محمد بن عبد اللہ بن حسن

ویکی شیعہ سے
(نفس زکیہ سے رجوع مکرر)
محمد بن عبد اللہ بن حسن
ناممحمد بن عبد اللہ بن حسن مثنی بن امام حسن (ع)
وجہ شہرتبنی عباس کے خلاف قیام
لقبنفس زکیہ
تاریخ پیدائش100 ھ
جائے پیدائشمدینہ
شہادت145 ھ
مدفنجنت البقیع، مدینہ
سکونتمدینہ
والدعبد اللہ محض
والدہھند بنت ابی عبیدہ بن عبد الله بن زمعہ
عمر45 برس
مشہور امام زادے
حضرت عباس، حضرت زینب، حضرت معصومہ، علی اکبر، علی اصغر، عبد العظیم حسنی، احمد بن موسی، سید محمد، سیدہ نفیسہ


محمد بن عبد اللہ (100۔145 ھ)، نفس زکیہ کے نام سے مشہور، امام حسن مجتبی علیہ السلام کی نسل سے ہیں۔ وہ خلافت بنی عباس کے خلاف قیام کرنے والے پہلے علوی ہیں۔

ان کے والد عبد اللہ محض ان کی طرف مہدی ہونے کی نسبت دے کر لوگوں سے ان کے لئے بیعت طلب کرتے تھے۔ بنی عباس نے ابتدا میں ان کے ساتھ بیعت کی؛ لیکن بنی امیہ کے سقوط کے بعد انہوں نے قدرت اپنے ہاتھوں میں لے لی اور نفس زکیہ کی مخالفت شروع کر دی۔ نفس زکیہ نے منصور عباسی کے خلاف قیام کیا لیکن اپنے بہت سے ساتھیوں کے ساتھ قتل کر دیئے گئے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام ان کے مہدی ہونے کے عنوان سے بیعت لئے جانے کے مخالف تھے۔

ولادت و نسب

ابو عبد الله محمد بن عبدالله بن حسن بن حسن، لقب نفس زکیہ، سنہ 100 ھ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد عبد اللہ محض، حسن مثنی کے بیٹے اور امام حسن مجتبی (ع) کے پوتے ہیں۔ ان کی والدہ ھند بنت ابی عبیدہ بن عبد الله بن زمعہ تھیں۔ چونکہ ان کے والدین کے تمام سلسلہ نسب میں کسی کنیز کا وجود نہیں تھا اور ان کی والدہ کے سلسلہ مادری میں سب قریش سے تھیں اس لئے انہیں صریح قریش کا لقب دیا گیا تھا۔[1]



محمد بن عبد اللہ کے ساتھ بیعت

یحیی بن زید کے قیام اور ان کی شہادت کے بعد قیام بالسیف کے افکار کے حامل اور بطور کلی تمام علوی اور ان کے علاوہ سب نے محمد بن عبد اللہ نفس زکیہ کا رخ کیا۔ نفس زکیہ کے والد عبداللہ بن حسن نے جو عبد اللہ محض کے نام سے معروف ہیں، جو اس عرصہ میں 126 ھ میں مدینہ کے نزدیک ابوا نامی مقام پر اپنے رشتہ داروں اور پیرو افراد کو دعوت دی کہ وہ مہدی کے عنوان سے ان کے بیٹے کی بیعت کریں اور بہت سے لوگوں نے ان کی بیعت کو قبول کر لیا۔[2]

بعض گزارشات کے مطابق، بنی عباس میں سے ابراہیم، سفاح اور منصور[3] تینوں بھائیوں اور بعض کے مطابق صرف منصور عباسی نے نفس زکیہ کے ہاتھوں پر بیعت کی۔[4]

امام صادق (ع) کا موقف

بیعت ابوا کے واقعہ میں واحد مخالفت امام جعفر صادق (ع) کی طرف سے ہوئی۔ بعض روایت کے مطابق امام صادق (ع) کی مخالفت کی وجہ انہیں مہدی اہل بیت کا لقب دینا تھا۔ کیونکہ امام کا ماننا تھا کہ ابھی مہدی کے ظہور کا وقت نہیں آیا ہے اور محمد بن عبد اللہ کسی بھی عنوان سے وہ مہدی نہیں ہے جس کی بشارت پیغمبر اکرم (ص) نے دی ہے۔[5]

