جامع الشرائط فقیہ
جامع الشرائط فقیہ وہ مجتہد ہے جس میں مرجعیت کے لیے ضروری علمی، عملی، اعتقادی اور اخلاقی شرائط پائی جاتیں ہیں۔ بہت سی فقہی عبادات کے ساتھ ساتھ مالی، عدالتی اور سیاسی امور کا جواز اس فقیہ کی موجودگی اور ان کے احکامات پر منحصر ہے۔ فقہ کی کتابوں میں عدالت، اسلامی معیارات و ضوابط کا علم (فقاہت) اور امور میں حسن تدبیر جیسی خصوصیات کو جامع الشرائط فقیہ کی شرائط میں شمار کیا گیا ہے، جن کے بغیر جامع الشرائط فقیہ سے مخصوص عہدوں اور منصب پر فائز ہونا کسی کے لئے ممکن نہیں ہے۔
جامع الشرائط فقیہ کی تین ذمہ داریاں؛ فتوا دینا، قضاوت کرنا اور ولایت، ہیں۔ تاہم شیخ انصاری اور آخوند خراسانی جیسے فقہاء نے عوام پر سیاسی ولایت اور سرپرستی کو فقہاء کے دائرہ اختیار سے باہر سمجھا ہے۔ دوسری طرف ملا احمد نراقی اور امام خمینی، جیسے بعض فقہا، آیات، احادیث اور عقلی دلائل کی روشنی میں ولایت فقیہ کے معتقد ہیں اور وہ پیغمبر اکرمؐ اور ائمہ معصومینؑ کے تمام اختیارات اور عہدے جامع الشرائط فقیہ کے لئے بھی ثابت سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک دین و دنیا سے متعلق امور جیسے؛ حدود الٰہی کا نفاذ، یتیموں، مجنوں اور مفقود اور غائب لوگوں کے مال کی حفاظت، امامِ معصومؑ کے اموال میں دخل و تصرف، اسلامی حکومت کا قیام وغیرہ جامع الشرائط فقیہ کے اختیارات کے دائرہ میں شامل ہیں۔
اہمیت اور تعریف
فقیہ یا مجتہد جامع الشرائط کی اصطلاح، فقہ کے مختلف ابواب میں کثرت سے پائے جانے والے عنوانات میں سے ایک ہے، اور فقہاء نے بہت سے مسائل کے بیان کے دوران اس عنوان کو اپنی کتابوں کے امر بالمعروف و نہی از منکر،[1] قضاوت،[2] افتاء، اجتہاد و تقلید،[3] نماز جمعہ،[4] رؤیت ہلال،[5] امور حسبیہ،[6] جہاد،[7] اور سیاسی امور میں ولایت[8] جیسے ابواب میں استعمال کیا ہے۔
شیعہ فقہاء کے آراء کے مطابق، بہت سی فقہی عبادات کا جواز اور درستگی نیز مالی، عدالتی، سیاسی اور سماجی امور میں دخل و تصرف کا دارومدار جامع شرائط فقیہ کی موجودگی پر ہے؛ مثلاً امر بمعروف و نہی از منکر کے غیر لسانی مراتب[9] یا امام زمانہ کی غیبت کے زمانے میں جہاد ان کی اجازت سے ہی ممکن ہوگا۔[10]
جامع الشرایط فقیہ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ انہیں مرجعیت کے لئے علمی، عملی، اعتقادی اور اخلاقی شرائط کا حامل ہونا ضروری ہے۔[11] صاحب جواہر اور شیخ انصاری کے مطابق جو فقیہ شرعی ادلہ سے احکام استنباط کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو اور مرجعیت کے منصب پر فائز ہونے کے لیے ضروری شرائط، جیسے ایمان، عدالت، زہد اور تقوا کا حامل ہو تو وہ جامع الشرایط فقیہ کہلاتا ہے۔[12] معاصر مرجع تقلید عبد اللہ جوادی آملی کے مطابق، جس شخص نے صرف فقہ پڑھا ہو اگر اس میں احکام استنباط کرنے کی صلاحیت موجود ہو بھی تو اسے جامع الشرایط فقیہ نہیں کہہ سکتے ہیں۔[13]
