استسقاء

ویکی شیعہ سے
(نماز طلب باران سے رجوع مکرر)

اِسْتِسْقاء، ایک دینی عمل ہے جس میں اللہ تعالی سے بارش طلب کی جاتی ہے۔ احادیث میں خشک سالی کے دوران استسقا اور اس کے لئے مذکور نماز اور دعاوں کی تاکید ہوئی ہے۔ روایات میں بھی بعض موارد آئے ہیں کہ جہاں پیغمبر اکرمؐ اور ائمہ معصومینؑ نے استسقا (بارش کی طلب) کی ہے۔

دینی کتابوں میں استسقاء کے لئے مخصوص آداب ذکر ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک، قحط سالی کے دوران نماز استسقاء پڑھنا مستحب ہے۔ بہتر ہے کی اس نماز کے پڑھنے سے پہلے تین دن روزہ رکھیں اور تیسرے دن شہریوں کے ساتھ صحرا میں جائیں اور نماز استسقاء کو جماعت کے ساتھ پڑھنے کے بعد گریہ و زاری کے ساتھ اللہ تعالی سے بارش کی درخواست کریں۔

امام رضاؑ کا استسقاء ان میں سے ایک مشہور استسقاء ہے شیخ صدوق نے اپنی کتاب عیون اخبار الرضا میں کہا ہے کہ استسقاء کے بعد بارش ہوئی۔ ایک اور استسقاء قم کے مشہور مرجع تقلید سید محمدتقی خوانساری کا ہے کہ سنہ1323 شمسی ہجری میں قم کے لوگوں کی درخواست پر آپ نے انجام دی اور شدید بارش ہوگئی۔

استسقاء کی تعریف اور تاریخ

استسقاء عربی زبان میں پانی طلب کرنے کو کہا جاتا ہے۔ اور فقہ کی اصطلاح میں قحط سالی اور خشک سالی کے دوران اللہ تعالی سے بارش کی درخواست کرنے کو کہا جاتا ہے۔[1] حدیثی[2] اور فقہی کتابوں[3] «نماز استستقاء» (صلاۃ الاستسقاء)کے نام سے ایک باب موجود ہے جس میں استسقاء کی شرائط ذکر ہوئی ہیں۔

استسقا کا تاریخچہ

پانی کی قلت کے دوران اللہ تعالی سے بارش طلب کرنا اسلام سے پہلے کی اقوام میں بھی رواج تھا۔ جیسا کہ ابن شہر آشوب نقل کرتا ہے کہ کسی خشکسالی کے دوران ابوطالب بارش کی درخواست کرنے عبدالمطلب کی خاندان کے جوانوں کے ساتھ مسجدالحرام گئے اور قصیدہ لامیہ اسی استسقاء کے بعد ہونے والی بارش کے نتیجے میں آپ نے پڑھا ہے۔[4]

استسقا کے بارے میں بعض احادیث

حدیث کی کتابوں میں بعض احادیث میں پیغمبر اکرمؐ اور ائمہؑ کی استسقا، خشکسالی میں اللہ تعالی سے بارش کی درخواست، نماز استسقا، اس دوران کی دعا اور دیگر شرائط نقل ہوئی ہیں۔ مثال کے طور پر یہ منقول ہوئی ہے کہ ایک گروہ نے رسول خداؐ کے حضور پانی کم ہونے کی شکایت کی۔[5] آپؐ منبر پر رونق افروز ہوئے اور بارش کے لئے دعا کی [6] اسی طرح ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ،[7] امام علیؑ،[8] اور امام رضاؑ)[9] نے استسقا کی ہے۔

استسقاء کے لئے رسول خداؐ اور ائمہؑ سے دعائیں بھی نقل ہوئی ہیں۔[10] صحیفہ سجادیہ کی انیسویں دعا بارش کے لئے ہے۔[11]

نماز استسقا اور طلب باران کا طریقہ

استسقاء کے اجتماع میں جس نماز کو پڑھی جاتی ہے اسے نماز استسقا کہا جاتا ہے۔ فقہا کے فتوے کے مطابق خشکسالی کے دوران اس نماز کا پڑھنا مستحب ہے۔[12] اگر جماعت کے ساتھ پڑھی جاتی ہے۔[13] نماز استسقا دو رکعت ہے جس کی تکبیر اور قنوت نماز عیدین کی مانند ہیں۔ اور قنوت میں عید والی قنوت کے بجائے بارش کے لئے دعا کی جاتی ہے۔[14]

نماز کے بعد امام جماعت اپنی عبا کو الٹا کر کے کاندھے پر ڈال کر منبر پر چڑھتا ہے اور رو بقبلہ ہوکر سو مرتبہ بلند آواز سے تکبیر پڑھتا ہے۔ پھر دائیں جانب کے لوگوں کی طرف رخ کر کے سو مرتبہ سبحان‌اللہ پھر بائیں جانب کے لوگوں کی طرف رخ کر کے سو مرتبہ لاحَولَ وَ لا قُوَّۃَ إِلّا بِاللّہ پڑھتا ہے۔ پھر لوگوں کی طرف دیکھتا ہے اور سو مرتبہ الحمدللہ کا ورد کرتا ہے۔ پھر اپنے ہاتھوں کو بلند کر کے اللہ تعالی سے بارش کی دعا کرتا ہے اور لوگ بھی ان کے ساتھ ساتھ دعا کرتے ہیں۔ اس کے بعد خطبہ دیا جاتا ہے اور گریہ و زاری کیا جاتا ہے۔[15]

