مسجد اقصیٰ

ویکی شیعہ سے
(قبلۂ اول سے رجوع مکرر)
مسجد الاقصی
مسجد الاقصی اور قبۃالصخرہ
مسجد الاقصی اور قبۃالصخرہ
ابتدائی معلومات
بانیعبدالملک بن مروان
استعمالمسجد
محل وقوعبیت‌المقدس
دیگر اسامیمسجد بیت‌المقدس
مربوط واقعات1969ء میں آتشزدگی
عالمی یوم مسجد
مشخصات
موجودہ حالتفعال
معماری
طرز تعمیراسلامی
تعمیر نومختلف ادوار میں


مسجد الاَقصی بیت المقدس میں واقع مسلمانوں کی مقدس مساجد میں سے ایک ہے جو مسلمانوں کا پہلا قبلہ تھا۔ بعض روایات کی بنا پر رسول اکرمؐ اس مقام سے معراج پر گئے ہیں۔ قرآن مجید کے سورہ اسراء میں معراج کا تذکرہ کرتے ہوئے مسجد الاقصی کا ذکر کیا ہے۔ یہ مسجد مسلمان، یہودی اور مسیحیوں کے ہاں قابل احترام ہے؛ اسلامی احادیث میں مسجد الحرام اور مسجد النبی کے ساتھ ساتھ اس کو بھی بافضیلت مساجد میں سے شمار کیا گیا ہے اور اس میں نماز پڑھنا دوسری مساجد میں ہزار نمازوں کے برابر ہے۔

یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ معبد سلیمان کا باقیماندہ حصہ مسجد الاقصی کے نیچے واقع ہے۔ اور بعض مسیحیوں کے مطابق مسجد الاقصی کی ویرانی اور اس کی جگہ معبد سلیمان کی تاسیس مسیح کے ظہور کی شرائط میں سے ہے۔ اسی لیے بعض یہودی مسجد الاقصی کو مسمار کر کے اس کی جگہ معبد سلیمان کو احیاء کرنے کے درپے ہیں۔ اسی وجہ سے مسلمانوں کو اس مسجد میں آنے سے یہودی منع کرتے ہیں۔ 1969ء کو ایک یہودی نے مسجد الاقصی کو آگ لگادی اور اسی مناسبت سے 22 اگست کو بعض اسلامی ممالک میں عالمی یوم مسجد کا نام دیا گیا ہے۔ جس عمارت کو آج کل مسجد الاقصی کہا جاتا ہے، پہلی صدی ہجری کو عبدالملک بن مروان کے دور میں تعمیر ہوئی ہے اور مختلف ادوار میں اس کی مرمت ہوئی ہے۔

محل وقوع اور وجہ تسمیہ

مسجد اقصی عربی زبان میں دور ترین مسجد کے معنا میں، فلسطین کے شہر بیت المقدس میں موجود اس مسجد کی طرف اشارہ ہے جو شہر کے جنوب مشرق میں مسجد الصخرہ سے 500 میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔[1] مسجد الاقصی نام رکھنے کے بارے میں کہا گیا ہے اس دور میں مکہ اور مسجد الحرام جو پیغمبر اکرمؐ اور مسلمانوں کا ملجا اور مسکن سمجھا جاتا تھا اس سے مسافت میں دوری کو مورد توجہ قرار دیا گیا ہے۔[2]

بعض محققین کے مطابق قرآن میں مذکور مسجد الاقصی سے مراد وہ وسیع علاقہ مراد ہے جس میں مسجد صخرہ (آنحضرت کا معراج پر جانے کی جگہ) اور اس کے دیگر حصے اور رواق بھی شامل ہیں۔[3]اسی لیے بعض شیعہ مفسروں نے سورہ اسراء کی پہلی آیت میں مذکور مسجد الاقصی سے بیت المقدس مراد لیا ہے[4]جسے حضرت داود اور حضرت سلیمان نے تعمیر کیا تھا۔[5]بعض روایات میں بھی مسجد الاقصی کو مسجد بیت المقدس کے نام سے ذکر کیا ہے۔[6]

بعض کا کہنا ہے کہ رسول اللہؐ کی معراج کے وقت مسجد الاقصی نام کی کوئی عمارت نہیں تھی اور آیہ معراج میں مسجد سے مراد عبادت اور بندگی کی جگہ ہے۔[7]

