عرفات

ویکی شیعہ سے

عَرَفات یا عَرَفہ، مکہ مکرمہ کے مشرق میں آٹھ مربع کیلو میٹر پر مشتمل ایک جگہ کو کہا جاتا ہے۔ وقوف عرفات حج تمتع کے ارکان میں سے ایک ہے جس کے مطابق حجاج کے لئے ضروری ہے کہ وہ 9 ذی الحجہ کو عرفات میں قیام کریں۔ پیغمبر اکرمؐ سے مروی ایک حدیث کے مطابق بعض گناہ میدان عرفات میں قیام کئے بغیر بخشے نہیں جائیں گے۔ امام حسینؑ نے دعائے عرفہ کو عرفات میں اپنی زبان پر جاری فرمایا ہے۔

مختصر کوائف

عرفات سے مسجد الحرام کا راستہ

عرفات مکہ مکرمہ کے مشرق میں ایک وسیع اور ہموار میدان ہے جس کی مساحت آٹھ مربع کیلومیٹر ہے اور مکہ سے 21 کیلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔[1]

جبل الرحمۃ عرفات کے شمال مشرق میں واقع ہے[2] اور اسی بنا پر اسے "جبل العرفات" بھی کہا جاتا ہے۔[3]

سرزمین عرفات فقہی اعتبار سے حرم میں شامل نہیں ہے۔[4] لیکن اس کے باوجود مختلف ادوار میں اس کے حدود مختلف علامتوں اور سائن بورڈ وغیرہ کے ذریعے مشخص اور معین رہے ہیں۔[5]

مقامی لوگوں کے مطابق حضرت ابراہیم اور آپ کی زوجہ ہاجرہ کی مکہ ہجرت کے وقت "قوم جُرہُم" عرفات میں سکونت پذیر تھی۔[6] بعض پرانے جغرافیا دانوں کے مطابق عرفات ایک چھوٹا قصبہ تھا۔[7]

وجہ تسمیہ

دسویں صدی ہجری کے مورخ محمد بن عبد الرحمن سخاوی کے مطابق "عرفات" کا لفظ قصبات کی طرح (عرفہ کا جمع ہے) اس بنا پر عرفات کے ہر حصے کو "عرفہ" کہا جاتا ہے اور پوری سرزمین کو عرفات کہا جاتا ہے۔[8]

بعض احادیث کے مطابق جبرئیل نے حضرت ابراہیم کو مناسک حج کی تعلیم دیتے ہوئے عرفات میں کہا: "أعرَفتَ مناسکَک؟"؛ یعنی "کیا اپنے اعمال کو جان لیا؟" اس موقع پر حضرت ابراہیمؑ نے جواب دیا: "ہاں"۔ اور حضرت جبرئیلؑ کے کلام میں استعمال ہونے والے لفظ "أعرفتَ" کی مناسبت سے اس سرزمین کا نام "عرفات" یا "عرفہ" رکھا گیا ہے۔[9] بعض منابع میں عرفات کو حضرت آدمؑ اور حوا کی ملاقات اور ایک دوسرے کو پہچاننے کا مقام قرار دیا گیا ہے۔[10] اسی طرح کہا جاتا ہے کہ چونکہ مسلمان اس سرزمین میں اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہوئے خدا سے بخشش کی درخواست کرتے ہیں اس بنا پر اس سرزمین کو عرفات کہا جاتا ہے۔[11]

قرآن کریم میں سورہ بقرہ کی آیت نمبر 198 میں حج کے آداب اور احکام کے ضمن میں عرفات کا نام لیا گیا ہے۔[12]

اہمیت

عرفات حج کے مناسک کے ساتھ مرتبط ہونے کے ساتھ ساتھ[13] مقدس اسلامی مقامات میں سے ہے۔[14] وقوف عرفات حج تمتع کے ارکان میں سے ہے اور اس کے بغیر حج مکمل نہیں ہوتا؛ اسی بنا پر 9 ذی الحجہ کو ظہر سے مغرب تک میدان عرفات میں قیام کرنا تمام حجاج کے اوپر واجب ہے۔[15]

اسلام سے پہلے مکہ کے باسی خود کو اہل حرم اور برگزیدہ قوم جانتے تھے جو مختلف آداب و رسوم کے پابند تھے من جملہ ان اعمال میں میدان عرفات میں قیام کرنا بھی تھا۔[16] اہل سنت حدیثی منابع میں نقل ہونے والے بعض احادیث کے مطابق پیغمبر اکرمؐ بھی ظہور اسلام سے پہلے حج کے موقع پر اس عمل کو انجام دیتے تھے۔[17]

