الزام تراشی
الزام تراشی، دوسروں کی طرف قیاس اور گمان پر مبنی غیر مناسب کاموں کی نسبت دینے کو کہا جاتا ہے۔ تہمت اور الزام کا سرچشمہ دوسروں کے کردار پر سوء ظن (بدگمانی) رکھنا ہے۔ الزام لگانا حرام اور گناہ کبیرہ ہے۔ الزام لگانے والے کی سزا تعزیر ہے اور قرآن کریم میں الزام لگانے والوں کے لئے عذاب کا وعدہ دیا گیا ہے۔ تہمت، بُہتان اور اِفْتِرا میں فرق یہ ہے کہ تمت لگانے والے کو اس شخص میں عیب موجود ہونے کا یقین نہیں ہے لیکن بہتان اور افتراء لگانے والے کو الزام جھوٹ پر مبنی ہونے کا یقین ہے۔ اسلامی روایات میں ان جگہوں پر جانے سے منع ہوا ہے جہاں دوسروں پر الزام اور دوسروں کی نسبت بدگمانی ایجاد ہوتی ہے۔ الزامی تراشی کے آثار میں سے ایک ایمان کا ضائع ہونا ہے اور اس کا علاج دوسروں کے امور میں تجسس نہ کرنا ذکر ہوا ہے۔
بعض علماء نے حَدیث مُباہتہ سے استناد کرتے ہوئے بدعت ایجاد کرنے والوں پر الزام تراشی اگر مصلحت میں ہو تو اس صورت میں جائز قرار دیا ہے، تاہم اکثر فقہاء نے اس قول کو غلط قرار دیا ہے اور حدیث کو "مضبوط دلائل کے ساتھ اہل بدعت کو قائل کرنے" سے تعبیر کیا ہے۔
تعریف
الزام تراشی گناہ کبیرہ ہے۔[1] ایک حدیث میں الزام لگانے کو اس قدر بُرا سمجھا گیا ہے کہ شیطان بھی الزام لگانے والوں سے بیزار ہوتا ہے۔[2] احادیث کی کتابوں میں الزام تراشی حرام ہونے کے بارے میں ایک مخصوص باب بیان ہوا ہے۔[3]
الزام تراشی کا مطلب ایسی بدگمانی کو بیان کرنا ہے[4] جو کسی کے کردار کی وجہ سے انسان کے دل میں ایجاد ہوئی ہے۔[5] البتہ بدگمانی جب تک ظاہر نہ ہو تب تک الزام نہیں بلکہ سوء ظن شمار ہوتی ہے۔[6] الزام اور بری نسبت خواہ وہ اشارے کے ذریعے ہو یا موبائل، کمپیوٹر اور سوشل میڈیا جیسے وسیلے کے ذریعے ہو سب الزام تراشی میں شامل ہوتے ہیں۔[7]
احادیث میں الزام تراشی کی سب سے بدترین مثال امانت میں خیانت کا الزام ہے یعنی ایسے شخص پر الزام لگائے جسے کسی کام میں امین قرار دیا ہے۔[8]
بہتان اور افترا کے ساتھ فرق
الزام اور تہمت معنی کے اعتبار سے بہتان اور افترا کے مترادف سمجھے جاتے ہیں اور عرف میں ایک ساتھ اور ایک دوسرے کی جگہ بھی استعمال ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود کچھ فرق بھی پایا جاتا ہے۔ تہمت اس الزام اور بدگمانی کو کہا جاتا ہے جس کا سرچشمہ بدگمانی اور سوء ظن ہے؛[9] البتہ اس بدگمانی کی کوئی حقیقت نہیں ہے یا ابھی تک ثابت نہیں ہوئی ہے۔[10] لیکن بہتان اس جھوٹی نسبت کو کہا جاتا ہے[11] جس کے جھوٹ ہونے کے بارے میں الزام لگانے والے کو یقین ہے۔ اور بہتان میں یہ بھی ممکن ہے کہ الزام لگانے والا دلیل بھی ساتھ لے آئے[12] لیکن افترا جھوٹی نسبت[13] بغیر کسی دلیل کے دینا ہے[14] جیسے اللہ کو صاحب اولاد ہونے کی نسبت دینا۔[15]
الزام تراشی کے احکام