دیگر احکام

استسقا اور اس کی نماز کے بعض دیگر مستحبات مندرجہ ذیل ہیں:

  • لوگ تین دن روزہ رکھتے ہیں اور تیسرے دن نماز پڑھنے گھر سے نکل کر صحرا کی طرف جاتے ہیں۔[16]
  • تیسرا دن پیر کا دن ہونا بہت اچھا ہے اگر ممکن نہ ہوا تو پھر جمعے کا دن ہونا چاہیے۔[17]
  • بہتر یہ ہے کہ اس نماز کو مسجد میں نہ پڑھی جائے۔[18]
  • اس نماز میں اذان اور اقامت کے بدلے «اَلصَّلاۃ اّلصَّلاۃ»[19] کہا جاتا ہے۔
  • مستحب ہے کہ بچوں اور بوڑھوں کو بھی ساتھ صحرا میں لے جائیں۔[20] اور چھوٹے بچوں کو ان کی ماوں سے الگ کریں۔[21] صاحب جواہر کا کہنا ہے کہ اس طرح کرنے کا مقصد گریہ و زاری کے لئے ماحول بنانا ہے تاکہ اللہ کی رحمت اس طرف مبذول ہوسکے۔[22]

مشہور استسقاء

شیخ صدوق نے امام رضاؑ کی نماز استسقا کا قصہ تفصیل سے بیان کیا کہا اور ان کا کہنا ہے کہ یہ استسقا ایک خشکسالی کے سبب عباسی خلیفہ مأمون کی درخواست پر ہوا اور امام رضاؑ کی دعا کے بعد شدید بارش ہوئی۔[23]

اسی طرح سید عبدالحسین مرعشی نے سنہ 1900ع‍ میں شیعیانِ زنگبار کو ہدایت کی کہ نماز صبح کے بعد نماز استسقاء بجا لائیں اور نماز کے تمام ہونے پر مینہ برسنا شروع ہوا۔[24]

نیز قم کے مرجع تقلید سید محمد تقی خوانساری کی نماز استسقا بھی مشہور ہے منقول ہے کہ سنہ 1363ھ میں قم میں بارش نہ ہونے کی وجہ سے خشکسالی کا سماں تھا۔ سید محمد تقی خوانساری دو دن مسلسل قم کے اطراف کے صحراؤں میں گئے اور نماز استسقاء قائم کی اور دوسرے روز شدید بارش ہوئی۔[25]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. عبدالرحمان، معجم المصطلحات و الالفاظ الفقہیہ، دارالفضیلہ، ج۲، ص۳۷۸؛ سعدی، القاموس الفقہی، ۱۴۰۸ق، ص۱۷۵.
  2. ملاحظہ کریں: کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۳، ص۴۶۲-۴۶۳؛ شیخ طوسی، تہذیب‌الاحکام، ۱۴۰۷ق، ج۳، ص۱۴۷-۱۵۴؛ حر عاملی، وسایل‌الشیعہ، ۱۴۰۹ق، ج۸، ص۵-۱۶.
  3. ملاحظہ کریں: محقق حلی، شرایع‌الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۱، ص۹۸-۹۹؛ شیخ صدوق، المقنع، ۱۴۱۵ق، ص۱۵۱-۱۵۲؛ علامہ حلی، تحریر احکام الشرعیہ، ۱۴۲۰ق، ج۱، ص۲۹۱-۲۹۲؛ نجفی، جواہرالکلام، ۱۴۰۴ق، ج۱۲، ص۱۲۷-۱۵۵.
  4. ابن‌شہرآشوب، مناقب، ۱۳۷۹ق، ج۱، ص۱۳۷.
  5. حر عاملی، وسایل‌الشیعہ، ۱۴۰۹ق، ج۸، ص۷.
  6. حر عاملی، وسایل‌الشیعہ، ۱۴۰۹ق، ج۸، ص۷، ۸، ۹.
  7. حر عاملی، وسایل‌الشیعہ، ۱۴۰۹ق، ج۸، ص۷.
  8. شیخ طوسی، تہذیب‌الاحکام، ۱۴۰۷ق، ج۳، ص۱۵۱.
  9. حر عاملی، وسایل‌الشیعہ، ۱۴۰۹ق، ج۸، ص۸-۹.
  10. ملاحظہ کریں: مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج‏۸۸، ص۳۳۱-۳۳۴.
  11. صحیفہ سجادیہ، دعای نوزدہم.
  12. محقق حلی، شرایع‌الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۱، ص۹۸؛ نجفی، جواہرالکلام، ۱۴۰۴ق، ج۱۲، ص۱۲۷.
  13. علامہ حلی، تحریر احکام الشرعیہ، ۱۴۲۰ق، ج۱، ص۲۹۱؛ محقق حلی، شرایع‌الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۱، ص۹۸؛ نجفی، جواہرالکلام، ۱۴۰۴ق، ج۱۲، ص۱۴۴.
  14. نجفی، جواہرالکلام، ۱۴۰۴ق، ج۱۲، ص۱۳۷؛ محقق حلی، شرایع‌الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۱، ص۹۸.
  15. نجفی، جواہرالکلام، ۱۴۰۴ق، ج۱۲، ص۱۴۶-۱۴۸.
  16. نجفی، جواہرالکلام، ۱۴۰۴ق، ج۱۲، ص۱۳۷؛ محقق حلی، شرایع‌الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۱، ص۹۸-۹۹.
  17. نجفی، جواہرالکلام، ۱۴۰۴ق، ج۱۲، ص۱۴۰؛ محقق حلی، شرایع‌الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۱، ص۹۸-۹۹.
  18. نجفی، جواہرالکلام، ۱۴۰۴ق، ج۱۲، ص۱۴۱؛ محقق حلی، شرایع‌الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۱، ص۹۹.
  19. نجفی، جواہرالکلام، ۱۴۰۴ق، ج۱۲، ص۱۵۲.
  20. نجفی، جواہرالکلام، ۱۴۰۴ق، ج۱۲، ص۱۴۲؛ محقق حلی، شرایع‌الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۱، ص۹۹.
  21. نجفی، جواہرالکلام، ۱۴۰۴ق، ج۱۲، ص۱۴۴؛ محقق حلی، شرایع‌الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۱، ص۹۹.
  22. نجفی، جواہرالکلام، ۱۴۰۴ق، ج۱۲، ص۱۴۴.
  23. شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا، ۱۳۷۸ق، ج۲، ص۱۶۸-۱۶۹.
  24. روغنی، شیعیان خوجہ در آئینہ تاریخ، 1387شمسی ہجری ص81
  25. شریف‌رازی، گنجینہ دانشمندان، ۱۳۵۲ش، ج۱، ۳۲۴۔

