امام جعفر صادق علیہ السلام

فاقد خانہ معلومات
حوالہ جاتی اصول کی عدم رعایت
غیر جامع
ویکی شیعہ سے
(حضرت صادق سے رجوع مکرر)
امام صادق علیہ السلام
منصبشیعوں کے چھٹے امام
نامجعفر بن محمد
کنیتابو عبد اللہ
القابصادق، صابر، طاہر، فاضل
تاریخ ولادت17 ربیع الاول 83 ھ
جائے ولادتمدینہ
مدت امامت34 سال (114ھ تا 148ھ)
شہادت25 شوال، سنہ 148ہجری۔
مدفنمدینہ بقیع
رہائشمدینہ
والد ماجدامام باقر علیہ السلام
والدہ ماجدہام فروہ
ازواجفاطمہحمیدہ
اولاداسماعیل، عبداللہ افطح، ام فروة، امام کاظم، اسحاق، محمد دیباج، عباس، علی، اسماء و فاطمہ
عمر65 سال
ائمہ معصومینؑ
امام علیؑامام حسنؑامام حسینؑامام سجادؑامام محمد باقرؑامام صادقؑامام موسی کاظمؑامام رضاؑامام محمد تقیؑامام علی نقیؑامام حسن عسکریؑامام مہدیؑ


جعفر بن محمد (83۔148 ھ) امام جعفر صادقؑ کے نام سے مشہور، شیعہ اثنا عشری کے چھٹے امام ہیں۔ آپ کی مدت امامت 34 سال (114-148ھ) تھی۔ آپ کے والد ماجد امام محمد باقرؑ شیعوں کے پانچویں امام ہیں۔ بنی امیہ کے آخری پانچ خلفا ہشام بن عبدالملک سے آخر تک اور بنی عباس کے پہلے دو خلفا سفاح اور منصور دوانیقی آپ کے معاصر ہیں۔ آپ کے دور امامت میں بنی امیہ کے زوال اور بنی عباس کے نو ظہور اور غیر مستحکم حکومت کی وجہ سے دوسرے ائمہ کی بنسبت آپ کو زیادہ سے زیادہ علمی امور کی انجام دہی کا موقع ملا۔ آپ کے شاگردوں اور راویوں کی تعداد 4000 ہزار تک بتائی گئی ہیں۔ اہل بیتؑ سے منسوب اکثر احادیث آپ سے نقل ہوئی ہیں۔ اسی بنا پر شیعہ مذہب کو مذہب جعفریہ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔

امام صادقؑ کو اہل سنت کے فقہی پیشواؤں کے یہاں بھی بڑا مقام حاصل ہے۔ ابو حنیفہ اور مالک بن انس نے آپ سے روایت نقل کی ہیں۔ ابو حنیفہ آپؑ کو مسلمانوں کے درمیان سب سے بڑا عالم سمجھتے تھے۔

بنی امیہ حکومت کے زوال اور شیعوں کی طرف سے درخواست کے باوجود آپ نے حکومت کے خلاف قیام نہیں فرمایا۔ ابو مسلم خراسانی اور ابو سلمہ کی طرف سے خلافت کی ذمہ داری قبول کرنے سے متعلق درخواست کو بھی آپ نے رد فرمایا۔ اسی طرح اپنے چچا زید بن علی کی تحریک میں بھی آپ شریک نہیں ہوئے۔ آپ شیعوں کو بھی قیام سے پرہیز کی سفارش فرماتے تھے۔ ان سب چیزوں کے باوجود حاکمان وقت کے ساتھ بھی آپ کے تعلقات اچھے نہیں تھے۔ بنی امیہ اور بنی عباس کے سیاسی دباؤ کی وجہ سے آپ تقیہ کیا کرتے تھے اور شیعوں کو بھی تقیہ کی سفارش فرماتے تھے۔

امام صادقؑ نے اپنے پیروکاروں کے ساتھ زیادہ رابطے میں رہنے، درپیش شرعی سوالات کا جواب دینے، وجوہات شرعیہ کے دریافت اور اپنے پیروکاروں کی مشکلات کو حل کرنے کیلئے وکالتی نظام تشکیل دیا۔ اس نظام میں آپ کے بعد آنے والے اماموں کے دور میں وسعت آتی گئی یہاں تک کہ غیبت صغرا کے دور میں یہ نظام اپنے عروج پر جا پہنچا۔ آپ کے دور میں غالیوں کی فعالیتوں میں شدت آئی۔ آپ نے ان کے خلاف نہایت سخت اقدامات انجام دیئے اور انہیں کافر اور مشرک قرار دیا۔

بعض منابع میں آیا ہے کہ آپ کو حکومت وقت کے حکم پر عراق بلایا گیا جس دوران آپ کربلا، نجف اور کوفہ بھی تشریف لے گئے۔ آپؑ نے امام علیؑ کا مرقد جو اس وقت تک مخفی تھا، مشخص فرمایا اور اپنے پیروکاروں کو دکھایا۔ بعض شیعہ علماء اس بات کے معتقد ہیں کہ آپؑ منصور دوانیقی کے ہاتھوں زہر سے شہید ہوئے۔ شیعہ حدیثی منابع کے مطابق آپ نے امام کاظمؑ کو اپنے بعد بعنوان امام اپنے اصحاب کے سامنے متعارف کرایا تھا، لیکن امام کاظمؑ کی جان کی حفاظت کی خاطر آپ نے عباسی خلیفہ منصور دوانیقی سمیت پانچ افراد کو اپنا وصی مقرر کیا تھا۔ آپ کی شہادت کے بعد شیعوں میں مختلف فرقے وجود میں آگئے جن میں اسماعیلیہ، فَطَحیہ اور ناووسیہ شامل ہیں۔

امام صادقؑ کے متعلق لکھی گئی کتابوں کی تعداد 800 تک بتائی جاتی ہے۔ جن میں اخبار الصادق مع ابی حنیفہ و اخبار الصادق مع المنصور تالیف محمد بن وہبان دبیلی (چوتھی صدی ہجری)، اس سلسلے کی قدیمی کتابوں میں سے ہیں۔ آپ سے متعلق بعض دوسری کتابوں میں: زندگانی امام صادق جعفر بن محمدؑ مصنف سید جعفر شہیدی، الامام الصادقؑ و المذاہب الاربعۃ، مصنف اسد حیدر، پیشوائے صادق، مصنف سید علی خامنہ ای اور موسوعۃ الإمام الصادق، مصنف باقر شریف قَرَشی قابل ذکر ہیں۔

نسب، کنیت، لقب

جعفر بن محمد بن علی بن حسین بن علی بن ابو طالب، شیعہ اثنا عشری کے چھٹے[1] اور اساعیلیوں کے پانچویں امام ہیں۔[2] آپ کے والد ماجد امام محمد باقرؑ اور والدہ ماجدہ ام فروہ بنت قاسم بن محمد بن ابی بکر ہیں۔[3] کتاب کشف الغمہ کے مطابق چونکہ آپ کی والدہ کا نسب ماں باپ دونوں طرف سے ابوبکر تک پہنچتا ہے اس لئے امام نے فرمایا: لَقَدْ وَلَدَنِي أَبُو بَكْرٍ مَرَّتَيْن‏ (ترجمہ: میں دو مرتبہ ابوبکر سے متولد ہوا ہوں) لیکن بعض علماء من جملہ علامہ شوشتری و علامہ مجلسی نے اس روایت کو جعلی قرار دیا ہے۔[4]

آپ کی مشہور کنیت ابو عبد الله (آپ کے بیٹے عبداللہ افطح کی نسبت) سے ہے جبکہ آپ کو ابو اسماعیل (آپ کے بڑے بیٹے اسماعیل کی نسبت) اور ابو موسی (آپ کے فرزند امام موسی کاظمؑ کی نسبت) سے کہا جاتا ہے۔[5]

آپ کا سب سے مشہور لقب "صادق" ہے۔[6] ایک حدیث کے مطابق پیغمبر اسلامؐ نے آپ کو اس لقب سے نوازا تھا تاکہ جعفر کذاب سے متمایز ہو سکیں؛[7] لیکن بعض کا خیال ہے کہ یہ لقب آپ کو اپنے زمانے میں شروع ہونے والی حکومت مخالف تحریکوں میں شرکت نہ کرنے کی وجہ سے دیا گیا تھا کیوں اس زمانے میں اس شخص کو جو حکومت کے خلاف قیام کرے اور لوگوں کو حکومت کے خلاف ورغلائے، کذاب کہا جاتا تھا۔[8] خود عصر ائمہ میں ہی امامؑ اسی لقب سے مشہور تھے۔[9]

اہل سنت کے بعض علماء جیسے مالک بن انس، احمد بن حنبل اور جاحظ بھی امام کو اسی نام سے یاد کرتے تھے۔[10]

