"کن فیکون" کے نسخوں کے درمیان فرق
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 1: | سطر 1: | ||
{{زیر تعمیر}} | {{زیر تعمیر}} | ||
'''"کُنْ فَیَکونُ"''' "ہو جاؤ پس ہو جاتا ہے" کے معنی میں ہے۔ یہ عبارت [[قرآن]] کی مختلف آیتوں میں آئی ہے؛ من جملہ [[سورہ بقرہ]] کی [[آیت]] نمبر 117 میں ارشاد رب العزت ہے: <font color=green>{{حدیث|إِذا قَضی أَمْراً فَإِنَّما یقُولُ | '''"کُنْ فَیَکونُ"''' "ہو جاؤ پس ہو جاتا ہے" کے معنی میں ہے۔ یہ عبارت [[قرآن]] کی مختلف آیتوں میں آئی ہے؛ من جملہ [[سورہ بقرہ]] کی [[آیت]] نمبر 117 میں ارشاد رب العزت ہے: <font color=green>{{حدیث|إِذا قَضی أَمْراً فَإِنَّما یقُولُ لَہُ کنْ فَیکونُ|ترجمہ=جب وہ(خدا) کسی کام کے کرنے کا فیصلہ کر لیتا ہے۔ تو اسے بس اتنا ہی کہتا ہے کہ ہو جا اور وہ ہو جاتا ہے۔}}</font> | ||
[[اہل سنت]] اکثر [[مفسرین]] کہتے ہیں: خدا موجودات میں سے ہر ایک کی خلقت میں خود لفظ "کُن" (ہوجاؤ) کا استعمال کرتا ہے؛ لیکن [[شیعہ]] مفسرین اس عبارت کی [[تفسیر]] میں [[ائمہ معصومین]] سے منقول [[احادیث]] کی روشنی میں اس بات کے متعقد ہیں کہ "کُنْ فَیکونُ" ایک حقیت کی تمثیلی بیان ہے اور وہ یہ کہ "کسی چیز کی خلقت میں خدا کا ارادہ اس چیز کی ایجاد کے مساوی ہے"۔ اس بنا پر ایسا نہیں ہے کہ [[خدا]] موجودات کی خلقت میں خود لفظ "کن" کا استعمال کرتا ہو۔ بلکہ اس لفظ کے ادا کرنے ضرورت ہی نہیں کیونکہ جونہی خدا کسی چیز کی خلقت کا ارادہ کرتا ہے تو وہ چیز خلق ہو جاتی ہے۔ | [[اہل سنت]] اکثر [[مفسرین]] کہتے ہیں: خدا موجودات میں سے ہر ایک کی خلقت میں خود لفظ "کُن" (ہوجاؤ) کا استعمال کرتا ہے؛ لیکن [[شیعہ]] مفسرین اس عبارت کی [[تفسیر]] میں [[ائمہ معصومین]] سے منقول [[احادیث]] کی روشنی میں اس بات کے متعقد ہیں کہ "کُنْ فَیکونُ" ایک حقیت کی تمثیلی بیان ہے اور وہ یہ کہ "کسی چیز کی خلقت میں خدا کا ارادہ اس چیز کی ایجاد کے مساوی ہے"۔ اس بنا پر ایسا نہیں ہے کہ [[خدا]] موجودات کی خلقت میں خود لفظ "کن" کا استعمال کرتا ہو۔ بلکہ اس لفظ کے ادا کرنے ضرورت ہی نہیں کیونکہ جونہی خدا کسی چیز کی خلقت کا ارادہ کرتا ہے تو وہ چیز خلق ہو جاتی ہے۔ | ||
سطر 6: | سطر 6: | ||
بعض عرفاء کہتے ہیں کہ اہل [[بہشت]] اور عرفاء خدا کی اذن سے مقام "کُنْ فَیکونُ" کے مالک ہوتے ہیں۔ | بعض عرفاء کہتے ہیں کہ اہل [[بہشت]] اور عرفاء خدا کی اذن سے مقام "کُنْ فَیکونُ" کے مالک ہوتے ہیں۔ | ||
==قرآن میں تذکرہ == | ==قرآن میں تذکرہ == | ||
