ابدی عذاب یا جہنم میں ہمیشہ رہنا اسلامی اور دیگر بہت سے الہی ادیان کا عقیدہ ہے۔ قرآن کی متعدد آیات میں «خالدین فیہا ابدا» (ہمیشہ کے لئے جہنم میں رہے گا) جیسی تعابیر کے ساتھ ابدی عذاب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے؛ چنانچہ شیعہ حدیثی منابع میں متعدد احادیث بھی وارد ہوئی ہیں جن میں جہنم میں ہمیشہ کے لئے باقی رہنے پر تأکید کی گئی ہے۔

جہنم میں ہمیشہ کے لئے باقی رہنے کے بارے میں دانشورں کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے: ایک گروہ اسے خدا کی عدالت، حکمت اور رحمت بلکہ قرآن کی بعض آیات کے خلاف قرار دیتے ہوئے ابدی عذاب کے تصور کو باطل قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جہنمی افراد آخر کار سب کے سب وہاں سے نکل جائیں گے یا آخر میں ان کے لئے وہاں کوئی عذاب یا تکلیف نہیں ہوگی۔

ان کے مقابلے میں بعض حضرات من جملہ شیعہ ابدی عذاب کے قائل ہیں لیکن اسے صرف ان کافروں کے ساتھ مختص قرار دیتے ہیں جو خدا کے سر سخت دشمن ہیں اور جن پر ہر حوالے سے حجت تمام ہو گئی ہو۔ ان کے مطابق باقی عام گناہ گار اور کمزور عقیدہ لوگ جہنم میں ہمیشہ کے لئے باقی نہیں رہیں گے۔

شیعہ علماء اس بات کے معتقد ہیں کہ قیامت کے دن اعمال کے مجسم ہونے اور اعمال کی حقیقت ظاہر ہونے کے نظریہ کی روشنی میں ابدی عذاب کی توجیہ کی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ قرآن میں تصریح کی گئی ہے کہ بعض افراد ہمیشہ کے لئے جہنم میں رہیں گے اور وہاں سے وہ کبھی بھی خارج نہیں ہو سکیں گے۔

اہمیت

موت کے بعد انسانی روح کی جاودانگی دین اسلام اور دیگر بہت سارے الہی ادیان من جملہ یہودیت اور عیسائیت کا عقید ہے۔[1] قرآن کریم میں کلی طور پر ان افراد کے لئے جہنم کی آگ میں ہمیشہ کے لئے رہنے کا وعدہ دیا گیا ہے: کفار،[2] مشرکین،[3] اور منافقین۔[4]

ابدی عذاب کے مسئلہ میں اس اختلاف پایا جاتا ہے کہ بعض اسے ایک متفقہ مسئلہ اور دین کی ضروریات میں سے قرار دیتے ہیں جبکہ بعض اسے اس قدر غیر معقول قرار دیتے ہیں کہ کسی بھی صورت میں اسے دین کی طرف نسبت نہیں دی جا سکتی ہے۔[5] ابدی عذاب کے قائلین اپنے مدعا پر قرآن و حدیث سے دلائل پیش کرتے ہیں۔[6] کہا گیا ہے کہ قرآن میں 85 آیتوں میں خلود کے مسئلے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جن میں سے 34 آیتوں میں جہنم میں ابدی طور پر رہنے سے مربوط ہیں۔[7] سورہ نساء آیت نمبر 169، سورہ احزاب آیت نمبر 65 اور سورہ جن آیت نمبر 23 کفار، ظالموں اور خدا کے مقابلے میں گناہ اور عصیان کے مرتکب ہونے والوں کے بارے میں ہے جن میں «خالدین فیہا» کے بعد «ابداً» کی تعبیر بھی آئی ہے۔[8]

جہنم میں ابدی عذاب میں باقی رہنے کے بارے میں بہت زیادہ احادیث نقل ہوئی ہیں۔ علامہ طباطبائی کے تعبیر میں جہنم میں ابدی عذاب کے بارے میں اہل‌ بیت سے نقل ہونے والی احادیث متفیض کی حد تک پہنچی ہوئی ہے۔[9] بعض احادیث میں جہنم کی آگ میں ہمیشہ باقی رہنے کو کافروں، منکروں اور مشرکوں کے ساتھ متخص جانا گیا ہے۔[10]

