نماز شَفْع، ایک دو رکعت نماز اور نماز شب کا جزء ہے جسے نماز شب کے آخر میں یعنی نماز شب کی آٹھ رکعتوں کے بعد نماز شفع پڑھی جاتی ہے۔ نماز شفع پڑھنے کے بعد نماز وتر پڑھی جاتی ہے اور پھر نماز شب ختم ہو جاتی ہے۔ نماز شفع اور نماز وتر کو نماز شب کا بافضیلت ترین جزء قرار دیا گیا ہے۔

وجہ تسمیہ

لفظ شفع ایک چیز کو دوسری چیز کے ساتھ ملانے اور جڑواں کے معنی میں ہے۔[1] اور یہ لفظ وتر کے مقابل میں ہے جس کے معنی واحد کے ہیں۔[2]

طریقہ

نماز شفا دو رکعت ہے۔[3] یہ نماز درحقیقت نماز شب کا جز ہے اور نماز شب کے آخر میں اور نماز وتر سے پہلے پڑھی جاتی ہے۔[4] نماز شب کل گیارہ رکعت ہے جس میں پہلے آٹھ رکعت کے بعد دو رکعت نماز شفع کی نیت سے اور آخر میں ایک رکعت نماز وتر کی نیت سے پڑھی جاتی ہے۔[5]

بعض روایات کے مطابق مستحب ہے کہ نماز شفع میں سورہ الحمد کے بعد سورہ توحید پڑھی جائے۔[6] کچھ روایتوں میں سفارش کی گئی ہے کہ سورہ الحمد کے بعد پہلی رکعت میں سورہ فلق اور دوسری رکعت میں سورہ ناس پڑھی جائے۔[7]

وقت

بعض علماء کی نظر میں نماز شب پڑھنے کا وقت شرعی نصف شب سے صبح صادق تک ہے۔[8] کچھ لوگوں نے اس کو نماز عشاء کے بعد قرار دیا ہے۔[9]

فضیلت

نماز شفع اور نماز وتر کو نماز شب کا بافضیلت ترین جزو بتایا گیا ہے۔[10] امام خمینی کی کتاب تحریر الوسیلہ میں آیا ہے کہ جس شخص کے پاس نماز شب کی مکمل گیارہ رکعتیں پڑھنے کا وقت نہ ہو وہ صرف نماز شفع کی دو رکعت اور نماز وتر کی ایک رکعت پڑھنے پر اکتفا کر سکتا ہے۔[11]

نماز شفع پڑھنے کے بعد کی دعا

مفاتیح الجنان میں شیخ عباس قمی کے مطابق مستحب ہے کہ نماز شفع کے بعد دعائے «إلهی تَعَرَّضَ لَک» پڑھے جو کہ نیمہ شعبان کی دعاؤں میں سے ایک ہے[12]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. راغب اصفہانی، تفسیر الراغب الاصفہانی، ۱۴۲۰ھ، ج۳، ص۱۳۵۸؛ قرشی بنایی، قاموس قرآن، ۱۴۱۲ھ، ج۷، ص۱۷۸.
  2. قرشی بنایی، قاموس قرآن، ۱۴۱۲ھ، ج۷، ص۱۷۸
  3. شیخ عباس قمی، مفاتیح الجنان، مجمع إحیاء الثقافۃ الإسلامیۃ، ص۷۵۸؛ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، جماعۃ المدرّسین فی الحوزۃ العلمیۃ، ج۱، ص۴۸۵.
  4. محقق حلی، شرایع الاسلام، ۱۴۰۹ھ، ج۱، ص۴۶.
  5. شیخ طوسی، مصباح المتہجد، ۱۴۱۱ھ، ج۱، ص۲۶.
  6. شیخ عباس قمی، مفاتیح الجنان، مجمع إحیاء الثقافۃ الإسلامیۃ، ص۷۵۸؛ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، جامعۃ المدرّسین فی الحوزۃ العلمیۃ، ج۱، ص۴۸۵.
  7. شیخ عباس قمی، مفاتیح الجنان، مجمع إحیاء الثقافۃ الإسلامیۃ، ص۷۵۸؛ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، جماعۃ المدرّسین فی الحوزۃ العلمیۃ، ج۱، ص۴۸۵.
  8. امام خمینی، تحریر الوسیلۃ، ۱۳۹۰ھ، ج۱، ص۱۳۶.
  9. شہید ثانی، مسالک الأفہام، ۱۴۱۳ھ، ج۱، ص۱۴۴.
  10. دیکھئے: امام خمینی، تحریر الوسیلۃ، ۱۳۹۰ھ، ج۱، ص۱۳۶.
  11. امام خمینی، تحریر الوسیلۃ، ۱۳۹۰ھ، ج۱، ص۱۳۶.
  12. شیخ عباس قمی، مفاتیح الجنان، مجمع إحیاء الثقافۃ الإسلامیۃ، ص۷۵۸.

مآخذ

  • امام خمینی، سیدروح اللہ، تحریر الوسیلۃ، نجف، آداب، ۱۳۹۰ھ۔
  • شہید ثانی، زین الدین بن علی، مسالک الأفہام إلی تنقیح شرائع الإسلام، قم، مؤسسۃ المعارف الاسلامیۃ، ۱۴۱۳ھ۔
  • صدوق، محمّد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، قم، جامعۃ المدرّسین فی الحوزۃ العلمیۃ، بے‎تا.
  • راغب اصفہانی، حسین بن محمد، تفسیر الراغب الاصفہانی، ریاض، دارالوطن، ۱۴۲۴ھ۔
  • شیخ طوسی، محمدبن حسن، مصباح المتہجد، بیروت، موسسہ فقہ شیعہ، ۱۴۱۱ھ۔
  • شیخ عباس قمی، مفاتیح الجنان، بہ تحقیق شیخ علی کوثر، قم، مجمع إحیاء الثقافۃ الإسلامیۃ، بے‎تا۔
  • قرشی بنایی، علی‌اکبر، قاموس قرآن، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، ۱۴۱۲ھ۔
  • محقق حلی، جعفر بن حسن، شرائع الاسلام فی مسائل الحلال و الحرام، تہران، استقلال، ۱۴۰۹ھ۔