متجزی مجتہد کے ساتھ باہمی فرق
جامع الشرائط فقیہ کے لیے ذکر شدہ خصوصیات کے مطابق یہ مُتَجَزّی فقیہ یا مجتہد سے مختلف ہے۔ متجزی فقیہ وہ شخص ہے جو فقہ کے بعض حصوں میں شرعی احکام استنباط کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو؛[14] جب کہ جامع الشرایط مجتہد مطلق اجتہاد کی صلاحیت رکھتا ہے یعنی فقہ کے تمام ابواب میں استنباط کرسکتا ہے[15]اور فقہ کے تمام ابواب میں اجتہاد کی طاقت رکھنے کے ساتھ ساتھ اس نے عملی طور پر بھی بہت سے احکام استنباط کیا ہو[16] اور مرجعیت کے لئے ضروری شرائط کا حامل بھی ہو۔
شرایط
فقہی نصوص میں جامع الشرایط فقیہ کے لیے کچھ اوصاف اور خصوصیات بیان ہوئے ہیں، ان خصوصیات کے بغیر جامع الشرایط فقیہ کے لیے بیان کردہ عہدوں اور منصب پر فائز ہونا ممکن نہیں ہے۔ شیعہ مرجع تقلید حسین علی منتظری نے اپنی کتاب دراسات فی ولایۃ الفقیہ میں اسلامی معاشرے کے حاکم کے لیے آٹھ شرائط بیان کی ہیں اور ان شرائط پر پورا اترنے والے کو جامع الشرائط فقیہ قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق وہ شرائط درج ذیل ہیں: عقل، اسلام اور ایمان، عدل، اسلام کے معیارات و ضوابط کا علم (فقاہت)، معاملات کے بہتر انتظام کی صلاحیت اور حسُنِ مدیریت، مرد، حلال زادہ اور کنجوسی و لالچ جیسی ناخوشگوار خصلتوں سے اجتناب۔[17]
جوادی آملی کا یہ بھی ماننا ہے کہ جامع الشرائط فقیہ کو تین خصوصیات کا حامل ہونا چاہئے: مطلق اجتہاد، مطلق عدالت، انتظامی طاقت اور قائدانہ صلاحیت۔[18] ان کے نزدیک مطلق اجتہاد سے مراد مجتہد کو اصول دین اور فروع دین میں سے عبادات، عقود، احکام، ایقاعات اور اسلامی سیاست کا علم ہونا ہے۔[19] وہ مطلق عدل کے بارے میں کہتے ہیں کہ ایک جامع الشرایط مجتہد کو نظریاتی عقل کے علاوہ عملی عقل کے اعتبار سے بھی مکمل ہونا چاہیے؛ یعنی وہ دینی علم کو خود سمجھے بھی اور اسے اپنی روزہ مرہ زندگی اور اسلامی معاشرے میں صحیح طور پر نافذ بھی کرے اور خواہشات نفس کی اطاعت کا اسیر نہ ہو۔[20] ملکی اور غیر ملکی سیاسی امور کی صحیح بصیرت اور ان کے نظم و نسق کا فن آنا جامع الشرائط فقیہ کی دیگر شرائط میں سے ہیں جس کی طرف جوادی آملی نے اشارہ کیا ہے۔[21]
فرائض اور عہدے
ملا احمد نراقی اور امام خمینی جیسے فقہاء عام طور پر اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ پیغمبر اکرمؐ اور ائمہ معصومینؑ کے تمام اختیارات اور فرائض جامع الشرایط فقیہ کے لئے ثابت ہیں اور لوگوں کے دینی اور دنیوی امور جیسے؛ حدود الہی کا نفاذ، یتیم، مجنون اور غائب افراد کے مال کی حفاظت، امام معصومؑ کے مال میں تصرف، اسلامی حکومت کا قیام وغیرہ ان کے دائرہ اختیار میں شامل ہیں۔[22]
دوسری طرف، شیخ مرتضیٰ انصاری جیسے فقہا، فقیہ کے اختیارات کا دائرہ محدود سمجھتے ہیں اور اموال اور جانوں پر ولایت کو فقیہ کے دائرہ اختیار سے خارج سمجھتے ہیں۔[23][یادداشت 1]
