سب علی

ویکی شیعہ سے
(لعن امام علی سے رجوع مکرر)

سَبّ علیؑ، حضرت علیؑ کو برا بھلا اور ناسزا کہنا اور ان پر لعن کرنے کے معنی میں ہے۔ جس کی بنیاد معاویہ بن ابی‌ سفیان نے رکھی۔ بنی‌امیہ کے حکمران اور پیروکار حکومتی سطح پر منبروں سے حضرت علیؑ کو برا بھلا کہتے اور ان پر لعن کرتے تھے جبکہ حضرت علیؑ اپنے ساتھیوں کو معاویہ اور اس کے ساتھیوں کو گالی گلوچ سے منع کرتے تھے۔

دشنام طرازی اور لعن و تشنیع کا یہ عمل ساٹھ سال تک جاری رہا اور عمر بن عبدالعزیز نے آ کر اس سلسلے کو روکا۔ معاویہ، مروان بن حکم، مغیرة بن شعبہ اور حجاج بن یوسف ثقفی بنی امیہ کے ان حاکموں میں سے تھے جو بر سر منبر حضرت علیؑ کو برا بھلا کہتے تھے۔ اسی طرح عطیہ بن سعد نے حضرت علیؑ کو برا بھلا کہنے سے انکار کیا تو اسے حجاج کے حکم پر اسے سزا دی گئی۔

معنا

تفصیلی مضمون: لعن

«سبّ» فحش و ناسزا اور بُرا بھلا کہنے کے معنا میں ہے۔[1] بعض لغویوں کے نزدیک انسانوں کے توسط سے لعن کرنا سبّ کا ہم ردیف ہے۔[حوالہ درکار] اس بنا پر سبّ کا معنا برا کلام بیان کرنا ہے اور لعن رحمت الہی سے دور کرنا ہے۔[2] جبکہ بعض لعن کو سب کا ہم معنا سمجھتے ہیں۔[3]

شہید ثانی امام سجادؑ اور اپنی ایک بیوی کے حضرت علی کو سب کرنے کی وجہ سے طلاق دینے والے واقعہ کی بنا پر اسے ناصبیت کے مصادیق میں سے سمجھتے ہیں۔[4] جعفر سبحانی معاویہ کی جانب سے حضرت علی کو دشنام طرازی کی بنیاد رکھنے کو مسلمانوں کے درمیان ناصبیت کے رواج کا اصل منشا و سبب سمجھتے ہیں۔[5]

تاریخچہ

حضرت علی پر سب و لعن معاویہ کے وسیلے سے شروع ہوا اور حضرت علی کے زمانے میں ہی اس کا آغاز ہو گیا تھا۔ تاریخی روایات کے مطابق معاویہ اور حضرت امام حسن کے درمیان صلح کی شرائط میں ایک شرط یہ رکھی گئی تھی کہ منبروں سے حضرت علی پر لعن و سبّ نہیں کیا جائے گا۔[6] تاریخی مصادر میں حضرت علی کو سب کرنے والوں میں معاویہ، مروان بن حکم اور مغیرۃ بن شعبہ کے نام مذکور ہیں۔[7] فضائل امام علی کے نقل کرنے پر عمومی پابندی، ان سے نقل روایت کی ممنوعیت، حضرت علی کو اچھے الفاظ سے یاد کرنے سے روکنا اور بیٹوں کے نام علی رکھنے سے منع کرنا ان دیگر اقدامات میں سے ہیں جو امام علی کے خلاف کئے گئے۔[8]

امام علیؑ کو سبّ کرنے کا یہ سلسلہ تقریبا ساٹھ سال عمر بن عبدالعزیز (۹۹-۱۰۱ق) کی خلافت کے زمانے تک جاری رہا۔ اسنے خلافت ملنے کے بعد علیؑ پر سب و شتم اور لعن رکوانے کیلئے اپنے تمام والیوں کو حکم صادر کیا۔ چنانکہ آٹھویں صدی ہجری کا مؤرخ ابن خلدون نقل کرتا ہے:

