مجتہد کے فتوے کی تبدیلی
مجتہد کے فتوے کی تبدیلی نیا اور مختلف فتویٰ دینا۔ اس مسئلے کو اصطلاحاً "فتویٰ سے عدول"، "مجتہد کی رائے میں تبدیلی"، یا "فتویٰ کا دوسرے فتوے سے منسوخ ہونا" کہا جاتا ہے۔ اس مسئلے کے بارے میں اصولِ فقہ میں "إجزاء" کے عنوان سے، اور فقہ میں "اجتہاد و تقلید" کے ذیل میں مفصل گفتگو کی گئی ہے۔
اگر مجتہد کا فتویٰ کا بدل جائے، تو مقلدین پر لازم ہوتا ہے کہ نئے فتوے پر عمل کریں۔ البتہ پہلے فتوے کے مطابق انجام دیے گئے اعمال کے صحیح ہونے کے بارے میں اختلاف نظر ہے؛ بعض کی نظر کے مطابق کہ وہ اعمال جو پہلے فتویٰ کے مطابق انجام پائے ہیں، چاہے احتیاط کے مطابق ہوں یا نہ ہوں،صحیح ہیں اور انہیں نئے فتوے کے مطابق دوبارہ انجام دینے یا قضا بجا لانے کی ضرورت نہیں ہے۔ کچھ نے یہ بھی کہا ہیکہ، ایسے اعمال صحیح نہیں ہیں لھذا انہیں دوبارہ انجام دیا جائے یا ان کی قضا بجا لائی جائے۔
اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ مجتہد کا فتویٰ کبھی اس شرعی دلیل کے بارے میں نظریہ تبدیل ہونے سے بدل جاتا ہے جس کے ذریعے اس نے حکم شرعی کو ثابت کیا تھا۔ اور کبھی وقت،جگہ سماج اور لوگوں کی ضروریات میں تبدیلی کی وجہ سے بدل جاتا ہے۔
مفہوم شناسی اور اہمیت
فتویٰ میں تبدیلی کا یہ مطلب ہیکہ مجتہداپنے فتویٰ کو ایک موضوع میں بدل دے اور اپنے نظریے سے مختلف فتویٰ دے۔[1] مثال کے طور پر ایک مجتہد پہلے یہ فتویٰ دے کہ نماز میں مکمل سورہ پڑھنا واجب نہیں، اور بعد میں یہ فتویٰ دے کہ مکمل سورہ پڑھنا واجب ہے۔[2]
فتوے میں تبدیلی "فتویٰ سے عدول"، "تبدُّلِ رأی مجتہد (مجتہد کی رائے میں تبدیلی)"، اور "فتویٰ کا دوسرے فتوے سے منسوخ ہونے" کو اصولِ فقہ میں "إجزاء" کے عنوان سے، اور فقہ میں "اجتہاد و تقلید" سے مربوط مباحث میں بیان کیا گیا ہے۔[3]
سابقہ فتوے کے مطابق انجام دئے گئے اعمال
فقہا کے مطابق مجتہد اور مقلد کو نئے فتوے کے مطابق عمل کرنا چاہئے، لیکن جو اعمال پہلے والے فتوے کے مطابق انجام دئے ہیں ان کے صحیح ہونے میں اختلاف رائے پائی جاتی ہے۔[4] بہر حال یہ کہا گیا ہے کہ اگر پہلا فتویٰ احتیاط کی بنا پر تھا تو وہ اعمال صحیح ہیں لیکن اگر پہلا فتویٰ احتیاط کی بنا پر نہیں تھا تو اس صورت میں جو اعمال اس کے مطابق پائے ہیں ان کے صحیح ہونے یا نہ ہونے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔[5] اس مسئلے کے بارے میں مجموعی طور پر شیعہ فقہا کی طرف سے تین نظریات پیش کئے گئے ہیں:
- شیعہ مراجع تقلید سید عبدالاعلی سبزواری (1328 - 1414ھ) و جعفر سبحانی (1308شمسی-) کے نطریے کے مطابق کہ اگر مجتہد کا فتویٰ تبدیل بھی ہو جائے، تو پہلے والے فتویٰ کے مطابق انجام دئے گئے اعمال درست ہیں اور دوبارہ انجام دینے کی ضرورت نہیں؛ چاہیے وہ فتویٰ احتیاط کے موافق ہو یا اس کے مخالف۔[6] سبزواری کا کہنا ہے کہ متقدم تمام فقہا کا بھی یہی نظریہ ہے۔[7] اسی طرح یہ بھی کہا گیا کہ یہ نظریہ شریعت کے آسان اور سہل ہونے کے اصول کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے اور دوسرے لفظوں میں اگر سابقہ فتوے کے مطابق انجام دئے گئے اعمال صحیح نہ ہوں تو وہ سختی اور مشقت (زیادہ سختی) کا باعث بنتے ہیں جس کی قاعدہ نفی عسر و حرج کی بنا پر اسلام میں نفی کی گئی ہے۔[8]
- ایک دوسرے گروہ کا یہ ماننا ہیکہ سابقہ فتوے کے مطابق انجام دئے گئے اعمال صحیح نہیں ہیں چاہیے وہ فتویٰ احتیاط کے موافق ہو یا اس کے مخالف۔[9] جیسا کہ سید محسن حکیم نے کہا ہے کہ آٹھویں صدی ہجری کے فقیہ اور شیعہ متکلم علامہ حلی نے اس بارے میں شیعہ فقہا کے اجماع کا دعویٰ کیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ پہلے فتویٰ کی بنا پر کیے گئے اعمال صحیح نہیں ہیں اور انہیں دوبارہ بجا لانا ہوگا۔[10]
- آخوند خراسانی[11] اور امام خمینی[12] کا ماننا ہیکہ اگر مجتہد کے پہلے فتویٰ کی بنیاد کوئی شرعی دلیل (جیسے خبر واحد) یا عقلی دلیل ہو، اور بعد میں معلوم ہوکہ وہ فتویٰ غلط تھا، تو ایسی صورت میں مجتہد اور مقلد پر لازم ہے کہ اس فتوے کے مطابق انجام دئے گئے اعمال کا اعادہ یا ان کی قضا بجا لائیں لیکن اگر فتوے کی بنیاد اصول عملیہ (مثلاً برائت یا احتیاط) ہوں، تو ان اعمال کا اعادہ یا قضا ضروری نہیں ہے۔[13]
فتوا کی تبدیلی کے اسباب
فتویٰ کی تبدیلی کے بارے میں کہا گیا ہے کہ کبھی اس شرعی دلیل میں مجتہد کی نظر تبدیل ہونے کی وجہ سے فتوا بدل جاتا ہے جس کی بنا پر اس نے فتویٰ دیا تھا؛[14] یا مجتہد کبھی کسی حدیث کی بنا پر ایک فتویٰ دیتا ہے اور بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ وہ حدیث سند یا دلالت کے اعتبار سے ضعیف تھی، یا اس کے برعکس پہلے کسی حدیث کو ضیعف سمجھتا تھا اب وہ حدیث ان کو قابل اطمینان اور صحیح لگتی ہے اسی بنا پر سابقہ فتویٰ سے متفاوت فتویٰ دیتا ہے۔[15]
اور کبھی زمان و مکان کی شرائط میں تبدیلی، عرف میں دگرگونی اور لوگوں کی ضروریات میں تبدیلی کی وجہ سے بھی فتویٰ میں تبدیلی آجاتی ہے۔[16]
نئے فتوے کا اعلان اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت
العروۃ الوثقی کے مصنف سید محمد کاظم طباطبایی یزدی کے مطابق: اگرمجتہد کے فتوے میں تبدیلی آجائے اگر پہلے والا فتویٰ احتیاط کی بناپر تھا، تو مجتہد پر واجب نہیں کہ وہ اپنے مقلدین کے لئے نئے فتوے کا اعلان کرے؛ لیکن اگر پہلا فتویٰ احتیاط کی بنا پر نہیں تھا، تو نیا فتویٰ مقلدین تک پہنچانا واجب ہے۔[17]
طباطبائی یزدی کے قول کے مطابق کہ اگر کوئی شخص کسی دوسرے کو مجتہد کا فتویٰ بتائے، اور بعد میں وہ فتویٰ تبدیل ہو جائے، تو اس تبدیلی سے اسے آگاہ کرنا ضروری نہیں۔[18]
