مظلوم کا دفاع ان عقلی اور فطری امور میں سے ہے جس کی قرآن اور روایات میں تاکید کی گئی ہے۔ مجتہدین شرعی لحاظ سے اسے ایک واجب عمل سمجھتے ہیں۔ پیغمبر اکرمؐ سے مروی ہے کہ جو شخص کسی مظلوم کی فریاد سنے اور اس کی مدد نہ کرے تو وہ مسلمان ہی نہیں ہے۔ بعض فقہاء کا کہنا ہے کہ مظلوم کے دفاع کے سلسلے میں منقول روایتیں تواتر کی حد تک ہیں۔ احادیث کے مطابق مظلوم کا دفاع، رسول اللہﷺ کی صحبت و ہمنشینی نصیب ہونے اور گناہان کبیرہ کے کفارے کا سبب ہے، بعض دیگر احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مظلوم کی مدد نہ کرنا اسلام سے خارج ہونے اور ہلاکت کا سبب بنتا ہے۔ امام حسینؑ نے واقعہ کربلا سے پہلے عبید اللہ بن حر جعفی سے فرمایا: "مظلوم امام کی صدائے استغاثہ پر لبیک نہ کہنا اور اس کی مدد نہ کرنا خدا کی طرف سے انسان کی ہلاکت کا سبب بنے گا۔"

حلف الفضول کے معاہدے کے موقع پر پیغمبر اکرمﷺ کی موجودگی اورامام علیؑ کا منصب حکومت قبول کرنے کو ظلم کے خاتمے اور احقاق حق سے مشروط کرنا، مظلوم کے دفاع کے بارز مصادیق میں سے ہیں۔ فقہائے اسلام مظلوم کے دفاع کو کسی خاص مذہب یا جغرافیائی حدود تک محدود نہیں سمجھتے۔ اسی وجہ سے بعض فقہاء فلسطینی عوام کے دفاع کرنے کو ایک شرعی فریضہ سمجھتے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین کی تیسری شق میں "دنیا کے مظلوموں کی مسلسل حمایت" پر تاکید کی گئی ہے۔

شیعہ علما میں سے مرتضی مطہری اور سید محمد حسینی بہشتی کہتے ہیں کہ اسلام میں ظلم کو برداشت کرنا خود ظلم کی طرح ایک ناپسندیدہ امر ہے۔ نہج البلاغہ میں امام علیؑ کا فرمان نقل کیا گیا ہے کہ کمزور لوگ ظلم سہتے ہیں اور اسے اپنے سے دور نہیں کر سکتے اور کوشش کے بغیر حق حاصل نہیں کیا جا سکتا۔

اہمیت

علمائے اسلام مظلوم کے دفاع پر بے حد تاکید کرتے ہیں اور اسے عقلی و فطری لحاظ سے ایسا واجب عمل سمجھتے ہیں[1] جس کی قرآن و احادیث نے بے حد سفارش کی ہے یہاں تک کہ اسے واجب اعمال میں سے گردانا ہے۔ سید عبد الاعلی سبزواری کےمطابق مظلوم کے دفاع کے سلسلے میں منقول احادیث تواتر کی حد تک ہیں۔[2] شیعہ مفسر قرآن مکارم شیرازی سورہ نساء کی آیت نمبر 75 [یادداشت 1] سے استناد کرتے ہوئے مظلوم کے دفاع کو جہاد دفاعی کے مصادیق میں سے قرار دیتے ہیں۔[3]

احادیث کے مطابق مظلوم کے دفاع کا اجر و ثواب یہ ہے کہ بروز قیامت مظلوم کے مددگار کو پیغمبرخداﷺ کی ہمنشینی نصیب ہوگی[4] نیز گناہان کبیرہ کے کفارے کا سبب ہوگا۔[5] بعض دیگر احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مظلوم کی مدد نہ کرنا دائرہ اسلام سے خارج ہونے اور ہلاکت کا سبب بنتا ہے؛ چنانکہ امام جعفر صادقؑ نے حضرت محمدﷺ سے نقل کیا ہے کہ اگر کوئی مظلوم کی صدائے استغاثہ کو سنے اور اس کی مدد نہ کرے تو وہ مسلمان ہی نہیں۔[6]

