اسماعیل بن جعفر الصادق

غیر سلیس
ویکی شیعہ سے
اسماعیل بن جعفر صادقؑ
ناماسماعیل بن جعفر صادقؑ
وجہ شہرتامام زادہ (اسماعیلیوں کے ساتویں امام)
تاریخ پیدائشدوسری صدی ہجری کے اوائل
وفات133، 138 یا 145 ھ
مدفنقبرستان بقیع، مدینہ
سکونتمدینہ
والدامام صادقؑ
والدہفاطمہ‌ بنت حسين‌ بن علی بن حسین بن علی بن‌ ابی‌ طالب‌ؑ
اولادمحمد و علی
مشہور امام زادے
حضرت عباس، حضرت زینب، حضرت معصومہ، علی اکبر، علی اصغر، عبد العظیم حسنی، احمد بن موسی، سید محمد، سیدہ نفیسہ


اسماعيل‌ بن‌ جعفر (متوفی 138 ھ) امام‌ جعفر صادق‌ؑ کے سب سے بڑے بیٹے تھے۔ اسماعیلی انہیں یا ان کے بیٹے محمد کو امام صادق کے بعد امام مانتے ہیں۔ جبکہ امامیہ اور آنحضرتؐ سے نقل ہونے والی روایات کے کے مطابق امام صادق کے بعد امام موسی بن جعفرؑ امام ہیں۔ ان کی امامت کا عقیدہ اسماعیلیہ کی شیعہ اثنا عشریہ سے جدائی اور اسماعیلیہ فرقہ کے وجود میں آنے کا نقطہ آغاز ثابت ہوا۔

اسماعیل کی شخصیت کے بارے میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ بعض روایات سے استناد کرتے ہوئے اسماعیل اور غالیوں کے درمیان ارتباط کے قائل ہیں۔ البتہ آیت اللہ خوئی نے ان روایات کی توجیہ کرتے ہوئے اور دیگر روایات کی بناء پر اسماعیل کو ایک جلیل القدر شخصیت قرار دیا ہے جن پر امام صادق شفقت فرماتے تھے۔

اسماعیل کی وفات امام صادقؑ کی زندگی میں ہوگئی اور انہیں جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔ امامؑ نے ان کی تشییع و تدفین کو آشکارا طور پر انجام دیا اور ان کی موت پر بعض افراد کو گواہ بنایا تا کہ ان کی امامت اور ان کے موعود ہونے کا شبھہ باقی نہ رہے۔ اسی طرح سے روایات کے مطابق، اسماعیل کی موت کے زمانہ کے سلسلہ میں بداء واقع ہوا ہے۔ کیونکہ بعض شیعہ انہیں امام تصور کرتے تھے اور ان کی وفات سے یہ بات آشکار ہوگئی کہ وہ امام نہیں تھے۔

شجرہ نسب

آپ امام صادقؑ اور فاطمہ‌ بنت حسین بن علی بن حسین بن علی کے فرزند ہیں۔[1] آپ کی تاریخ‌ ولادت تاریخی منابع میں ذکر نہیں ہوئی ہے، لیکن بعض مورخین کے مطابق چونکہ امام کاظمؑ کی ولادت 127 ھ[2] یا 128 ھ[3] میں ہوئی اور امام جعفر صادقؑ کے ان دو فرزندوں کی ولادت میں تقریبا 25 سال کا فاصلہ تھا،[4] یہ احتمال دیا جاتا ہے کہ اسماعیل کی ولادت دوسری صدی ہجری کے ابتدائی برسوں میں ہوئی ہے۔[5]

اسماعیل کے دو بیٹے محمد اور علی تھے اور آپ کی نسل ان دو فرزندوں سے چلی ہے۔[6] محمد کے دو بیٹے، اسماعیل ثانی اور جعفر اکبر تھے،[7] جبکہ نسل علی بن اسماعیل نیز ان کے بیٹے محمد سے چلی ہے۔[8]