فقہی کتابوں میں جامع الشرایط فقہاء کے فرائض افتا، قضاوت اور ولایت نامی تین شعبوں میں بیان ہوئے ہیں۔[24] تاہم جوادی آملی کے عقیدہ کے مطابق، مندرجہ بالا تین فرائض کے علاوہ، جامع الشرائط فقیہ کا اسلامی معاشرے کے سرپرست ہونے کے ناطے، امام معصومؑ کی پیروی کرتے ہوئے ان کا سب سے اہم فریضہ قرآن و سنت معصومین کو انحرافات سے حفاظت کرنا ہے۔[25]
فتوا دینا
شرعی احکام کو بغیر کسی دخل و تصرف کے معتبر ذرائع سے حاصل کر کے مقلدین کی خدمت میں پیش کرنے کے لئے مسلسل اجتہاد کرنے کو جامع الشرائط فقیہ کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے سمجھا جاتا ہے۔[26] البتہ بعض فقہاء کے نزدیک غیر جماع الشرایط فقیہ کا فتویٰ دینا جائز نہیں ہے اور لوگ بھی اس کی تقلید نہیں کر سکتے ہیں۔[27] اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ فتوا دینے کے میدان میں جامع الشرایط مجتہد کا اعلم ہونا ضروری ہے۔[28]
قضاوت
لوگوں کے درمیان تنازعات اور اختلافات کو دور کرنے کے لیے عدالتی احکام جاری کرنا جامع الشرایط فقیہ کی دیگر ذمہ داریوں میں سے ایک ہے۔[29] مقبولہ عمر بن حنظلۃ اور مشہورہ ابی خدیجہ، جیسی روایات سے استناد کرتے ہوئے فقہا اس بات کے قائل ہیں کہ امام صادقؑ نے اپنے شیعوں کو عدالتی امور کی انجام دہی میں جامع شرایط فقیہ کی طرف رجوع کرنے کا کہا ہے۔[30] البتہ اگر جامع الشرایط فقہا کی تعداد کافی نہ ہو تو حکومت کا فقیہ سربراہ، غیر مجتہد لوگوں کو جج کے عہدے پر مقرر کر سکتا ہے جو عدالتی مسائل سے واقف ہوں۔[31]
ولایت
جامع الشرایط مجتہد کی ذمہ داریوں میں سے ایک، دوسروں کے امور میں سرپرستی، تسلط اور ان میں دخل و تصرف،[32] نیز اسلامی احکام کو نافذ کرنے اور مذہبی اقدار کے تحقق کے لیے اسلامی معاشرے کی مدیریت کرنا ہے۔[33] اس بنا پر غیبت امام زمانہ(عج) میں امت مسلمہ کی حکومت، جامع الشرایط فقیہ کے سپرد کی گئی ہے۔[34]
شیعہ فقہاء کے درمیان جامع الشرایط فقیہ کی دوسروں پر سیاسی سرپرستی اور ولایت اختلافی مسائل میں سے ایک ہے۔ شیخ انصاری،[35] آخوند خراسانی،[36] مرزا نائینی اور ابو القاسم خویی جیسے فقہا، فقیہ کے لئے اس قسم کی ولایت کے مخالف ہیں۔[37] ان کے مقابلے میں ملا احمد نراقی،[38] شیخ جعفر کاشف الغطا[39] اور ان کے شاگرد محمد حسن نجفی،[40] امام خمینی[41] اور حسین علی منتظری[42] آیات و روایات اور عقلی دلائل کی روشنی میں جامع الشرایط فقیہ کے لئے ولایت کا عہدہ اور منصب ثابت سمجھتے ہیں۔
معاصر فقیہ محمد حسین حسینی تہرانی نے ولایت فقیہ کو قبول کرتے ہوئے اسلامی حکومت اور معاشرے کے انتظام کے لیے اس کی ضرورت کو تسلیم کیا ہے،[43] اور معتقد ہیں کہ فقہا معصوم نہیں ہیں اور ان سے غلطیاں سرزد ہونے کا امکان ہے؛ اس لیے ان کے کلام کی حجیت ان کی زندگی تک محدود ہے۔[44]
حوالہ جات
- ↑ علامہ حلی، ارشاد الاذہان، 1410ق، ج1، ص352-353؛ شہید اول، غایۃ المراد، 1414ق، ج1، ص505-511.