- الزام لگانا اور اسے پھیلانا فقہی اعتبار سے حرام[16] اور اس کی سزا تعزیر ہے۔[17]اگر تہمت قذف ہو تو اس کی سزا حد قذف (80 کوڑے) ہے۔[18]
- الزام اس شخص کی موجودگی میں ہو یا اس کے پیٹھ پیچھے، دونوں صورتوں میں حرام ہے۔[19]
- اگر الزام اس شخص کے سامنے لگایا جائے تو یہ ہتک حرمت میں شامل ہوگا اور حرام ہے۔[20]
- دوسروں پر الزام تراشی کرتے ہوئے سننا بھی جائز نہیں ہے اور سننے کی صورت میں جس پر الزام لگایا گیا ہے اس کا دفاع اور اس سے الزام کو دور کرنا ضروری ہے۔[21]
- الزام لگانے والا اپنے گناہ سے توبہ کرے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ اگر اس شخص سے معذرت خواہی کرنے میں کوئی مفسدہ نہ ہو تو ان سے اس گناہ کی بخشش کی درخواست کرے۔[22]
جب بھی ایک مومن دوسرے مومن بھائی پر الزام لگائے تو اس کے دل سے ایمان اس طرح سے ختم ہوجاتا ہے جس طرح پانی میں نمک حل ہوجاتا ہے۔
کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص361.
آثار اور نتائج
إیاک و مَواطِنَ التُّہمۃِ و المجلسَ المَظْنونَ بہ السّوءُ، فإنَّ قَرینَ السُّوءِ یغُرُّ جَلِیسَہ (ترجمہ: تہمت والی جگہوں اور بدگمانی ایجاد ہونے والی مجاس سے بچے رہو کیونکہ برا دوست اپنے ہمنشین کو دھوکہ دیتا ہے۔)
شیخ طوسی، الأمالی، 1414ھ، ص7.
- عذاب الہی: امام صادقؑ کی ایک روایت میں سورہ نور کی آیت نمبر 23 کو الزامی تراشی گناہ کبیرہ ہونے کی دلیل قرار دیا گیا ہے[23]اس آیت میں اللہ تعالی نے دنیا اور آخرت کی لعنت اس شخص کے لئے قرار دی ہے جو پاکدامن خواتین پر تہمت لگاتا ہے اور ان کو قذف کرتا ہے۔ اسی طرح آیاتِ اِفْک میں پیغمبر اکرمؑ کے خاندان میں سے کسی ایک شخص پر تہمت لگانے والوں[24] کو عذاب عظیم سے ڈرایا گیا ہے۔[25]
- الزام تراشی، مومن کا ایمان ختم ہونے کا باعث بنتی ہے۔[26]
- الزام تراشی معاشرے کے افراد کے درمیان میں موجود بھائی چارگی اور روابط کے نابود ہونے کا سبب بنتی ہے اور بے اعتمادی کی فضا قائم ہوتی ہے۔[27]
الزامی تراشی سے بچاؤ کے طریقے
- برے لوگوں کی ہمنشینی سے اجتناب۔[28]
- برے لوگوں کی مجالس میں جانے سے گریز کرنا۔[29]
- برے کام انجام پانے والی جگہوں سے دور رہنا۔[30]
- دوسروں کے امور میں تجسس نہ کرنا اور دو پہلو والی باتوں کو اچھے پر حمل کرنا۔[31]
حدیث مباہتہ
مُباہِتہ ایک فقہی فقہی اصطلاح ہے جسے پیغمبر اکرمؐ سے منقول روایت کے لفظ «بَاہِتُوہُمْ»[32] سے اخذ کیا گیا ہے۔[33] فقہ میں بعض نے اسے الزامی تراشی کے معنی میں لیا ہے اور اس سے استناد کرتے ہوئے اہل بدعت پر تہمت لگانے کے سلسلے میں جواز کا فتوا دیا ہے؛[34] لیکن بعض نے اسے مضبوط اور قوی دلیل کے معنی میں لیا ہے۔[35] اس کے نتیجے میں اہل بدعت پر الزام لگانے کو جائز نہیں سمجھا ہے۔[36]
حوالہ جات
- ↑ ابن شعبہ، تحف العقول، 1404ھ، ص331؛ حر عاملی، آداب معاشرت، 1380شمسی، ص204؛ دستغیب، گناہان کبیرہ، کانون ابلاغ اندیشہ ہای اسلامی، ج2، ص386.