سید علی خامنه‌ ای

مظلوم کا دفاع ہمیشہ سے ایک روشن مقام کا حامل رہا ہے۔ ظالموں کا ساتھ نہ دینا، طاقتوروں اور دولت مندوں سے رشوت کو ٹھکرانا اسی طرح حق پر قائم رہنا وہ اعلیٰ اقدار ہیں جو دنیا میں کبھی پرانی نہیں ہوں گی۔ اس نوعیت کی اقدار مختلف حالات میں بھی ہمیشہ قیمتی ہوتی ہیں۔[7]

مرتضی مطہری کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دوسروں کی غیبت اور انہیں بد نام کرنے سے منع کیا ہے، سوائے مظلوم کے۔[8] مرتضیٰ مطہری مزید کہتے کہ قرآن کی آیات کے مطابق اللہ تعالیٰ نے مظلوموں کو "فریاد کرنے، ظالموں کی برائی کرنے وغیرہ کی اجازت دے رکھی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ "انصاف حاصل کرنے اور احقاق حق کا یہی طریقہ ہے[9]

مظلوم کا دفاع سیرت اہل بیتؑ کی روشنی میں

رسول خداﷺ نے اپنی بعثت سے پہلے حلف الفضول میں ظالموں کے خلاف اور مظلوموں کے حق میں منعقدہ معاہدے میں بنی ہاشم کے نمائندے کے طور پر شرکت کی۔[10] نیز، امام علیؑ کی بحیثیت خلیفہ بیعت کرنے کے بعد، آپؑ نے تشکیل حکومت کا مقصد مظلوموں کا دفاع اور ان کے حقوق کا حصول قرار دیا۔[11] امام علیؑ نے اپنے مشہور خطبہ خطبہ شقشقیہ میں حکومت کو قبول کرنے کی وجہ (عثمان کی وفات کے بعد) بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے علماء سے عہد لیا ہے کہ وہ مظلوموں پر روا رکھے گئے مظالم کو روکے۔[12] ابن ملجم کی ضربت لگنے کے بعد امام علیؑ نے اپنے دونوں فرزندان امام حسنؑ اور امام حسینؑ کو ظالموں کے دشمن اور مظلوموں کے مددگار بننے کی وصیت کی۔[13] واقعہ کربلا سے پہلے امام حسینؑ کے ارشادات میں حدود الہی کے قیام، لوگوں کی اصلاح اور شہروں کو آباد رکھنے کے ساتھ ساتھ مظلوموں کے لیے امن و امان فراہم کیے جانے پر بھی تاکید کی گئی ہے۔(ونظهر الإصلاح في بلادك، فيأمن المظلومون من عبادك، وتقام المعطلة من حدودك.) [14]

دفاع مظلوم کی شرعی حیثیت

شیعہ فقہاء میں سے صاحب جواہر اور کاشف الغطا کہتے ہیں کہ اگر یہ گمان ہو کہ مظلوم کا دفاع کرنے سے وہ محفوظ ہوں اور اس کی مدد کرنے کی اہلیت موجود ہو تو اس صورت میں اس کا دفاع کرنا واجب کفائی ہے۔[15] شیعہ مرجع تقلید مرزا جواد تبریزی (وفات: سنہ 2006ء) بھی مظلوم کے دفاع کرنے کو دینی فریضہ سمجھتے تھے۔[16]

مظلوم قوموں کا دفاع

فقہاء کے فتوے کے مطابق مظلوم کا دفاع ایسا عمل ہے جو کسی خاص جغرافیائی حدود تک محدود نہیں ہے؛[17] اسی وجہ سے متعدد فقہاء، جیسے محمد حسین کاشف الغطا،[18] سید حسین طباطبائی بروجردی [19] اور امام خمینی[20] نے فلسطینی عوام کے دفاع کے سلسلے میں فتوا صادر کیا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین کی تیسری شق میں "دنیا کے مظلوموں کی مسلسل حمایت" پر زور دیا گیا ہے۔[21]