حالات زندگی

امام جعفر صادقؑ 17 ربیع‌ الاول سنہ 83 ہجری مدینہ میں پیدا ہوئے اور سنہ 148 ہجری 65 سال کی عمر میں شہید ہوئے۔[11] بعض نے آپ کی تاریخ ولادت سنہ 80 ہجری لکھی ہے۔[12] ابن قتیبۃ الدینوری نے آپ کی شہادت بھی سنہ 146 ہجری میں ثبت کی ہے[13] جسے سننے یا لکھنے میں غلطی جانا گیا ہے۔[14] آپ کی تاریخ شہادت کے حوالے سے بھی اختلاف پایا جاتا ہے مشہور شیعہ متقدم علماء کا نظریہ یہ ہے کہ آپ کی شہادت شوال کے مہینے میں واقع ہوئی ہے لیکن گذشتہ مصادر میں شہادت کس دن واقع ہوئی ہے، اس حوالے سے کوئی چیز موجود نہیں ہے۔ لیکن متأخر مصادر میں آپ کی شہادت 25 شوال ذکر ہوئی ہے۔[15] مشہور کے مقابلے میں ایک اور نظریہ بھی ہے جسے بحار الانوار میں مصباح کفعمی سے نقل کیا گیا ہے: آپؑ نے 15 رجب میں شہادت پائی ہے[16] لیکن اس کتاب پر تحقیق کرنے والوں نے اس مطلب کو مذکورہ کتاب میں نہیں پایا ہے۔[17]

  • ازواج و اولاد

شیخ مفید نے امام صادق علیہ السلام کی اولاد و ازواج کو یوں ذکر کیا ہے:[18]

ازواج نسب اولاد توضیحات
حمیدہ بنت صاعد یا صالح کاظمؑ، اسحاق و محمد امام کاظم امامیہ اثنا عشریہ کے ساتویں امام ہیں۔[19]
فاطمہ بنت حسین بن علی بن حسینؑ اسماعیل، عبدالله افطح و ام فروة عبدالله نے باپ کی شہادت کے بعد امامت کا دعوی کیا اور اس کے پیروکار فطحیہ کے نام سے معروف ہوئے۔[20] اسماعیل بن جعفر امام صادقؑ کی زندگی میں فوت ہوئے لیکن ایک جماعت نے اسے قبول نہیں کیا اور اسماعیلیہ گروہ تشکیل دیا۔[21]
دیگر ازواج - عباس، علی، اسماء و فاطمہ شیخ مفید کے بقول ان میں سے ہر ایک فرزند کی ماں ام ولد ہیں۔[22]

دور امامت

امام صادقؑ کے معاصر خلفا

قبل از امامت
(114-83ق)

سنہ


83-96ق
96-99ق
99-101ق
99-101ق
101-105ق
105-114ق

خلیفہ


عبدالملک بن مروان
ولید بن عبدالملک
سلیمان بن عبدالملک
عمر بن عبدالعزیز
یزید بن عبدالملک
ہشام بن عبدالملک

دوران امامت
(148-114ق)

سنہ


114-125ق
125-126ق
126-126ق
126-127ق
127-132ق
132-136ق
136-148ق

خلیفہ


ہشام بن عبدالملک
ولید بن یزید
یزید بن ولید
ابراہیم بن ولید
مروان بن محمد
سفاح
منصور دوانیقی

امام صادقؑ کی زندگی بنی امیہ کے آخری دس خلفا من جملہ عمر بن عبد العزیز، ہشام بن عبدالملک نیز بنی عباسی کے پہلے دو خلفا، سَفّاح اور منصور دوانیقی کے دور خلافت میں گزری ہے۔[23] امام باقرؑ کو جس وقت ہشام بن عبد الملک نے شام طلب کیا تو اس سفر میں امام صادقؑ بھی اپنے والد ماجد کے ہمراہ تھے۔[24] آپ کے دور امامت میں بنی‌ امیہ کے پانج آخری خلفاء اور بنی عباس کے دو خلیفہ سفاح و منصور دوانیقی نے حکومت کی۔[25] بنی امیہ کی حکومت زوال کا شکار ہوئی اور آخر کار اپنے انجام تک پہنچی جس کے بعد بنی عباس نے اسلامی دنیا پر اپنی خلافت قائم کی۔ بنی امیہ اپنے اقتدار کے آخری ادوار میں اپنی بقا کی فکر میں تھے جبکہ بنی عباس اپنے استحکام کی فکر میں، جس کی وجہ سے امام کو علمی و ثقافتی امور کی انجام دہی کا موقع ملا۔ جس سے آپ نے بھر پور استفادہ کرتے ہوئے مختلف عملی میدانوں میں شاگردوں کی تربیت فرمائی۔[26] البتہ یہ آزادی صرف دوسری صدی ہجری کے تیسرے عشرے میں نصیب ہوئی جبکہ اس سے پہلے بنی امیہ کی بنی ہاشم سے دیرینہ دشمنی نیز نفس زکیہ اور ان کے بھائی ابراہیم کی تحریک کی وجہ سے آپ بھی سیاسی دباؤ کا شکار رہے۔[27]

نصوص امامت

شیعہ نقطہ نگاہ سے امام، خدا کی طرف سے معین ہوتا ہے جسے نَصّ (پیغمبر اکرمؐ یا پہلے والے امام نے صراحت کے ساتھ مورد نظر شخص کی امامت کو بیان کیا ہو) کے ذریعے پہچانی جاتی ہے۔[28] کلینی نے اپنی کتاب کافی میں امام صادقؑ کی امامت کو ثابت کرنے کی غرض سے مختلف احادیث نقل کی ہیں۔[29]

وکالتی نظام

ایک طرف شیعہ اسلامی دنیا کے مختلف علاقوں میں پھیلے ہوئے تھے تو دوسری طرف سیاسی دباؤ کی وجہ سے ائمہ معصومین کو اپنے پیروکاروں کے ساتھ رابطہ برقرار کرنے میں دشواریوں کا سامنا رہتا تھا جو امام صادقؑ کے دور میں پہلے سے بھی پیچیدہ شکل اختیار کر گئی تھی۔ اسی وجہ سے آپ نے مختلف علاقوں میں اپنا وکیل اور نمائندہ مقرر فرمایا جو آپ اور آپ کے پیرکاروں کے درمیان رابطے کا کام انجام دیتے تھے۔[30] وجوہات شرعیہ جیسے خمس، زکات، نذر اور تحائف وغیرہ کی جمع آوری اور انہیں امامؑ تک پہنچانا، شیعوں کی مشکلات سے آگاہی اور ان کو ترجیحی بنیادوں پر حل و فصل کرنا، امام اور آپ کے پیروکاروں کے درمیان رابطہ برقرار کرنا نیز ان کے شرعی سوالات کا امام سے جوابات دریافت کرنا، ان وکلاء کے وظائف میں شامل تھا۔[31] وکالتوں کا یہ سلسلہ آپ کے بعد والے ائمہ کے زمانے میں نہ صرف جاری رہا بلکہ اس میں وسعت آتی گئی یہاں تک کہ امام زمانہؑ کی غیبت صغرا میں یہ سلسلہ نواب اربعہ کی صورت میں اپنے عروج پر جا پہنچا لیکن چوتھے نائب خاص علی بن محمد سمری کی وفات اور غیبت کبرای کے آغاز کے بعد وکلاء کا یہ سلسلہ اختتام پذیر ہوا۔ [32]

غالیوں کے ساتھ برتاؤ

امام باقرؑ اور امام جعفر صادقؑ کے زمانے میں غالیوں کی سرگرمیوں میں بھی شدت آگئی۔[33] غالی ائمہ کو خدا کا درجہ دیتے یا انہیں پیغمبر مانتے تھے۔ امام نے اس سوچ کی بھر پور مخالفت فرمائی، لوگوں کو ان کے ساتھ نشست و برخاست سے بھی منع کیا[34] اور انہیں فاسق، کافر اور مشرک قرار دیا۔[35]
ایک حدیث میں آیا ہے کہ آپ نے غالیوں کے حوالے سے اپنے پیروکاروں سے فرمایا: ان کے ساتھ نشست و برخاست نہ رکھیں، ان کے ساتھ کھانے پینے میں شامل نہ ہوں اور ان سے مصافحہ نہ کریں۔[36] اسی طرح آپ جوانوں کے بارے میں فرماتے تھے: خیال رہے کہ غالی تمہارے جوانوں کو گمراہ نہ کریں۔ یہ لوگ خدا کے بدترین دشمن ہیں؛ خدا کو پست اور خدا کے بندوں کو ربوبیت کا مقام دیتے ہیں۔[37]

علمی فعالیت

امام صادقؑ کے دور امامت میں بنی امیہ اپنی اقتدار اور بقا کی جنگ لڑ رہی تھی اسی بنا پر لوگوں خاص کر شیعوں کو کسی حد تک مذہبی آزادی نصیب ہوئی جس سے بھر پور استفادہ کرتے ہوئے امام عالی مقام نے مختلف موضوعات پر علمی اور عقیدتی مباحث کا سلسلہ شروع فرمایا۔[38] اس علمی اور مذہبی آزادی جو آپ سے پہلے والے اماموں کو کمتر نصیب ہوئی تھی کی وجہ سے علم دانش کے متلاشی آپ کے علمی جلسات میں آزادی سے شرکت کرنے لگے۔[39] یوں فقہ، کلام اور دیگر مختلف موضوعا پر آپ سے بہت زیادہ احادیث نقل ہوئیں۔[40] ابن‌حَجَر ہیتمی کے بقول لوگ آپ سے علم و معرفت کے خزانے دریافت کرتے تھے اور ہر جگہ آپ ہی کا چرچا تھا۔[41] ابوبحر جاحظ لکھتے ہیں کہ ان کی فقہ اور علم پوری دنیا میں پھیل چکا تھا۔[42] حسن بن علی وَشّاء لکھتے ہیں کہ انہوں نے 900 لوگوں کو دیکھا جو مسجد کوفہ میں امام صادقؑ سے حدیث نقل کرتے تھے۔[43]