موجودہ چھت والی جو عمارت عبدالملک بن مروان کے دور میں بنی ہے وہ آج کل مسجد الاقصی کے نام سے جانی جاتی ہے۔ اور اس عمارت میں مسجد صخرہ، مسجد عمر،[یادداشت 1] دیوار براق[یادداشت 2] اور...شامل ہیں۔[8]

فضیلت

مسجد الاقصی، مسلمان، یہودی اور مسیحیوں کے ہاں قابل احترام ہے؛ یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ معبد سلیمان کا باقیماندہ حصہ مسجد الاقصی کے نیچے واقع ہے۔[9] مسلمانوں کا کہنا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ یہیں سے معراج پر تشریف لے گئے تھے۔[10] دو ہجری کو مسلمانوں کا قبلہ بدلنے سے پہلے مسلمانوں کا قبلہ اول بھی یہی تھا۔[11]اسی لیے قاجار اور پہلوی دور میں بعض حاجی حج کے بعد بیت المقدس کے مذہبی مقامات خاص کر مسجد الاقصی کی زیارت بھی کرتے تھے۔[12]

اسلامی احادیث میں مسجد الحرام، مسجد النبی اور مسجد کوفہ کے ساتھ مسجد الاقصی چار بافضیلت مساجد میں شمار ہوتی ہے۔[13] بعض احادیث میں مسجد کوفہ کا ذکر نہیں اور مسجد الاقصی، مسجد الحرام اور مسجد نبوی کے ساتھ سب سے بافضیلت تین مساجد میں سے ایک ہے۔[14] ان تینوں مساجد میں ایک نماز پڑھنا دوسری مساجد میں ہزار نمازوں کے برابر ہے۔[15]

البتہ بعض شیعہ روایات میں مسجد کوفہ کو مسجد الاقصی پر فوقیت دی گئی ہے۔[16]

تاریخچہ

سُبْحَانَ الَّذِی أَسْرَ‌یٰ بِعَبْدِهِ لَیلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَ‌امِ إِلَی الْمَسْجِدِ الْأَقْصَی الَّذِی بَارَ‌کنَا حَوْلَهُ لِنُرِ‌یهُ مِنْ آیاتِنَا ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِیعُ الْبَصِیرُ‌
ترجمہ:پاک ہے وہ (خدا) جو اپنے بندہ (خاص) کو رات کے ایک حصہ میں مسجد الحرام سے اس مسجدِ اقصیٰ تک لے گیا جس کے گرد و پیش ہم نے برکت دی ہے تاکہ ہم انہیں اپنی (قدرت کی) کچھ نشانیاں دکھائیں بے شک وہ بڑا سننے والا، بڑا دیکھنے والا ہے۔

سورہ اسراء، آیت 1

کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے حضرت داودؑ نے مسجد الاقصی کی جگہ ایک معبد بنایا اور حضرت سلیمان نے اسے پایہ تکمیل کو پہنچایا جسے معبد سلیمان، معبد یروشلم، معبد ایلیا اور بقعہ ایلیا کہا گیا۔ [حوالہ درکار] انیسویں اور بیسویں صدی عیسوی کے مورخ گوسٹاولیبون (Gustave Le Bon) کا کہنا ہے کہ بیہت المقدس مسلمانوں کے توسط فتح ہونے سے پہلے مسجد الاقصی کے علاقے میں حضرت مریم کے نام سے ایک کلیسا موجود تھا۔[17]

پہلی صدی ہجری کے مآخذ کے مطابق موجودہ مسجد الاقصی پہلی صدی ہجری کو امویوں کے دور میں تعمیر ہوئی۔ آٹھویں صدی ہجری کے مورخ ابن کثیر کا کہنا ہے کہ اس مسجد کی تعمیر 66ھ کو بنی امیہ کا خلیفہ عبد الملک بن مروان (حکومت 65-66ھ) کے دور حکومت میں شروع ہوئی اور 73ھ کو پایہ تکمیل تک پہنچی۔[18] بعض نے اس کی تاسیس کی نسبت ولید بن عبدالملک (حکومت 86-96ھ) کی طرف دی ہے۔[19]