"کُنْ فَیکونُ" کی عبارت "ہو جاؤ پس ہو جاتا ہے" کے معنی میں ہے۔ یہ عبارت [[قرآن]] کی آٹھ(8) آیتوں میں مختلف موضوعات جسیے [[حضرت عیسیؑ]] کی پیدائش، [[قیامت]] کی خلقت اور اس کے وقوع کے بارے میں استعمال ہوئی ہے۔<ref> | "کُنْ فَیکونُ" کی عبارت "ہو جاؤ پس ہو جاتا ہے" کے معنی میں ہے۔ یہ عبارت [[قرآن]] کی آٹھ(8) آیتوں میں مختلف موضوعات جسیے [[حضرت عیسیؑ]] کی پیدائش، [[قیامت]] کی خلقت اور اس کے وقوع کے بارے میں استعمال ہوئی ہے۔<ref> سورہ بقرہ، آیہ ۱۱۷؛ سورہ آل عمران، آیات ۴۷و۵۹؛ سورہ انعام، آیہ ۷۳؛ سورہ نحل، آیہ ۴۰؛ سورہ مریم، آیہ ۳۵؛ سورہ یس، آیہ ۸۲؛ سورہ غافر، آیہ۶۸۔</ref> مثلا [[سورہ بقرہ]] آیت نمبر 117، [[سورہ مریم]] آیت نمبر 35 اور [[سورہ آل عمران]] آیت نمبر 37 میں حضرت عیسیؑ کی ولادت سے متعلق آیا ہے: <font color=green>{{حدیث|إِذا قَضی أَمْراً فَإِنَّما یقُولُ لَہُ کنْ فَیکونُ|ترجمہ=جب وہ(خدا) کسی کام کے کرنے کا فیصلہ کر لیتا ہے۔ تو اسے بس اتنا ہی کہتا ہے کہ ہو جا اور وہ ہو جاتا ہے۔}}</font><ref>ترجمہ: محمد حسین نجفی</ref> | ||
[[سورہ غافر]] کی آیت نمبر 68 میں بھی "کُنْ فَیکونُ" کی عبارت استعمال ہوئی ہے: <font color=green>{{حدیث|هُوَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ ۖ فَإِذَا قَضَىٰ أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُونُ|ترجمہ=وہ وہی ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے وہ جب کسی کام کا فیصلہ کر لیتا ہے تو اس سے کہتا ہے کہ ہو جا تو وہ ہو جاتا ہے۔}}</ <ref>ترجمہ: محمد حسین نجفی۔</ref> <font color=green>[[سورہ نحل]] آیت نمبر 40 اور [[سورہ یس]] آیت نمیر 82 میں بھی آیا ہے:{{إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَن يَقُولَ لَهُ كُن فَيَكُونُ|ترجمہ=اس کا معاملہ تو بس یوں ہے کہ جب وہ کسی چیز کے پیدا کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو کہہ دیتا ہے کہ ہو جا تو وہ (فوراً) ہو جاتی ہے۔}}</font><ref> ترجمہ: محمد حسین نجفی</ref> | |||
== | ==مختلف تفسیریں==<!-- | ||
در [[مجمع البیان فی تفسیر القرآن (کتاب)|مجمع البیان]] | در [[مجمع البیان فی تفسیر القرآن (کتاب)|مجمع البیان]] سہ دیدگاہ از [[تفسیر قرآن|مفسران]] مسلمان در تفسیر این عبارت نقل شدہ است: دیدگاہ اول این عبارت را نوعی تمثیل میداند؛ با این دلیل کہ آنچہ اکنون موجود نیست، نمیتواند مخاطب قرار گیرد و بہ آن امر شود۔ دیدگاہ دوم میگوید: امر خداوند بہ موجودن شدن چیزی، واقعی است و خداوند این کار را برای آن انجام میدہد کہ فرشتگان بدانند موجود جدیدی خلق شدہ است۔ بر طبق دیدگاہ سوم ہم امرْ واقعی است۔ برپایہ آن، ازآنجا کہ ہر موجودی پیش از بہوجودآمدن، نزد خدا معلوم است، خداوند میتواند بہ لحاظ آن، امر کند کہ موجود شود۔<ref>طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱، ص۳۶۸۔</ref> | ||