شیعہ مرجع تقلید سید علی سیستانی کے مطابق جب تک کسی شخص کو یقین نہ ہو جائے کہ فتویٰ تبدیل ہوا ہے، وہ توضیح المسائل میں موجود فتوے پر عمل کر سکتا ہے۔ صرف احتمال کی بناپر فتوے کے تبدیل ہونے کے بارے میں تحقیق کرنا ضروری نہیں۔[19]
فتویٰ میں تبدیلی کی کچھ مثالیں
فتووں میں تبدیلی کی مثالیں درج ذیل ہیں:
- سید محسن حکیم (1306ـ 1390ھ) نے اپنی کتاب مستمسک العروۃ میں پہلے اہلِ کتاب کی نجاست کا فتویٰ دیا،[20] اور بعد میں اس فتوے کو تبدیل کیا اور ان کی ذاتی طہارت کا فتویٰ دیا۔[21]
- نجف میں مقیم شیعہ مرجع تقلید محمداسحاق فیاض (1309شمسی-) نے اپنے فتوے میں لڑکی کی بلوغت کی عمر کو 13 سال قمری بتایا تھا جبکہ اس سے پہلے وہ یہ فتویٰ دے چکے تھے کہ لڑکی 9 سال قمری مکمل کرنے کے بعد بالغ ہو جاتی ہے[22]
- امام خمینی (1281-1368شمسی) پہلے شطرنج کو حرام قرار دیا چاہیے وہ شرط کے ساتھ ہو یا بغیر کسی شرط کے ہو[23] لیکن بعد میں اس فتوے میں تبدیلی لائی اور کہا اگر عرف میں شطرنج جوے کا کھیل نہیں اور صرف ذہنی اور فکری مشق تو بغیر شرط کے اسے کھیلنا جائز ہے۔[24]
حوالہ جات
- ↑ سبحانی، المبسوط فی اصول الفقہ، 1432ھ، ج4، ص643۔
- ↑ سبحانی، المبسوط فی اصول الفقہ، 1432ھ، ج4، ص643۔
- ↑ ملاحظہ کریں: آخوند خراسانی، کفایۃ الاصول، مؤسسہ آل البیت(ع)، ص470-471؛ طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1417ھ، ج1، ص59؛ طباطبایی یزدی، تکملۃ العروۃ الوثقی، 1378شمسی، ج2، ص27؛ سبحانی، المبسوط فی اصول الفقہ، 1432ھ، ج4، ص643۔
- ↑ آخوند خراسانی، کفایۃ الاصول، مؤسسہ آل البیت(ع)، ص470؛ مظفر، اصول الفقہ، 1370شمسی، ج1، ص233؛ سبحانی، المبسوط فی اصول الفقہ، 1432ھ، ج4، ص643۔
- ↑ سبحانی، المبسوط فی اصول الفقہ، 1432ھ، ج4، ص643-644۔
- ↑ سبزواری، مہذب الاحکام، دار التفسیر، ج1، ص93؛ سبحانی، المبسوط فی اصول الفقہ، 1432ھ، ج4، ص646۔
- ↑ سبزواری، مہذب الاحکام، دار التفسیر، ج1، ص93۔
- ↑ سبحانی، المبسوط فی اصول الفقہ، 1432ھ، ج4، ص646؛ مکارم شیرازی، انوار الاصول، 1428ھ، ج1، ص335۔
- ↑ سبحانی، المبسوط فی اصول الفقہ، 1432ھ، ج4، ص644۔
- ↑ حکیم، مستمسک العروۃ الوثقی، 1391ھ، ج1، ص81۔
- ↑ آخوند خراسانی، کفایۃ الاصول، مؤسسہ آل البیت(ع)، ص470-471۔
- ↑ امام خمینی، الاجتہاد و التقلید، 1426ھ، ص135-136۔
- ↑ سبحانی، المبسوط فی اصول الفقہ، 1432ھ، ج4، ص645۔
- ↑ قرضاوی، موجبات تغیر الفتوی فی عصرنا، 2007ء، 75۔
- ↑ قرضاوی، موجبات تغیر الفتوی فی عصرنا، 2007ء، 75۔
- ↑ سیفی مازندرانی، المدخل الی دقائق البحوث، 1441ھ، ص67؛ قرضاوی، موجبات تغیر الفتوی فی عصرنا، 2007ء، ص39-40۔
- ↑ طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1417ھ، ج1، ص59۔