ابدی عذاب کے بارے میں تین نظریے

ابدی عذاب کافروں اور اہل کبائر کے لئے ہے

مختلف اسلامی مذاہب کے اکثر متکلمین اس بات کے معتقد ہیں کہ کافر جہنم میں ہمیشہ کے لئے رہیں گے۔[11] فاسق اور دوسرے الفاظ میں گناہ کبیرہ کے مرتکب مؤمنین جو توبہ کے بغیر اس دنیا سے چلے گئے ہوں کے بارے میں بہت زیادہ اختلاف پایا جاتا ہے۔[12]

خوارج اس بات کے معتقد تھے کہ گناہ کبیرہ کا مرتکب شخص کافر ہے اور ہمیشہ کے لئے جہنم میں رہے گا۔[13] ان کے مقابلے میں معتزلہ کا عقیدہ تھا کہ فاسق مسلمان نہ کافر ہے اور نہ مؤمن، بلکہ ان کی جگہ منزلۃٌ بینَ الْمنزلتَین یعنی بہشت اور جہنم کے درمیان میں کوئی خاص جگہ ہے؛ اگرچہ ان کی اکثریت بھی خوارج کی طرح اس بات کے معتقد تھے کہ ایسا شخص ہمیشہ کے لئے جہنم میں رہے گا۔[14]

فقط کافروں سے مختص ہونا

جاحظ (متوفی: 255ھ) اور عبد اللہ بن حسن عنبری (دوسری صدی ہجری) اس بات کے معتقد تھے کہ ابدی عذاب کافرِ معاند کے ساتھ مختص ہے؛ لیکن وہ شخص جس نے دین حق کو پہچاننے کی کوشش کی ہو لیکن حقیقت واضح نہ ہونے کی بنا پر اسلام قبول نہ کیا ہو وہ معذور ہے اور جہنم میں اس کا عذاب آخر کار ختم ہو جاتا ہے۔[15]

ابدی عذاب کے منکرین

ابدی عذاب کے منکرین مختلف مذاہب کے علماء کے درمیان موجود ہیں، لیکن اس سلسلے میں مخالفین ایک نظریے پر متفق نہیں ہیں۔ انجام شدہ تحقیقات کے مطابق ابدی عذاب کے منکرین کو 6 گروہوں میں تقسیم کئے جا سکتے ہیں:[16]

  1. دوزخی آخر کار جہنم سے نکل کر بہشت میں داخل ہونگے،[17]
  2. آخر میں جہنم اور اہل جہنم فنا ہونگے،[18]
  3. آخر میں جہنمیوں کو اتنی طاقت اور صبر دی جائے گی کیہ وہ جہنم کے عذاب کو فراموش کریں گے،[19]
  4. آخر میں جہنمیوں کو عذاب کے ساتھ ساتھ نعمت بھی دی جائے گی،[20]
  5. عذاب شرینی میں تبدیل ہوگا،[21]
  6. خلودِ نوعی۔[22]

کہا گیا ہے کہ جہم بن صفوان اور ان کے بعض پیروکار جو بہشت اور جہنم کے فنا کے قائل تھے اس بنا پر خلود پر اعتقاد نہیں رکھتے تھے،[23] کے علاوہ محیی‌ الدین ابن‌ عربی دوزخیوں کے خلود کے عمدہ ترین مخالفین میں سے تھا[24] اور انہوں نے لکھا ہے کہ اہل جہنم اپنے برے اعمال کے مطابق عذاب تحمل کرنے کے بعد اسی جہنم میں خدا کے فضل و کرم اور رحمت سے مستفید ہونگے اور اس کے بعد جہنم کی آگ کو محسوس نہیں کریں گے۔[25] ملا صدرائے شیرازی بھی اپنی بعض کتابوں میں ابن‌ عربی کی طرح اس بات کے معتقد ہیں کہ آخر کار جہنم کا عذاب ختم ہو گا اور اہل جہنم اس کے بعد عذاب اور تکلیف کو محسوس نہیں کریں گے۔[26]