ابن کثیر لکھتا ہے: عبدالملک نے اس لئے مسجد الاقصی اور دیگر اماکن کو تعمیر کیا تاکہ شامیوں کو حج جانے سے روک دے اور ان کو یہیں پر طواف کرنے پر مجبور کر دے؛[20]کیونکہ عبداللہ بن زبیر حج کو عبدالملک کے خلاف تبلیغ کرنے اور حاجیوں سے اپنی بیعت لینے کے لیے استعمال کرتا تھا۔[21]اور روز عرفہ اور ایام مِنا میں خطبوں کے ذریعے عبد الملک اور اس کی نسل کے دادا حَکم بن عاص پر پیغمبر اکرمؐ کی لعنت کی یاد دہانی کرا کر شام والوں کو اپنی طرف مائل کرتا تھا[22]

عمارت کے مشخصات

مسجد الاقصی کی عمارت مستطیل‌ شکل میں ہے جس کی لمبائی 80 میٹر اور چوڑائی 55 میٹر ہے۔[23]مسجد کی عمارت 53 سنگ مرمر کے ستون اور 49 بنیادوں پر بنی ہوئی ہے۔[24]اسی طرح مسجد ایک بڑے ہال پر مشتمل ہے جس کے درمیان میں ایک گنبد واقع ہے۔[25] پانچویں صدی ہجری کے سیاح ناصر خسرو(۳۹۴-۴۸۱ھ) نے 438ھ میں بیت المقدس گئے ہیں[26]اور اپنے سفرنامے میں مسجد الاقصی کی کچھ توصیف کی ہے اور وہاں پر بعض خادموں کے ہونے کا ذکر کیا ہے۔[27]

تعمیر اور مرمت

مسجد الاقصی کی عمارت مختلف ادوار میں تعمیر اور مرمت ہوئی ہے۔ بنی‌عباس، فاطمیون، ایوبی سلطنت اور عثمانی حکومتوں میں تعمیر اور مرمت ہوئی ہے۔

بنی عباس کے خلفاء منصور دوانیقی، (حکومت:136-158)[28] اور مہدی عباسی(126-169ھ) نے زلزلہ کی وجہ سے مسجد الاقصی کی تخریب کے بعد دوبارہ تعمیر اور مرمت کی ہے۔[29] اسی طرح ایک کتیبہ کے مطابق فاطمیوں کا خلیفہ الظاہر لاعزاز دین اللہ کے حکم سے 426ھ کو مسجد الاقصی پر ایک گنبد بنایا گیا۔[30] اور المستنصر لدین اللہ کے حکم سے 458ھ کو مسجد کے شمالی ایوان کی مرمت ہوئی۔[31] جب صلیبیوں نے ۱۰۹۹ء بمطابق 583ھ میں بیت المقدس پر ناجائز قبضہ کیا اور مسجد کے ایک حصے کو کلیسا بنا دیا اور باقی حصے میں کچھ کو اپنے فوجیوں کی استراحت گاہ اور کچھ کو اپنی چیزوں کو ذخیرہ کرنے کیلئے گودام بنا دیا۔[32] لیکن صلاح الدین ایوبی نے 589ھ کو ان سے بیت المقدس کو واپس لے لیا اور مسجد کی مرمت کا اقدام کیا، محراب مسجد کو دوبارہ تعمیر کیا، اسکے گنبد پر تزئین و آرائش کا کام کیا اور معروف لکڑی کا منبر وہاں رکھوایا۔[33] سلطنت مملوک اور عثمانی نے بھی مسجد الاقصی کی مرمت کی ہے۔[34]

یہودی‌ سازی

1969ء میں ایک یہودی کے ہاتھوں مسجد الاقصی میں آتشزدگی

یہودیوں کا کہنا ہے کہ مسجد الاقصی کے نیچے معبد سلیمان کے باقیماندہ آثار ہیں۔ اسی لیے ان میں سے بعض مسجد کی تخریب اور اس کی جگہ معبد سلیمان احیاء کرنے کے درپے ہیں۔[35]کہا جاتا ہے کہ بعض مسیحیوں کا عقیدہ ہے کہ مسجد الاقصی کی ویرانی اور معبد سوم سلیمان کی تاسیس مسیح کے ظہور کی شرائط میں سے ہے۔[36]اسی لئے اسرائیلی پولیس مسلمانوں کو مسجد الاقصی میں داخل ہونے سے روکتے ہیں۔[37] مسجد الاقصی بیت المقدس میں اسرائیل کے مقابلے میں ایک اسلامی شناخت کی علامت سمجھی جاتی ہے۔[38]