[[فضل بن حسن طبرسی|طَبرسی]] از مفسران [[ | [[فضل بن حسن طبرسی|طَبرسی]] از مفسران [[شیعہ]] قرن ششم قمری، تفسیر نخست را پذیرفتہ و دو تفسیر اخیر را بہ برخی از علمای اہل سنت نسبت دادہ است۔<ref>طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱، ص۳۶۸۔</ref> آلوسی از مفسران قرن سیزدہمِ [[اہل سنت]]، گفتہ است کہ بیشتر علمای اہل سنت، معتقدند کہ خداوند واقعا میگوید: «کُنْ» (باش)؛ چراکہ معنای لفظی آیہ این را میگوید۔<ref>آلوسی، روح المعانی، ۱۴۱۵ق، ج۱۲، ص۵۵۔</ref> در مقابل مفسران شیعہ بر این باورند کہ مراد از چنین بیانی این است کہ خداوند ہمینکہ ارادہ کند، چیزی موجود شود، موجود میشود۔<ref>طباطبائی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۲، ص۲۴۹؛ طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۶، ص۵۵۶؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ ش، ج۱۱، ص۲۳۳۔</ref> | ||
[[سیدمحمدحسین طباطبایی]] در [[المیزان]] با بیان تمثیلیبودن عبارت «کُنْ فَیکونُ»، | [[سیدمحمدحسین طباطبایی]] در [[المیزان]] با بیان تمثیلیبودن عبارت «کُنْ فَیکونُ»، آوردہ است کہ [[خداوند]] در ایجاد موجودات، حقیقتا از لفظ «کن» استفادہ نمیکند؛ چراکہ ہم مستلزم [[تسلسل|تَسَلسُل]] است و ہم بیفایدہ است۔ از آن رو مستلزم تسلسل است کہ برای ایجاد ہمین «کُنْ» ہم بہ «کُنْ» دیگری نیاز ہست و برای ایجاد «کُنْ» اخیر نیز بہ «کُنْ» دیگر و ہمینطور تا بینہایت۔ بیفایدہبودن آن ہم بہ این دلیل است کہ اولا ہنوز موجودی نیست کہ مخاطب «کُنْ» قرار بگیرد و ثانیا اگر موجودی باشد، نیازی بہ لفظ «کن» ندارد؛ زیرا پیش از آن موجود شدہ است۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۷، ص۱۱۵۔</ref> | ||
این معنا در برخی از روایات شیعی | این معنا در برخی از روایات شیعی ہم آمدہ است۔ برای مثال در [[بحار الانوار]] از [[امام علی]](ع) نقل شدہ است کہ [[خداوند]] ہرگاہ ارادہ چیزی کند، میگوید: «موجود باش» و بیدرنگ موجود میشود؛ نہ بہ این معنا کہ صدایی از او در گوشہا بنشیند یا فریادی شنیدہ شود، بلکہ سخن خداوند ہمان چیزی است کہ ایجاد میکند و صورت میبخشد و پیش از آن چیزی وجود نداشت۔<ref>مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۴ق، ج۴، ص۲۵۴و۲۵۵۔</ref> | ||
===وجود اشیاء | ===وجود اشیاء ہمان تکلم خداوند است=== | ||
برخی از [[عرفان|عارفان]] «کُنْ فَیکونُ» را امری وجودی و | برخی از [[عرفان|عارفان]] «کُنْ فَیکونُ» را امری وجودی و ہمان نفس ظہور اشیاء دانستہاند۔ از دیدگاہ اینان وجود اشیاء، ہمان سخن گفتن خداوند بہ وسیلہ آنہا است۔ بہ عبارت دیگر ہمہ اشیاء کلام وجودی [[خداوند]] ہستند۔<ref>صمدی آملی، شرح دفتر دل علامہ حسنزادہ آملی، بیتا، ص۵۲۔</ref> | ||