بنی‌امیہ مسلسل علی پر لعن کرتے تھے یہاں تک کہ عمر بن عبدالعزیز نے تمام اسلامی علاقوں میں خطوط لکھ کر اسے روکنے کا حکم دیا۔[9] اکثر روائی کتب میں ام‌سلمہ سے مروی روایت پیغمبر کے مطابق علی کو گالی دینا مجھے گالی دینا ہے اور دیگر نسخوں میں اسے خدا کو سب کرنے کے مترادف قرار دیا ہے۔[10] علامہ مجلسی نے بحار الانوار میں ام سلمہ سے مروی روایت کے علاوہ دیگر روایات بھی اس باب میں نقل کی ہیں۔[11]

معاویہ

معاویہ کی طرف سے امام علی کو لعن و سبّ کرنے کی روایات مذکور ہیں جیسا کہ چوتھی صدی کے مؤرخ طبری کے مطابق جب معاویہ نے سنہ 41 ہجری میں مغیرۃ بن شعبہ کو کوفہ کا والی مقرر کیا تو اس نے علی کو برا بھلا کہنے کا تقاضا کیا اور عثمان کی عظمت کے بیان کرنے پر زیادہ دباؤ ڈالا[12] نیز اس نے مغیرۃ بن شعبہ کو اصحاب امام علی کے شہر بدر کرنے کا توصیہ کیا۔[13]

اسی طرح معاویہ نے نخیلہ میں امام حسنؑ سے صلح کے بعد لوگوں سے بیعت کے موقع پر اپنے خطبے میں امام علی اور امام حسن(ع) کو برا بھلا کہا۔[14]

مروان بن حکم

اہل سنت تاریخ نویس ذہبی کے مطابق مروان بن حکم 41 ہجری میں چھ سال تک مدینہ کا حاکم رہا۔ وہ نماز جمعہ میں منبر پر حضرت علی کو سبّ کرتا تھا۔ اس کے بعد سعید بن عاص دو سال کیلئے والی بنا تو وہ حضرت علی کو سبّ نہیں کرتا تھا۔ سعید بن عاص کے بعد دوبارہ مروان حاکم بنا تو اس نے پھر امام علی کو سبّ کرنا شروع کر دیا۔[15]

مغیرۃ بن شعبہ

تیسری صدی کا مصنف بلاذری کتاب أنساب الأشراف میں مغیرۃ بن شعبہ کے متعلق نقل کرتا ہے کہ وہ ۹ سال تک معاویہ کی طرف سے کوفہ کا والی رہا۔ وہ اسے اچھے الفاظ سے یاد کرتا ہے لیکن اس کی طرف سے علی کو برا بھلا کہے جانے کو ایک اعتراض کے طور پر ذکر کرتا ہے۔[16]

حجاج بن یوسف

ابن ابی الحدید کے شرح نہج البلاغہ میں منقول بیان کے مطابق حجاج بن یوسف خود علی پر لعن کرنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی اس کا حکم دیتا اور اس سے خوشحال ہوتا۔[17] چنانچہ ایک شخص نے اسے کہا: میرے گھر والوں نے میرے حق میں ظلم کرتے ہوئے میرا نام علی رکھا پس تم میرا نام تبدیل کرو اور مجھے انعام سے نوازو کہ میں اس کے ساتھ اپنی گزر اوقات کر سکوں کیونکہ میں فقیر ہوں۔ حجاج نے کہا: میں نے تمہارا فلاں نام رکھا اور فلاں کام تمہارے سپرد کیا۔[18]