اپنا دفاع نہ کرنے والے مظلوم کی مذمت

شیعہ فلسفی اور عالم دین مرتضی مطہری کا عقیدہ ہے کہ اسلام نے ظالموں سے نمٹنے کے لیے کمزوری دکھانے کے خلاف مبارزہ کیا ہے۔ ان کے نقطہ نظر سے اسلام جس حد تک ظالم کے کے ساتھ دشمنی کرنے کی تاکید کرتا ہے اس حد تک اس شخص سے بھی دشمنی کرتا ہے ظالم کا مقابلہ کرنے کی اہلیت رکھنے کے باوجود اس کے سامنے تسلیم ہوتا ہے۔ [22] امام علیؑ سے منقول ہے کہ کمزور اور عاجز لوگ کبھی بھی ظلم کو اپنے سے دور نہیں کرسکتے اور حق کو کوشش کے بغیر حاصل نہیں کیا جا سکتا۔(لَا يَمْنَعُ الضَّيْمَ الذَّلِيلُ وَ لَا يُدْرَكُ الْحَقُّ إِلَّا بِالْجِدِّ)۔[23]

شیعہ سیاست دان اور مجتہد سید محمد حسینی بہشتی کا بھی کہنا کہ اسلام میں مظلوم واقع ہونا اتنا ہی گناہ ہے جتنا کہ ظالم بننا اور اگر کوئی مظلوم ظلم سہتا ہے تو اسے سب سے پہلے خود کی ملامت کرنی چاہیے۔ بہشتی سورہ اعراف آیت نمبر38 سے ستناد کرتے ہوئے کہتے کہ جہنم میں کچھ لوگ دوسروں کے لیے دوہرا عذاب چاہیں گے۔ اس لیے کہ ان کو گمراہ کرنے میں وہ لوگ دخیل تھے۔ قرآن اس کے جواب میں دونوں گروہوں کے گناہ کو یکساں قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ دونوں گروہوں کے لیے دوہرا عذاب ہے۔[24]

حوالہ جات

  1. مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، 1386شمسی، ج20، ص 467-464؛ حسینی همدانی، انوار درخشان فی تفسیر القرآن، 1380ھ، ج15، ص65۔
  2. موسوی سبزواری، مهذب الاحکام، دار التفسیر، ج28، ص156-157۔
  3. مکارم شیرازی، پیام قرآن، 1386شمسی، ج10، ص321۔
  4. مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج20، ص75۔
  5. نهج‌ البلاغه، حکمت 24۔
  6. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص164۔
  7. «بیانات آیت‌الله خامنه‌ای در خطبه‌های نماز جمعه 21 رمضان»، سایت khamenei.ir۔
  8. سوره نساء، آیه 148۔
  9. مطهری، پانزده گفتار، 1380شمسی، ص96۔
  10. ابن‌اثیر، الکامل فی التاریخ، 1385ق، ج2، ص41؛ ابن‌هشام، السیرة النبویة، دار المعرفة، ج1، ص134۔
  11. نهج‌ البلاغه، خطبه 136، ص194۔
  12. نهج البلاغة، تصحیح: صبحی صالح، خطبه 3۔
  13. نهج البلاغة، تصحیح: صبحی صالح، نامه 47، ص421۔
  14. حرّانی، تحف العقول،1363شمسی،1404ھ، ص239؛ مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج34، ص111۔
  15. نجفی، جواهر الکلام، 1362شمسی، ج21، ص310؛ کاشف الغطاء، کشف الغطاء، 1422ھ، ج4، ص367۔
  16. .تبریزی، اسس الحدود و التعزیرات، 1417ھ، ص459.
  17. شهید ثانی، مسالک الافهام، 1413ھ، ج3، ص8۔
  18. «المرجعیة الشیعیة و قضایا العالم الإسلامی من فتاوی و مواقف الإمام الشیخ محمد الحسین آل کاشف الغطاء عن فلسطین»، مجله الموسم، ص191۔
  19. اباذری، آیت‌الله بروجردی آیت اخلاص، 1383شمسی، ص117۔
  20. امام خمینی، صحیفه امام، 1389شمسی، ج2، ص199۔
  21. «اصل 3 قانون اساسی»، پژوهشکده شورای نگهبان۔
  22. مطهری، پانزده گفتار، 1380شمسی، ص96۔
  23. نهج‌ البلاغه، تصحیح صبحی صالح، ناشر: قم، مركز البحوث الاسلاميه، 1374شمسی، خطبه 29، ص73۔
  24. «سخنان عجیب شهید آیت الله بهشتی در مورد ستم پذیری»، سایت آپارات۔

