بنی ہاشم

ویکی شیعہ سے
(بنو ہاشم سے رجوع مکرر)

بنی ہاشم قرَیش کا مشہور قبیلہ ہے جو ہاشم (عمرو) بن عبد مناف بن قُصَیّ بن کِلاب (زید) سے منسوب ہے۔ پیغمبر اکرمؐ کا تعلق بھی اسی قبیلے سے ہے۔ یہ قبیلہ طلوع اسلام سے قبل بھی عرب کا مشہور اور بڑا قبیلہ تھا۔ طلوع اسلام کے وقت ابوطالب اس قبیلے کے سردار تھے جن کی سربراہی میں اس قبیلے نے رسول اللہؐ کی ہر ممکن حمایت کی اور ائمہؑ کے زمانے میں بھی بہت سے مواقع پر یہ سلسلہ جاری رہا ہے۔ بنی عباس جو بنی ہاشم کا ایک زیلی قبیلہ تھا نے کئی صدیوں تک عالم اسلام پر حکومت کی۔ علاوہ ازیں اسلامی دنیا کے بعض دیگر حصوں میں بھی بنی ہاشم کے بعض خاندانوں نے حکومتیں قائم کی ہیں۔ بنی ہاشم رسول اللہؐ سے انتساب کی وجہ سے ہمیشہ مسلمانوں کے درمیان قابل احترام رہے ہیں۔

قبل از اسلام

قصی بن کلاب حضرت اسمعیلؑ کے پڑ پوتے تھے جو رسول اللہؐ سے تقریباً ایک صدی قبل گذرے ہیں۔ وہ اپنے اقدامات کی وجہ سے قریش کے بزرگ اور زعیم بنے۔ نیز وہ مکہ اور خانہ کعبہ کے اہم مناصب پر فائز تھے اور ان کے بعد یہ مناصب ان کی اولاد کو ملے لیکن قصی کے بیٹوں عبد مناف اور عبد الدار کی وفات کے بعد ان مناصب پر ہاشم بن عبد مناف اور ان کے بھائیوں نیز بنو عبد مناف اور بنو عبدالدار میں سے ان کے چچا زاد بھائیوں کے درمیان شدید تنازعہ اٹھا اور یہ تنازعہ حِلف المطیبین اور حِلف الاحلاف نامی معاہدوں پر منتج ہوا۔ تنازعہ ختم ہونے کے بعد رفادت (حجاج کی ضیافت و پذیرائی) نیز سقایت (حجاج کو پانی دینے) کا منصب بنو عبد مناف کو اور بطور خاص ہاشم کو ملا۔

‌ہاشم

ہاشم سلسلۂ بنی ہاشم کے مورث اعلی اور رسول اللہؐ کے پر دادا (یا جدّ ثانی) اور اپنے عصر کے معاریف اور اکابرین میں شمار ہوتے تھے۔ ان کا نام عمرو تھاا اور اعلی مرتبت و منزلت نیز بلند قد و قامت کی وجہ سے عمرو الُعلیٰ اور جود و سخا کی وجہ سے ہاشم کہلاتے تھے کیونکہ قحط سالی میں ان کا خوان ضیافت ہر وقت بچھا رہتا تھا اور لوگوں کو کھانا کھلایا کرتے تھے۔ ہاشم تجارت پیشہ اور خوبرو انسان تھے انہوں نے ایک تجارتی سفر سے لوٹتے ہوئے یثرب میں "عمرو خزرجی" نامی شخص کی نیک سیرت بیٹی "سلمیٰ" سے شادی کی اور اس شادی کے نتیجے میں انہیں خدا نے ایک فرزند عطا کیا جن کا نام شیبہ رکھا گیا۔ ہاشم ـ نوجوانی کی عمر میں ـ شام کے تجارتی سفر کے دوران بیمار پڑ گئے اور فلسطین کے شہر غزہ میں انتقال کرگئے اور وہیں سپرد خاک کئے گئے۔