==برخورداری | ==برخورداری اہل بہشت از مقام کن فیکون== | ||
بہ باور برخی چون [[صدرالمتألہین شیرازی|صدرالمُتَألّہین]] و [[محمدمحسن فیض کاشانی|فیض کاشانی]]، اہل [[بہشت]] و عارفان از مقام «کُنْ فَیکونُ» برخوردار میشوند؛ یعنی ہرچہ بہ اذن الہی بخواہند، بلافاصلہ موجود میشود۔<ref>صمدی آملی، شرح دفتر دل علامہ حسنزادہ آملی، بیتا، صص۵۲-۵۵؛ صدرالمتالہین، الحکمۃ المتعالیۃ، ۱۹۸۱ م، ج۶، صص۹-۱۰۔</ref> آنہا در این زمینہ بہ روایاتی استناد میکنند؛ ازجملہ از [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیامبر(ص)]] نقل میکنند کہ خداوند در [[بہشت]] خطاب بہ بہشتیان میگوید: من بہ ہر چیزی «کُن» (موجود باش) بگویم، آن چیز موجود میشود؛ اینک این مقام را برای شما جعل میکنم تا بہ ہر چیزی «کُن» بگویید، آن چیز محقق گردد۔<ref>صدرالمتالہین، الحکمۃ المتعالیۃ، ۱۹۸۱م، ج۶، ص۹-۱۰؛ فیض کاشانی، علم الیقین، ۱۴۱۸ ق، ج۲، ص۱۲۹۲؛ صدرالمتالہین، تفسیر القرآن الکریم، ۱۳۶۶ش، ج۵، ص۱۹۷؛ آشتیانی، شرح بر زادالمسافر، ۱۳۸۱ ش، ج۱، ص۲۱۔</ref> | |||
==در اشعار فارسی== | ==در اشعار فارسی== | ||
شاعران فارسی زبان، | شاعران فارسی زبان، ہمچون [[عطار]]،<ref>عطار نیشابوری، دیوان اشعار، قصیدہ ۵۔</ref> [[مولوی]]،<ref>مولوی، دیوان شمس، غزل ۱۳۴۴۔</ref> [[سعدی]] و [[نظامی]] در اشعار خود از عبارت «کُنْ فَیکونُ» استفادہ کردہاند۔ برای نمونہ، سعدی سرودہ است:<ref>سعدی، غزلیات، غزل ۲۵۔</ref> | ||
{{شعر|زر}}{{ب|قضای کن فیکون است حکم بار خدای|بدین سخن سخنی در نمیتوان افزود}}{{پایان شعر}} | {{شعر|زر}}{{ب|قضای کن فیکون است حکم بار خدای|بدین سخن سخنی در نمیتوان افزود}}{{پایان شعر}} | ||
ہمچنین در اشعار نظامی آمدہ است:<ref>نظامی، خمسہ، لیلی و مجنون، بخش ۱۔</ref> | |||
{{شعر|زر}}{{ب|ای | {{شعر|زر}}{{ب|ای ہرچہ رمیدہ وارمیدہ|در کن فیکون تو آفریدہ}}{{پایان شعر}} | ||
--> | --> | ||
سطر 38: | سطر 38: | ||
==منابع== | ==منابع== | ||
* قرآن کریم، | * قرآن کریم، ترجمہ محمدمہدی فولادوند۔ | ||
* آلوسی، سیدمحمود، روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم، بیروت، دارالکتب | * آلوسی، سیدمحمود، روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، ۱۴۱۵ق۔ | ||
* آشتیانی، جلالالدین، شرح بر زادالمسافر، قم، بوستان کتاب، | * آشتیانی، جلالالدین، شرح بر زادالمسافر، قم، بوستان کتاب، ۱۳۸۱ش۔ | ||
* [https:// | * [https://ganjoor۔net/saadi/mavaez/ghazal2/sh25/ سعدی، مواعظ، غزل ۲۵۔] | ||
* | * صدرالمتالہین، الحکمۃ المتعالیۃ فی الاسفار العقلیۃ الاربعۃ، بیروت، دار احیاء التراث، ۱۹۸۱م۔ | ||
* | * صدرالمتالہین، تفسیر القرآن الکریم، قم، انتشارات بیدار، ۱۳۶۶ش۔ | ||