مذہب جعفریہ

شیعہ عقائد کے مطابق دین اور مذہب کے بنیادی منابع میں جس طرح پیغمبر اکرمؐ کی سنت کو بنیادی حیثیت حاصل ہے آپؐ کے بعد آپ کے حقیقی جانشینوں یعنی ائمہ معصومین کی سنت کو بھی وہی حیثیت حاصل ہے۔ بنابراین ائمہ معصومین میں سے ہر ایک نے اپنی بساط اور حالات کے تقاضا کے مطابق دین اور مذہب کی نشر و اشاعت میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑے ہیں۔ لیکن باقی ائمہ کی نسبت اصول دین اور فروع دین دونوں حوالے سے سب سے زیادہ احادیث امام صادقؑ سے نقل ہوئی ہیں۔[44] اسی طرح راویوں کی تعداد کے حوالے سے بھی آپؑ سے روایت کرنے والے راویوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ اربلی نے آپ سے روایت کرنے والے راویوں کی تعداد 4000 تک بتائی ہے۔[45] ابان بن تغلب کے مطابق شیعوں میں جب بھی پیغمبر اکرمؐ کے اقوال کے بارے میں اختلاف‌ نظر پیدا ہوتا تو وہ حضرت علیؑ کے اقوال کی طرف رجوع کرتے تھے اور جب حضرت علیؑ کے اقوال میں اختلاف نظر پیدا ہوتا تو امام صادقؑ کے اقوال کی طرف رجوع کرتے تھے۔[46] فقہ اور کلام میں سب سے زیادہ احادیث امام صادقؑ سے نقل ہونے کی وجہ سے شیعہ اثنا عشریہ کو مذہب جعفریہ نیز کہا جاتا ہے۔[47] موجودہ دور میں امام صادقؑ مذہب جعفریہ کے بانی اور سرپرست کے طور پر مشہور ہیں۔[48]
سنہ 1378 ہجری کو الأزہر یونیورسٹی مصر کے چانسلر شیخ محمود شلتوت نے ان سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں مذہب جعفریہ کو سرکاری طور پر قبول کرنے کا اعلان کیا اور اس مذہب کے تعلیمات پر عمل کرنے کو بھی جائز قرار دیا۔[49]

مناظرات اور علمی گفتگو

شیعہ حدیثی منابع میں امام صادقؑ اور دوسرے مذاہب کے متکلمین نیز بعض ملحدین کے درمیان مختلف مناظرات اور علمی گفتگو نقل ہوئی ہیں۔[50] ان مناظرات میں سے بعض میں امام علیہ السلام کے شاگردوں نے اپنے متعلقہ شعبوں میں آپ کی موجودگی میں دوسروں کے ساتھ مناظرہ کئے ہیں۔ ان مناظروں میں امام عالی مقام مناظرے کی نگرانی فرماتے اور کبھی کبھار ضرورت پڑنے پر خود بھی بحث میں حصہ لیتے تھے۔[51] مثلا ایک شامی جو آپ کے شاگردوں کے ساتھ مناظرہ کرنے کا خواہاں تھا، امام نے ہشام بن سالم جو علم کلام میں تخصص رکھتا تھا سے اس شامی کے ساتھ مناظرہ کرنے کا حکم دیا۔[52] اسی طرح ایک اور شخص جو خود امامؑ سے مناظرہ کرنا چاہتا تھا، آپ نے فرمایا پہلے جس موضوع پر بھی گفتگو کرنا چاہتا ہے آپ کے شاگردوں سے مناظرہ گرنے کا کہا اور ان پر غالب آنے کی صورت میں اپنے ساتھ مناظرہ کرنے کا حکم فرمایا۔ اس شخص نے قرآن سے متعلق حُمران بن اَعیَن کے ساتھ، ادبیات عربی سے متعلق اَبان بن تَغلِب کے ساتھ، فقہ میں زُرارہ اور کلام میں مؤمن طاق اور ہِشام بن سالم کے ساتھ مناظرہ کیا اور ہر میدان میں وہ مغلوب ہوا۔[53]

احمد بن علی طبرسی نے اپنی کتاب الاحتجاج میں امام صادقؑ کے مناظرات کو جمع کیا ہے ان میں سے بعض یہ ہیں:

  • ایک منکر خدا کے ساتھ خدا کے وجود پر مناظرہ[54]
  • ابوشاکر دَیصانی کے ساتھ خدا کے وجود پر مناظرہ[55]
  • ابن ابی العوجاء کے ساتھ خدا کے وجود پر مناظرہ[56]
  • ابن ابی العوجاء کے ساتھ عالَم کے حدوث پر مناظرہ[57]
  • خدا کے منکر ایک شخص کے ساتھ خدا کے وجود اور بعض دیگر مسائل پر طولانی مناظرہ‌[58]
  • ابوحنیفہ کے ساتھ حکم شرعی کے استنباط کے طریقے خاص کر قیاس سے متعلق مناظرہ[59]
  • معتزلہ کے بعض علماء کے ساتھ حاکم کے انتخاب کا طریقہ کار اور بعض دوسرے فقہی مسائل پر مناظرہ[60]

سیاسی اور سماجی سرگرمیاں

امامت امام صادقؑ 114-148ھ
امام صادقؑ کے ہم عصر حکمران

  سیاسی اور سماجی حوالے سے امام جعفر صادق ؑ کی زندگی کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا سکتا ہے: ایک حصہ بنی امیہ کا دور حکومت اور دوسرا حصہ بنی عباس کا دور حکومت۔ مجموعی طور پر ان دو ادوار میں دس بنی امیہ کے آخری دس اور بنی عباس کے پہلے دو خلفاء کو آپ کے معاصر خلفاء مانے جاتے ہیں۔[61] امام باقرؑ کو جس وقت ہشام بن عبد الملک نے شام تشریف لے جانے پر مجبور کیا تو اس سفر میں اپنے والد ماجد کے ہمراہ امام صادقؑ بھی تھے۔[62] آپؑ کی امامت کا دورانیہ 34 سالوں پر محیط تھا جس میں بنی امیہ کے آخری پانچ اور بنی عباس کے پہلے دو خلفا سفاح اور منصور کی حکومت تھی۔[63] اس دوران بنی امیہ اپنی بقا کی جنگ ہار گئی جس کے نتیجے میں اسلامی دنیا پر بنی عباس کی خلافت قائم ہوئی۔ بنی امیہ روبزوال ہونے اور بنی عباس اپنی نوپا اقتدار کو استحکام بخشنے میں مصروف ہونے کی وجہ سے امام صادقؑ کو علمی اور ثقافتی سرگرمیوں کیلئے مناسب موقع فراہم ہوا۔[64] البتہ یہ آزادی صرف دوسری صدی ہجری کے تیسرے عشرے میں نصیب ہوئی جبکہ اس سے پہلے بنی امیہ کی بنی ہاشم سے دیرینہ دشمنی نیز نفس زکیہ اور ان کے بھائی ابراہیم کی تحریک کی وجہ سے آپ بھی سیاسی دباؤ کا شکار رہا۔[65]

مسلحانہ قیام سے دوری

اگرچہ امام صادقؑ کی امامت کے دوران بنی امیہ اپنی بقا اور زوال کے کشمکش سے دوچار تھی اور کسی حکومت کو سرنگوں کرنے کا یہ بہترین موقع ہوا کرتا ہے، لیکن امامؑ نے مسلحانہ جد و جہد سے دوری اختیار فرمائی یہاں تک کہ بعض افراد کی طرف سے خلافت قبول کرنے کی پیشکش کو بھی آپ نے مسترد کردیا۔ شہرستانی نے نقل کیا ہے کہ ابومسلم خراسانی نے ابراہیم کی وفات کے بعد امام صادقؑ کو ایک خط لکھا جس میں آپ کو خلافت کیلئے سب سے زیادہ سزاوار قرار دیتے ہوئے خلافت کرنے کی دعوت دی لیکن امام نے اسے مسترد کرتے ہوئے ان کے خط کا یوں جواب دیا: "نہ تم میرے وفاداروں میں سے ہو اور نہ یہ زمانہ میرا زمانہ ہے۔"[66] آپ نے ابوسلمہ کی طرف سے بھی خلافت کو قبول کرنے کی درخواست کو رد فرماتے ہوئی اس کے خط کو آگ لگا دیا۔[67] اسی طرح آپ نے اس زمانے میں شروع ہونے والی حکومت مخالف تحریکوں میں بھی حصہ نہیں لیا یہاں تکہ کہ اپنے چچا زید بن علی کی تحریک میں بھی آپ نے شرکت نہیں فرمائی۔ [68] ایک حدیث کے مطابق امام صادقؑ با وفا اصحاب و اعوان کے نہ ہونے کو مسلحانہ قیام نہ فرمانے کا سبب قرار دیتے تھے۔[69]