مآخذ

  • ابن‌شہرآشوب مازندرانی، محمد بن علی، مناقب آل‌ابی‌طالب علیہم‌السلام، قم، ‏علامہ، ‏چاپ اول، ۱۳۷۹ھ۔
  • ابوجیب، سعدى، القاموس الفقہی لغۃً و اصطلاحاً،‌ دمشق، دارالفکر، چاپ دوم، ‌۱۴۰۸ھ۔‌
  • حر عاملى، محمد بن حسن، وسایل‌الشیعہ،‌ تحقیق و تصحیح گروہ پژوہش مؤسسہ آل‌البیت،‌ قم، مؤسسہ آل‌البیت،‌ چاپ اول، ‌۱۴۰۹ھ۔
  • روغنی، زہرا، شیعیان خوجہ در آئینہ تاریخ، تہران، پژوہشگاہ علوم انسانی و مطالعات فرہنگی، چاپ اول، ۱۳۸۷شمسی ہجری۔
  • شریف‌رازی، محمد، گنجینہ دانشمندان، تہران، کتابفروشی اسلامیہ، ۱۳۵۲شمسی ہجری۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا، تحقیق و تصحیح مہدی لاجوردی، تہران، نشر جہان، چاپ اول، ۱۳۷۸شمسی ہجری۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، المقنع، قم، مؤسسہ امام ہادی(ع)، چاپ اول، ۱۴۱۵ھ۔
  • شیخ طوسى، محمد بن حسن، ‌تہذیب‌الاحکام، ‌ تہران، دار الکتب الاسلامیہ، چاپ چہارم، ‌۱۴۰۷ھ۔‌
  • عبدالرحمان، محمود،‌ معجم المصطلحات و الالفاظ الفقہیۃ،‌ قاہرہ، دارالفضیلہ.
  • علامہ حلّى، حسن بن یوسف، تحریر الاحکام الشرعیۃ على مذہب الامامیہ، تحقیق و تصحیح ابراہیم بہادرى،‌‌ قم، مؤسسہ امام صادق، چاپ اول، ۱۴۲۰ھ۔‌
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح علی‌اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، ۱۴۰۷ھ۔
  • محقق حلی، جعفر بن حسن، شرائع الاسلام فی مسائل الحلال و الحرام، تحقیق و تصحیح عبدالحسین محمدعلی بقال، قم، اسماعیلیان، چاپ دوم، ۱۴۰۸ھ۔
  • مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار الجامعۃ لدرر اخبار الائمۃ الاطہار، بیروت، دار احیاء‌ التراث العربی، چاپ دوم، ۱۴۰۳ھ۔
  • نجفى، محمدحسن، جواہر الكلام فی شرح شرائع الاسلام، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ ہفتم، ۱۴۰۴ھ۔