اسماعیل کے بازمانگان خراسان، نیشابور، سامرا[9]، دمشق[10]، مصر[11]، اہواز، کوفہ، بغداد[12]، یمن،[13] صور،[14] حلب[15] اور قم میں زندگی بسر کرتے تھے۔[16]

شخصیت

ماہر علم رجال آیت اللہ خوئی (متوفی سنہ 1992 ء) کے مطابق، اسماعیل سے سلسلہ میں دو طرح کی روایات ہیں۔ بعض روایات میں ان کی مدح اور بعض میں ان کی مذمت کی گئی ہے۔[17] بعض روایات جن سے مذمت کو اخذ کیا گیا ہے بعض غالیوں جیسے مفضل بن عمر و بسام صیرفی کے ساتھ آپ کے روابط تھے جس سے امام صادقؑ راضی نہیں تھے۔[18] اسی طرح سے وہ ایسی محافل میں رفت و آمد رکھتے تھے جو باعث بنیں کہ ان کی اخلاقی استعداد میں تردید پیدا ہو۔[19] آیت اللہ خوئی مذمت والی روایات کو سند و دلالت کے اعتبار سے ضعیف قرار دیا ہے اور مدح کی روایات کو ترجیح دی ہے۔ لہذا انہوں نے انہیں ایک جلیل القدر شخصیت اور اپنے والد کی طرف سے مورد عطوفت قرار دیا ہے۔[20] جبکہ بعض نے خطابیہ کے ساتھ ان کے ارتباط اور اسماعیلیہ فرقہ کی پیدائش میں ان دونوں کے کردار کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ان کے بقول: ابو الخطاب اور اسماعیل نے امام صادقؑ کی حیات ہی میں ایک دوسرے کی مدد سے ایسے عقاید کی بنیاد رکھی جو بعد میں اسماعیلیہ کی اساس بنے۔[21] نقل ہوا ہے کہ اس دعوی کی کوئی دلیل نہیں ہے۔[22] اسی طرح سے فرانسسی ماہر اسلامیات ماسینیون‌ نے بھی ابو الخطاب کو اسماعیلیہ کے روحانی و معنوی باپ قرار دیا ہے۔[23] البتہ اسماعیلی فقیہ قاضی نعمان (283۔363 ھ) اسماعیلیہ کی تشکیل میں ابو الخطاب کے کردار کی نفی کرتے ہیں اور اسے بدعت گزار اور امام جعفر صادقؑ کی طرف سے مورد لعن مانتے ہیں۔[24]

امامت

تفصیلی مضمون: اسماعیلیہ

اسماعیلیہ: اس فرقے کا نام ہے جو امام صادقؑ کے بعد آپ کے بیٹے اسماعیل یا ان کے بیٹے محمد بن اسماعیل کی امامت کے قائل ہیں۔[25] اسماعیلیہ فرقے مبارکیہ‌ و قرامطہ کے مطابق امام صادق کے بعد اسماعیل امام ہیں۔ کیونکہ اسماعیل امام‌ صادقؑ کے جانشین تھے اور چونکہ اسماعیل آپ کی زندگی میں ہی وفات پا گئے لہذا آپؑ نے امامت اسماعیل کے بیٹے محمد بن‌ اسماعیل‌ کے سپرد کر دی۔ ان کے عقیدہ کے مطابق امام‌ حسن‌ؑ و امام‌ حسین‌ؑ کے بعد یہ جائز نہیں ہے کہ امامت بھائی سے بھائی کو ملے۔[26] سعد بن عبد اللہ اشعری نے اس عقیدہ کی نسبت اسماعیلیہ خالصہ و خطابیہ کی طرف بھی دی ہے۔[27] بعض اسماعیلیوں کا یہ عقیدہ بھی ہے کہ اسماعیل کی وفات نہیں ہوئی ہے بلکہ وہ مہدی موعود ہیں۔[28] اسماعیلیوں کے منابع اور قاضی‌ نعمان‌ کی کتابوں میں اسماعیل‌ کی امامت پر کوئی صریح نص ذکر نہیں ہوئی ہے۔[29] حالانکہ جعفر بن‌ منصور الیمن‌ داعی اسماعیلی نے تیسری صدی ہجری کے آخر اور چوتھی صدی ہجری کے شروع میں بعض احادیث‌ کو بغیر کسی سلسلہ سند کے ذکر کیا ہے اور ان میں اسماعیل‌ کی امامت پر تصریح کی ہے۔[30] اسی طرح سے بعض منابع میں آیا ہے کہ خلفائے فاطمی شروع میں اسماعیل‌ کی بجائے ان کے بھائی عبداللہ افطح کو اپنا امام مانتے تھے اور بعد میں اس امر سے عدول کرکے اسماعیل‌ کی امامت کو ذکر کرنے لگے۔[31]