21 اگست 1969ء کو ڈنیس مایکل ولیم روہان نامی ایک یہودی نے مسجد الاقصی کو آگ لگا دی جس کی وجہ سے مسجد کا بعض حصہ نذر آتش ہوگیا اور چھت گر گئی اور 583ھ سے متعلق مسجد کا قدیمی منبر بھی اس آگ میں جل گیا۔[39]ایرانی سرکاری کیلنڈر میں اس دن کو عالمی یوم مسجد کا نام دیا ہے۔[40]

متعلقہ مضامین

نوٹ

  1. دوسرے خلیفہ نے جب 15ھ کو بیت المقدس فتح کیا تو اس وقت مقدس کے صحن میں ایک مسجد بنانے کا حکم دیا جو مسجد عمر کے نام سے مشہور ہوگئی۔(طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۳، ص۶۱۱.)
  2. مسجد الاقصی کی مغربی دیوار ہے جس کے بارے میں مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ شب معراج پیغمبر اکرمؐ نے براق باندھا تھا اور اسی لئے اسے دیوار براق کا نام دیا گیا ہے۔(موسی غوشہ، تاریخ مجموعہ مسجد الاقصی، ۱۳۹۰ش، ص۱۰)یہودی اسے دیوارِ ندبہ کہتے ہیں اور ہیکل سلیمانی کی آخری نشانیوں میں سے قرار دیتے ہیں۔

حوالہ جات

  1. حمیدی، تاریخ اورشلیم، ۱۳۸۱ش، ص۱۸۳
  2. علامہ طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۲، ص۷؛ طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۶، ص۶۱۲.
  3. موسی غوشہ، تاریخ مجموعہ مسجد الاقصی، ۱۳۹۰ش، ص۷
  4. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۶، ص۶۱۲
  5. علامہ طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۳، ص۶
  6. مراجعہ کریں: تفسیر امام حسن عسکری، ۱۴۰۹ق، ص۶۶۱
  7. حمیدی، تاریخ اورشلیم، ۱۳۸۱ش، ص۱۸۳-۱۸۴.
  8. موسی غوشہ، تاریخ مجموعہ مسجد الاقصی، ۱۳۹۰ش، ص۷.
  9. توفیقی، آشنایی با ادیان بزرگ، ۱۳۸۵ش، ص۸۸.
  10. سورہ اسراء، آیہ۱.
  11. طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۳۳۱.
  12. مراجعہ کریں: جعفریان، پنجاہ سفرنامہ حج قاجاری، ۱۳۸۹ش، ص۲۳۰.
  13. شیخ صدوق، من لایحضرہ الفقیه، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۲۹.
  14. بخاری، صحیح البخاری، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۳۹۸.
  15. تفسیر منسوب بہ امام حسن عسکری، ۱۴۰۹ق، ص۶۶۱.
  16. عیاشی، تفسیر العیاشی، ۱۳۸۰ق، ج۲، ص۲۷۹؛ محدث نوری، مستدرک وسائل الشیعہ،‌ ۱۴۰۸ق، ج۳، ص۴۰۹.
  17. گوستاولوبون، تمدن اسلام و عرب بہ نقل از حمیدی، تاریخ اورشلیم، ۱۳۸۱ش، ص۱۸۳.
  18. ابن کثیر، البدایة و النہایہ، ۱۴۰۷ق، ج۸، ص۲۸۰.
  19. موسی غوشہ، تاریخ مجموعہ مسجد الاقصی، ۱۳۹۰ش، ص۱۰.
  20. ابن کثیر، البدایة و النہایہ، ۱۴۰۷ق، ج۸، ص۲۸۰.
  21. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، ج۲، ص۲۶۱.
  22. ابن کثیر، البدایة و النہایہ، ۱۴۰۷ق، ج۸، ص۲۸۰.
  23. موسی غوشہ، تاریخ مجموعہ مسجد الاقصی، ۱۳۹۰ش، ص۱۰.
  24. حمیدی، تاریخ اورشلیم، ۱۳۸۱ش، ص۱۸۳.
  25. موسی غوشہ، تاریخ مجموعہ مسجد الاقصی، ۱۳۹۰ش، ص۱۰.
  26. ناصرخسرو، سفرنامہ، ۱۳۶۸ش، ص۲۶.
  27. ناصرخسرو، سفرنامہ، ۱۳۶۸ش، ص۳۲.
  28. حمیدی، تاریخ اورشلیم، ۱۳۸۱ش، ص۱۸۳.
  29. موسی غوشہ، تاریخ مجموعہ مسجد الاقصی، ۱۳۹۰ش، ص۱۱.
  30. موسی غوشہ، تاریخ مجموعہ مسجد الاقصی، ۱۳۹۰ش، ص۱۱.
  31. موسی غوشہ، تاریخ مجموعہ مسجد الاقصی، ۱۳۹۰ش، ص۱۱.
  32. حمیدی، تاریخ اورشلیم، ۱۳۸۱ش، ص۱۸۳.
  33. حمیدی، تاریخ اورشلیم، ۱۳۸۱ش، ص۱۸۳.
  34. موسی غوشہ، تاریخ مجموعہ مسجد الاقصی، ۱۳۹۰ش، ص۱۳-۱۵.
  35. توفیقی، آشنایی با ادیان بزرگ، ص۸۸.
  36. «آتش زدن مسجدالاقصی اقدامی برای سنجش غیرت دینی مسلمانان بود»
  37. «گزارش: اسرائیل آمادۀ تخریب مسجدالاقصی و ساخت «سومین معبد» می‌شود»
  38. «پشت پردہ توطئہ ہای جدید علیہ مسجد الاقصی/تحلیل»
  39. موسی غوشہ، تاریخ مجموعہ مسجد الاقصی، ۱۳۹۰ش، ص۱۶.
  40. «علت نامگذاری روز جہانی مساجد چیست؟»