پیغمبر اسلامؐ سے منقول ایک حدیث میں آیا ہے کہ عرفہ کے دن مغرب کے وقت میدان عرفات میں قیام کرنے والوں پر ملائکہ کے سامنے خداوند متعال بھی فخر و مباہات کرتا ہے اور ان کے تمام گناہوں کو بخش دیتا ہے۔[18] اسی بنا پر حجاج کا میدان عرفات میں قیام کرنا ان کے گناہوں کی بخشش کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے؛ پیغمبر اکرمؐ سے منقول ایک حدیث کے مطابق بعض گناہ ایسے بھی ہیں جو میدان عرفات میں قیام کرنے کی وجہ سے بخشے جائیں گے۔[19] امام صادقؑ سے مروی ایک حدیث میں آیا ہے کہ سب سے زیادہ گناہگار شخص وہ ہے جو میدان عرفات سے واپس آئے اور یہ گمان کرے کہ اس کے گناہ بخشے نہیں گئے ہیں۔[20]

اسی طرح دحو الارض سے متعلق موجود احدیث کے مطابق کعبہ اور منا کے ساتھ میدان عرفات بھی ان مقامات میں سے ہیں جہاں اس دن زمین کو پھیلا دی گئی ہے۔[21] امام حسینؑ نے میدان عرفات میں اپنے خیمے سے باہر تشریف لے جا کر کوہ عرفات کے بائیں سمت جبل الرحمۃ کے اوپر دعا فرمائی جو دعائے عرفہ کے نام سے مشہور ہے۔[22]

حوالہ جات

  1. پور امینی، «نگرشی بر عرفات»، ص۱۶۴۔
  2. بروسوی، أوضح المسالک، ۱۴۲۷ق، ص۴۶۸؛ جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۲ش، ص۱۳۱۔
  3. کردی، التاریخ القویم لمکۃ و بیت اللہ الکریم، ۱۴۲۰ق، ج۱، ۴۹۲۔
  4. شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۴۶۴؛ ہروی، الإشارات إلی معرفۃ الزیارات، ۱۴۲۳ق، ص۷۴۔
  5. جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۲ش، ص۱۲۹ و ۱۳۰؛ ابن الفقیہ، البلدان، ۱۴۱۶ق، ص۷۸؛ بروسوی، أوضح المسالک، ۱۴۲۷ق، ص۴۶۸؛ شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۴۶۳۔
  6. طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن،، ج۱، ص۲۸۸-۲۸۹ و ۲۹۴۔
  7. الإستبصار فی عجایب الأمصار، ۱۹۸۶م، ص۳۵۔
  8. سخاوی، البلدانیات، ۱۴۲۲ق، ص۲۲۵۔
  9. أزرقی، أخبار مکہ، ۱۴۱۶ق، ج۱، ص۶۷؛ فاکہی، أخبار مکۃ، ۱۴۲۴ق، ج۵، ص۹۔
  10. سخاوی، البلدانیات، ۱۴۲۲ق، ص۲۲۵؛ بی‌ آزار شیرازی، باستان ‌شناسی و جغرافیای تاریخی قصص قرآن، ۱۳۸۰ش، ص۲۴۰۔
  11. سخاوی، البلدانیات، ۱۴۲۲ق، ص۲۲۵۔
  12. لَیسَ عَلَیکمْ جُناحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلاً مِنْ رَبِّکمْ فَإِذا أَفَضْتُمْ مِنْ عَرَفاتٍ فَاذْکرُوا اللَّہَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرامِ وَ اذْکرُوہُ کما ہَداکمْ وَ إِنْ کنْتُمْ مِنْ قَبْلِہِ لَمِنَ الضَّالِّین (ترجمہ: اس میں تمہارے لئے کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ تم حج کے دوران اپنے پروردگار سے فضل (رزق) کے طلب گار رہو۔ ہاں تو جب عرفات سے روانہ ہو تو مشعر الحرام (مزدلفہ) کے پاس (اس کی حدود) میں اللہ کو یاد کرو اور یاد بھی اس طرح کرو جس طرح اس نے تمہیں ہدایت کی ہے اگرچہ اس سے پہلے تم گمراہوں میں سے تھے۔)
  13. فرہنگ فقہ، ۱۳۹۲ش، ج۵، ص۳۷۶۔
  14. فرہنگ فقہ، ۱۳۹۲ش، ج۵، ص۳۷۵۔
  15. موسوی شاہرودی، جامع الفتاوی مناسک حج، ۱۴۲۸ق، ص۱۷۳ و ۱۷۴۔
  16. طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، ۱۳۹۳ق، ج۲، ص۸۰۔
  17. مدیر شانہ‌چی، «حج پیامبر(ص)»، ص۸۳۔
  18. نوری، مستدرک الوسائل، ۱۴۰۸ق، ج۸، ص۳۶۔
  19. نوری، مستدرک الوسائل، ۱۴۰۸ق، ج۱۰، ص۳۰۔
  20. شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۲۱۱؛ نوری، مستدرک الوسائل، ۱۴۰۸ق، ج۱۰، ص۳۰۔
  21. شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۲۴۱۔
  22. عمرانی، «بررسی سند و ذیل دعای عرفہ امام حسین(ع)»، ص۶۵۔