- ↑ شہید اول، الدورس الشرعیہ، 1417ق، ج2، ص66-67؛ فیض کاشانی، مفاتیح الشرائع، کتابخانہ مرعشی نجفی، ج3، ص248.
- ↑ حر عاملی، الفوائد الطوسیۃ، 1403ق، ص421-422.
- ↑ محقق کرکی، رسائل محقق الکرکی (رسالۃ الصلاۃ الجمعۃ)، 1409ق، ج1، ص137-171؛ نجفی، جواہر الکلام، 1404ق، ج11، ص188.
- ↑ خویی، موسوعۃ الإمام الخوئی، 1418ق، ج 1، ص357.
- ↑ بحرانی، أجوبۃ المسائل البہبہانیۃ ، 1406ق، ص66-77؛ خویی، موسوعۃ الإمام الخوئی، 1418ق، ج 1، ص360
- ↑ خویی، منہاج الصالحین، 1410ق، ج1، ص366.
- ↑ منتظری، دراسات فی ولایۃ الفقیہ و فقہ الدولۃ الإسلامیۃ، 1409ق، ج1، ص425؛ موسوی خلخالی، الحاکمیۃ فی الاسلام، 1425ق، ص545-552.
- ↑ امام خمینی، تحریرالوسیلہ، دارالعلم، ج1، ص476-482.
- ↑ خویی، منہاج الصالحین، 1410ق، ج1، ص366.
- ↑ محامد، «فقیہ جامع الشرائط و منصب افتاء»، مندرج در پایگاہ اطلاع رسانی حوزہ.
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، 1404ق، ج21، ص399؛ شیخ انصاری، القضاء و الشہادات، 1415ق، ص229-231.
- ↑ جوادی آملی، ولایت فقیہ ولایت فقاہت و عدالت، 1378ش، ص136.
- ↑ شیخ انصاری، القضاء و الشہادات، 1415ق، 231-232.
- ↑ مرکز اطلاعات و مدارک اسلامی، فرہنگ نامہ اصول فقہ، 1389ش، ص75.
- ↑ مرکز اطلاعات و مدارک اسلامی، فرہنگ نامہ اصول فقہ، 1389ش، ص75.
- ↑ منتظری، دراسات فی ولایۃ الفقیہ، 1409ق، ج1، ص407.
- ↑ جوادی آملی، ولایت فقیہ ولایت فقاہت و عدالت، 1378ش، ص136.
- ↑ جوادی آملی، ولایت فقیہ ولایت فقاہت و عدالت، 1378ش، ص137.
- ↑ جوادی آملی، ولایت فقیہ ولایت فقاہت و عدالت، 1378ش، ص138.
- ↑ جوادی آملی، ولایت فقیہ ولایت فقاہت و عدالت، 1378ش، ص139.
- ↑ نراقی، عوائد الایام، 1417ق، ص536؛ امام خمینی، ولایت فقیہ، 1423ق، ص50-51.
- ↑ انصاری، کتاب المکاسب، 1415ق، ج3، ص544-560.
- ↑ انصاری، کتاب المکاسب، 1415ق، ج3، ص544؛ سبزواری، مہذب الاحکام، 1413ق، ج1، ص38؛ منتظری، دراسات فی ولایۃ الفقیہ، 1409ق، ج2، ص106-107.
- ↑ جوادی آملی، ولایت فقیہ ولایت فقاہت و عدالت، 1378ش، ص242-243.
- ↑ نراقی، عوائد الایام، 1417ق، ص542؛ جوادی آملی، ولایت فقیہ ولایت فقاہت و عدالت، 1378ش، ص243.
- ↑ شفتی گیلانی، تحفۃ الأبرار، 1409ق، ج1، ص103.