- ↑ کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص358.
- ↑ ملاحظہ کریں: کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص361؛ حر عاملی، وسائل الشیعۃ، 1424ھ، ج12، ص302.
- ↑ زبیدی، تاج العروس، ذیل واژہ «وہم»؛ فراہیدی، العین، ذیل واژہ «وہم».
- ↑ ابن فارس، معجم مقاییس اللغۃ، 1404ھ، ج6، ص146.
- ↑ تہرانی، اخلاق الاہی، 1391شمسی، ج4، ص144.
- ↑ سیستانی، توضیح المسائل جامع، 1396شمسی، ج2، ص208؛ «تہمت زدن بہ دیگران»، آفیشل ویب سائٹ: دفتر مقام معظم رہبری.
- ↑ کلینی، الکافی، 1407ھ، ج5، ص298.
- ↑ تہرانی، اخلاق ربانی، 1401شمسی، ص33.
- ↑ عودہ، جرم و ارکان آن، 1390شمسی، ج1، ص300.
- ↑ عودہ، جرم و ارکان آن، 1390شمسی، ج1، ص300.
- ↑ ملاحظہ کریں: شیخ طبرسی، مجمع البیان، 1415ھ، ج5، ص81؛ مغنیہ، التفسیر الکاشف، 1424ھ، ج2، ص446؛ مصطفوی، التحقیق فی کلمات القرآن الکریم، 1368شمسی، ج1، ص338؛ قرشی، قاموس قرآن، 1412ھ، ج1، ص239.
- ↑ شیخ طبرسی، مجمع البیان، 1415ھ، ج6، ص201.
- ↑ ابن منظور، لسان العرب، ذیل واژہ «فری»؛ فراہیدی، العین، ذیل واژہ «فری».
- ↑ سورہ بقرہ، آیہ 116.
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، 1404ھ، ج41، ص59؛ شہید ثانی، الرسائل، 1421ھ، ج1، ص293؛ شہید ثانی، کشف الریبۃ، 1390ھ، ص21.
- ↑ امام خمینی، استفتائات امام خمینی، 1372شمسی، ج3، ص452؛ فاضل لنکرانی، جامع المسائل، 1383شمسی، ج2، ص340؛ مکارم شیرازی، مجموعہ استفتائات جدید، 1427ھ، ج1، ص356.
- ↑ علامہ حلی، قواعد الاحکام، 1413ھ، ج3، ص547.
- ↑ تہرانی، اخلاق ربانی، 1401شمسی، ص33.
- ↑ تہرانی، اخلاق ربانی، 1401شمسی، ص44.
- ↑ تہرانی، اخلاق ربانی، 1401شمسی، ص33.
- ↑ سیستانی، توضیح المسائل جامع، 1396شمسی، ج2، ص209.
- ↑ شیخ صدوق، علل الشرائع، 1383ھ، ج2، ص480.
- ↑ طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج15، ص89.
- ↑ مکارم شیرازی، الامثل، 1421ھ، ج11، ص46.