دیگر روایات میں آیا ہے کہ حجاج کے نزدیک علی کو گالیاں دینا ایک فضیلت تھی۔[19] عطیۃ بن سعد بن جنادۃ کوفی کے حالات میں آیا ہے: حجاج نے محمد بن قاسم ثقفی کو لکھا: عطیہ کو طلب کرو اور وہ علی کو سبّ کرے ورنہ اسے ۴۰۰ دُرّے (کوڑے) لگائیں جائیں ورنہ اس کے سر اور ڈاڑھی کے بال مونڈھ دیئے جائیں۔ عطیہ نے جب علی پر سبّ کرنے سے انکار کیا تو اسے ۴۰۰ کوڑے مارے نیز اس کی ڈاڑھی اور سر کے بال مونڈ دئے گئے۔[20]

سبّ معاویہ پر امام علی کی مخالفت

معاویہ کی جانب سے منبروں پر امام علیؑ کو سبّ کرنے کے حکم سے پہلے حضرت علی نے اپنے اصحاب کوجنگ صفین میں معاویہ کو سب کرنے اور برا بھلا کہنے سے منع کیا اور اس عمل کی مخالفت کی۔[21] حضرت علی کی سپاہ میں سے حجر بن عدی اور عمرو بن حمق نے معاویہ اور اہل شام پر لعنت کی تو امام نے انہیں ایسا کرنے سے روکا نیز ان کی طرف سے کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ کے استفسار کے جواب میں فرمایا: ہم حق پر ہیں لیکن میں تمہارے لعن و دشنام کرنے کو پسند نہیں کرتا ہوں۔ امام علیؑ نے مزید فرمایا: وہ خدا سے ان کے خون اور اپنے خون کے حفظ و امان کے طلبگار ہوں نیز ہمارے درمیان صلح قائم ہو اور خدا انہیں گمراہی سے نجات دے تا کہ جس نے بھی حق نہیں پہچانا ہے وہ حق پہچان لے اور جو کوئی بھی باطل پر اصرار کرتا ہے اس سے اپنا ہاتھ اٹھا لے۔[22]

متعلقہ روابط

حوالہ جات

  1. طریحی، مجمع البحرین، ۱۳۷۵ش، ج۲، ص۷۹.
  2. فخلعی، مجموعہ گفتمان‌ہای مذاہب اسلامی، ۱۳۸۳ش، ص۲۹۹.
  3. بستانی، فرہنگ ابجدی، ۱۳۷۵ش، ص۷۵۶.
  4. شہید ثانی، تہذیب الاحکام، ج۷، ص۳۰۳، بہ نقل از: بلقان‌آبادی، شواہد نصب در آثار بخاری، ص۷۹.
  5. سبحانی، گزیدہ سیمای عقاید شیعہ، ۱۳۸۷ش، ص۱۳.
  6. طبرسی، إعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۲۰۶.
  7. طبری، تاریخ الطبری، ۱۳۸۷ق، ج۵، ص۲۵۳؛ بلاذری، أنساب الأشراف، ۱۴۱۷ق، ج۵، ص۲۴۳.
  8. نگاہ کنید بہ: محمدی ری‌ شہری، دانش‌ نامہ امیر المؤمنین، ۱۴۲۸ق، ص۴۷۵-۴۸۳.
  9. ابن خلدون، تاریخ ابن خلدون، ۱۴۰۸ق، ج۳، ص۹۴.
  10. سید بن طاووس، بناء المقالۃ الفاطمیۃ، ۱۴۱۱ق، ص۲۱۲؛ ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، ۱۴۱۷ق، ج۴۲، ص۵۳۳.
  11. نگاہ کنید بہ: علامہ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۳۹، ص۳۱۱-۳۳۰.
  12. طبری، تاریخ الطبری، ۱۳۸۷ق، ج۵، ص۲۵۳.
  13. طبری، تاریخ الطبری، ۱۳۸۷ق، ج۵، ص۲۵۳؛ ذہبی، تاریخ الإسلام، ۱۴۰۹ق، ج۵، ص۲۳۱؛
  14. الحسینی الموسوی الحائری الکرکی، تسلیۃ المجالس و زینۃ المجالس، ۱۴۱۸ق، ج۲، ص۵۱-۵۲؛ ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ۱۴۱۹ق، ص۷۸.
  15. ذہبی، تاریخ الإسلام، ۱۴۰۹ق، ج۵، ص۲۳۱.
  16. بلاذری، أنساب الأشراف، ۱۴۱۷ق، ج۵، ص۲۴۳.
  17. ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغۃ، ۱۴۰۴ق، ج۴، ص۵۸.
  18. ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغۃ، ۱۴۰۴ق، ج۴، ص۵۸.
  19. عسکری، ترجمہ معالم المدرستین، ۱۳۸۶ش، ج۱، ص۴۱۵-۴۱۶.
  20. ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۶، ص۳۰۵.
  21. دینوری، الأخبار الطوال، ۱۳۶۸ش، ص۱۶۵.
  22. دینوری، الأخبار الطوال، ۱۳۶۸ش، ص۱۶۵.