شیعہ امامیہ نقطہ نظر

علمائے امامیہ‌ اسماعیل‌ کی امامت پر کسی قسم کی نص سے انکار کرتے ہیں حتی بعض احادیث بھی نقل کرتے ہیں جن میں صراحتا ان کی امامت کو رد کیا گیا ہے۔[32] حدیث لوح[33] و حدیث جابر[34] منجملہ ان روایات میں سے ہیں جن کے مطابق آنحضرت (ص) نے بارہ اماموں کے اسماء بیان کئے ہیں اور ان میں امام صادق (ع) کے بعد امام موسی کاظم (ع) کا نام ذکر ہوا ہے نہ کہ اسماعیل۔ اسی طرح سے امام صادق (ع) نے اپنے اصحاب کے سامنے متعدد مقام پر امام موسی کاظم (ع) کی امامت کا اعلان کر چکے تھے۔ کتاب الکافی،[35] الارشاد،[36] اعلام الوری[37] و بحار الانوار[38] ان تمام کتب میں امام موسی بن جعفر (ع) کی امامت پر ایک باب موجود ہے جن میں بالترتیب 16، 46، 12، 14 روایات ذکر ہوئی ہیں۔[39]

اسماعیل کے بارے میں بداء

بعض روایات کے مطابق اسماعیل کی وفات کے وقت میں بداء واقع ہوا ہے تا کہ لوگ یہ سمجھ جائیں کہ وہ اپنے والد کے بعد امام نہیں ہیں۔[40] کیونکہ شیعوں کا ایک گروہ انہیں امام صادق (ع) کے بعد امام مانتا تھا اور امام (ع) کی حیات میں ان کی وفات سے یہ آشکار ہو گیا کہ وہ امام نہیں تھے بلکہ امام موسی بن جعفر امام ہیں۔[41] البتہ اسماعیلیہ منابع نے بداء کی روایت کو اسماعیل کی امامت سے مرتبط کر دیا ہے۔[42]

وفات

سنہ 133،[43]138 [44] اور 145 ہجری[45] کو اسماعیل کی تاریخ وفات کے طور پر مختلف منابع میں ذکر کیا گیا ہے۔ نقل ہوا ہے کہ بعض دلائل جیسے سنہ 133 ھ کے استنساخ میں غلطی و قدیم منابع میں سنہ 145 ھ کا ذکر نہ ہونا، کی بنا پر سنہ 138 ھ صحیح تر معلوم ہوتا ہے۔[46]