امام صادق (ع) کی مخالفت کی دوسری وجہ یہ تھی کہ امام کو معلوم تھا جو بنی عباس نفس زکیہ کی بیعت کرنے آئے ہیں وہ بیعت کو توڑیں گے اور اس بیعت سے ان کا مقصد علویوں سے نزدیک ہونا ہے تا کہ اس کے ذریعہ سے وہ خود قدرت حاصل کر سکیں۔[6]

بعض مصنفین کے مطابق، امام کی پہلی دلیل کے علاوہ آپ بھی اپنے والد امام محمد باقر (ع) کی طرح کسی بھی طرح کے قیام اور خروج کے مخالف تھے اور وہ شیعوں کے ثقافتی امور پر تمرکز کرنا چاہتے تھے[7] اور زیدیوں و دیگر علویوں کے تشیع سیاسی کے نظریہ کی بنیاد پر اقدام کے مخالف تھے۔

البتہ بعض روایات میں امام صادق (ع) کے بیعت نہ کرنے کی وجہ صرف انہیں مہدی امت کے عنوان سے پیش کرنا تھا اور وہ ان کے قیام کے مخالف نہیں تھے جو ظلم و ستم کے خلاف اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے لئے اٹھایا گیا قدم تھا۔[8]

قیام

تفصیلی مضمون: قیام نفس زکیہ

محمد بن عبد اللہ نفس زکیہ نے سن 145 ھ میں مدینہ میں منصور عباسی کے خلاف قیام کیا۔[9] مدینہ کے فقہا و محدثین حالانکہ ان میں سے بعض شیعہ نہیں تھے لیکن چونکہ وہ محمد بن عبد اللہ کو منصور سے افضل سمجھتے تھے، لہذا انہوں نے نفس زکیہ کی مخالفت کو حرام اور مجبوری کی وجہ سے بھی منصور کی بیعت کو باطل قرار دیا۔[10]

عباسیوں کی مدینہ پر لشکر کشی اور شہر کے محاصرہ کے بعد بہت سے افراد نے محاصرہ کے طولانی ہو جانے اور قحطی کے خوف سے محمد بن عبد اللہ کا ساتھ چھوڑ دیا اور ان سے جدا ہو گئے۔[11]

وفات

ٓآخرکار عباسیوں کے شہر میں وارد ہو جانے کے ساتھ ہی جنگ کا سلسلہ شروع ہوا اور محمد بن عبد اللہ حمید بن قحطبہ کے ہاتھوں احجار الزیت نامی علاقے میں قتل ہوئے[12] اور قتل کے بعد ان کے سر کو تن سے جدا کرکے مختلف شہروں میں پھرایا گیا اور ان کا جسم جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔[13]

فرقہ محمدیہ کا ظہور

ملل و نحل کے بعض مصنفین نے تحریر کیا ہے کہ نفس زکیہ کے قتل ہو جانے کے بعد غالی فرقہ مغیریہ کے موسس مغیرہ بن سعید عجلی[14] اور اس کے ساتھیوں نے دعوی کیا کہ نفس زکیہ قتل نہیں ہوئے ہیں بلکہ وہ نجد کے علاقہ کے کوہ حاجر میں غیبت میں چلے گئے ہیں اور بعد میں ظہور کریں گے۔ یہ گروہ محمدیہ کے نام سے مشہور تھا اور ان کا ماننا تھا کہ نفس زکیہ مہدی موعود تھے۔[15]