ہاشم کے تین بھائی تھے: بنو امیہ کے مورث اعلی "عبد شمس"، "مطلب" اور "نوفل"۔

ہاشم نے ہی قریش کے لئے سردیوں (شتاء) اور گرمیوں (صیف) والے دو تجارتی سفروں کا تعین کیا جن کی طرف خداوند متعال نے سورہ قریش میں اشارہ فرمایا ہے۔خطا در حوالہ: Closing </ref> missing for <ref> tag انہوں نے مکیوں کی تجارت کی سطح بلند کرنے کے لئے "غسان" کے امیر سے تجارتی معاہدہ منعقد کیا۔[1]

ہاشم نے کئی معاہدے منعقد کر کے قریش کی تجارت کو رونق دی اور ان معاہدوں کے تحت قریش جاڑے میں شام کے سفر پر اور گرمی میں حبشہ اور یمن کا سفر اختیار کرتے تھے۔[2]

ہاشم نے قحط سالی کے موقع پر قریش کے لئے کھانے پینے کا مناسب انتظام کیا اور انہیں بھوک سے نجات دلائی۔[3]

ہاشم ہر سال زائرین کعبہ کو اشیاء خورد و نوش دینے کے سلسلے میں قریش کی طرف سے مالی امداد ملتی تھی۔[4] نیز انہوں نے کنویں کھدوا کر حاجیوں کو آبرسانی کا کام بھی آسان بنا دیا۔[5] مروی ہے مکہ ایک سال شدید قحط سے دوچار تھا چنانچہ ہاشم نے شام سے بڑی مقدار میں گندم اور آٹا خریدا اور اونٹوں پر لاد کر مکہ منتقل کیا اور اونٹوں کو نحر کرکے بڑے دیگوں میں پکوایا؛ گندم سے آٹا اور آٹے سے روٹیاں تیار کروا کر لوگوں کو کھانے کے لئے بلوایا اور شوربے میں روٹیاں توڑ کر ثرید تیار کرکے گوشت کے ہمراہ لوگوں کو کھلا دیا اور یہ سلسلہ قحط کے خاتمے تک جاری رکھا۔ اس عمل کی وجہ سے انہيں "ہاشم" کا لقب ملا کیونکہ ہاشم "توڑنے والے کو کہتے ہیں اور ہاشم شوربے میں روٹی توڑ توڑ کر قحط زدگان کو کھلاتے رہے تھے۔ چنانچہ عرب شاعر "عبداللہ بن زبعری" نے ان کی شان میں کہا: وہ عمرو العلی (بلند مرتبہ عمر) ہیں جنہوں نے اپنے قوم کے لئے ثرید تیار کیا جبکہ [[مکہ کے مرد قحط زدہ تھے؛ انہوں نے اپنی قوم کے لئے کاروان تجارت تشکیل دینے کی روایت کی بنیاد رکھی ایک کاروان جاڑے میں نکلتا تھا اور دوسرا گرمیوں میں۔[6]

ہاشم ان تمام امور کے بدولت قریش کے ہاں اعلی مقام و منزلت پر فائز ہوئے تھے۔

ہاشم کے چار بیٹے شیبہ بن ہاشم، "أَسَد" (حضرت فاطمہ بنت اسد کے والد گرامی)، "عَمرو" (ابو صَیفی) اور "نَضْلہ"، اور ان کی پانچ بیٹیاں بھی تھیں۔[7]


عبد المطّلب

مفصل مضمون: عبد المطّلب

ہاشم کی وفات کے بعد ان کے بھائی "مُطّلب" بن عبد مَناف نے ان کے تمام مناصب سنبھال لئے اور کچھ عرصہ بعد تمام عہدے اور مناصب ہاشم کے فرزند عبد المطّلب کو "مطلب" کےجانشین کے طور پر، سونپ دیئے گئے۔[8]