  • عبداللہ بن حسن مثنی کے ساتھ اختلاف رائ

بنی‌امیہ کی حکومت کے آخری سالوں میں بنی‌ ہاشم کا ایک گروہ جن میں عبداللہ بن حسن مثنی اور ان کے بیٹے نیز سفاح اور منصور دوانیقی حکومت کے خلاف مسلحانہ قیام کرنے کیلئے اپنے درمیان میں سے کسی ایک کی بیعت کرنے کی خاطر ابواء میں جمع ہوئے۔ اس جلسے میں عبداللہ نے اپنے بیٹے محمد(نفس زکیہ) کو مہدی کے عنوان سے معرفی کیا اور حاضرین سے ان کی بیعت کرنے کا کہا۔
جب امام صادقؑ کو اس بات کا علم ہوا تو آپ نے فرمایا: تمہارا بیٹا مہدی نہیں ہے اور نہ ابھی مہدی کے ظہور کا وقت ہے۔ عبداللہ آپ کی باتوں سے ناراض ہوا اور کہا کہ آپ حسد کی وجہ سے یہ باتیں کر رہے ہیں۔ امام صادقؑ نے قسم کھا کر فرمایا میں حسد کی وجہ سے یہ نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ یہ حقیقت پر مبنی ہے، تمہارا بیٹا مارا جائے گا اور خلافت سفاح اور منصور دوانیقی کو ملے گا۔[70] رسول جعفریان نے امام حسنؑ اور امام حسینؑ کی اولاد میں پیدا ہونے والے اختلافات کی اصل وجہ اسی داستان کو قرار دیتے ہیں۔[71]

حاکمان وقت کے ساتھ آپ کے تعلقات

اگرچہ امام صادقؑ نے اپنے زمانے کے حاکمان وقت کے خلاف مسلحانہ قیام سے دوری اختیار کی لیکن دوسری طرف سے حاکمان وقت کے ساتھ آپ کے تعلقات بھی اچھے نہیں تھے۔ جب اپنے والد ماجد امام محمد باقرؑ کے ساتھ حج مشرف ہوئے تو حج کے مراسم میں آپ نے اہل بیتؑ کو خدا کے برگزیدگان میں سے قرار دیتے ہوئے ہشام بن عبدالملک کی اہل بیتؑ دشمنی کی طرف اشارہ فرمایا۔[72] منصور دوانیقی نے آپ سے کہا کہ آپ بھی دوسرے لوگوں کی طرح ان کے پاس آجایا کریں، تو آپؑ نے فرمایا: ہمارے پاس کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کی وجہ سے ہم تم سے ڈریں اور تمہارے پاس آخرت کے امور میں سے کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کی وجہ سے ہم تم سے لو لگائیں نہ تم کسی نعمت سے مالا مال ہو جس کی وجہ سے ہم تمہیں مبارک باد دیں اور نہ تم کسی مصیبت میں مبتلا ہو جس کی خاطر ہم تمہیں تسلیت دینے تمہارے پاس آئیں۔ پس ہمیں تم سے کیا لینا دینا؟![73]

گھر کو نذر آتش کرنا

کافی اور مناقب علی بن ابی طالب میں مفضل بن عمر کی روایت کے مطابق حسن بن زید نے مدینہ پر حاکمیت کے دوران منصور کے حکم پر حضرت امام جعفر صادقؑ کے گھر نذر آتش کیا۔[74]۔ اس حدیث کے مطابق اس آتش سوز میں آپ کے گھر کا دروازہ اور دہلیز جل گیا اور امامؑ جلتے ہوئے گھر کے اندر سے باہر تشریف لائے اور فرمایا:

میں اَعراق الثَّرَی (لقب حضرت اسماعیل) کا بیٹا ہوں۔ میں ابراہیم خلیل اللہ کا بیٹا ہوں۔[75]

لیکن بعض مؤرخین من جملہ طبری کے مطابق منصور نے سنہ 150 ہجری یعنی امام صادقؑ کی شہادت کے دو سال بعد حسن بن زید کو مدینہ کا گورنر مقرر کیا تھا۔[76]

تقیہ کرنا

سوائے دوسری صدی ہجری کے تیسرے عشرے کے جس میں بنی‌امیہ کی حکومت کا زوال ہوا باقی سالوں میں بنی امیہ اور بنی عباس کے خلفا ہمیشہ آپ اور آپ کے پیرکاروں کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھتے تھے اور آپ کی زندگی کے آخری سالوں میں سیاسی دباؤ میں شدت آگئی تھی۔[77] بعض روایات کے مطابق منصور دوانیقی کے کارندے حتی ان لوگوں کو بھی پکڑ کر گردن مار دیتے تھے جو آپ کے پیروکاروں کے ساتھ دوستانہ روابط رکھتے تھے۔ اس بنا پر آپؑ تقیہ فرماتے تھے اور اپنے پیروکاروں کو بھی تقیہ کرنے کی سفارش فرماتے تھے۔[78]

امام صادقؑ نے سفیان ثوری سے جو آپ سے ملاقات کیلئے آئے تھے، فرماتے ہیں آپ یہاں سے چلے جائیں کیونکہ ہم دونوں حکومت کی کڑی نگرانی میں ہیں۔[79] ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ امام صادقؑ نے ابان بن تغلب سے کسی ممکنہ خطرات کے پیش نظر لوگوں کے پوچھے گئے فقہی سوالات کا جواب اہل سنت علماء کے نظریے کے مطابق دینے کا حکم دیا۔[80] اسی طرح امام صادقؑ سے بعض ایسی احادیث نقل ہوئی ہیں جن میں آپ اپنے پیروکاروں کو تقیہ کرنے کی سفارش فرماتے ہیں۔ ان احادیث میں سے بعض میں تقیہ کو نماز کے برابر کا درجہ دیا گیا ہے۔[81]

اخلاقی خصوصیات

حدیثی منابع میں امام صادقؑ کی اخلاقی خصوصیات میں سے زہد، انفاق، فراوانی علم، طولانی عبادت اور قرآن کریم کی تلاوت وغیرہ جیسی اخلاقی خصوصیات کا تذکرہ ملتا ہے۔ محمد بن طلحہ امام صادقؑ کو اہل بیت میں سب سے زیادہ عظمت و بزرگی کا حامل شخص قرار دیتے ہیں جو علم و معرفت کے اعلی درجے پر فائز ہونے کے ساتھ ساتھ زہد و تقوی، عبادت و بندگی نیز قرآن مجید کی تلاوت میں اپنے زمانے میں شہرت رکھتے تھے۔[82] مالک بن انس جو اہل سنت کے ائمہ اربعہ میں سے ہیں، امامؑ کے متعلق کہتے ہیں: جتنی مدت جعفر بن محمد کے پاس جانے کا اتفاق ہوا اسے تین حالتوں میں سے ایک حالت میں پایا، یا نماز کی حالت یا روزہ داری کی حالت میں یا ذکر پڑھنے کی حالت میں۔[83]
بحار الانوار کے مطابق امامؑ نے کسی فقیر کے سوال کرنے پر اسے چار سو درہم عطا فرمایا اور جب اس کی شکر گزاری کو دیکھا تو اپنی انگوٹھی جو دس ہزار درہم کی تھی، اسے بخش دیا۔[84] آپؑ کے انفاق‌ فی سبیل اللہ سے متعلق بھی بہت ساری احادیث موجود ہیں۔ کتاب کافی میں آیا ہے کہ آپ رات کو کسی تھیلے میں روٹی، گوشٹ اور درہم و دینار رکھ کر بطور ناشناخت غریبوں کے دروازوں پر جاتے تھے اور مذکورہ چیزوں کو ان میں تقسیم کرتے تھے۔[85] ابوجعفر خثعمی نقل کرتے ہیں کہ امام صادقؑ نے ایک دفعہ درہم و دینار سے بھرا ہوا ایک تھیلہ مجھے دیا اور اسے بنی ہاشم کے کسی فرد کو دینے کا کہا لیکن یہ اسے یہ نہ کہا جائے کہ اسے کس نے بھیجا ہے۔ خثعمی کہتے ہیں جب اس شخص نے وہ رقم لے لیا تو اس کے بھیجنے والے کیلئے دعا کیا اور امام صادقؑ کی شکایت کرنا شروع کیا کہ اتنے مال دولت کے باوجود ان کی مدد نہیں کرتا۔[86]

عراق کا سفر

مسجد سہلہ میں مقام امام صادق

سفاح اور منصور دوانیقی کی طرف سے دربار میں طلب کئے جانے کی وجہ سے امام صادقؑ کو کئی بار عراق کا سفر اختیار کرنا پڑا۔ عراق سفر کے دوران آپ کربلا، نجف، کوفہ اور حیرہ بھی تشریف لے گئے۔[87] محمد بن معروف ہلالی نقل کرتے ہیں کہ جب امام صادقؑ حیرہ تشریف لے گئے تو لوگوں کی کثیر تعداد آپ کی استقبال کیلئے جمع ہو گئے تھے یہاں تک کہ مقلاقاتیوں کی کثرت کی وجہ سے کئی دن تک امام سے ملاقات نہ ہو سکی۔[88]
مسجد کوفہ میں مسلم بن عقیل کی قبر کے نزدیک واقع محراب امام صادق اور مسجد سہلہ میں مقام امام صادق آپ کی عراق تشریف آوری کا پتہ دیتا ہے۔[89] کربلا میں امام حسینؑ کی زیارت آپ کے اس سفر کے دیگر اہم سرگرمیوں میں شامل ہے۔[90] کربلا میں دریائے حسینیہ کے کنارے بھی آپ سے منسوب ایک مقام ہے جو محراب امام صادق کے نام سے مشہور ہے۔[91]

