواری، تیر اندازی اور شمشیر زنی اگر شرط کے ساتھ ہو تو بھی جوا محسوب نہیں ہونگے۔ فقہ میں مذکورہ کھیلوں کو سَبْق (دوڑ) و رِمایَہ (تیر اندازی) کے نام سے یاد گیا گیا ہے۔[4]

فقہی حکم

شیخ مرتضی انصاری اور صاحب جواہر کے مطابق قمار کے حرام ہونے پر فقہاء کا اجماع ہے اور قرآن اور متواتر احادیث بھی اس کی حرمت پر دلالت کرتی ہیں۔[5]

اس سلسلے میں مورد استناد واقع ہونے والی آیت سورہ مائدہ کی آیت نمبر 90 ہے جس میں "مَیْسِر" کو ایک پست اور شیطانی عمل قرار دیا گیا ہے:"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ" (ترجمہ: شراب و قمار و بت‌ہا و تیرہاى قرعہ، پليد و از عمل شيطان‌اند)۔[6]

احادیث کے مطابق "میسر" سے مراد "جوا" ہے۔ مثلا کتاب کافی میں امام باقرؑ سے نقل ہوئی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو پیغمبر اکرمؐ سے پوچھا گیا: یا رسول اللہ "مَیسِر" سے کیا مراد ہے؟ پیغمبر اکرمؐ نے جواب دیا:‌ ہر وہ چیز جس کے ذریعے جوا کھیلا جائے اسے میسر کہتے ہیں۔[7] اسی طرح اسی کتاب میں شیخ کلینی امام رضاؑ سے بھی نقل کرتے ہیں کہ "مَیسِر" سے مراد قِمار ہے۔[8]

آلات

آلات قِمار ایسے ابزار کو کہا جاتا ہے جن کے ذریعے عموما جوا کھیلا جاتا ہے۔ [9] فقہی کتابوں میں شطرنج،[10] بیکگمون،[11] پاسور اور بیلیارد کو آلات قمار قرار دیئے گئے ہیں۔[12]

اکثر فقہاء کے نزدیک آلات قِمار کے ساتھ کھیلنا شرط کے ساتھ ہو یا بغیر شرط کے، حرام ہے۔[13] اسی طرح آلات قمار کی خرید و فروخت اور اسے اجارہ پر دینا یا انہیں بنانے بھی ­حرام ہے۔[14]

شرط بندی اور جوے میں فرق

فقہاء کے مطابق گھڑ سواری، تیر اندازی اور شمشیر زنی وغیرہ جیسے مقابلوں میں شرط رکھنا قمار کے حکم میں نہیں ہے۔[15] فقہاء بعض احادیث سے استناد کرتے ہوئے مذکورہ موارد میں شرط رکھنے کے باوجود جوا اور قمار شمار نہیں کرتے ہیں۔[16]

قمار بازی کے احکام

بعض فقہی کتابوں میں قمار بازی کے درج ذیل احکام ذکر ہوئے ہیں:

  • جوا کھیلنے کے ذریعے حاصل ہونے والی چیز کا کھانا حرام ہے۔[17]
  • جوا کھیلنے والے کی گواہی قابل قبول نہیں ہے۔[18]
  • قماربازی کا سیکھنا بھی حرام ہے۔[19]
  • جوے کے ذریعے حاصل ہونے والی کمائی کا مالک نہیں بن سکتا لذا اسے ان کے اصل مالک تک پہنچانا ضروری ہے۔[20]

جوا حرام ہونے کا فلسفہ

اللہ تعالی نے قمار کو شیطانی ایک وسیلہ قرار دیا ہے جسے وہ مؤمنین کے درمیان دشمنی اور حسد ایجاد کرتا ہے اور اللہ کی یاد سے غافل کردیتا ہے۔ إِنَّما يُريدُ الشَّيْطانُ أَنْ يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَداوَةَ وَ الْبَغْضاءَ فِي الْخَمْرِ وَ الْمَيْسِرِ وَ يَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَ عَنِ الصَّلاةِ فَهَلْ أَنْتُمْ مُنْتَهُونَ[مائدہ–91] شیطان تو بس یہی چاہتا ہے کہ تمہارے درمیان شراب اور جوئے کے ذریعہ سے بغض و عداوت ڈالے۔ اور تمہیں اللہ کی یاد اور نماز سے باز رکھے (روکے)۔ کیا اب تم (ان چیزوں سے) باز آؤگے؟[حوالہ درکار]