- ↑ منتظری، مبانی فقہی حکومت اسلامی، 1409ق، ج8، ص286.
- ↑ انصاری، کتاب المکاسب، 1415ق، ج3، ص545؛ منتظری، دراسات فی ولایۃ الفقیہ، 1409ق، ج2، ص145؛ جوادی آملی، ولایت فقیہ ولایت فقاہت و عدالت، 1378ش، ص244.
- ↑ منتظری، دراسات فی ولایۃ الفقیہ، 1409ق، ج2، ص145-146.
- ↑ منتظری، دراسات فی ولایۃ الفقیہ، 1409ق، ج2، ص175.
- ↑ انصاری، کتاب المکاسب، 1415ق، ج3، 545.
- ↑ منتظری، دراسات فی ولایۃ الفقیہ، 1409ق، ج1، ص11؛ جوادی آملی، ولایت فقیہ، 1378ش، ص129 و 244.
- ↑ فیرحی، نظام سیاسی و دولت در اسلام، 1386ش، ص242و243.
- ↑ انصاری، کتاب المکاسب، 1415ق، ج3، ص544-560.
- ↑ کدیور، نظریہ ہای دولت در فقہ شیعہ، 1387ش، ص36.
- ↑ فیرحی، «شیعہ و دموکراسی مشورتی در ایران»، ص139و141.
- ↑ نراقی، عوائد الایام، 1417ق، ص529-530.
- ↑ کاشف الغطاء، کشف الغطاء، 1422ق، ج1، ص207؛ فیرحی، قدرت دانش مشروعیت در اسلام، 1394ش، ص313.
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، 1404ق، ج21، ص395-396؛ ج22، ص155، ص195؛ منتظری، مبانی فقہی حکومت اسلامی، 1409ق، ج1، ص47-48.
- ↑ امام خمینی، کتاب البیع، 1421ق، ج2، ص638-642.
- ↑ منتظری، دراسات فی ولایۃ الفقیہ، 1409ق، ج1، ص11-12.
- ↑ طہرانی، محمدحسین، ولایت فقیہ در حکومت اسلام، ج37 ص74.
- ↑ طہرانی، محمدحسین، امام شناسی، ج18، ص220.
نوٹ
- ↑ علامہ طہرانی ولی فقیہ کے لیے دو عمومی ذمہ داریوں کے قائل ہیں: اول: ان احکام کو بیان کرنا جو شریعت کی طرف سے ان کے لئے آئے ہیں، اور جس چیز میں اجتہاد کرتے ہیں اس کے بارے میں فتویٰ دینا، دوم: بعض امور (بعض جزئی امور) میں ولایت کا مظاہرہ کرنا اور احکام جاری کرنا۔ وہ ایسے معاملات میں ان کی طرف سے احکام کے اجراء کو انشائی سمجھتے ہیں، کیونکہ وہ اپنی روحانی قوت اور باطنی پاکیزگی کے اعتبار سے روح کے اعلی درجے تک پہنچا ہے اور تجرد اور اطلاق تک پہنچا ہے اور اسے حکم انشاء کرنے کا حق حاصل ہوا ہے۔ (طہرانی، ولایت فقیہ درحکومت اسلام، ج3، ص74)
مآخذ
- امام خمینی، سید روح اللہ، رسالہ توضیح المسائل (مُحَشَّی)، قم، مرکز انتشارات اسلامی، 1424ھ۔
- امام خمینی، سید روح اللہ، تحریر الوسیلہ، قم، دارالعلم، بی تا.