امام خمینی کو بھی علماء کے اس گروہ میں شامل کیا گیا ہے جو اس بات پر اعتقاد رکھتے تھے کہ جہنمی آخر کار عذاب سے نجات پائیں گے اور شفاعت سے بہرہ مند ہونگے[27] اور کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے اس مدعا پر خدا کی رحمت عامہ اور انسان کی الہی فطرت کے زوال‌ ناپذیر ہونے سے تمسک کیا ہے۔[28]

شیعہ علماء کا عقیدہ

قدردان قراملکی کے مطابق شیعہ علماء خلود کے اصل مسئلے کو بالاتفاق سب قبول کرتے ہیں[29] اور شیعہ متکلمین کے مطابق جہنم میں ابدی عذاب صرف کافروں کے ساتھ مختص ہے۔[30]

ابدی عذاب کا کافروں کے ساتھ مختص ہونا

شیخ مفید کے مطابق شیعہ اس بات کے معتقد ہیں کہ ابدی عذاب کافروں کے ساتھ مختص ہے اور گناہ گار اگر جہنم جائے تو بھی اس میں ہمیشہ کے لئے نہیں رہے گا۔[31] ملا صدرا اس بات کے معتقد ہیں کہ کافروں کا جہنم میں ہمیشہ رہنے کا سبب ان کے عقیدے کا فاسد ہونا ہے؛ اس بنا پر عمل اور کردار کے حوالے سے فاسد شخص سے ابدی عذاب ختم ہونے کا احتمال پایا جاتا ہے۔[32]

علامہ طباطبائی کے مطابق قرآن میں عذاب کے خلود اور جاودانگی پر تصریح کی گئی ہے، چنانچہ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 76 میں تصریح کی گئی ہے جہنمی جہنم کی آگ سے کبھی بھی خارج نہیں ہونگے۔ اہل‌ بیت سے منقول بہت ساری احادیث میں بھی اس بات کو واضح طور پر بیان کیا گیا ہے؛ اس بنا پر بعض غیر شیعہ احادیث جن میں جہنم کے عذاب کے ختم ہونے کی بات کی گئی ہے قرآن کے مخالف ہونے کی بنا پر چھوڑ دئے جائیں گے۔[33]

شیعہ علماء کا استدلال

شیعہ علماء ابدی عذاب کے عمومی نہ ہونے اور صرف معاند کافروں کے ساتھ مختص ہونے کو ثابت کرنے کے لئے قرآن کی مختلف آیات اور متعدد احادیث سے استدلال کرتے ہیں؛ من جملہ کہا گیا ہے کہ سورہ انعام آیت نمبر 28 میں «إِلَّا مَا شَاءَ اللَّہُ» کی تعبیر کے ساتھ ابدی عذاب سے کچھ لوگوں کو مستنی قرار دئے گئے ہیں لیکن چونکہ کافروں کا جنہم کی آگ سے خارج نہ ہونے پر اجماع اور اتفاق ہے اس آیت میں مورد استثنی افراد سے مراد وہ فاسقِ لوگ ہیں جو گناہ کبیرہ کے مرتکب ہوئے ہوں اگر خدا کی مشیت شامل حال رہی تو یہ لوگ ابدی عذاب سے خارج ہونگے۔[34] علامہ مجلسی خلود کے بارے میں نقل ہونے والی احادیث کے مجموعے سے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جن لوگوں کی عقل میں کوئی خلل موجود ہو یا جن پر حجت تمام نہ ہوئی ہو وہ جہنم کی آگ میں ہیشہ کے لئے باقی نہیں رہیں گے۔[35]