  • حضرت علی کی قبر کی نشاندہی

بعض احادیث میں امام صادقؑ کی طرف سے قبر امام علیؑ کی زیارت کرنے کا عندیہ بھی ملتا ہے۔[92] انہی احادیث کے مطابق آپ نے اپنے پیروکاروں کو قبر امام علیؑ کی نشادہی کرائی جو اس سے پہلے مخفی تھی۔ کلینی کے مطابق ایک دن آپ نے یزید بن عمرو بن طلحہ کو حیرہ اور نجف کے درمیان کسی مقام پر لے گیا اور وہاں آپ نے اسے حضرت علیؑ کی قبر کی نشاندہی کرائی۔[93] شیخ طوسی فرماتے ہیں: امام صادقؑ امام علیؑ کی قبر کے نزدیک تشریف لائے وہاں نماز پڑھی اور یونس بن ظَبیان سے فرمایا: یہ امیر المؤمنین حضرت علیؑ کا مزار ہے۔[94]

شاگرد اور روات

شیخ طوسی اپنی رجال میں تقریبا 3200 راویوں کا نام لیتے ہیں جنہوں نے امام صادقؑ سے حدیث نقل کی ہیں۔[95] شیخ مفید اپنی کتاب الارشاد میں آپ کے راویوں کی تعداد 4000 تک نقل کرتے ہیں۔[96] کہا جاتا ہے کہ امام صادقؑ کے راویوں سے متعلق ابن‌ عقدہ کی ایک کتاب تھی جس میں انہوں نے بھی ان کی تعداد 4000 بتائی ہیں۔[97]
اصول اربع مائہ (شیعوں کے چار لاکھ اصول) کے اکثر مصنفین امام صادق کے شاگرد تھے۔[98] اسی طرح دوسرے ائمہ کی نسبت آپ کی شاگردوں کی تعداد بھی سب سے زیادہ ہیں جو ائمہ معصومین کے اصحاب میں سب سے زیادہ مورد اعتماد راویوں میں شمار ہوتے ہیں۔[99] آپ کے بعض مشہور شاگردوں کے نام درج ذیل ہیں:

امام صادقؑ کے شاگردوں کے مناظرے پر مبنی حدیث جسے کَشّی نے نقل کی ہے، سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی شاگرد مختلف علمی شعبوں میں تخصص رکھتے تھے۔[100] اس حدیث کے مطابق حُمران بن اَعیَن علوم قرآنی میں، اَبان بن تَغلِب ادبیات عرب میں، زُرارہ فقہ میں اور مومن الطاق اور ہِشام بن سالم علم کلام میں تخصص رکھتے تھے۔[101] اسی طرح علم کلام میں تخصص رکھنے والے آپ کے دیگر شاگردوں میں حُمران بن اَعیَن، قیس ماصِر اور ہشام بن حَکَم کا نام لیا جا سکتا ہے۔[102]

اہل سنت

اہل سنت کے بعض علماء اور ان کے فقہی پیشوا بھی امام صادقؑ کے شاگرد رہے ہیں۔ شیخ صدوق نے مالک بن انس سے نقل کی ہے کہ وہ ایک مدت تک امام صادقؑ کے پاس جاتے تھے اور آپؑ سے حدیث سنتے تھے۔[103] مالک بن انس نے اپنی کتاب مُوَطَّأ میں امام صادقؑ سے حدیث نقل کی ہیں۔[104] ابن حجر ہیتمی لکھتے ہیں کہ اہل سنت بعض بڑے علماء مانند یحیی بن سعید، ابن جریح، مالک بن انس، سفیان بن عیینہ، سفیان ثوری، ابوحنیفہ، شعبۃ بن الحجاج اور ایوب سختیانی نے امام صادقؑ سے روایت کی ہیں۔[105]

منتخب کلام

آپ سے نقل ہونے والی بعض مشہور احادیث درج ذیل ہیں:

  • حدیث توحید مُفَضَّل: توحید مُفَضَّل ایک طولانی حدیث ہے جسے امام صادقؑ نے چار نشستوں میں مُفَضَّل بن عمر کو املاء فرمایا۔[106] اس حدیث میں آفرینش جہاں، خلقت انسان، دنیائے حیوانات کی حیرت انگیزیاں، آسمان اور زمین کی حیرت انگیزیاں، موت کی حقیقت اور اس کا فلسفہ وغیرہ جیسے موضوعات پر بحث کی گئی ہے۔[107]
  • حدیث عِنوان بَصری: حدیث عِنوان بَصری میں امام صادقؑ نے عبودیت کی تعریف کے بعد عِنوان بصری نامی شخص کے لئے ریاضت نفس، بردباری اور علم و معرفت کے حوالے سے مختلف دستورالعمل‌ بیان فرمایا ہے۔[108]

آپ کے بارے میں اہل سنت کا نظریہ

اہل سنت اکابرین بھی امام صادقؑ کے مقام و منزلت کے معترف تھے۔ ابوحنیفہ آپؑ کو مسلمانوں میں سب سے زیادہ دین شناس اور علم و معرفت کا حامل قرار دیتے تھے۔[111] ابن ابی الحدید کا کہنا ہے کہ اہل سنت اکابرین من جملہ ان کے ائمہ ابوحنیفہ، احمد بن حنبل اور شافعی مستقیم یا غیر مستقیم امام صادقؑ کے شاگرد رہے ہیں اسی بنا پر یہ کہا جا سکتا ہے که حقیقت میں فقہی اعتبار سے مذہب اہل سنت کی جڑیں فقہ شیعہ سے ہی نشو و نما پائی ہے۔[112] ان تمام باتوں کے باوجود فقہ اہل سنت میں آپؑ کے معاصر فقہاء جیسے اوزاعی اور سفیان ثوری وغیرہ کے نظریات سے تو استفادہ کیا گیا ہے لیکن امام صادقؑ کے نظریات سے کوئی استفادہ نہیں کیا گیا ہے۔[113] اسی بنا پر بعض شیعہ علماء مانند سید مرتضی نے اہل سنت علماء کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔[114]

شہادت

قبرستان بقیع میں امام جعفر صادقؑ کا مرقد

شیعہ اور سنی اکثر قدیم منابع میں امام صادقؑ کی شہادت سے متعلق کوئی شواہد موجود نہیں ہے۔[115] یہاں تک کہ بعض شیعہ علماء من جملہ شیخ مفید نے آپ کی رحلت کو طبیعی موت قرار دیا ہے۔ لیکن بعض علماء اس حدیث کی بنا پر جس میں آیا ہے کہ ائمہ معصومین کو یا تلوار سے شہید کیا جائے گا یا زہر سے، کہتے ہیں کہ آپ کو بھی شہید کیا گیا تھا۔[116] اس کی تصریق کرتے ہوئے شیخ صدوق فرماتے ہیں کہ آپ کو منصور دوانیقی کے حکم پر زہر سے شہید کیا گیا تھا۔[117]

آپ کی وصیت

احادیث کے مطابق امام صادقؑ نے اپنی زندگی میں کئی بار امام کاظمؑ کو اپنے بعد امام کے عنوان سے اپنے خاص اصحاب کے سامنے تعارف کرایا تھا؛[118] لیکن بنی عباس کی سیاسی دباؤ اور امام کاظمؑ کی جان کی حفاظت کی خاطر اپنے بعد پانچ افراد من جملہ منصور دوانیقی کو اپنا وصی بنایا۔[119] اسی بنا پر حتی آپ کے بعض برجستہ اصحاب مانند مؤمن طاق اور ہشام بن سالم بھی آپ کی جانشینی کے مسئلے میں مردد تھے۔ یوں یہ لوگ شروع میں عبداللہ افطح کی طرف چلے گئے اور ان سے کچھ سوالات کئے لیکن وہ عبداللہ کے جواب سے قانع نہیں ہوئے تو وہ امام موسی کاظمؑ کے پاس گئے اور وہی سوالات آپ سے بھی کئے اور جب آپ کے جواب سے وہ قانع ہوئے تو انہوں نے آپ کی امامت کا اقرار کیا۔[120]

شیعوں میں گروہ بندی

امام صادقؑ کی شہادت کے بعد شیعوں میں مختلف فرقے وجود میں آگئے۔ بعض نے آپ کے بڑے بیٹے اسماعیل کی وفات سے انکار کرتے ہوئے آپؑ کے بعد ان کی امامت کے قائل ہو گئے جو بعد میں اسماعیلیہ کے نام سے مشہور ہوئے۔ انہی میں سے بعض لوگ جب اسماعیل کے زندہ ہونے سے مأیوس ہوئے تو ان کے بیٹے محمد کی امامت کے قائل ہوئے۔ بعض شیعہ عبداللہ اَفْطَح کو امام ماننے لگے یہ گروہ فَطَحیہ کے نام سے مشہور ہوئے؛ لیکن یہ گروہ عبدالله کی وفات کے بعد جو امام جعفر صادقؑ کی شہادت کے صرف 70 دنوں بعد واقع ہوئی، امام موسی کاظمؑ کی امامت کے قائل ہوئے۔ بعض شیعہ ناووس نامی شخص کی پیروی کرتے ہوئے خود امام صادقؑ کی امامت پر توقف کیا یہ گروہ بعد میں فرقہ ناووسیہ کے نام سے مشہور ہوئے۔ اور بعض شیعہ محمد دیباج کی امامت کے معتقد تھے۔[121]