عبد المطّلب سقایت اور رفادت کے مناصب کے ساتھ ساتھ کریمانہ خصلتوں کے مالک ہونے کے ناطے اہل مکہ کے ہاں محترم تھے۔ انہوں نے زمزم کے کنویں کی کھدائی کی جس کی وجہ سے حجاج و زائرین کی نظروں میں بھی ان کی جلالت دو چنداں ہوگئی۔ بنو عبد مناف منجملہ بنو ہاشم قریش کے دوسرے قبائل کے سامنے فخر کرتے تھے کہ انہیں اس کنویں سے سقایت اور حجاج کو پانی پلانے کا اعزاز حاصل ہے۔ وہ اس عمل کو اپنے لئے عظیم اعزاز سمجھتے تھے۔[9]

عام الفیل کے موقع پر ابرہہ نے مکہ پر حملہ کیا تو عبد المطّلب کے کردار نے ان کی منزلت کو چار چاند لگا دیئے؛ کیونکہ وہ قریش کے ہاں اپنی خاص منزلت کے بدولت اہل مکہ کے نمائندے کی حیثیت سے ابرہہ سے ملنے گئے تو ابرہہ کے ساتھ ان کے برتاؤ اور پھر مکی عوام کو پہاڑیوں میں پناہ لینے کی ہدایت دے کر ان کے تحفظ کے اہتمام، کے بموجب قریش نے اس اہم واقعے میں عبد المطّلب کو [[ابراہیم ثانی کا لقب دیا۔[10]

بعض مؤرخین اور سیرت نگاروں نے عبد المطّلب کو خاندان بنو ہاشم کا واحد چشم و چراغ قرار دیا ہے۔[11] حالانکہ ہاشم کے فرزندوں میں نضلہ بن ہاشم و عمرو بن ہاشم [نیز اسد بن ہاشم] بھی شامل ہیں چنانچہ یہ دعوی صحیح نہیں ہے۔[12]

قریش کے دوسرے قبائل سے تعلقات

جزیرة العرب میں قریش کو دوسروں پر فوقیت حاصل تھی اسی رو سے قریش کے مختلف خاندانوں کے درمیان مسابقت بہت اہم تھی چنانچہ ہر خاندان کی کوشش تھی کہ ہر ممکنہ طریقے سے اپنے حریفوں سے سبقت لے کر قریش کے متعدد قبائل میں ممتاز حیثیت حاصل کریں۔

بنو امیہ اور بنو ہاشم کی تاریخی دشمنی کو بھی اسی تناظر میں دیکھنا چاہئے۔ اگرچہ بعض [13] [غیر معتبر] تاریخی روایات میں بعض جزوی مسائل کو اس دشمنی کا سبب گردانا گیا ہے؛ جیسے ہاشم بن عبد مناف سے ان کے بھتیجے امیہ بن عبد شمس کا حسد اور ان دو کے درمیان تنازعات، [14] یا عبد المطب کے ساتھ حرب بن امیہ کا اپنے نسب پر مفاخرہ وغیرہ۔[15] حتی بعض تاریخی روایات میں ہاشم اور (امویوں کے پردادا) عبد شمس کی پیدایش سے متعلق واقعے کو اس دشمنی کی اساس قرار دیا گیا ہے۔[16] (دیکھئے: ہاشم بن عبد مناف

تاریخی روایات کے مطابق عبد المطلب کی وفات کے بعد ـ خاص طور پر مالی کمزوریوں کے سبب بنو ہاشم کی منزلت میں کمی آئی لیکن پیغمبر خداؐ کی بعثت کے ساتھ ہی بنو ہاشم کے حریف ابتداء میں بنو مخزوم اور پھر بنو امیہ کی سرکردگی میں ـ بنو ہاشم کے ساتھ مسابقت اور منازعت پر اتر آئے۔ یقیناً اس مخالفت کی جڑیں نبوت اور رسالت کے بارے میں ان افراد اور جماعتوں کی رائے میں پیوست تھی۔ ان خاندانوں اور افراد کے خیال میں بنو ہاشم میں سے ایک پیغمبر کی بعثت قبائلی تنازعات سے الگ نہ تھی چنانچہ وہ رسول اللہؐ کی بعثت کو بنو ہاشم کی حکومت کا بہانہ اور ایک سیاسی بازیگری کا حصہ سمجھتے تھے؛[17] چنانچہ وہ نبوت کا انکار اور آنحضرتؐ کے پیروکاروں کا شدید مقابلہ کرکے بنو ہاشم کی پیشرفت اور ترقی میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کررہے تھے۔