شیعہ متکلمین کے مطابق گناہ کبیرہ کا مرتکب مؤمن اس کے ایمان کی وجہ سے دائمی ثواب کا مستحق ہے ؛ کیونکہ سورہ زلزال کی آیت نمبر 7 کے مطابق چھوٹے سے چھوٹا عمل خیر پر بھی اجر و ثواب عطا کی جائے گی جبکہ ایمان تو سب سے بڑا عمل خیر ہے، اور چونکہ ایمان کا ثواب دائمی ہے پس ایسا شخص پہلے برے اعمال اور گناہ کبیرہ کی وجہ سے عذاب میں مبتلا ہوگا اس کے بعد بہشت میں دائمی ثواب سے مستفید ہوگا۔[36]

ابدی عذاب اور خدا کی رحمت

مسلمان علماء کا ایک گروہ جو زیادہ تر فلسفیانہ اور عرفانی تمیلات کے حامل ہیں ابدی عذاب اور جہنم میں ہمیشہ رہنے کے مخالف ہیں،[37] اور ابدی عذاب کو خدا کی رحمت کے ساتھ ناسازگار قرار دیتے ہیں۔[38]

ان کے مقابلے میں شیعہ مفسر اور فلسفی علامہ طباطبائی کا کہنا ہے کہ خدا کی رحمت کا مطلب رقّت قلب اور دلسوزی نہیں ہے؛ کیونکہ یہ حالات انسان کی مادی خصوصیات میں سے ہے؛ بلکہ خدا کی رحمت سے مراد کسی اضافی چیز کے عطا کرنے اور افاضہ کرنے کے ہیں جو انسان کی استعداد سے بالاتر ہو۔[39]

ابن‌ عربی کے مطابق بعض انسانوں کی ذات اور فطرت رحمت اور شفقت سے متخلق ہے۔ اگر خدا ان کو بندگان خدا کے امور پر نگرانی اور حکومت کرنے کی اجازت دے دے تو یہ لوگ دنیا سے ہر قسم کی مصیبت اور مشکلات کو خدا کے بدوں سے دور کرنے کی کوشش کرتا۔ ایسی صورت میں وہ خدا جس نے بعض انسانوں کو ایسے کمال سے متصف کیا ہے قطعا خود اس چیز کے زیادہ سزاوار ہیں اور بندوں سے مکمل طور پر عذاب کو دور بھی کر سکتا ہے۔ خدا اپنے بندوں پر ارحم‌ الراحمین یعنی سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔[40]

ابدی عذاب اور عدل و حکمت الہی

بعض مسلمان علماء ابدی عذاب کو عدل الہی کے ساتھ ناسازگار قرار دیتے ہوئے یہ سوال کرتے ہیں کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک شخص جس نے دنیا کی مختصر زندگی میں گناہ اور نافرمانی انجام دی ہے اسے جہنم کی آگ میں ہمیشہ کے لئے جلایا جائے؟۔[41]

بعض دیگر دانشوروں نے بھی ابدی عذاب کو حکمت خداوندی کے ساتھ منافات قرار دیتے ہوئے[42] یہ ادعا کرتے ہیں کہ ابدی عذاب کے مستحق مخلوق کی خلقت کسی طور حکیمانہ اور معقول نہیں ہے۔[43]

تجسم اعمال کے نظریے کے سایے میں ابدی عذاب کا بیان

بعض علماء ابدی عذاب اور عدل الہی میں سازگاری اور عدم تضاد کو صرف اور صرف تجسم اعمال کے نظریے کی رو سے امکان پذیر قرار دیتے ہیں۔[44] ان کے مطابق ابدی عذاب کے ساتھ عدل الہی کی ناسازگاری عذاب خداوندی کو قراردادی اور اعتباری سمجھنے کی وجہ سے وجود میں آتی ہے؛ کیونکہ قیامت اور آخرت کے عذاب کو قراردادی‌ دینا ابدی عذاب کے بارے میں بعض سوالات کے جنم لینے کا سبب بنتا ہے جن کے جواب میں ابدی عذاب کے لئے کوئی معقول ہدف اور علت بیان کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔[45] اسی بنا پر ان کے ایک گروہ نے ابدی عذاب کو بیان کرنے کے لئے تجسم اعمال کے نظریے کے ساتھ تمسک کیا ہے۔[46] دوسری جانب یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ تجسم اعمال کا نظریہ بھی زیادہ سے زیادہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ رہنے کے لئے جواز بن سکتا ہے اس کی تحقق کے لئے کوئی قطعی دلیل۔[47]