ان کی وفات کو آشکار کرنا

زرارہ بن‌ اعین‌ سے منقول روایت کے مطابق اسماعیل‌ کی وفات کے بعد اور دفن سے پہلے امام‌ صادق‌ؑ نے تقربیا اپنے 30 اصحاب کو ان کی وفات پر گواہ بنایا۔[47] اسی طرح سے ان کے غسل، کفن، تشییع جنازہ و دفن کو آشکارا طور پر انجام دیا۔[48] اور حکم دیا کہ ان کی نیابت میں حج کیا جائے۔[49] امام (ع) کا مقصد ان کاموں سے یہ تھا کہ وہ لوگ جو ان کی امامت کے قائل ہیں، اپنے اس عقیدہ سے دست بردار ہو جائیں۔[50] البتہ بعض اسماعیلیوں کا عقیدہ ہے کہ اسماعیل کی وفات نہیں ہوئی ہے بلکہ ان کی موت کا دکھاوا لوگوں کو فریب دینے، ان کی اور ان کے قریبیوں کی جان کی حفاظت کے لئے کیا گیا ہے۔[51]

مقبرہ اسماعیل

بقیع کا نقشہ

مدینہ کے قریب عریض نامی مقام پر اسماعیل کی وفات ہوئی اور انہیں جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔[52] فاطمیوں (297-567 ھ) کے دور خلافت میں ان کی قبر پر ایک مقبرہ بنایا گیا۔[53] اسماعیل کا مزار قبرستان بقیع کی چار دیواری کے 15 میٹر باہر غرب کی سمت اور ائمہ بقیع کے قبور کے مد مقابل واقع تھا۔[54] شیعیان خاص کر اسماعیلیہ ان کی زیارت کیا کرتے تھے۔[55] ایرانی حجاج مدینہ سفر کے دوران دیگر ائمہ بقیع کی زیارت کے وقت اس مقبرے کی بھی زیارت کیا کرتے تھے اور ان میں سے بعض افراد نے اپنے سفرناموں میں اس مقبرے کا بھی تذکرہ کیا ہے۔[56]

محمد صادق نجمی (1315۔1390 ش) کے مطابق، سنہ 1394 ہجری جنت البقیع کے مغربی خیابان کی توسیع کے دوران قبر اسماعیل تخریب کی گئی اور یہ خبریں گردش کرنے لگیں کہ ان کا جنازہ صدیاں گرزنے کے باوجود صحیح و سالم تھا۔ اسماعیل کا جنازہ قبرستان بقیع کے اندر منتقل کیا گیا۔ ان کا محل دفن شہدائے حرّہ کے مشرق یا حلیمہ سعدیہ کی قبر سے 10 میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔[57]