مآخذ

  • ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایہ و النہایہ، بیروت، دار الفکر، ۱۴۰۷ق/۱۹۸۶م.
  • بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، تحقیق مصطفى دیب البغا، بیروت، دار ابن کثیر، الیمامہ، ۱۴۰۷ھ۔
  • تفسیر منسوب بہ امام حسن عسکری، قم، مدرسۃ الامام المہدی عجل‌اللہ تعالی فرجہ الشریف، ۱۴۰۹ھ۔
  • توفیقی، حسین، آشنایی با ادیان بزرگ، تہران، سازمان مطالعہ و تدوین کتب علوم انسانی دانشگاہ‌ہا، قم، مؤسسہ فرہنگی طہ و مرکز جہانی علوم اسلامی، چاپ ہشتم، ۱۳۸۵ہجری شمسی.
  • جعفریان، رسول، پنجاہ سفرنامہ حج قاجاری، نشر علم، تہران، ۱۳۸۹شمسی ہجری۔
  • حمیدی، سید جعفر، تاریخ اورشلیم (بیت المقدس)، تہران، امیرکبیر، ۱۳۸۱شمسی ہجری۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، من لایحضرہ الفقیہ،‌ تصحیح علی‌اکبر غفاری،‌ قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، ۱۴۱۳ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، مقدمہ محمدجواد بلاغی، تہران، انتشارات ناصر خسرو، ۱۳۷۲شمسی ہجری۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک، تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم، بیروت، دار التراث، ۱۹۶۷م/۱۳۸۷ھ۔
  • علامہ طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، ۱۴۱۷ھ۔
  • عیاشی، محمد بن مسعود، تفسیر العیاشی، تصحیح سیدہاشم رسولی محلاتی، تہران، المطبعہ العلمیہ، ۱۳۸۰ھ۔
  • محدث نوری، حسین بن محمدتقی، مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل، قم، مؤسسہ آل البیت، ۱۴۰۸ھ۔
  • موسی غوشہ، محمدہاشم، تاریخ مجموعہ مسجد الاقصی، ترجمہ سید شہرام فرہانیان و ہودسا عاطفی، قم، نشر ادیان، ۱۳۹۰شمسی ہجری،
  • ناصرخسرو قبادیانی، سفرنامہ، آتلیہ ہنر محمد سلحشور، ۱۳۶۸شمسی ہجری۔
  • یعقوبی، احمد بن ابی‌یعقوب، تاریخ الیعقوبی، بیروت، دار صادر، بی‌تا.