* صمدی آملی، داوود، شرح دفتر دل | * صمدی آملی، داوود، شرح دفتر دل علامہ حسنزادہ آملی، بیجا، ناشر چاپی: نبوغ؛ ناشر دیجیتالی: مرکز تحقیقات رایانہای قائمیہ اصفہان، بیتا۔ | ||
* طباطبائی، سیدمحمدحسین، المیزان، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ پنجم، | * طباطبائی، سیدمحمدحسین، المیزان، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ پنجم، ۱۴۱۷ق۔ | ||
* طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، | * طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تہران، ناصرخسرو، چاپ سوم، ۱۳۷۲ش۔ | ||
* [https:// | * [https://ganjoor۔net/attar/divana/ghasidea/sh5/ عطار نیشابوری، دیوان اشعار، قصیدہ ۵۔] | ||
* فیض کاشانی، محمد بن | * فیض کاشانی، محمد بن شاہ مرتضی، علم الیقین، قم، انتشارات بیدار، ۱۴۱۸ق۔ | ||
* مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت، انتشارات | * مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت، انتشارات موسسہ الوفاء، ۱۴۰۴ق۔ | ||
* مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر | * مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الإسلامیۃ، ۱۳۷۴ش۔ | ||
* [https:// | * [https://ganjoor۔net/moulavi/shams/ghazalsh/sh1344/ مولوی، دیوان شمس، غزل ۱۳۴۴۔] | ||
* [https:// | * [https://ganjoor۔net/nezami/5ganj/leyli-majnoon/sh1/ نظامی، خمسہ، لیلی و مجنون، بخش ۱۔] | ||
{{قرآنی اصطلاحات}} | {{قرآنی اصطلاحات}} | ||
{{قرآن کی مشہور آیتیں}} | {{قرآن کی مشہور آیتیں}} |
نسخہ بمطابق 11:11، 9 نومبر 2018ء
یہ تحریر توسیع یا بہتری کے مراحل سے گزر رہی ہے۔تکمیل کے بعد آپ بھی اس میں ہاتھ بٹا سکتے ہیں۔ اگر اس صفحے میں پچھلے کئی دنوں سے ترمیم نہیں کی گئی تو یہ سانچہ ہٹا دیں۔اس میں آخری ترمیم Waziri (حصہ · شراکت) نے 6 سال قبل کی۔ |
"کُنْ فَیَکونُ" "ہو جاؤ پس ہو جاتا ہے" کے معنی میں ہے۔ یہ عبارت قرآن کی مختلف آیتوں میں آئی ہے؛ من جملہ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 117 میں ارشاد رب العزت ہے: إِذا قَضی أَمْراً فَإِنَّما یقُولُ لَہُ کنْ فَیکونُ (ترجمہ: جب وہ(خدا) کسی کام کے کرنے کا فیصلہ کر لیتا ہے۔ تو اسے بس اتنا ہی کہتا ہے کہ ہو جا اور وہ ہو جاتا ہے۔)
اہل سنت اکثر مفسرین کہتے ہیں: خدا موجودات میں سے ہر ایک کی خلقت میں خود لفظ "کُن" (ہوجاؤ) کا استعمال کرتا ہے؛ لیکن شیعہ مفسرین اس عبارت کی تفسیر میں ائمہ معصومین سے منقول احادیث کی روشنی میں اس بات کے متعقد ہیں کہ "کُنْ فَیکونُ" ایک حقیت کی تمثیلی بیان ہے اور وہ یہ کہ "کسی چیز کی خلقت میں خدا کا ارادہ اس چیز کی ایجاد کے مساوی ہے"۔ اس بنا پر ایسا نہیں ہے کہ خدا موجودات کی خلقت میں خود لفظ "کن" کا استعمال کرتا ہو۔ بلکہ اس لفظ کے ادا کرنے ضرورت ہی نہیں کیونکہ جونہی خدا کسی چیز کی خلقت کا ارادہ کرتا ہے تو وہ چیز خلق ہو جاتی ہے۔