اسی سلسلے میں علامہ طباطبائی ابدی عذاب کو حکمت متعالیہ کے فلسفیانہ اصولوں من جملہ حرکت جوہری کی روشنی میں بیان کرتے ہیں۔ آپ معتقد ہیں کہ اگر بد صورت‌ چہرے انسانی روح اور نفس کے ساتھ ایک نہ ہوئے ہوں تو انسان کا نفس ایک مدت بعد عذاب سے چھٹکارا حاصل کر سکتی ہے؛ لیکن اگر گناہ انسان کی نفس کا حصہ بن گیا ہو اور نفس انسان بغیر کسی دباؤ کے آسانی کے ساتھ گناہ انجام دے اور گناہ کے ساتھ سنخیت پیدا کر چکی ہو تو اس صورت میں وہ ابدی عذاب میں ہمیشہ کے لئے باقی رہے گی۔[48]

حوالہ جات

  1. بلانیان و دہقانی محمودآبادی، «خلود در عذاب»، ص177.
  2. سورہ آل‌عمران، آیہ 116؛ سورہ بینہ، آیہ 6، سورہ احزاب، آیہ 64-65۔
  3. سورہ بینہ، آیہ 6؛ سورہ فرقان، آیہ 68-69.
  4. سورہ توبہ، آیہ68؛ سورہ مجادلہ، آیہ 14-17۔
  5. قدردان قراملکی، «تأملی در جاودانگی عذاب کفار 1»، ص130۔
  6. بلانیان و دہقانی محمودآبادی، «خلود در عذاب»، ص178۔
  7. رضایی ہفتادر، «ارزیابی نظریہ انقطاع عذاب جہنم»، ص34۔
  8. عبدالباقی، المعجم المفہرس لالفاظ القرآن الکریم۔
  9. طباطبائی، المیزان، 1417ھ، ج1، ص412۔
  10. شیخ صدوھ، التوحید، 1416ھ، ص407-408؛ مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج8، ص34، 351۔
  11. برای نمونہ: علامہ حلی، کشف المراد، 1427ھ، ص561؛ تفتازانی، شرح المقاصد، 1371ہجری شمسی، ج5، ص134؛ جرجانی، شرح المواقف، 1370ہجری شمسی، ج8، ص307؛ فاضل مقداد، اللوامع الالہیہ، 1387ہجری شمسی، ص441.
  12. عبدالباری، یوم القیامۃ، 2004ء، ص306۔
  13. اشعری، مقالات الاسلامیین، 1400ھ، ص474؛ شہرستانی، الملل و النحل، ج1، ص170، 186.
  14. اشعری، مقالات الاسلامیین، 1400ھ، ص474؛ بغدادی، الفرق بین الفرھ، ص115، 118-119؛ نیز: قاضی عبدالجبار، شرح الاصول الخمسہ، 1408ھ، ص650۔
  15. فخررازی، المحصل، 1411ھ، ص566؛ تفتازانی، 1371ہجری شمسی، شرح المقاصد، ج5، ص131؛ جرجانی، شرح المواقف، 1370ہجری شمسی، ج8، ص308-309۔
  16. قدردان قراملکی،‌ «تأملی در جاودانگی عذاب کفار 2»، ص125.
  17. قدردان قراملکی،‌ «تأملی در جاودانگی عذاب کفار 2»، ص125.
  18. قدردان قراملکی،‌ «تأملی در جاودانگی عذاب کفار 2»، ص125.
  19. قدردان قراملکی،‌ «تأملی در جاودانگی عذاب کفار 2»، ص126.
  20. قدردان قراملکی،‌ «تأملی در جاودانگی عذاب کفار 2»، ص126.
  21. قدردان قراملکی،‌ «تأملی در جاودانگی عذاب کفار 2»، ص127.
