مندرجات کا رخ کریں

فتحی شقاقی

ویکی شیعہ سے
فتحی شقاقی
تحریک جہاد اسلامی فلسطین کے بانی اور سیکرٹری جنرل
کوائف
تاریخ پیدائش4 جنوری 1951ء
ملکفلسطین
تاریخ/مقام شہادت26 اکتوبر 1995ء، مالٹا کے درالحکومت والیٹا
مدفنیرموک پناہ گزین کیمپ دمشق
دیناسلام
پیشہڈاکٹر
سیاسی کوائف
مناصبتحریک جہاد اسلامی فلسطین کے سیکرٹری جنرل
علمی و دینی معلومات
تالیفاتجہاد اسلامی


فتحي ابراہیم عبد العزیز شقاقی (1951–1995ء)، تحریک جہاد اسلامی فلسطین کے بانی اور فلسطین میں صہیونی حکام کے خلاف مقاومتی بلاک کی نمایاں شخصیت تھے۔ سنہ 1967ء کی جنگ میں عربوں کی شکست کے بعد ان میں فکری تبدیلی آئی اور سید قطب کے افکار اور ایران کے اسلامی انقلاب سے متاثر ہو کر اسلامی جدوجہد کے نظریے کی بنیاد رکھی۔

شقاقی نے اپنی کتاب «جہاد اسلامی» کے پہلے باب «خمینی، راه‌حل اسلامی و جایگزین (خمینی اسلامی راہ حل اور نعم البدل)»میں ایران کے اسلامی انقلاب کو عرب دنیا کے لیے بیداری کا ایک نمونہ قرار دیا۔ وہ تین اصولوں یعنی اسلام، فلسطین اور جہاد پر زور دیتے تھے، سیاسی سرگرمیوں میں شرکت سے اجتناب کرتے اور مسلح جدوجہد کو آزادی کا واحد راستہ سمجھتے تھے۔

سنہ 1995ء میں اسرائیل کے اُس وقت کے وزیر اعظم کے حکم پر موساد نے شقاقی کو قتل کر دیا اور وہ شہید ہوئے۔ انہیں دمشق کے یرموک کیمپ کے شہداء کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔ ان کے قتل پر اسلامی اداروں اور ممالک کی جانب سے رد عمل سامنے آیا، اسی سلسلے میں ایران کے رہبر اعلی آیت اللہ خامنہ ای نے بھی تعزیتی پیغام جاری کیا۔

اہمیت اور مقام

فتحی شقاقی فلسطین میں مقاومتی بلاک کی نمایاں شخصیت، تحریک جہاد اسلامی فلسطین کے بانی اور سیکرٹری جنرل (1979–1995ء) تھے۔[1] انہوں نے ریاضی اور طب کی اعلیٰ تعلیم کے بعد اسرائیل کے خلاف ثقافتی اور عسکری جدوجہد کا آغاز کیا۔ شقاقی نے کتاب «خمینی، اسلامی حل اور متبادل» کی تصنیف کے ذریعے ایران کے اسلامی انقلاب کو عرب ممالک میں اسلامی بیداری کے لیے ایک نمونہ قرار دیا اور اسی خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے تحریک جہاد اسلامی کی بنیاد رکھی۔ ان کا یقین تھا کہ اسلام، فلسطین اور جہاد حقیقی جدوجہد کی بنیاد ہیں اور وہ صہیونیوں سے کسی بھی قسم کی مصالحت کو رد کرتے تھے۔[2]

وہ یوم القدس کو اسلام کی بقا اور اسرائیل مخالف جہاد کے احیاء کا دن سمجھتے تھے اور اسے نہایت اہمیت دیتے تھے۔[3]