آپ کا یوم شہادت

ایران میں 25 شوال کو آپ کی تاریخ شہادت کے عنوان سے سرکاری طور پر چھٹی ہوتی ہے۔ پہلی بار یہ کام آیت اللہ کاشانی کی سفارش پر ڈاکٹر مصدق کے حکم سے انجام پایا۔[122] موجودہ دور میں قم میں موجود شیعہ مراجع تقلید اس دن آپ کی شہادت کے عنوان سے عزاداری کرتے ہیں برہنہ پاؤں ماتمی دستوں میں خود شرکت کر کے عزاداری کرتے ہیں جو مختلف علاقوں سے برآمد ہو کر حرم حضرت معصومہ میں اختتام پذیر ہوتے ہیں۔[123]

تألیفات امام صادق

بعض شیعہ حدیثی کتابوں میں امام صادقؑ سے منسوب بعض مکتوب اور رسالہ جات نقل ہوئی ہیں۔ ان میں سے بعض کا آپ سے نقل ہونے میں شکوک و شبہات پایا جاتا ہے لیکن ان میں سے بعض، کافی جیسی معتبر کتابوں میں بھی نقل ہوئی ہے جس کی وجہ سے ان کے معتبر ہونے کا امکان زیادہ قوی ہے ذیل میں ان میں سے بعض کو ذکر کیا جاتا ہے:

  • امام صادقؑ کا اپنے اصحاب کے نام خط: یہ خط امامؑ کے ان سفارشات پر مشتمل ہے جو آپ نے زندگی کے مختلف شعبوں کے حوالے سے اپنے پیروکاروں کیلئے ارشاد فرمایا ہے۔ یہ خط کتاب کافی میں بھی آیا ہے۔
  • رسالہ شرایع الدین بہ روایت اَعمَش: یہ رسالہ اصول دین اور فروع دین کے متعلق ہے جسے ابن بابویہ نے نقل کیا ہے۔
  • قرآن کی تفسیر سے متعلق ایک خط کا ایک حصہ۔
  • اہل قیاس کے نام لکھے گئے ایک خط کا ایک حصہ جس میں آپ نے ان پر تنقید فرمایا ہے۔
  • الرسالۃ الأہوازیہ: یہ خط آپ نے اہواز کے گورنر نجاشی کو تحریر فرمایا تھا جس کا متن شہید ثانی کی کتاب کشف الریبہ میں آیا ہے۔
  • توحید المُفَضَّل یا کتاب فکِّر: یہ رسالہ خداشناسی سے متعلق امامؑ کے ارشادات کا خلاصہ ہے جسے آپ نے مُفَضَّل بن عمر کیلئے ارشاد فرمایا تھا اور اس کتاب میں "فَکِّر یا مُفَضَّل" (اے مفضل غور و فکر کرو) کی تکرار کی وجہ سے قدیم زمانے میں یہ کتاب "کتاب فَکِّر" کے نام سے بھی مشہور تھی۔
  • رسالہ اَہلیلَجہ: اس رسالے میں امام صادقؑ نے کسی ہندوستانی ڈاکٹر کے ساتھ خدا کے وجود کو ثابت کرنے کی غرض سے گفتگو فرمائی ہے۔ نجاشی نے اس کتاب کو "بِدءُالخَلق و الحَثُّ عَلَی الاِعتبار" کے نام سے یاد کیا ہے۔
  • تفسیر امام صادقؑ کے نام سے مشہور کتاب۔
  • تفسیر النُعمانی۔[124]

بعض کتابیں ایسی ہیں جنہیں آپؑ کے شاگردوں نے آپ کے ارشادات سے اقتباس کرتے ہوئے تحریر کی ہیں۔ من جملہ ان کتابوں میں سے بعض جو شایع ہوئی ہیں درج ذیل ہیں:

  • "الجعفریات" یا "الاَشعَثیات" مصنف محمد بن محمد بن اشعث۔
  • نثر الدُرَر: اس کتاب کے متن کو ابن شُعبہ حَرّانی نے تحف العقول میں نقل کیا ہے۔
  • الحِکَم الجعفریہ
  • امامؑ کے مختصر کلام کا مجموعہ جس کے راوی سلمان بن ایوب ہیں اور اس کا متن کتاب فرائِدُ السَمَطَین میں جوینی نے نقل کیا ہی۔[125]

کتابیات

امام صادقؑ کے بارے میں بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ کتابیات امام جعفر صادقؑ نامی کتاب میں تقریبا 800 کتابوں کا نام لیا گیا ہے جو شایع ہو چکی ہیں۔ اس حوالے سے اخبار الصادق مع ابی حنیف اور اخبار الصادق مع المنصور جسے محمد بن وہبان دبیلی (چوتھی صدی) اور اخبار جعفر بن محمد مصنف عبد العزیز یحیی جلودی (سنہ 4 ہجری) سب سے قدیمی‌ کتابوں میں سے ہیں۔[126] امام صادقؑ کے بارے میں لکھی گئی بعض عربی و فارسی کتابیں درج ذیل ہیں:

  • الامام الصادقؑ و المذاہب الاربعۃ، تحریر اسد حیدر۔ یہ کتاب امام صادقؑ و مذاہب چہارگانہ، کے نام سے فارسی میں ترجمہ ہو چکی ہے[127]
  • کتابنامہ امام صادقؑ مولف رضا استادی
  • الإمام الصادق، تحریر محمد حسین مظفر: اس کتاب کو سید ابراہیم سید علوی نے امام جعفر صادقؑ کی زندگی سے متعلق چند اوراق کے نام سے فارسی میں ترجمہ کیا ہے۔[128]
  • الإمام جعفر الصادق، تألیف عبد الحلیم الجُندی
  • زندگانی امام صادق جعفر بن محمدؑ (کتاب)، تحریر سید جعفر شہیدی
  • پرتوی از زندگانی امام صادقؑ، تحریر نوراللہ علی‌ دوست خراسانی
  • پیشوای صادق، تحریر سید علی خامنہ‌ای
  • موسوعۃ الإمام الصادق، تألیف باقر شریف قَرَشی
  • موسوعۃ الامام جعفر الصادق تحریر سید محمد کاظم قزوینی، اب تک اس کتاب کی 15 جلدیں شایع ہوئی ہیں۔ یہ کتاب 60 جلدوں پر مشتمل ہوگی۔[129]
  • موسوعۃ الإمام جعفر الصادق، تحریر ہِشام آل قُطَیط
  • مغز متفکر جہان شیعہ، تحریر ذبیح اللہ منصوری۔ مصنف نے اسے مرکز مطالعات اسلامی استراسبورگ نسبت دی ہے اور خود کو مترجم معرفی کیا ہے۔ لیکن بعض نے اسے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسی کسی کتاب کا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔[130]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. جعفریان، حیات فکری‌ سیاسی امامان شیعہ، 1393ش، ص391.
  2. صابری، تاریخ فرق اسلامی، 1388ش، ج2، ص110، 119.
  3. مفید، الارشاد، 1372ش، ج2، ص180.
  4. مجلسی، بحار الانوار، ج29، ص651، 652.
  5. پاکتچی، «جعفر صادقؑ، امام»، ص181.
  6. پاکتچی، «جعفر صادقؑ، امام»، ص181.
  7. صدوق، کمال الدین، 1359ش، ص319؛ «القاب الرسول و عترتہ»، ص60، 61.
  8. پاکتچی، «جعفر صادقؑ، امام»، ص181.
  9. پاکتچی، «جعفر صادقؑ، امام»، ص181.
  10. پاکتچی، «جعفر صادقؑ، امام»، ص181.
  11. مفید، الارشاد، 1372ش، ج2، ص180.
  12. اربلی، کشف الغمۃ، 1379ش، ج2، ص691.
  13. ابن قتیبۃ الدینوری، المعارف، 1992م، ص215.
  14. نک پاکتچی، «جعفر صادقؑ، امام»، ص187.
  15. پاکتچی، «جعفر صادقؑ، امام»، ص187.
  16. مجلسی، بحار الانوار، 1403ق، ج47، ص2.
  17. نگاه کریں: مجلسی، بحار الانوار، 1403ق، ج47، ص2.
  18. مفید، الارشاد ص553.
  19. کلینی، کافی، 1407ق، ج1، ص307-311.
  20. شہرستانی، ملل و نحل، 1415ق، ج1، ص148.
  21. اشعری، المقالات و الفرق، 1360ش، ص213، 214.
  22. نک: مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص209.
  23. شہیدی، زندگانی امام صادق، 1378ش، ص4.
  24. شہیدی، زندگانی امام صادق، 1378ش، ص6.
  25. شهیدی، زندگانی امام صادق، 1378ش، ص4.
  26. شہیدی، زندگانی امام صادق، 1378ش، ص47.
  27. جعفریان، حیات فکری‌ سیاسی امامان شیعہ، 1393ش، ص435.
  28. فاضل مقداد، ارشاد الطالبین، 1405ق، ص337.
  29. کلینی، کافی، 1407ق، ج1، ص306، 307.
  30. جباری، سازمان وکالت ائمہ، ج1، 1382ش، ص47-50.
  31. جباری، سازمان وکالت ائمہ، ج1، 1382ش، ص280، 320، 332.
  32. جباری، بررسی تطبیقی سازمان دعوت عباسیان و سازمان وكالت اماميہ (مراحل شكل‌ گیری و عوامل پیدایش)، قم، پاييز 1389ش، ص75ـ104.
  33. جعفریان، حیات فکری-سیاسی امامان شیعہ، 1393ش، ص407.
  34. جعفریان، حیات فکری-سیاسی امامان شیعہ، 1393ش، ص407، 408.
  35. کشی، رجال کشی، 1409ق، ص300.
  36. کشی، رجال کشی، 1409ق، ص297.
  37. شیخ طوسی، امالی، 1414، ص650.
  38. شہیدی، زندگانی امام صادق، 1384ش، ص47-60.
  39. جعفریان، حیات فکری-سیاسی امامان شیعہ، 1393ش، ص435، 436.
  40. شہیدی، زندگانی امام صادقؑ، 1384ش، ص61.
  41. ابن‌حجر ہیتمی، الصواعق المحرقہ، چاپ قاہرہ، 1429ق/2008م، ص551.
  42. رسائل الجاحظ، ص106.
  43. نجاشی، رجال نجاشی، 1416ق، ص39.
  44. پاکتچی، «جعفر صادقؑ، امام»، ص205.
  45. اربلی، کشف الغمۃ، 1379ش، ج2، ص701.
  46. نجاشی، رجال نجاشی، 1416ق، ص12.
  47. شہیدی، زندگانی امام صادق، 1384ش، ص61.
  48. نجفی، «امام صادقؑ رئیس مذہب جعفری»، سایت سازمان تبلیغات اسلامی، تایخ درج: 9 شہریور 1392، تاریخ بازدید: 10 آیان 1396.
  49. بی‌آزار شیرازی، ہمبستگی مذاہب اسلامی، 1377ش، ص344.«شیخ محمود شلتوت»، سایت مجمع جہانی تقریب مذاہب اسلامی.«فتوای تاریخی شیخ شلتوت مفتی اعظم عالم تسنن و رئیس دانشگاہ الازہر مصر»، درس‌ہایی از مکتب اسلام، ش3، 1338.
  50. کلینی، اصول کافی، ج1، 1407ق، ص 79، 80، 171-173؛‌ شیخ مفید، اختصاص، 1413ق، ص189، 190.
  51. کلینی، اصول کافی، ج1، 1407ق، ص171-173.
  52. کلینی، اصول کافی، ج1، 1407ق، ص171-173.
  53. کشی، رجال کشی، 1409ق، ص275-277.
  54. طبرسی، احتجاج، 1403ق، ج2، ص331-333.
  55. طبرسی، احتجاج، 1403ق، ج2، ص333.
  56. طبرسی، احتجاج، 1403ق، ج2، ص335، 336.
  57. طبرسی، احتجاج، 1403ق، ج2، ص336.
  58. طبرسی، احتجاج، 1403ق، ج2، ص336، 352.
  59. طبرسی، احتجاج، 1403ق، ج2، ص360-362
  60. طبرسی، احتجاج، 1403ق، ج2، ص362-364.
  61. شہیدی، زندگانی امام صادق، 1378ش، ص4.
  62. شہیدی، زندگانی امام صادق، 1378ش، ص6.
  63. شہیدی، زندگانی امام صادق، 1378ش، ص4.
  64. شہیدی، زندگانی امام صادق، 1378ش، ص47.
  65. جعفریان، حیات فکری‌سیاسی امامان شیعہ، 1393ش، ص435.
  66. شہرستانی، الملل والنحل، 1415ق، ج1، ص179.
  67. مسعودی، مروج الذہب، 1409ق، ج3، ص254.
  68. پاکتچی، «امام جعفر صادق»، ص183، 184.
  69. ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، 1379ش، ج‏4، ص237.
  70. ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، 1987م/1408ق، ص185، 186.
  71. جعفریان، حیات فکری‌سیاسی امامان شیعہ، 1393ش، ص371.
  72. مجلسی، بحار الانوار، 1403ق، ج46، ص306.
  73. مجلسی، بحار الانوار، 1403ق، ج47، ص184.
  74. کلینی،الکافی1/473 باب مولد ابی جعفر۔ابن شہر آشوب، مناقب علی بن ابی طالب3/362۔
  75. کلینی، کافی، 1407ق، ج1، ص472.
  76. ابن شبہ، تاریخ المدینہ1/17۔طبری، تاریخ طبری 6/284۔تاریخ کامل 5/593۔ذہبی،تاریخ الاسلام9/54۔
  77. جعفریان، حیات فکری‌ سیاسی امامان شیعہ، 1393ش، ص435.
  78. جعفریان، حیات فکری‌سیاسی امامان شیعہ، 1393ش، ص435.
  79. ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، 1379ق، ج4، ص248.
  80. رجال کشی، ص330.
  81. فتال نیشابوری، روضة الواعظین، 1375ش، ج2، ص293.
  82. اربلی، کشف الغمہ، 1379ش، ج2، ص691.
  83. مجلسی، بحار الانوار، 1403ق، ج47، ص16.
  84. مجلسی، بحار الانوار، 1403ق، ج47، ص61.
  85. کلینی، کافی، 1407ق، ج4، ص8.
  86. ابن شهر آشوب، مناقب آل ابی طالب، 1379ش، ج‏4، ص273.
  87. مظفر، الامام الصادق، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ج1، ص126و130.
  88. مجلسی، بحار الانوار، 1403ق، ج47، ص93، 94.
  89. مظفر، الامام الصادق، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ج1، ص129.
  90. مظفر، الامام الصادق، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ج1، ص130.
  91. مظفر، الامام الصادق، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ج1، ص130.
  92. شیخ طوسی، تہذیب الاحکام، 1407ق، ج6، ص35و36.
  93. کلینی، کافی، 1407ق، ج4، ص571.
  94. شیخ طوسی، تہذیب الاحکام، 1407ق، ج6، ص35.
  95. طوسی، اختیار معرفۃ الرجال، موسسۃ آل البیت، ج2، ص419-679
  96. مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص254.
  97. محدث قمی، الکنی و الالقاب، 1409ق، ج1، ص358.
  98. پاکتچی، «جعفر صادق، امام»، ص187.
  99. پاکتچی، «جعفر صادق، امام»، ص187.
  100. پاکتچی، «جعفر صادقؑ، امام»، ص199.
  101. کشی، رجال کشی، 1409ق، ص275-277.
  102. پاکتچی، «جعفر صادقؑ، امام»، ص199.
  103. صدوق، خصال، ص168؛ صدوق، امالی، ص169؛ علل الشرایع ص234.
  104. مالک بن أنس، موطأ، 1425ق، ص10.
  105. ابن حجر الہیتمی، الصواعق المحرقۃ، 1417ق، ج2، ص586.
  106. مفضل بن عمر، توحید مفضل، ترجمہ میرزایی، 1373ش.
  107. مفضل بن عمر، توحید مفضل، 1373ش.
  108. مجلسی، بحار الانوار، 1403ق، ج1، ص224-226.
  109. کلینی، کافی، ج1، ص67.
  110. امام خمینی، الحکومۃ الاسلامیۃ، 1429ق/2008م، ص115-121؛ مصباح یزدی، نگاہی گذرا بہ نظریہ ولایت فقیہ، 1391ش، ص100.
  111. ذہبی، تذکرہ الحفاظ، 1419ق، ج1، ص126.
  112. ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغه، 1385ق، ج1، ص18.
  113. پاکتچی، «جعفر صادقؑ، امام»، ص206.
  114. پاکتچی، «جعفر صادقؑ، امام»، ص206.
  115. پاکتچی، «جعفر صادقؑ، امام»، ص187.
  116. پاکتچی، «جعفر صادقؑ، امام»، ص187.
  117. ابن بابویہ، الاعتقادات، 1389ش، ص98.
  118. کشّی، رجال کشی، ص282، 283.
  119. پیشوایی، سیرہ پیشوایان، ص414.
  120. کشّی، رجال کشی، ص282، 283.
  121. نوبختی، فرق الشیعہ، ص66-79.
  122. رازی، تاریخ فرہنگ معاصر، ش6.
  123. «پیادہ روی مراجع عظام تقلید در عزای صادق آل محمدؑ»، سایت خبرگزاری مہر، تاریخ درج: 9 شہریور 1392ش، تاریخ بازدید: 10 آبان 1396ش.
  124. کتابچی، «جعفر صادق، امام»، ص218، 219.
  125. کتابچی، «جعفر صادق، امام»، ص218، 219.
  126. کتابچی، «جعفر صادق، امام»، ص219.
  127. نگاہ کنید بہ، اسد، امام صادقؑ و مذاہب اہل سنت، ترجمہ محمد حسین سرانجام و دیگران، 1390ش.
  128. مظفر، صفحاتی از زندگانی امام جعفر صادق، ترجمہ سیدعلوی، 1372ش.
  129. «گزارشی از موسوعہ الامام الصادق علیہ السلام»، پایگاہ اطلاع‌رسانی حوزہ، تاریخ بازدید: 8 شہریور 1396.
  130. معمای ہمایش اسلام‌ شناسی استراسبورگ، مہدی شاکری و بابک فرمایہ، سایت امام موسی صدر نیوز.