بعض عرفاء کہتے ہیں کہ اہل بہشت اور عرفاء خدا کی اذن سے مقام "کُنْ فَیکونُ" کے مالک ہوتے ہیں۔
قرآن میں تذکرہ
"کُنْ فَیکونُ" کی عبارت "ہو جاؤ پس ہو جاتا ہے" کے معنی میں ہے۔ یہ عبارت قرآن کی آٹھ(8) آیتوں میں مختلف موضوعات جسیے حضرت عیسیؑ کی پیدائش، قیامت کی خلقت اور اس کے وقوع کے بارے میں استعمال ہوئی ہے۔[1] مثلا سورہ بقرہ آیت نمبر 117، سورہ مریم آیت نمبر 35 اور سورہ آل عمران آیت نمبر 37 میں حضرت عیسیؑ کی ولادت سے متعلق آیا ہے: إِذا قَضی أَمْراً فَإِنَّما یقُولُ لَہُ کنْ فَیکونُ (ترجمہ: جب وہ(خدا) کسی کام کے کرنے کا فیصلہ کر لیتا ہے۔ تو اسے بس اتنا ہی کہتا ہے کہ ہو جا اور وہ ہو جاتا ہے۔)[2]
سورہ غافر کی آیت نمبر 68 میں بھی "کُنْ فَیکونُ" کی عبارت استعمال ہوئی ہے: هُوَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ ۖ فَإِذَا قَضَىٰ أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُونُ (ترجمہ: وہ وہی ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے وہ جب کسی کام کا فیصلہ کر لیتا ہے تو اس سے کہتا ہے کہ ہو جا تو وہ ہو جاتا ہے۔)</ [3] سورہ نحل آیت نمبر 40 اور سورہ یس آیت نمیر 82 میں بھی آیا ہے:سانچہ:إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَن يَقُولَ لَهُ كُن فَيَكُونُ[4]
مختلف تفسیریں
حوالہ جات
منابع
- قرآن کریم، ترجمہ محمدمہدی فولادوند۔
- آلوسی، سیدمحمود، روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، ۱۴۱۵ق۔
- آشتیانی، جلالالدین، شرح بر زادالمسافر، قم، بوستان کتاب، ۱۳۸۱ش۔
- سعدی، مواعظ، غزل ۲۵۔
- صدرالمتالہین، الحکمۃ المتعالیۃ فی الاسفار العقلیۃ الاربعۃ، بیروت، دار احیاء التراث، ۱۹۸۱م۔
- صدرالمتالہین، تفسیر القرآن الکریم، قم، انتشارات بیدار، ۱۳۶۶ش۔
- صمدی آملی، داوود، شرح دفتر دل علامہ حسنزادہ آملی، بیجا، ناشر چاپی: نبوغ؛ ناشر دیجیتالی: مرکز تحقیقات رایانہای قائمیہ اصفہان، بیتا۔
- طباطبائی، سیدمحمدحسین، المیزان، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ پنجم، ۱۴۱۷ق۔
- طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تہران، ناصرخسرو، چاپ سوم، ۱۳۷۲ش۔
- عطار نیشابوری، دیوان اشعار، قصیدہ ۵۔
- فیض کاشانی، محمد بن شاہ مرتضی، علم الیقین، قم، انتشارات بیدار، ۱۴۱۸ق۔
- مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت، انتشارات موسسہ الوفاء، ۱۴۰۴ق۔
- مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الإسلامیۃ، ۱۳۷۴ش۔
- مولوی، دیوان شمس، غزل ۱۳۴۴۔
- نظامی، خمسہ، لیلی و مجنون، بخش ۱۔