زندگی‌ نامہ

فتحي شقاقی 4 جنوری 1951ء کو غزہ کے رفح مہاجر کیمپ میں پیدا ہوئے۔[4] ان کے والد ایک مزدور اور زرنوقہ گاؤں کے امام جماعت تھے۔ref>مؤسس "الجہاد" فتحي الشقاقي، المیادین۔</ref> انہوں نے ابتدائی اور ثانوی تعلیم رفح کیمپ میں قائم اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورک ایجنسی (UNRWA) کے اسکولوں میں حاصل کی۔ اس کے بعد انہوں نے بیروزیٹ یونیورسٹی (کرانہ باختری میں رام اللہ کے قریب) میں ریاضیات کے شعبے میں داخلہ لیا۔ 1974ء میں وہ مزید تعلیم کے لیے مصر کی زقازیق یونیورسٹی میں طب کے شعبے میں داخل ہوئے۔[5]

مصر سے واپسی کے بعد، پہلے یروشلم کے وکٹوریا اسپتال میں اور بعد میں غزہ میں چائلد سپیشلسٹ کے طور پر کام کیا۔[6]

قاتلانہ حملہ اور شہادت

26 اکتوبر 1995ء کو شقاقی کو مالٹا کے دارالحکومت والیٹا میں موساد کے ایجنٹوں نے قتل کر دیا۔[7] اس وقت کے اسرائیلی وزیر اعظم اسحاق رابین نے ذاتی طور پر اس قتل کا حکم دیا تھا۔[8]

ان کی شہادت پر مختلف اسلامی تنظیموں، شخصیات اور ممالک نے رد عمل کا اظہار کیا۔[9] ایران کے رہبر اعلی آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے تعزیتی پیغام میں فتحی شقاقی کو مؤمن، شجاع، مفکر اور مخلص مجاہد قرار دیا اور فرمایا کہ وہ اُن نمایاں شخصیات میں سے تھے جنہوں نے فلسطینی عوام کی اسلامی جدوجہد کا آغاز کیا۔[10] چونکہ شقاقی شیعہ مکتب فکر سے متاثر تھے،[11] کہا جاتا ہے کہ وہ شہادت سے قبل شیعہ مذہب اختیار کر چکے تھے۔[12]

الیرموک پناہگزین کیمپ دمشق میں فتحی شقاقی کا مقبرہ

ان کی قبر دمشق میں یرموک پناہگزین کیمپ کے شہداء کے قبرستان میں واقع ہے۔[13]

سیاسی افکار اور مقاومتی سرگرمیاں

سنہ 1967ء کی جنگ میں عربوں کی شکست کے بعد شقاقی میں فکری تبدیلی آنا شروع ہوئی اور وہ سید قطب کے نظریات اور ایران کے اسلامی انقلاب سے بہت متأثر ہوا۔[14] وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ اسلام، فلسطین اور جہاد جدوجہد کے تین بنیادی ستون ہیں۔ شقاقی صہیونی حکام کے ساتھ کسی بھی قسم کی مصالحت کو مسترد کرتے تھے۔[15] اپنی زندگی کے آخری ایام تک وہ عرب اور اسلامی دارالحکومتوں کے سفر پر رہے تاکہ فلسطین کی آزادی اور خودمختاری کے ساتھ ساتھ مسلح مقاومت سے متعلق اپنے نظریات کی حمایت حاصل کر سکیں۔[16]

شقاقی نے اپنی کتاب « خمینی اسلامی راہ حل اور نعم البدل » (1979ء) کی تصنیف جو ایران کے اسلامی انقلاب پر پہلی عربی کتاب تھی، جس میں انہوں نے امام خمینی کو مشرق اور مغرب کی نظریاتی سوچ کے مقابلے میں ایک متبادل راستے کے طور پر پیش کیا۔[17] اس کتاب کی اشاعت کے نتیجے میں انہیں مصر میں گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا گیا۔[18] وہ مسلمانوں بلکہ فلسطینی عیسائیوں کے اتحاد پر بھی زور دیتے تھے اور اسلامی جہاد کو ایک انقلابی اور عسکری تنظیم سمجھتے تھے اور اس تنظیم کو سیاست اور انتخابات کے میدان میں حصہ لینے سے گریز کرنے پر زور دیتے تھے۔[19]