حوالہ جات

  1. مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۲۰۹۔
  2. طبری، دلائل الامامہ، ۱۴۰۳ق، ص۳۰۳.
  3. طبرسی، اعلام الوری، ۱۴۱۷ق، ج۲، ص۶.
  4. ابو حاتم رازی، الزینہ، ص۲۸۸ بہ نقل از حبیبی مظاهری، «اسماعیل بن جعفر»، ص۶۴۸.
  5. حبیبی مظاهری، «اسماعیل بن جعفر»، ص۶۴۸.
  6. فخر رازی، الشجرہ المبارکہ، ۱۴۰۹ق، ص۱۰۱۔
  7. فخر رازی، الشجرہ المبارکہ، ص۱۰۱
  8. فخر رازی، الشجرہ المبارکہ، ۱۴۰۹ق، ص۱۰۳
  9. ، سامراء سر السلسلۃ العلویہ، ص۳۶
  10. یاقوت حموی، معجم البلدان، ۱۹۹۵م، ج۲، ص۴۶۹
  11. یاقوت حموی، معجم البلدان، ۱۹۹۵م، ج۵، ص۱۴۲۔
  12. المجدی، ص۱۰۳
  13. ذہبی، تاریخ الاسلام، ۱۴۱۰ق، ج۲۰، ص۳۷۔
  14. ذہبی، تاریخ الاسلام، ۱۴۱۰ق، ج۳۰، ص۳۰۹۔
  15. ذہبی، تاریخ الاسلام، ۱۴۱۰ق، ج۱۲، ص۴۰۔
  16. نوری، خاتمۃ المستدرک، ۱۴۱۵ق، ج۴، ص۴۸۵۔
  17. نگاه کنید بہ خویی، معجم رجال الحدیث، ۱۴۱۰ق، ج۳، ص۱۲۴-۱۲۷.
  18. کشی، رجال الکشی، ۱۴۰۹ق، ص۲۴۵؛ خویی، معجم رجال الحدیث، ۱۴۱۰ق، ج۳، ص۱۲۵.
  19. برای نمونہ نگاه کریں: صدوق، کمال‌ الدین‌، ۱۳۹۵ق، ج۱، ص۷۰.
  20. خویی، معجم رجال الحدیث، ۱۴۱۰ق، ج۳، ص۱۲۷.
  21. لویس‌، The Origins of Isma'ilism، ص۴۲ بہ نقل از حبیبی مظاهری، «اسماعیل بن جعفر»، ج۹، ص۶۵۰.
  22. حبیبی مظاهری، «اسماعیل بن جعفر»، ج۹، ۶۵۰.
  23. نگاه کنید بہ بدوی‌، شخصیات قلقة، ص۱۹ بہ نقل از حبیبی مظاهری، «اسماعیل بن جعفر»، ص۶۴۹.
  24. قاضی نعمان، دعائم الاسلام، ۱۳۸۵ق، ج۱، ص۴۹-۵۰.
  25. نگاه کریں: مفید، الفصول المختاره، ۱۴۱۳ق، ص۳۰۶.
  26. نگاه کریں: مفید، الفصول المختاره، ۱۴۱۳ق، ص۳۰۶.
  27. اشعری، المقالات والفرق، ۱۳۶۰ش، ص۸۱.
  28. نگاه کریں: اشعری، المقالات والفرق، ۱۳۶۰ش، ص۷۹.
  29. حبیبی مظاهری، «اسماعیل بن جعفر»، ج۹، ۶۵۰.
  30. جعفر بن‌ منصور الیمن‌، سرائر و اسرار النطقاء، ۱۴۰۴ق، ص‌۲۵۶.