- ↑ کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص361.
- ↑ کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص361.
- ↑ کلینی، الکافی، 1407ھ، ج8، ص152.
- ↑ شیخ صدوق، الأمالی، 1417ھ، ج1، ص587.
- ↑ علامہ مجلسی، حلیۃ المتقین، 1424ھ، ج1، ص555.
- ↑ کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص362. ہمدانی، مصباح الفقیہ، مکتبۃ النجاح، ج2، ص672.
- ↑ کلینی، کافی، 1407ھ، ج2، ص375.
- ↑ مجلسی اول، روضۃ المتقین، 1406ھ، ج9، ص327؛ علامہ مجلسی، مرآۃ العقول، 1404ھ، ج11، ص77.
- ↑ خویی، مصباح الفقاہۃ، 1417ھ، ج1، ص458؛ گلپایگانی، الدرّ المنضود، 1412ھ، ج2، ص148؛ تبریزی، ارشاد الطالب، 1416ھ، ج1، ص281.
- ↑ فیض کاشانی، الوافی، 1406ھ، ج1، ص245.
- ↑ محمدیان و دیگران، «تأملی در مدلول روایت موسوم بہ مباہتہ»، ص159.
مآخذ
- ابن شعبہ، حسن بن علی، تحف العقول عن آل الرسول صلی اللہ علیہم، تصحیح: علی اکبر غفاری، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1404ھ۔
- ابن فارس، احمد بن فارس، معجم مقاییس اللغۃ، تحقیق: عبد السلام محمد ہارون، قم، مکتب الإعلام الإسلامی، 1404ھ۔
- ابن منظور، محمد بن مکرم، لسان العرب، بیروت، دار الفکر للطباعۃ و النشر و التوزیع، 1414ھ۔
- امام خمینی، سید روح اللہ، استفتائات امام خمینی، قم، جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، 1372ہجری شمسی۔
- تبریزی، میرزا جواد، ارشاد الطالب الی التعلیق علی المکاسب، قم، اسماعیلیان، 1416ھ۔
- تہرانی، مجتبی، اخلاق الاہی، تہران، سازمان انتشارات پژوہشگاہ فرہنگ و اندیشہ اسلامی، چاپ ہفدہم، 1391ہجری شمسی۔
- تہرانی، مجتبی، اخلاق ربانی دورہ 0 جلدی آفات زبان بہتان و تہمت، تہران، مؤسسہ پژوہشی فرہنگی مصابیح الہدی، 1401ہجری شمسی۔
- «تہمت زدن بہ دیگران»، وبگاہ اطلاع رسانی دفتر مقام معظم رہبری، تاریخ درج مطلب: 8 مہر 1398شمسی، تاریخ بازدید: 18 مہر 1402ہجری شمسی۔
- حر عاملی، محمد بن حسن، آداب معاشرت از دیدگاہ معصومین(ع)، ترجمہ: محمدعلی فارابی، مشہد، آستان قدس رضوی، 1380ہجری شمسی۔
- حر عاملی، محمد بن حسن، وسایل الشیعہ و مستدرکہا، قم، مؤسسۃ النشر الإسلامی، 1424ھ۔
- خویی، سید ابوالقاسم، مصباح الفقاہۃ، قم، انصاریان، 1417ھ۔
- زبیدی، مرتضی، تاج العروس من جواہر القاموس، بیروت، دار الفکر، 1414ھ۔
- شہید ثانی، زین الدین بن علی، رسائل الشہید الثانی، قم، دفتر تبلیغات اسلامی حوزہ علمیہ قم، 1421ھ۔
- شہید ثانی، زین الدین بن علی، کشف الریبۃ، تہران، دار المرتضوی للنشر، 1390ھ۔
- شیخ صدوق، محمد بن علی، الأمالی، قم، مؤسسۃ البعثۃ، 1417ھ۔
- شیخ صدوق، محمد بن علی، علل الشرایع، نجف، منشورات المکتبۃ الحیدریۃ، 1383ھ۔