مآخذ

  • ابن اثیر جزری، مبارک بن محمد، النہایۃ فی غریب الحدیث و الأثر، محقق، مصحح، طناحی، محمود محمد، قم، موسسہ مطبوعاتی اسماعیلیان،‌ ۱۳۶۷ش.
  • ابن خلدون، عبد الرحمن بن محمد، دیوان المبتدأ و الخبر فی تاریخ العرب و البربر و من عاصرہم من ذوی الشأن الأکبر (تاریخ ابن خلدون)، تحقیق خلیل شحادۃ، بیروت،‌ دار الفکر، چاپ دوم، ۱۴۰۸ق.
  • ابن عساکر، علی بن حسن، تاریخ مدینۃ دمشق، ج۴۲، تحقیق علی شیری، بیروت، دار الفکر، ۱۴۱۷ق/۱۹۹۶م.
  • ابوالفرج اصفہانی، علی بن حسین، مقاتل الطالبیین، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، ۱۴۱۹ق/۱۹۹۸م.
  • بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، تحقیق: زکار، سہیل، زرکلی، ریاض، بیروت،‌ دار الفکر، چاپ اول، ۱۴۱۷ق.
  • بلخی، مقاتل بن سلیمان، تفسیر مقاتل بن سلیمان، تحقیق: شحاتہ، عبداللہ محمود، بیروت،‌ دار إحیاء التراث، چاپ اول، ۱۴۲۳ق.
  • الحسینی الموسوی الحائری الکرکی، محمد بن ابی طالب، تسلیۃ المجالس و زینۃ المجالس: الموسوم بمقتل الحسین علیہ السلام، تحقیق فارس حسون کریم، قم، پاسدار اسلام، ۱۴۱۸ق.
  • دینوری، ابو حنیفہ احمد بن داود، الاخبار الطوال، قم، منشورات الرضی، ۱۳۶۸ش.
  • ذہبی، محمد بن احمد، تاریخ الاسلام، تحقیق: تدمری، عمر عبد السلام، بیروت،‌دار الکتاب العربی، چاپ دوم، ۱۴۰۹ق.
  • سید بن طاووس، احمد بن موسی، بناء المقالۃ الفاطمیۃ فی نقض الرسالۃ العثمانیۃ، تحقیق سید علی العدنانی الغریفی، قم، مؤسسۃ آل البیت لإحیاء التراث، ۱۴۱۱ق.
  • طبرسی، فضل بن حسن، اعلام الوری بأعلام الہدی، تہران،‌ دار الکتب الاسلامیۃ، چاپ سوم، ۱۳۹۰ق.
  • طبری، أبو جعفر محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک (تاریخ طبری)، تحقیق: ابراہیم، محمد أبوالفضل، بیروت،‌ دار التراث، چاپ دوم، ۱۳۸۷ق.
  • طریحی، فخر الدین، مجمع البحرین، تحقیق: حسینی، سید احمد، تہران، کتابفروشی مرتضوی، چاپ سوم، ۱۳۷۵ش.
  • علامہ مجلسی، محمدباقر، بحار الأنوار، ج۳۹، بیروت، مؤسسۃ الوفاء، ۱۴۳۰ق/۱۹۸۳م.