  31. ابن‌ حزم‌، جمهرة انساب العرب، ۱۴۰۳ق، ص۵۹.
  32. برای نمونہ نگاه کریں: صدوق، کمال‌ الدین‌، ۱۳۹۵ق، ج۱، ص۷۰-۷۱.
  33. برای نمونہ نگاه کریں: کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ص۵۲۷-۵۲۸.
  34. طبرسی، اعلام الوری، ۱۴۱۷ق، ج۲، ص۱۸۲.
  35. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۳۰۷-۳۱۱.
  36. مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۲۱۶-۲۲۲.
  37. طبرسی، اعلام الوری، ۱۴۱۷ق، ج۲، ص۷-۱۶.
  38. مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۴۸، ص۱۲-۲۹.
  39. جمعی از نویسندگان، مجموعہ مقالات سیره و زمانہ امام کاظم، ۱۳۹۲ش، ج۲، ص۷۹، ۸۱.
  40. صدوق، کتاب التوحید، النشر الاسلامی، ص۳۳۶.
  41. سبحانی، البداء علی ضوء الکتاب و السنة، ۱۳۹۲ش، ص۱۳۱.
  42. جعفر منصور الیمن، سرائر و اسرار النطقاء، ۱۴۰۴ق، ص۲۴۶-۲۴۷.
  43. ابن‌ عنبہ‌، ص۲۳۳
  44. عمری، ص‌ ۱۰۰ و مقریزی‌، ص‌ ۱۵
  45. نک: قزوینی‌، ج۳،ص۳۰۹
  46. نگاه کریں: حبیبی مظاهری، «اسماعیل بن جعفر»، ج۹، ص۶۴۸.
  47. نعمانی‌، الغیبہ، ۱۳۹۷ق، ص۳۲۸.
  48. نعمانی‌، الغیبہ، ۱۳۹۷ق، ص۳۲۸.
  49. ابن‌ شهرآشوب‌، المناقب، ۱۳۷۹ق، ج۱، ص۲۶۶.
  50. نگاه کریں: طبرسی‌، اعلام الوری، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۵۴۶؛ ابن‌ شهر آشوب‌، المناقب، ۱۳۷۹ق، ج۱، ص۲۶۶.
  51. نگاه کریں: شهرستانی‌، الملل و النحل، ۱۳۶۴ش، ج۱، ص۲۲۶؛ جوینی، تاریخ جهانگشای، ۱۳۸۵ش، ج۳، ص۱۴۶.
  52. علوی، المجدی، ۱۴۰۹ق، ص۹۹-۱۰۰.
  53. مطری، التعریف بما آنست الهجره، ۱۴۲۶ق، ص۱۲۱.
  54. نجمی، تاریخ حرم ائمہ بقیع، ۱۳۸۰ش، ص۲۹۰-۲۸۹.
  55. عیاشی، المدینة المنورة فی رحلة العیاشی، ۱۴۰۶ق، ص۱۷۵.
  56. برای نمونہ نگاه کریں: سفرنامہ حج فرهاد میرزا معتمد الدولہ، ص۱۵۸.
  57. تاریخ حرم ائمہ بقیع، ص۲۹۱