حوالہ جات

  1. شیخ انصاری، مکاسب، 1415ھ، ص371۔
  2. شیخ انصاری، مکاسب، 1415ھ، ص371۔
  3. مشکینی، مصطلحات الفقہ، 1381ش، ص430۔
  4. طباطبایی حائری، ریاض‌المسالک، 1418ھ، ج10، ص233۔
  5. شیخ انصاری، مکاسب، 1415ھ، ص371؛ نجفی، جواہرالاکلام، 1404ھ، ج22، ص209۔
  6. نجفی، جواہرالاکلام، 1404ھ، ج22، ص209۔
  7. کلینی، کافی، 1407ھ، ج5، ص122و123۔
  8. کلینی، کافی، 1407ھ، ج5، ص124۔
  9. مؤسسہ دایرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، 1385ش، ج1، ص152۔
  10. شیخ انصاری، مکاسب، 1415ھ، ج1، ص372۔
  11. شیخ انصاری، مکاسب، 1415ھ، ج1، ص372۔
  12. مکارم شیرازی، استفتائات جدید، 1427ھ، ج2، ص238۔
  13. مؤسسہ دایرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، 1385ش، ج1، ص153۔
  14. مؤسسہ دایرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، 1385ش، ج1، ص153۔
  15. طباطبایی حائری، ریاض‌المسالک، 1418ھ، ج10، ص233تا235؛ نجفی، جواہرالکلام، 1404ھ، ج41، ص56۔
  16. طباطبایی حائری، ریاض‌المسالک، 1418ھ، ج10، ص233تا235۔
  17. نجفی، جواہرالکلام، 1404ھ، ج22، ص109۔
  18. شیخ مفید، المقنعہ، 1413ھ، ص726؛ حلی، الجامع للشرایع، 1405ھ، ص539؛ شیخ طوسی، النہایہ، 1400ھ، ص325۔
  19. محقق حلی، شرایع السلام، 1408ھ، ج2، ص4
  20. طباطبایی، حائری، ریاض‌المسالک، 1418ھ، ج8، ص170۔

مآخذ

  • حلی، یحی بن سعید، الجامع للشرائع، قم، مؤسسۃ سیدالشہداء العلمیہ، چاپ اول، 1405ھ۔
  • خویی، سیدابوالقاسم، موسوعۃالامام خویی، قم، مؤسسۃ احیاء آثار الامام خوئی، چاپ اول، 1418ھ۔
  • شیخ انصاری، مرتضی، کتاب المکاسب المحرمۃ و البیع و الخیارات، قم، کنگرہ جہانی بزرگداشت شیخ اعظم انصاری‌، چاپ اول، 1415ھ۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، المقنعہ، قم، کنگرہ جہانی ہزارہ شیخ مفید، چاپ اول، 1413ھ۔
  • طباطبایی حائری، سیدعلی، ریاض‌المسائل فی تحقیق الاحکام بالدلائل، قم، آل‌البیت، چاپ اول، 1418ھ۔
  • کلینی، محمد بن ‌یعقوب، الکافی، تحقیق علی‌اکبر غفارى و محمد آخوندى، تہران، دار الكتب الإسلاميۃ، چاپ چہارم، 1407ھ۔
  • محقق حلی، جعفر بن حسن، شرائع الاسلام فی مسائل الحلال و الحرام، تحقیق و تصحیح عبدالحسین محمدعلی بقال، قم، اسماعیلیان، چاپ دوم، 1408ھ۔
  • مشکینی، علی، مصطلحات الفقہ، قم، الہادی، چاپ سوم، 1381ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، استفتائات جدید، قم، انتشارات مدرسہ امام علی بن ابی‌طالب، چاپ دوم، 1427ھ۔
  • مؤسسہ دایرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ مطابق با مذہب اہل بیت علیہم‌السلام، مؤسسہ دایرۃ المعارف فقہ اسلامی، 1385ہجری شمسی۔
  • نجفى، محمدحسن، جواہر الكلام فی شرح شرائع الاسلام، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، چاپ ہفتم، 1404ھ۔