نوٹ

  1. وَمَا لَکُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِ اللَّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِینَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِینَ یَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَٰذِهِ الْقَرْیَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَلْ لَنَا مِنْ لَدُنْکَ وَلِیًّا وَاجْعَلْ لَنَا مِنْ لَدُنْکَ نَصِیرًا؛ آخر تمہیں کیا ہوگیا ہے؟ کہ تم جنگ نہیں کرتے راہ خدا میں اور ان کمزور مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر جو فریاد کر رہے ہیں۔ پروردگار! ہمیں اس بستی سے نکال دے۔ جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے ہمارے لئے کوئی سرپرست اور حامی و مددگار بنا۔

مآخذ

  • اباذری، عبد الرحیم، آیت‌الله بروجردی آیت اخلاص، تهران، مجمع جهانی تقریب مذاهب اسلامی، 1383ہجری شمسی۔
  • ابن‌ اثیر، عزالدین، الکامل فی التاریخ، بیروت، دار صادر، چاپ اول، 1385ھ۔
  • ابن‌ هشام، عبد الملک بن‌هشام، السیرة النبویة، بیروت، دار المعرفة، بی‌تا۔
  • «اصل 3 قانون اساسی»، پژوهشکده شورای نگهبان، تاریخ بازدید: 12 اردیبهشت 1403ہجری شمسی۔
  • امام خمینی، سید روح‌ الله، صحیفه امام، تهران، مؤسسه توزیع و نشر آثار امام خمینی، 1389ہجری شمسی۔
  • «بیانات آیت‌الله خامنه‌ ای در خطبه‌ های نماز جمعه 21 رمضان»، سایت khamenei.ir، تاریخ بازدید: 12 اردیبهشت 1403ہجری شمسی۔
  • تبریزی، جواد، اسس الحدود و التعزیرات، قم، بی‌نا، 1417ھ۔
  • «سخنان عجیب شهید آیت الله بهشتی در مورد ستم‌پذیری»، سایت آپارات، تاریخ بازدید: 12 اردیبهشت 1403ہجری شمسی۔
  • شهید ثانی، زین‌ الدین بن علی، مسالک الأفهام إلی تنقیح شرائع الإسلام، قم، مؤسسة المعارف الإسلامیة، 1413ھ۔
  • حسینی همدانی، سید محمد، انوار درخشان در تفسیر قرآن، تحقیق: محمدباقر بهبودی، تهران، نشر لطفی، 1380ھ۔
  • حرانی، حسن بن علی، تحف العقول، مؤسسة النشر الاسلامي (التابعه) لجماعة المدرسين بقم المشرفة، تصحیح وتعلیق علی اکبرغفاری، 1404ق،1363ہجری شمسی۔
  • کاشف الغطاء، جعفر بن خضر، کشف الغطا عن مبهمات الشریعة الغراء، تحقیق: عباس تبریزی قم، دفتر تبلیغات اسلامی، 1422ھ۔
  • مجلسی، محمد باقر، بِحارُ الاَنوارِ الجامعةُ لِدُرَرِ اَخبارِ الاَئمةِ الاَطهار، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ دوم، 1403ھ۔
  • «المرجعیة الشیعیة و قضایا العالم الإسلامی من فتاوی و مواقف الإمام الشیخ محمد الحسین آل کاشف الغطاء عن فلسطین»، مجله الموسم، کشور هلند شهر ندرلند، شماره 18، 1414ھ۔
  • مطهری، مرتضی، جهاد، قم، جامعه مدرسین حوزه علمیه، 1374ہجری شمسی۔
  • مطهری، مرتضی، پانزده گفتار، تهران، صدرا، 1380ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، پیام قرآن، تهران، دار الکتب الاسلامیه، چاپ نهم، 1386ہجری شمسی۔
  • موسوی سبزواری، سید عبدالاعلی، مهذب الاحکام فی بیان حلال و الحرام، قم، دار التفسیر، بی‌تا۔
  • نهج‌ البلاغه، تصحیح صبحی صالح، قم، مؤسسه دار الهجره، 1414ھ۔