- شیخ طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، 1415ھ۔
- شیخ طوسی، محمد بن حسن، الأمالی، قم، دار الثقافۃ، 1414ھ۔
- طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1417ھ۔
- علامہ حلی، حسن بن یوسف، قواعد الاحکام فی معرفۃ الحلال و الحرام، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ اول، 1413ھ۔
- علامہ مجلسی، محمدباقر، مرآۃ العقول فی شرح اخبار آل الرسول، تہران، دار الکتب الاسلامیۃ، 1404ھ۔
- علامہ مجلسی، محمدباقر، حلیۃ المتقین فی آلادب و السنن و الاخلاق ، ترجمہ: مترجم خلیل رزق العاملی، قم، ذوی القربی ، 1424ھ۔
- عودہ، عبدالقادر، جرم و ارکان آن (بررسی تطبیقی حقوق جزای اسلامی و قوانین عرفی)، ترجمہ: حسن فرہودی نیا، تہران، انتشارات یادآوران، 1390ہجری شمسی۔
- سیستانی، سید علی، توضیح المسائل جامع، مشہد، دفتر حضرت آیہ اللہ العظمی سیستانی، 1396ہجری شمسی۔
- فاضل لنکرانی، محمد، جامع المسائل ، قم، نشر امیر، 1383ہجری شمسی۔
- فراہیدی، خلیل بن احمد، العین، تحقیق: مہدی مخزومی، قم، دار الہجرۃ، 1409ھ۔
- فیض کاشانی، الوافی، اصفہان، کتابخانہ امام امیر المؤمنین علی(ع)، 1406ھ۔
- قرشی، سید علی اکبر، قاموس قرآن، تہران، دار الکتب الاسلامیۃ، 1412ھ۔
- کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تحقیق: علی اکبر غفاری، تہران، دار الکتب الإسلامیۃ، 1407ھ۔
- گلپایگانی، الدرّ المنضود، تقریر کریمی جہرمی، قم، دار القرآن الکریم، 1412ھ۔
- مجلسی اول، محمدتقی، روضۃ المتقین فی شرح من لا یحضرہ الفقیہ، قم، مؤسسہ فرہنگی اسلامی کوشانبور، 1406ھ۔
- محمدیان، علی و دیگران، «تأملی در مدلول روایت موسوم بہ مباہتہ»، در مجلہ تحقیقات علوم قرآن و حدیث، شمارہ 28، زمستان 1394ہجری شمسی۔
- مصطفوی، حسن، التحقیق فی کلمات القرآن الکریم، تہران، مرکز نشر آثار علامہ مصطفوی، 1368ہجری شمسی۔
- مغنیہ، محمدجواد، التفسیر الکاشف، قم، دار الکتاب الإسلامی، 1424ھ۔
- مکارم شیرازی، ناصر، الامثل فی تفسیر کتاب اللہ المنزل، ترجمہ و تلخیص محمدعلی آذرشب، قم، مدرسہ امام علی بن ابی طالب، 1421ھ۔
- مکارم شیرازی، ناصر، مجموعہ استفتائات جدید، قم، مدرسہ الامام علی بن ابی طالب(ع)، 1427ھ۔
- نجفی، محمدحسن، جواہر الکلام فی شرح شرائع الإسلام، محقق: ابراہیم سلطانی نسب، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، 1404ھ۔
- ورام، مسعود بن عیسی، مجموعہ ورّام، آداب و اخلاق در اسلام، مترجم: محمدرضا عطایی، مشہد، بنیاد پژوہش ہای اسلامی آستان قدس رضوی، 1369ہجری شمسی۔
- ہمدانی، آقارضا، مصباح الفقیہ، تہران، انتشارات مکتبۃ النجاح، بی تا.