مندرجات کا رخ کریں

صبرا و شتیلا کا قتل عام

ویکی شیعہ سے
صبرا و شتیلا کا قتل عام
لبنان میں صبرا و شتیلا کے قتل عام کی یاد میں دیوار پر تحریر
لبنان میں صبرا و شتیلا کے قتل عام کی یاد میں دیوار پر تحریر
واقعہ کی تفصیلفلسطینی پناہ گزینوں کے کیمپ پر صہیونی فوج کا حملہ
زمان16 تا 18 ستمبر سنہ 1982ء
دورہآریل شارون کی وزارت عظمی کا دور
مکانبیروت
سبببشیر جمیِّل کے قتل کے انتقام کے بہانے
مقاصدفلسطینیوں کا قتل عام اور تنظیم آزادی فلسطین کی نابودی
عناصراسرائیلی فوج اور فالانژ کی ملیشیا
نتایجہزاروں فلسطینیوں کا قتل عام
اثراتاسرائیل کی شدت پسندی کی نشانی
نقصانات3000 سے 3500 افراد
عکس العملمغربی ممالک اور بین الاقوامی میڈیا کی طرف سے مذمت


صبرا و شتیلا کا قتلِ عام فلسطینی پناہ گزینوں کے خلاف ایک خونی واقعہ تھا جو اسرائیلی فوجیوں اور لبنانی ملیشیا "فالانژ" (جو ایک مسلح عیسائی گروہ تھا) کے ہاتھوں انجام پایا۔ یہ قتل عام 16تا 18 ستمبر 1982ء کو مغربی بیروت کے صبرا و شتیلا کے کیمپوں میں پیش آیا۔[1] اس واقعے میں مغربی بیروت میں موجود فلسطینی پناہ گزینوں کے کیمپوں کو صہیونی افواج نے فالانژ ملیشیا کے ساتھ مل کر محاصرے میں لیا اور 43 گھنٹے تک وسیع پیمانے پر قتلِ عام کیا۔[2] اس قتل عام میں مرنے والوں کی تعداد 3000 سے 3500 کے درمیان بتائی جاتی ہے، جن میں مرد، عورتیں اور بچے شامل تھے۔[3]

یہ قتلِ عام اس وقت شروع ہوا جب لبنان کے نومنتخب صدر، بشیر جُمَیِّل (جو اسرائیل کا اتحادی تھا) بیروت میں قتل ہوا[4] اور اسرائیل نے اس کا الزام فلسطینیوں پر لگایا اور بدلے کے طور پر فالانژ ملیشیا کے ساتھ مل کر ان پناہ گزینوں کے کیمپوں پر حملہ کر دیا۔[5]

یہ آپریشن اُس وقت کے اسرائیلی وزیرِ اعظم، آریل شارون کی نگرانی میں کیا گیا، اور اسی وجہ سے اسے "صبرا و شتیلا کا قصائی" کہا جانے لگا۔[6] کہا جاتا ہے کہ اس حملے کا مقصد وہاں موجود تنظیم آزادی فلسطین (PLO) کو کچلنا تھا۔[7]

صبرا و شتیلا کا یہ سانحہ بےرحمانہ تشدد کی ایک علامت بن گیا، جس نے دنیا بھر میں اسرائیل کے خلاف رائے عامہ کو ہلا کر رکھ دیا[8] اور کئی مغربی ممالک اور بین الاقوامی میڈیا نے مجبوراً اس واقعے پر ردِعمل دیا۔[9]

آریل شارون کے خلاف بیلجیم کی ایک عدالت میں مقدمہ بھی دائر ہوا، لیکن صہیونی لابی کے دباؤ کی وجہ سے یہ مقدمہ مؤثر طریقے سے آگے نہ بڑھ سکا۔[10]

صبرا و شتیلا کا یہ قتلِ عام فلسطین کی تاریخ کے دردناک ترین واقعات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے، اور فلسطینی ہر سال لبنان اور فلسطین میں اس کی یاد مناتے ہیں۔[11]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. صالح، فلسطین، 2002م، ص80؛ حضرتی، خورشید در سایہ، 1397شمسی، ص89۔
  2. روزشمار تاریخ، 1390شمسی، ص2761.
  3. Sabra and Shatila massacre survivors: 'It can’t be unseen'، میدل‌ایست.
  4. Timeline: At war for decades, Lebanon and Israel edge towards a rare deal، میدل‌ایست۔
  5. «کشتار صبرا و شتیلا»، تاریخ ایرانی۔
  6. «فاجعہ صبرا و شتیلا؛ ننگ ابدی برای صہیونیست‌ہا»، ص209۔
  7. سالروز قتل عام صبرا و شتیلا؛ مروری بر جنایات رژیم صہیونیستی علیہ فلسطینیان، خبرگزاری میزان.
  8. «فاجعہ صبرا و شتیلا؛ ننگ ابدی برای صہیونیست‌ہا»، ص210۔
  9. جنایتی تاریخی در قلب فلسطین کشتار صبرا و شتیلا چگونہ رخ داد؟، رویداد 24؛ سالروز قتل عام صبرا و شتیلا؛ مروری بر جنایات رژیم صہیونیستی علیہ فلسطینیان، خبرگزاری میزان.
  10. ««چہل سال از کشتار صبرا و شتیلا گذشت»، خبرگزاری آناتولی۔
  11. حضرتی، خورشید در سایہ، 1397شمسی، ص89؛ Sabra and Shatila massacre: What happened in Lebanon in 1982?، الجزیرة.

مآخذ