حوالہ جات

  1. فرمانیان و موسوی ‎نژاد، زیدیہ تاریخ و عقاید، 1389ش، ص36.
  2. ابن طباطبا، الفخری فی الاداب السلطانیہ، 1418ق، ص120.
  3. ابو الفرج الاصفہانی، مقاتل الطالبیین،‌ دار المعرفہ، ص256.
  4. ابن طباطبا، الفخری فی الاداب السلطانیہ، 1418ق، ص119؛ جعفری، تشیع در مسیر تاریخ، 1359ش، ص313.
  5. ابو الفرج الاصفہانی، مقاتل الطالبیین،‌ دار المعرفہ، ص233 و 254-257؛ جعفریان، تاریخ تشیع در ایران از آغاز تا قرن هفتم ہجری، 1369ش، ص37.
  6. مطہری، سیری در سیره ائمہ اطهار، 1391ش، ص131-132.
  7. فرمانیان، موسوی نژاد، زیدیہ؛ تاریخ و عقاید، 1389ش، ص36.
  8. مجلسی، بحار الانوار، 1403ق، ج47، ص278
  9. ابن قتیبہ، المعارف، 1992م، ص378.
  10. ابو الفرج الاصفہانی، مقاتل الطالبیین،‌ دار المعرفہ، ص238، 239 و 251.
  11. فرمانیان و موسوی‌ نژاد، تاریخ و عقاید زیدیہ، 1389ش، ص38.
  12. طبری، تاریخ طبری، مکتبة الخیاط، ج7، ص589 و 590.
  13. فرمانیان، موسوی‌ نژاد، تاریخ و عقاید زیدیہ، 1389ش، ص38.
  14. رک: صفری فروشانی، غالیان، کاوشی در جریان‌‌ ہا و برآیند ہا، 1388ش ص93ـ96.
  15. بغدادی، الفرق بین الفرق، 1977م، ص42.

مآخذ

  • ابن طباطبا، معروف بہ ابن ‎طقطقی، محمد بن علی، الفخری فی الآداب السلطانیہ، بہ کوشش عبد القادر، بیروت،‌ دار القلم العربی، 1418ھ۔
  • ابن قتیبہ، عبدالله بن مسلم، المعارف، تحقیق ثروت عکاشہ، قاہره، الهیئہ المصریہ العامہ للکتاب، چاپ ششم، 1992ء۔
  • ابو الفرج الاصفہانی، علی بن حسین، مقاتل الطالبیین، بہ کوشش سید احمد صقر، بیروت،‌ دار المعرفہ، بی ‎تا۔
  • بغدادی، عبد القاہر بن محمد بن عبدالله، الفرق بین الفرق، بیروت،‌ دار الآفاق الجدیدة، 1977ء۔
  • جعفری، حسین‌ محمد، تشیع در مسیر تاریخ، ترجمہ سید محمد تقی آیت‌ اللہی (شیرازی)، تہران، دفتر نشر فرہنگ اسلامی، 1359ہجری شمسی۔
  • جعفریان، رسول، تاریخ تشیع در ایران از آغاز تا قرن ہفتم ہجری، تہران، مرکز چاپ و نشر سازمان تبلیغات اسلامی، چاپ دوم 1369ہجری شمسی۔
  • حسن ابراہیم حسن، تاریخ سیاسی اسلام، ترجمہ ابو القاسم پاینده، تہران، سازمان انتشارات جاویدان، چاپ نہم، 1376ہجری شمسی۔
  • صفری فروشانی، نعمت الله، غالیان، کاوشی در جریان‌ ہا و برآیند ہا تا پایان سده سوم، مشہد، بنیاد پژوھش‌ ہای اسلامی، 1388ہجری شمسی۔
  • طبری، ابو جعفر محمد بن جریر، تاریخ طبری، بیروت، مکتبہ الخیاط، بی‎ تا۔
  • فرمانیان، مہدی و موسوی نژاد، سید علی، زیدیہ؛ تاریخ و عقاید، قم، نشر ادیان، 1389ہجری شمسی۔
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، تحقیق: محمد باقر محمودی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1403ھ۔
  • مطہری، مرتضی، سیری در سیره ائمہ اطهار علیہم‌ السلام، تہران، انتشارات صدرا، 1391ہجری شمسی۔