  22. جوادی آملی، تسنیم، 1395ہجری شمسی، ج39، ص436؛ قدردان قراملکی،‌ «تأملی در جاودانگی عذاب کفار 2»، ص128.
  23. اشعری، مقالات الاسلامیین، 1400ھ، ص474.
  24. ساطع و رفیعا، «مقایسہ دیدگاہ امام خمینی در باب خلود با سایر آرا مخالف و موافق»، ص79.
  25. ابن‌عربی، الفتوحات المکیہ، ج1، ص114، 303۔
  26. قدردان قراملکی، «تأملی در جاودانگی عذاب کفار 2»، ص121۔
  27. ساطع و رفیعا، «مقایسہ دیدگاہ امام خمینی در باب خلود با سایر آرا مخالف و موافق»، ص95.
  28. ساطع و رفیعا، «مقایسہ دیدگاہ امام خمینی در باب خلود با سایر آرا مخالف و موافق»، ص95۔
  29. قدردان قراملکی، «تأملی در جاودانگی عذاب کفار 2»، ص120.
  30. شیخ مفید، اوائل المقالات، 1330ہجری شمسی، ص14؛ شیخ مفید، رسالہ شرح عقائد الصدوق، 1330ہجری شمسی، ص55؛ طوسی، تجرید الاعتقاد، 1407ھ، ص304، علامہ حلی، کشف المراد، 1427ھ، ص561؛ فاضل مقداد، اللوامع الالہیہ، 1387ہجری شمسی، ص441- 443۔
  31. مفید، اوائل المقالات، 1413ھ، ص46۔
  32. ملاصدرا، اسفار، 1981م، ج4، ص307-310
  33. طباطبائی، المیزان، 1417، ج1، ص412-413۔
  34. برای نمونہ: طوسی، تجرید الاعتقاد، 1407ھ، ص304؛ علامہ حلی، کشف المراد، 1427ھ، ص561-563؛ فاضل مقداد، اللوامع الالہیہ، 1387ہجری شمسی، ص443-445.
  35. مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج8، ص363.
  36. برای نمونہ: طوسی، تجرید الاعتقاد، 1407ھ، ص304؛ علامہ حلی، کشف المراد، 1427ھ، ص561-563؛ فاضل مقداد، اللوامع الالہیہ، 1387ہجری شمسی، ص443-445.
  37. ساطع و رفیعا، «مقایسہ دیدگاہ امام خمینی در باب خلود با سایر آرا مخالف و موافق»، ص79۔
  38. جوادی آملی،‌ تسنیم، 1395ہجری شمسی، ج39، ص431؛ بطحایی، «رحمت الہی و خلود دوزخیان»، ص35۔
  39. طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج1، ص414.
  40. ابن‌عربی، الفتوحات المکیہ، بی‌تا، ج3، ص25.
  41. جوادی آملی، تسنیم، 1389ہجری شمسی، ج2، ص483۔
  42. قدردان قراملکی، «تأملی در جاودانگی عذاب کفار 3»، ص133۔
  43. بلانیان و دہقانی محمودآبادی، «خلود در عذاب»، ص179۔
  44. قدردان قراملکی، «تأملی در جاودانگی عذاب کفار 1»، ص138۔
  45. قدردان قراملکی، «تأملی در جاودانگی عذاب کفار 1»، ص138.
  46. قدردان قراملکی، «تأملی در جاودانگی عذاب کفار 1»، ص137.
  47. قدردان قراملکی، «تأملی در جاودانگی عذاب کفار 1»، ص138.
  48. طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج1، ص412-414