مآخذ

  • قرآن کریم۔
  • ابن الفقیہ، احمد بن محمد، البلدان، تصحیح یوسف الہادی، بیروت، عالم الکتب، ۱۴۱۶ق۔
  • ازرقی، ابو الولید، أخبار مکۃ و ما جاء فیہا من الآثار، تصحیح ملحس و رشدی صالح، بیروت، ۱۴۱۶ق۔
  • الإستبصار فی عجایب الأمصار، مؤلف ناشناختہ، تصحیح سعد زغلول عبد الحمید،‌ بغداد، دار الشؤون الثقافیہ، ۱۹۸۶م۔
  • بروسوی، محمد بن علی، أوضح المسالک إلی معرفۃ البلدان و الممالک، ‌بیروت، دار الغرب الاسلامی، چاپ اول، ۱۴۲۷ق۔
  • بی‌ آزار شیرازی، عبد الکریم، باستان‌ شناسی و جغرافیای تاریخی قصص قرآن، تہران، دفتر نشر فرہنگ اسلامی، ۱۳۸۰ش۔
  • پور امینی، محمد امین، «نگرشی بر عرفات»، در مجلہ میقات حج، ش۱۱ و ۱۲، تابستان ۱۳۷۴ش۔
  • جعفریان، رسول، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، تہران، مشعر، ۱۳۸۲ش۔
  • سخاوی، محمد بن عبد الرحمن، البلدانیات، تصحیح حسام بن محمد قطان، ‌ریاض، دار العطاء، ۱۴۲۲ق۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، قم، انتشارات جامعہ مدرسین، ۱۴۱۳ق۔
  • طباطبایی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، ۱۳۹۳ق/۱۹۷۳م۔
  • عمرانی، مسعود، «بررسی سند و ذیل دعای عرفہ امام حسین(ع)»، در مجلہ مشکوۃ، ش۱۱۰، بہار ۱۳۹۰ش۔
  • فاکہی، محمد بن اسحاق، أخبار مکۃ فی قدیم الدہر و حدیثہ، مکہ، مکتبہ الاسدی، چاپ چہارم، ۱۴۲۴ق۔
  • فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت، تحقیق و تألیف مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی بر مذہب اہل بیت زیر نظر محمود ہاشمی شاہرودی، ج۵، قم، مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی بر مذہب اہل بیت، ۱۳۹۲ش۔
  • کردی، محمد طاہر، التاریخ القویم لمکۃ و بیت اللہ الکریم،‌ بیروت، دار خضر، ۱۴۲۰ق۔
  • مدیر شانہ‌چی، کاظم، «حج پیامبر(ص)، در مجلہ میقات حج، ش۲۵ و ۲۶، زمستان ۱۳۷۷ش۔
  • موسوی شاہرودی، سید مرتضی، جامع الفتاوی مناسک حج: با روشی جدید مطابق با فتاوای دہ تن از مراجع عظام تقلید، تہران، نشر مشعر، ۱۴۲۸ق۔
  • نوری، حسین بن محمد تقی، مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل، بیروت، مؤسسۃ آل البیت لإحیاء التراث، ۱۴۰۸ق/۱۹۸۷م۔
  • ہروی، علی بن ابوبکر، الإشارات إلی معرفۃ الزیارات، تصحیح عمر علی، قاہرہ، مکتبۃ الثقافۃ الدینیۃ، ۱۴۲۳ق۔