مآخذ

  • ابن‌ بابویہ‌، محمد، التوحید، بہ‌ کوشش‌ ہاشم‌ حسینی‌ تہرانی‌، تہران‌، ۱۳۹۸ھ۔
  • ابن‌ بابویہ‌، محمد، کمال‌ الدین‌، بہ‌کوشش‌ محمد موسوی‌ خرسان‌، نجف‌، ۱۳۸۹ھ/۱۹۷۰م‌۔
  • ابن‌ حزم‌، علی‌، جمہرۃ انساب‌ العرب‌، بیروت‌، ۱۴۰۳ھ/۱۹۸۳م‌۔
  • ابن‌ شہر آشوب‌، محمد، المناقب‌، قم‌، نشر علامہ، ۱۳۷۹ھ۔
  • ابن‌ عنبہ‌، احمد، عمدۃ الطالب‌، بہ‌کوشش‌ محمد حسن‌ آل‌ طالقانی‌، نجف‌، ۱۳۸۰ھ/۱۹۶۱م‌۔
  • ابو حاتم‌ رازی‌، احمد، «الزینۃ»، ہمراہ‌ الغلو و الفرق‌ الغالیۃ فی‌ الاسلام‌ سلّوم‌ سامرایی‌، بغداد، ۱۳۹۲ھ/۱۹۷۲م‌۔
  • ابو الفوارس‌، احمد، الرسالۃ فی‌ الامامۃ، بہ‌کوشش‌ س‌۔ ن‌۔ مکارم‌، نیویورک‌، ۱۹۷۳م‌۔
  • ابو نصر بخاری‌، سہل‌، سرّ السلسلۃ العلویۃ، بہ‌کوشش‌ محمد صادق‌ بحرالعلوم‌، نجف‌، ۱۳۸۱ھ/ ۱۹۶۲م‌۔
  • ابو یعقوب‌ سجزی‌، اثبات‌ النبوءات‌، بہ‌ کوشش‌ عارف‌ تامر، بیروت‌، ۱۹۶۶م‌۔
  • ادریس‌ بن‌ حسن‌، عیون‌ الاخبار و فنون‌ الا¸ثار، بہ‌ کوشش‌ مصطفی‌ غالب‌، بیروت‌، ۱۹۸۵م‌۔
  • «ام‌ الکتاب‌۱» (نک: مل)۔
  • بخاری، ابی نصر، سر السلسلۃ العلویہ، قم، الرضی، ۱۴۱۳ھ۔
  • بدوی‌، عبدالرحمان‌، شخصیات‌ قلقۃ، قاہرہ‌، ۱۹۶۴م‌۔
  • «التراتیب‌»، ہمراہ‌ اخبار القرامطۃ، بہ‌کوشش‌ سہیل‌ زکار، دمشق‌، ۱۴۰۰ھ/۱۹۸۰م‌۔
  • جعفر بن‌ منصور الیمن‌، سرائر و اسرار النطقاء، بہ‌ کوشش‌ مصطفی‌ غالب‌، بیروت‌، ۱۴۰۴ھ/۱۹۸۴م‌۔
  • جعفریان رسول، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، تہران، مشعر، ۱۳۸۲ش۔
  • جوینی‌، عطا ملک‌، تاریخ‌ جہانگشا، بہ‌کوشش‌ محمد قزوینی‌، لیدن‌، ۱۳۵۵ھ/۱۹۳۷م‌۔
  • حامدی‌، ابراہیم‌، کنز الولد، بہ‌ کوشش‌ مصطفی‌ غالب‌، بیروت‌، ۱۹۷۹م‌۔
  • دیلمی‌، محمد، بیان‌ مذہب‌ الباطنیۃ و بطلانہ‌، بہ‌ کوشش‌ رودلف‌ اشتروتمان‌، استانبول‌، ۱۹۳۸م‌۔
  • الذہبی، تاریخ الاسلام و وفیات المشاہیر: بہ کوشش عمر عبدالسلام، بیروت، دار الکتاب العربی، ۱۴۱۰ھ۔
  • رشید الدین‌ فضل‌ اللہ‌، جامع‌ التواریخ‌، بہ‌ کوشش‌ محمد تقی‌ دانش‌ پژوہ‌ و محمد مدرسی‌، تہران‌، ۱۳۵۶ش‌۔
  • زبیری‌، مصعب‌، نسب‌ قریش‌، بہ‌ کوشش‌ لوی‌ پرووانسال‌، قاہرہ‌، ۱۹۵۳م‌۔
  • زید نرسی‌، «اصل‌»، الاصول‌ الستۃ عشر، قم‌، ۱۳۶۳ش‌۔
  • سعد بن‌ عبداللہ‌ اشعری‌، المقالات‌ و الفرق‌، بہ‌ کوشش‌ محمد جواد مشکور، تہران‌، ۱۹۶۳م‌۔
  • سید مرتضی‌، علی‌، الفصول‌ المختارۃ من‌ العیون‌ و المحاسن‌ شیخ‌ مفید، نجف‌، مطبعۃ حیدریہ‌۔
  • شہرستانی‌، محمد، الملل‌ و النحل‌، بہ‌کوشش‌ محمد سید کیلانی‌، بیروت‌، دارالمعرفہ‌۔
  • صفار، محمد، بصائر الدرجات‌، تہران‌، ۱۴۰۴ھ۔