منابع

  • اشعری، سعد بن عبداللہ، المقالات و الفرق، تصحیح محمد جواد مشکور، انتشارات علمی و فرہنگی، تہران، 1360ش.
  • «القاب الرسول و عترتہ»، ضمن المجموعۃ النفيسۃ، قم، 1406ق.
  • ابن ابی الحدید، عبد الحمید بن ہبۃ اللہ، شرح نہج البلاغۃ، قم، مکتبۃ آیۃ اللہ المرعشی النجفی، 1385ق.
  • ابن حجر الہیتمی، احمد بن محمد، الصواعق المحرقۃ علی اہل الرفض و الضلال و الزندقۃ، تحقیق عبد الرحمن بن عبداللہ الترکی، بیروت، موسسۃ الرسالۃ، 1417ق.
  • ابن شہر آشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی طالب، قم، علامہ، چاپ اول، 1379ش.
  • ابن قتیبۃ الدینوری، عبداللہ بن مسلم، المعارف، تحقیق ثروت عکاشۃ، قاہرہ، الہیئۃ المصریۃ العامۃ للکتاب، الطبعۃ الثانیۃ،‌ 1992م.
  • اربلى‏، علی بن عیسی، كشف الغمۃ في معرفۃ الأئمۃ، قم، الشریف الرضی، 1379ش.
  • ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، شرح و تحقیق احمد صقر، بیروت، مؤسسہ الاعلمی للمطبوعات، 1987م/1408ق.
  • بی‌ آزار شیرازی، عبد الکریم، ہمبستگی مذاہب اسلامی (مقالات دار التقریب)، تہران، سازمان فرہنگ و ارتباطات اسلامی، 1377ش.
  • پاکتچی، احمد، «جعفر صادقؑ، امام»، تہران، دایرۃ المعارف بزرگ اسلامی، مرکز دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی، 1389ش.
  • پیشوایی، مہدی، سیرہ پیشوایان؛ نگرشی بر زندگانی اجتماعی، سیاسی و فرہنگی امامان معصومؑ، قم، مؤسسہ امام صادق، چاپ شانزدہم، 1383ش.
  • جاحظ، عمرو بن بحر، رسائل الجاحظ، بیروت، دار و مکتبۃ الہلال، 2002 ء
  • جباری، محمد رضا، سازمان وکالت و نقش آن در عصر ائمۃ علیہم السلام، قم، مؤسسہ آموزش پژوہشی امام خمینی، 1382ش.
  • جباری، محمد رضا/ ملبوبی، محمد كاظم، بررسی تطبیقی سازمان دعوت عباسیان و سازمان وكالت اماميہ (مراحل شكل‌ گیری و عوامل پیدایش)، قم، تاریخ در آیینہ پژوہش، سال ہفتم، شمارہ سوم، پاييز1389ش، ص75ـ104.
  • جعفریان، رسول، حیات فکری‌ سیاسی امامان شیعہ، تہران، علم، چاپ سوم، 1393ش.
  • حیدر، اسد، امام صادق و مذاہب اہل سنت، ترجمہ محمد حسین سرانجام و دیگران، قم، انتشارات دانشگاہ ادیان و مذاہب قم، 1390ش.
  • ذہبی، محمد بن احمد، تذکرۃ الحفاظ، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، چاپ اول، 1419ق.
  • شہیدی، سید جعفر، زندگانی امام صادق جعفر بن محمدؑ، تہران، دفتر نشر فرہنگ اسلامی، 1384ش.
  • شہرستانی، محمد بن عبدالکریم، الملل و النحل، تحقیق امیر علی مہنا و علی حسن فاعور، بیروت، دار المعرفہ، 1415ق.
  • «شیخ محمود شلتوت»، سایت مجمع جہانی تقریب مذاہب اسلامی.
  • صابری، حسین، تاریخ فرق اسلامی، تہران، سمت، 1388ش.
  • صدوق، محمد بن علی، الاعتقادات، قم، المؤتمر العالمی لألفیۃ الشیخ المفید، 1379ش/1413ق.
  • صدوق، محمد بن علی، الامالی، قم، موسسۃ البعثۃ، 1417ق.
  • صدوق، محمد بن على بن بابويہ، ‏الخصال، تحقیق و تصحیح ‏ على‌اكبر غفارى، قم، جامعہ مدرسين‏، چاپ اول، 1362ش.
  • صدوق، محمد بن على بن بابويہ‏، علل الشرائع، قم، كتاب‌ فروشى داورى، ‏چاپ اول، 1385ش.
  • صدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضاؑ، تحقیق مہدی لاجوردی زادہ، تہران، انتشارات جہان، بی تا.
  • صدوق، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمہ، تحقیق علی اکبر غفاری، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، 1359ش.
  • طبرسى، احمد بن على‏، الإحتجاج على أہل اللجاج، تحقیق و تصحیح محمد باقر خرسان، مشہد، نشر مرتضى، چاپ اول‏، 1403ق.
  • طبرسی، فضل بن الحسن، اعلام الوری باعلام الہدی، تحقیق موسسۃ آل البیت لاحیاء التراث، قم، موسسۃ آل البیت لاحیاء التراث، 1417ق.
  • طبری، محمد بن جریر طبری، تاریخ الطبری، تاریخ الامم و الملوک، تحقیق محمد ابو الفضل ابراہیم، بیروت، روائح التراث العربی، بی‌تا.
  • طوسی، محمد بن الحسن، الأمالی، تحقیق مؤسسہ بعثت، قم، دار الثقافۃ، چاپ اول، 1414ق.
  • طوسى، محمد بن الحسن، تہذيب الأحكام، تحقیق و تصحیح حسن الموسوى خرسان، ‏تہران، دار الكتب الإسلاميہ‏، چاپ چہارم، 1407ق.
  • فاضل مقداد، مقداد بن عبداللہ، ارشاد الطالبین الی نہج المسترشدین، تحقیق مہدی رجایی، قم، کتابخانہ عمومی حضرت آیت اللہ العظمی مرعشی نجفی، 1405ق
  • فتال نيشابورى، محمد بن احمد، روضۃ الواعظين و بصيرۃ المتعظين، قم، انتشارات رضى، چاپ اول، 1375ش‏.
  • قمی، عباس، الکنی و الالقاب، طہران، مکتبہ الصدر، چاپ پنجم، 1409ق.
  • كشى، محمد بن عمر، اختیار معرفۃ الرجال، تحقیق و تصحیح شیخ طوسی و حسن مصطفوی، مشہد، مؤسسہ نشر دانشگاہ مشہد، چاپ اول، 1409ق.
  • کلینی، محمد بن ‌یعقوب، الکافی، تحقیق علی‌اکبر غفارى و محمد آخوندى، تہران، دار الكتب الإسلاميۃ، چاپ چہارم، 1407ق‏.
  • http://www.hawzah.net/fa/Magazine/View/4180/4746/38660/ «گزارشی از موسوعہ الامام الصادق علیہ السلام»، پایگاہ اطلاع‌رسانی حوزہ، تاریخ بازدید: 8 شہریور 1396
  • مالک بن أنس، موطأ الامام مالک، تحقیق محمد مصطفی اعظمی، ابو ظبی، موسسۃ زاید بن سلطان آل نہیان، 1425ق.
  • معمای ہمایش اسلام‌ شناسی استراسبورگ، مہدی شاکری و بابک فرمایہ، سایت امام موسی صدر نیوز.
  • مظفر، محمد حسین، الامام الصادق، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، بی‌تا.
  • مظفر، محمد حسین، صفحاتی از زندگانی امام جعفر صادق، ترجمہ سید ابراہیم سید علوی، قم، رسالت، چاپ دوم، 1372ش.
  • مفضل بن عمر، توحید مفضل؛ شگفتی‌ہای آفرینش از زبان امام صادقؑ، ترجمہ نجف علی میرزایی، قم، ہجرت، چاپ ہجدہم، 1373ش.
  • مفيد، محمد بن محمد، الإختصاص، تحقیق علی‌ اکبر‏ غفارى و محمود محرمى زرندى، قم، الموتمر العالمى لالفيۃ الشيخ المفيد، چاپ اول، 1413ق.
  • مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، قم، المؤتمر العالمی لألفیۃ الشیخ المفید، 1372ش.
  • مجلسى، محمد باقر بن محمد تقى، ‏بحار الأنوار، بیروت‏، دار إحیاء التراث العربی‏، 1403ق.
  • مصباح یزدی، محمد تقی، نگاہی گذرا بہ نظریہ ولایت فقیہ، قم، انتشارات مؤسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی، چاپ بیست و ششم، 1391ش.
  • مسعودی، علی بن حسین، مروج الذہب و معادن الجوہر، قم، دار الہجرہ، الطبعہ الثانیہ، 1415ق.
  • موسوی خمینی، سیدروح اللہ، الحکومۃ الاسلامیہ، تہران، موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، چاپ نہم، 1429ق/2008 ء
  • نجاشی، احمد بن علی، رجال النجاشی، قم، جماعۃ المدرسین، 1416ق.
  • http://old.ido.ir/a.aspx?a=1392060904 نجفی، «امام صادقؑ رئیس مذہب جعفری»، سایت سازمان تبلیغات اسلامی، تایخ درج: 9 شہریور 1392، تاریخ بازدید: 10 آیان 1396
  • نوبختی، حسن بن موسی، فرق الشیعہ، ترجمہ محمد جواد مشکور، بنیاد فرہنگ ایران، تہران، 1353ش.
معصوم ہفتم:
امام محمد باقر علیہ السلام
14 معصومین
امام جعفر صادق علیہ السلام
معصوم نہم:
امام موسی کاظم علیہ السلام
چودہ معصومین علیہم السلام
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا
بارہ امام
امام علی علیہ السلام امام سجّاد علیہ‌السلام امام موسی کاظم علیہ السلام امام علی نقی علیہ السلام
امام حسن مجتبی علیہ السلام امام محمد باقر علیہ السلام امام علی رضا علیہ السلام امام حسن عسکری علیہ السلام
امام حسین علیہ السلام امام جعفر صادق علیہ السلام امام محمد تقی علیہ السلام امام مہدی علیہ السلام