مآخذ

  • ابن‌عربی، محمد بن علی، الفتوحات المکیہ، بیروت،‌ دار صادر، بی تا.
  • اشعری، علی بن اسماعیل، کتاب مقالات الاسلامیین و اختلاف المصلین، تحقیق ہلموت ریتر، ویسبادن، 1400/1980.
  • بطحایی، سید حسن، «رحمت الہی و خلود دوزخیان»، در مجلہ کلام اسلامی، شمارہ 76، زمستان 1389ہجری شمسی۔
  • بغدادی، عبدالقاہر بن طاہر، الفرق بین الفرھ، چاپ محمد محیی الدین عبدالحمید، قاہرہ.
  • بلانیان، محمدرضا و محمدحسین دہقانی محمودآبادی، «خلود در عذاب: با تکیہ بر تقریری متفاوت از آموزہ تجسم اعمال»، در مجلہ قبسات، شمارہ 74، زمستان 1393ہجری شمسی۔
  • تفتازانی، مسعود بن عمر، شرح المقاصد، تحقیق عبدالرحمان عمیرہ، قاہرہ 1409/1989، چاپ افست، قم، 1370-1371ہجری شمسی۔
  • ثقفی تہرانی، محمد، روان جاوید: در تفسیر قرآن مجید، تہران، 1376ہجری شمسی۔
  • جرجانی، علی بن محمد، شرح المواقف، تحقیق محمد بدرالدین نعسانی حلبی، مصر، 1325/1907، چاپ افست، قم، 1370ہجری شمسی۔
  • جوادی آملی، عبداللہ، تفسیر تسنیم، قم، اسراء، سال‌ہای مختلف.
  • ساطع، نفیسہ و مریم رفیعا، «مقایسہ دیدگاہ امام خمینی(س) در باب خلود با سایر آرای مخالف و موافق»، در مجلہ پژوہشنامہ متین، شمارہ 62، بہار 1393ہجری شمسی۔
  • شہرستانی، محمد بن عبدالکریم، الملل و النحل، تحقیق احمد فہمی محمد، قاہرہ، 1367-1368/1948-1949، چاپ افست، بیروت، بی‌تا.
  • شیخ صدوھ، محمد بن علی، التوحید، تحقیق ہاشم حسینی طہرانی، قم، 1357ہجری شمسی،
  • طباطبایی، سید محمدحسین، تفسیر المیزان، قم، نشر اسلامی، چاپ پنجم، 1417ھ۔
  • طوسی، نصیرالدین محمد بن محمد، تجرید الاعتقاد، تحقیق محمدجواد حسینی جلالی، قم، 1407ھ۔
  • عبدالباری، فرج اللہ، یوم القیامہ بین الاسلام و المسیحیۃ و الیہودیۃ، قاہرہ، 2004م.
  • عبدالباقی، محمد فؤاد، المعجم المفہرس لالفاظ القرآن الکریم.
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد، تحقیق حسن حسن‌زادہ آملی، قم، دفتر نشر اسلامی، 1427ھ۔
  • فاضل مقداد، مقداد بن عبداللہ، اللوامع الالہیہ فی المباحث الکلامیہ، تحقیق محمدعلی قاضی طباطبائی، قم، 1387ہجری شمسی۔
  • فخر رازی، محمد بن عمر، کتاب المحصل، تحقیق حسین اتای، قاہرہ، 1411/1911.
  • قاضی عبدالجبار بن احمد، شرح الاصول الخمسۃ، تحقیق عبدالکریم عثمان، قاہرہ، 1408/1988ھ۔
  • قدردان قراملکی، محمدحسن، «تأملی در جاودانگی عذاب کفار»، در مجلہ کیہان اندیشہ، شمارہ‌ہای 72، 73، 74، خرداد تا آبان 1376ہجری شمسی۔
  • مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، دار احیاء التراث العربی، بیروت، 1403ھ۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، اوائل المقالات فی المذاہب و المختارات و یلی‌ہا رسالۃ شرح عقائد الصدوق او تصحیح الاعتقاد، تحقیق عباسقلی وجدی (واعظ چرندابی)، تبریز، 1330ہجری شمسی۔
  • ملاصدرا شیرازی، محمد بن ابراہیم، اسفار (الحکمۃ المتعالیۃ فی الاسفار العقلیۃ الاربعۃ)، بیروت، 1981م.
  • رضایی ہفتادر، حسن، و محمدعلی اسماعیلی و سیفعلی زاہدی‌فر، «ارزیابی نظریہ انقطاع عذاب جہنم در اندیشہ دکتر صادقی تہرانی»، در مجلہ پژوہش‌ہای قرآنی، شمارہ 92، پاییز 1398ہجری شمسی۔