  • صفدی‌، خلیل‌، الوافی‌ بالوفیات‌، بہ‌کوشش‌ فان‌ اس‌، بیروت‌، ۱۴۰۲ھ/۱۹۸۲م‌۔
  • طبرسی‌، فضل‌، اعلام‌ الوری‌، بہ‌کوشش‌ علی‌اکبر غفاری‌، بیروت‌، دارالمعرفہ‌۔
  • طوسی‌، محمد، الغیبۃ، بہ‌کوشش‌ عباداللہ‌ تہرانی‌ و علی‌احمد ناصح‌، قم‌، ۱۴۱۱ھ۔
  • علوی، علی بن محمد علوی، المجدی فی انساب الطالبیین، بہ کوشش المہدوی، قم، مکتبۃ النجفی، ۱۴۰۹ھ؛
  • عمری‌، علی‌، المجدی‌، بہ‌کوشش‌ احمد مہدوی‌ دامغانی‌، قم‌، ۱۴۰۹ھ۔
  • العیاشی، بہ کوشش محمد محزون، المدینۃ المنورۃ فی رحلۃ العیاشی، کویت، دار الارقم، ۱۴۰۶ھ۔
  • فخر رازی، الشجرہ المبارکہ فی النساب الطالبیہ، منشورات مکتبہ آیہ اللہ مرعشی نجفی، قم، ۱۴۰۹ھ۔
  • فرہاد میرزا، سفرنامہ فرہاد میرزا، تصحیح غلام رضا مجد طباطبایی، موسسہ مطبوعاتی علمی، تہران، ۱۳۶۶ش۔
  • قاضی‌ نعمان‌، دعائم‌ الاسلام‌، بہ‌کوشش‌ آصف‌ فیضی‌، قاہرہ‌، ۱۳۸۳ھ/۱۹۶۲م‌۔
  • ہمو، شرح‌ الاخبار، قم‌، موسسۃ النشر الاسلامی‌۔
  • قزوینی‌، محمد، تعلیقات‌ بر تاریخ‌ جہانگشا (نک: ہم، جوینی‌)۔
  • قمی، حسن بن محمد، تاریخ قم، ترجمہ: عبدالملک قمی، بہ کوشش تہرانی، تہران، توس، ۱۳۶۱ش۔
  • حلی، جعفر بن حسن بن یحیی بن سعید حلی، معروف بہ محقق حلی، المعتبر، مؤسسہ سید الشہداء، ۱۳۶۳ش۔
  • کشی‌، محمد، معرفۃ الرجال‌، اختیار طوسی‌، بہ‌کوشش‌ حسن‌ مصطفوی‌، مشہد، ۱۳۴۸ش‌۔
  • مسائل‌ الامامۃ، منسوب‌ بہ‌ ناشی‌´ اکبر، بہ‌کوشش‌ فان‌ اس‌، بیروت‌، ۱۹۷۱م‌۔
  • مفید، محمد، الارشاد، نجف‌، ۱۳۸۲ق‌ و قم، کنگرہ شیخ مفید، ۱۴۱۳ھ۔
  • مقریزی‌، احمد، اتعاظ الحنفاء، بہ‌ کوشش‌ جمال‌الدین‌ شیال‌، قاہرہ‌، ۱۳۸۷ھ/۱۹۶۷م‌۔
  • نجمی، محمد صادق، تاریخ حرم ائمہ بقیع، قم، مشعر، ۱۳۸۰ش۔
  • نشوان‌ حمیری‌، الحور العین‌، بہ‌ کوشش‌ کمال‌ مصطفی‌، قاہرہ‌، ۱۳۶۷ق‌/۱۹۴۸م‌۔
  • نصیر الدین‌ طوسی‌، «قواعد العقاید»، ہمراہ‌ تلخیص‌ المحصل‌، بہ‌ کوشش‌ عبداللہ‌ نورانی‌، تہران‌، ۱۳۵۹ش‌۔
  • نعمانی‌، محمد، غیبت‌، ترجمۃ محمد جواد غفاری‌، تہران‌، ۱۳۶۳ش‌۔
  • نوبختی‌، حسن‌، فرق‌ الشیعۃ، بہ‌ کوشش‌ ہلموت‌ ری‌تر، استانبول‌، ۱۹۳۱م‌۔
  • نوری، میرزا حسین، خاتمۃ المستدرک، قم، آل البیت، ۱۴۱۵ھ۔
  • ہمدانی‌، حسین‌، فی‌ نسب‌ الخلفاء الفاطمیین‌، قاہرہ‌، ۱۹۵۸م‌۔
  • یاقوت حموی، معجم البلدان، بیروت، دار صادر، ۱۹۹۵م؛
  • Daftary۔ Farhad, The Isma'ilis : Their History and Doctrines, Cambridge , 1990۔
  • Lewis , Bernard , The Origins of Isma'ilism , Cambridge , 1940۔
  • X Ummu'l- kit ? b n , ed۔ W۔ Ivanow, Der Islam, Berlin, 1936, vol۔ XXIII

بیرونی روابط