- امام خمینی، سید روح اللہ، کتاب البیع، قم، انتشارات اسماعیلیان، 1363ہجری شمسی۔
- امام خمینی، سید روح اللہ، ولایت فقیہ، تہران، مؤسسہ تنظيم و نشر آثار امام خمينى قدس سرہ ، 1423ھ۔
- انصاری، مرتضی، القضاء و الشہادات، قم، کنگرہ جہانى بزرگداشت شیخ اعظم انصارى ، 1415ھ۔
- انصاری، مرتضی، کتاب المکاسب، قم، كنگرہ جہانى بزرگداشت شيخ اعظم انصارى ، 1415ھ۔
- بحرانی، یوسف بن احمد، أجوبۃ المسائل البہبہانیۃ ، قم، دار إحیاء الأحیاء لعلماء البحرین و القطیف والأحساء ، 1406ھ۔
- جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ ولایت فقاہت و عدالت، قم، نشر اسراء، 1378ہجری شمسی۔
- حر عاملی، محمد بن حسن، الفوائد الطوسیۃ، قم، نشر علمیہ، 1403ھ۔
- خویی، ابوالقاسم، منہاج الصالحین، قم، نشر مدینہ العلم، 1410ھ۔
- خویی، ابوالقاسم، موسوعۃ الامام الخویی، قم، مؤسسۃ إحیاء آثار الإمام الخوئی، 1418ھ۔
- سبزواری، عبدالاعلی، مہذب الاحکام في بيان الحلال و الحرام ، قم، موسسہ المنار، 1413ھ۔
- شفتی گیلانی، سید محمدباقر، تحفۃ الأبرار الملتقط من آثار الأئمۃ الأطہار ، اصفہان، انتشارات کتابخانہ مسجد سید، 1409ھ۔
- شہید اول، محمد بن مکی، الدروس الشرعیۃ فی فقہ الإمامیۃ ، قم، انتشارات اسلامی، 1417ھ۔
- علامہ حلی، حسن بن یوسف، إرشاد الأذہان إلى أحکام الإیمان ، قم، انتشارات اسلامی، 1410ھ۔
- فیرحی، داوود، «شیعہ و دموکراسی مشورتی در ایران»، مجلہ دانشکدہ حقوق و علوم سیاسی دانشگاہ تہران، ش67، 1384ہجری شمسی۔
- فیرحی، داوود، قدرت دانش مشروعیت در اسلام، تہران، نشر نی، 1396ہجری شمسی۔
- فیرحی، ٰداوود، نظام سیاسی و دولت در اسلام، تہران، انتشارات سمت، 1386ہجری شمسی۔
- فیض کاشانی، محمد بن محسن، مفاتیح الشرائع، قم، کتابخانہ آیت اللہ مرعشی نجفی، بی تا.
- کاشف الغطاء، جعفر بن خضر، کشف الغطاء عن مبہمات الشریعۃ الغراء، قم، انتشارات اسلامی، 1422ھ۔
- کدیور، محسن، نظریہ ہای دولت در فقہ شیعہ، تہران، نشر نی، 1387ہجری شمسی۔
- محامد، علی، «فقیہ جامع الشرائط و منصب افتاء»، در فصلنامہ پژوہش ہای فقہ و مبانی حقوق اسلامی، شمارہ 3-4، 1389ش، مندرج در پایگاہ اطلاع رسانی حوزہ، تاریخ بازدید 29 تیر 1401ہجری شمسی۔
- محقق کرکی، علی بن حسین، رسائل المحقق الکرکی، قم، کتابخانہ آیت اللہ مرعشی نجفی، 1409ھ۔
- مرکز اطلاعات و مدارک اسلامی، فرہنگ نامہ اصول فقہ، قم، پژوہشگاہ علوم و فرہنگ اسلامی، 1389ہجری شمسی۔
- مشکینی، میرزا علی، اصطلاحات الأصول و معظم أبحاثہا، قم، الہادی، 1416ھ۔
- منتظری، حسینعلی، دراسات فی ولایۃ الفقیہ و فقہ الدولۃ الإسلامیۃ ، قم، نشر تفکر، 1409ھ۔
- منتظری، حسینعلی، مبانی فقہی حکومت اسلامی، مترجم محمود صلواتی و ابوالفضل شکوری، قم، موسسہ کیہان، 1409ھ۔
- موسوی خلخالی، سید محمد مہدی، الحاکمیۃ فی الاسلام، قم، مجمع اندیشہ اسلامی، 1425ھ۔
- نجفی، محمدحسن، جواہر الکلام فی شرح شرایع الاسلام، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1404ھ۔
- نراقی، احمد، عوائد الایام، قم، انتشارات دفتر تبليغات اسلامى حوزہ علميہ قم ، 1417ھ۔