سن تکلیف
سنِ تکلیف، سے مراد انسان کی عمر کا وہ خاص دورانیہ ہے جس میں وہ شرعی نقطہ نظر سے دینی فرائض و تکالیف انجام دینے کا پابند ہوجاتا ہے اور اس پرشرعی حدود لاگو ہوجاتی ہیں۔[1]
شیعہ فقہاء کی معروف رائے کے مطابق، لڑکے پندرہ قمری سال ختم ہونے (عیسوی سال کے حساب سے یہ تقریباً 14 سال، چھ ماہ اور 12 دنوں کے برابر ہے) جبکہ لڑکیاں نو قمری سال تمام ہونے (عیسوی سال کے حساب سے یہ تقریباً آٹھ سال، آٹھ ماہ اور 20 دنوں کے برابر ہے) پر سن تکلیف میں پہنج جاتے ہیں۔[2] یہ نظریہ ان روایات پر مبنی ہے جو ائمہ معصومین علیہم السلام سے منقول ہوئی ہیں۔[3]
لڑکیوں کے سن تکلیف کے سلسلے میں فقہاء کی طرف سے مختلف آراء اور نظریات پیش کئے گئے ہیں،[4] جو زیادہ تر روایتوں میں اختلاف کی وجہ سے ہے۔[5] چودہویں صدی کے شیعہ فقہاء میں سے محمد اسحاق فیاض[6] اور یوسف صانعی[7] نے لڑکیوں کے بالغ ہونے کی عمر، 13 سال بتائی ہے ، ان کی اہم ترین دلیل عمار ساباطی کی امام جعفر صادقؑ سے منقول روایت ہے۔[8] اس روایت میں لڑکے اور لڑکیوں دونوں کا سن تکلیف تیرہ سال بتایا گیا ہے۔[9]
بعض دیگر فقہاء، مختلف روایات کے مطالب کو یکجا کرنے کی بنیاد پر ، مخلتف شرعی فرائض میں تفریق کے قائل ہوئے ہیں۔ [10] مثال کے طور پر، محمد محسن فیض کاشانی (متوفی: 1091ھ) نے لڑکیوں کے لیے ان کے انفرادی امور مثلا نماز و روزہ وغیرہ میں 13 سال، شرعی حدود جیسے امور میں 9 سال جبکہ عتق اور وصیت جیسے معاملات میں سن تکلیف 10 سال، سن تکلیف قرار دیا ہے۔[11]
سن تکلیف کے مسئلہ کا بلوغت سے گہرا تعلق ہے اور اسے فقہ کے مختلف ابواب میں دینی فرائض انجام دینے کی شرائط کے طور پر زیر بحث لایا گیا ہے۔[12] فقہاء نے بلوغت کو سن تکلیف تک پہنچنے کے معیار میں سے قرار دیا ہے۔[13]
حوالہ جات
- ↑ رجایی، المسائل الفقہیۃ، 1421ھ، ص166؛ کلینی، الکافی، 1407ھ، ج7، ص197-198۔
- ↑ رجوع کیجیے: بحرانی، الحدائق الناضرۃ، 1363شمسی، ج 20، ص348۔
- ↑ رجایی، المسائل الفقہیۃ، 1421ھ، ص159۔
- ↑ رجوع کیجیے: فیض کاشانی، مفاتیح الشرایع، ج1، ص14۔
- ↑ رجوع کیجیے: بروجردی، جامع احادیث الشیعۃ، 1415ھ، ج1، ص353 و ج20، ص181-182؛ نورمفیدی، بررسی فقہی بلوغ دختران، 1395شمسی، ص201۔
- ↑ «تغییر فتوای یکی از مراجع تقلید دربارہ سن تکلیف دختران»، خبرگزاری حوزہ۔
- ↑ صانعی، بلوغ دختران، 1386شمسی، ص35-36۔
- ↑ رجایی، المسائل الفقہیۃ، 1421ھ، ص168۔
- ↑ بروجردی، جامع احادیث الشیعۃ، 1415ھ، ج1، ص353۔
- ↑ نورمفیدی، بررسی فقہی بلوغ دختران، 1395شمسی، ص252-253۔
- ↑ فیض کاشانی، مفاتیح الشرایع، ج1، ص14۔
- ↑ جناتی، «نظریہ تحول شریعت با تحول زمان»، در کتاب بلوغ دختران (بہ کوشش مہدی مہریزی)، 1376شمسی، ص269۔
- ↑ شیخ طوسی، المبسوط فی فقہ الامامیۃ، 1387ھ، ج2، ص283؛ نجفی، جواہر الکلام، 1362شمسی، ج26، ص42۔
مآخذ
- بحرانی، یوسف، الحدائق الناضرۃ فی احکام العترۃ الطاہرۃ، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1363ہجری شمسی۔
- بروجردی، سید حسین، جامع احادیث الشیعۃ، قم، نشر مہر، 1415ھ۔
- «تغییر فتوای یکی از مراجع تقلید دربارہ سن تکلیف دختران»، خبرگزاری حوزہ، تاریخ درج مطلب: 30 اردیبہشت 1400شمسی، تاریخ مشاہدہ: 27 اسفند 1403ہجری شمسی۔
- جناتی، محمدابراہیم، «نظریہ تحول شریعت با تحول زمان»، در کتاب بلوغ دختران (بہ کوشش مہدی مہریزی)، قم، مرکز مطالعات و تحقیقات اسلامی، 1376ہجری شمسی۔
- رجایی، سید محمد، المسائل الفقہیۃ، قم، انتشارات علمیۃ، چاپ اول، 1421ھ۔
- شیخ طوسی، محمد بن حسن، المبسوط فی فقہ الامامیۃ، تصحیح محمد باقر بہبودی، تہران، المکتبۃ المرتضویۃ لإحیاء الآثار الجعفریۃ، چاپ سوم، 1387ھ۔
- صانعی، یوسف، بلوغ دختران، قم، میثم تمار، 1386ہجری شمسی۔
- فیض کاشانی، محمد بن شاہ مرتضی، مفاتیح الشرایع، تحقیق سید مہدی رجایی، قم، کتابخانہ عمومی آیت اللہ مرعشی نجفی(رہ)، 1401ھ۔
- کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح علی اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دار الکتب الاسلامیۃ، 1407ھ۔
- نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام، بیروت، دار احیاء تراث العربی، 1362ہجری شمسی۔
- نور مفیدی، سید مجتبی، بررسی فقہی بلوغ دختران، قم، مرکز فقہی ائمہ اطہار(ع)، 1395ہجری شمسی۔