تحریک جہاد اسلامی فلسطین کا قیام

فتحي شقاقی نے 1970ء کی دہائی کے آخر میں، مصر میں کچھ فلسطینی طلبہ کے ساتھ مل کر اسلامی جہاد نامی تحریک کی بنیاد رکھی۔ بانی اراکین میں رمضان شلح، عبداللہ الشامی اور عبد العزیز عودہ شامل تھے۔[20] کہا جاتا ہے کہ یہ تحریک مسلح جدوجہد اور سیاسی عمل میں عدم شرکت پر زور دیتی تھی اور حماس کے مقابلے میں ایران سے زیادہ قربت رکھتی تھی۔[21]

فتحی شقاقی کی شہادت پر آیت اللہ خامنہ ای کے تعزیتی پیغام سے اقتباس

میں پُرعزم ہوں کہ یہ سرخ اور شرف مندانہ موت فلسطین میں عظیم اسلامی تحریک کو اور زیادہ طاقتور بنائے گی، اور اس کی مظلومیت فلسطینی مظلوموں کو راہِ خدا میں جہاد کے لیے مزید ثابت قدم کرے گی۔

قید اور جلاوطنی

1983ء میں فتحی شقاقی کو صہیونی حکام نے گرفتار کیا اور 11 ماہ قید میں رکھا۔ 1986ء میں انہیں غزہ میں اسلحہ منتقل کرنے کے الزام میں 4 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ 1988ء میں انہیں لبنان جلاوطن کر دیا گیا۔[22] جلاوطنی کے دوران شقاقی نے سیاسی و عسکری سرگرمیوں کو جاری رکھا اور اسلامی جمہوریہ ایران اور حزب اللہ لبنان کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کیے۔[23]

حوالہ جات

  1. روی‌وران، «انقلاب اسلامی ایران از نگاہ شہید فتحی شقاقی»، ص45۔
  2. شقاقی - فتحی ابراہیم، دانشنامہ فلسطین۔
  3. روزشمار تاریخ، 1390ش، ص2980۔
  4. فتحي الشقاقي، الجزیرۃ۔
  5. حضرتی، خورشید در سایہ، 1397ش، ص287۔
  6. فتحي الشقاقي، الجزیرۃ۔
  7. روزشمار تاریخ، 1390ش، ص2981۔
  8. ترور رہبران مقاومت، خبرگزاری تسنیم۔
  9. شقاقی - فتحی ابراہیم، دانشنامہ فلسطین۔
  10. پیام تسلیت در پی شہادت دکتر فتحی شقاقی رہبر جہاد اسلامی فلسطین، دفتر حفظ و نشر آثار آیت‌اللہ خامنہ‌ای۔
  11. شحادہ، الموسوعۃ الشاملہ، 2010م، ج3، ص202۔
  12. مزار شہید «فتحی شقاقی» قبل از تخریب، خبرگزاری ابنا۔
  13. مزار شہید «فتحی شقاقی» قبل از تخریب، خبرگزاری ابنا۔
  14. شقاقی - فتحی ابراہیم، دانشنامہ فلسطین؛ زندگینامہ دکتر فتحی شقاقی، خبرگزاری مہر۔
  15. شقاقی - فتحی ابراہیم، دانشنامہ فلسطین۔
  16. فتحي الشقاقي، الجزیرۃ۔
  17. خامنہ‌ای، توہم سلطہ، 1392ش، ص482۔
  18. فتحي الشقاقي، الجزیرۃ۔
  19. دیدگاہ‌ رہبران فلسطینی دربارہ دوگانہ سازش و مقاومت، خبرآنلاین۔
  20. مؤسس "الجہاد" فتحي الشقاقي، المیادین۔
  21. دیدگاہ‌ رہبران فلسطینی دربارہ دوگانہ سازش و مقاومت، خبرآنلاین۔
  22. فتحي الشقاقي، الجزیرۃ۔
  23. دکتر فتحی شقاقی؛ بنیانگذار جنبش جہاد اسلامی فلسطین، اندیشکدہ اریحا۔

مآخذ