- ↑ طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1417ھ، ج1، ص48۔
- ↑ حسینی سیستانی، «تقلید»، سایت رسمی دفتر مرجع عالیقدر آقای سیدعلی حسینی سیستانی۔
- ↑ حکیم، مستمسک العروۃ الوثقی، 1391ھ، ج1، ص374-376۔
- ↑ جناتی، طہارۃ الکتابی فی فتوی السید الحکیم، 1390ھ، ص22-23۔
- ↑ «فتوای جدید حضرت آیت اللہ فیاض دربارہ سن تکلیف دختران: 13 سال قمری یا بروز علائم بلوغ پیش از آن»، سایت شفقنا۔
- ↑ امام خمینی، تحریر الوسیلۃ، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، ج1، ص471۔
- ↑ اصولی و بنی ہاشمی خمینی، رسالہ توضیح المسائل (امام خمینی و سایر مراجع)، جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، ج2، ص932۔
مآخذ
- آخوند خراسانی، محمدکاظم، کفایۃ الاصول، قم، مؤسسہ آل البیت(ع)، بی تا.
- امام خمینی، سید روح اللہ، تحریر الوسیلۃ، تہران، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، بی تا.
- امام خمینی، سید روح اللہ، الاجتہاد و التقلید، تہران، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، چاپ دوم، 1426ھ۔
- اصولی، احسان، و محمدحسن بنی ہاشمی خمینی، رسالہ توضیح المسائل (امام خمینی و سایر مراجع)، قم، جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، بی تا.
- حکیم، سیدمحسن، مستمسک العروۃ الوثقی، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، چاپ چہارم، 1391ھ۔
- حسینی سیستانی، سیدعلی، «تقلید»، سایت رسمی دفتر مرجع عالیقدر آقای سیدعلی حسینی سیستانی، تاریخ مشاہدہ: 21 اردیبہشت 1404ھ۔
- جناتی، محمد ابراہیم، طہارۃ الکتابی فی فتوی السید الحکیم، نجف، مطبعۃ القضاء، 1390ھ۔
- سبحانی، جعفر، المبسوط فی اصول الفقہ، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، چاپ اول، 1432ھ۔
- سبزواری، سید عبد الاعلی، مہذب الاحکام، قم، دار التفسیر، بی تا.
- سیفی مازندرانی، علی اکبر، المدخل الی دقائق البحوث، قم، مؤسسہ بوستان کتاب، چاپ اول، 1441ھ۔
- طباطبایی یزدی، سید محمد کاظم، العروۃ الوثقی، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1417ھ۔
- طباطبایی یزدی، سید محمد کاظم، تکملۃ العروۃ الوثقی، تہران، انتشارات حیدری، 1378ہجری شمسی۔
- «فتوای جدید حضرت آیت اللہ فیاض دربارہ سن تکلیف دختران: 13 سال قمری یا بروز علائم بلوغ پیش از آن»، سایت شفقنا، تاریخ اشاعت: 31 اردیبہشت 1400شمسی، تاریخ اخذ: 19 اردیبہشت 1404ہجری شمسی۔
- قرضاوی، یوسف، موجبات تغیر الفتوی فی عصرنا، بی جا، اتحاد العالمی لعلماء المسلمین، 2007ء۔
- مظفر، محمدرضا، اصول الفقہ، قم، دفتر تبلیغات اسلامی حوزہ علمیہ قم، 1370ہجری شمسی۔
- مکارم شیرازی، ناصر، انوار الاصول، قم، مدرسہ الامام علی بن ابی طالب(ع)، 1428ھ۔