تاریخی منابع نے بنو عبد الدار اور بنو مخزوم کو بنو ہاشم کے دوسرے حریف اور دشمن قبائل میں گردانا ہے۔ بنو عبد الدار جو سب سے پہلے مکہ کے مناصب اور عہدوں پر بنو ہاشم کے ساتھ تنازعات میں ملوث رہے تھے؛ (دیکھئے: حلف الاحلاف) پیغمبر خداؐ کی بعثت کے ساتھ ہی بنو امیہ سے جا ملے۔[18]

بنو مخزوم بھی ـ جو حلف الاحلاف میں بنو عبد الدار کے ساتھ تھےـ[19] اسلام کی اعلانیہ دعوت کے ساتھ ہی رسول اللہؐ کے مخالفین کے سرکردہ قبائل میں شامل ہوئے؛ کیونکہ اس دور میں ابو جہل (عمرو ابن هشام) مکہ کا رئیس اور بنو مخزوم کا سربراہ تھا اور اس کی حکومت اور اشرافیت اور قبیلہ بنو مخزوم کی منزلت کو بنو ہاشم میں سے ایک پیغمبر کی بعثت سے شدید خطرات لاحق تھے۔

دوسری طرف سے تاریخ نے بنو ہاشم کے لئے بھی بعض حلیف ذکر کئے ہیں جن میں بنو المطلب (مطلب بن عبد مناف) کی اولاد، کا نام لیا جاسکتا ہے، یہ قبیلہ بنو ہاشم کا سب سے بڑا اور محبوب حلیف قبیلہ سمجھا جاتا تھا۔ بنو المطلب بنو زہرہ بن کلاب، بنو تیم بن مرہ، بنو حارث بن فہر اور بنو اسد بن عبد العزی حلف المطیبین میں بنو ہاشم اور بنو عبد مناف کے حلیف اور بنو عبد الدار کے مخالفین میں شمار ہوتے تھے۔[20] ان قبائل نے بعد میں زبیر بن عبد المطلب کی قیادت میں منعقدہ حلف الفضول نامی معاہدے کے تحت میں بنو ہاشم کے ساتھ متحد ہوکر مظلومین کی حمایت کی قسم اٹھائی۔[21]

ظہور اسلام کے بعد بھی بنو المطلب نے بہت سے واقعات میں بنو ہاشم سے مل کر رسول اللہؐ کی حمایت کی۔ شعب ابی طالب میں بنو ہاشم کے ساتھ بنو المطلب کی قلعہ بندی اور بنو ہاشم کے ساتھ تین سال تک تمام تر دشواریوں اور مشکلات کو برداشت کرنا، اس اتحاد کا عظیم ترین نمونہ ہے۔[22]

خُزاعہ بھی بنو ہاشم کا حلیف قبیلہ سمجھا جاتا ہے۔ بعض تواریخ میں ہے کہ عبد المطلب اور نوفل بن عبد مناف کے درمیان کشمکش کے بعد خزاعہ نے عبد المطلب کا ساتھ دیا اور اس قبیلے کے افراد نے عبد المطلب کے ساتھ اتحاد کیا۔[23]

ظہور اسلام

رسول اللہؐ نے اپنی دعوت عام کرنے کے ابتدائی مرحلے میں اپنے خاندان کو اسلام کی دعوت دی اور یوم الدار کے موقع پر آپ نے (بنو ہاشم کے اہم ترین خاندان اور پہلے درجے کے اعزاء و اقارب) بنو عبد المطلب کو اکٹھا کیا اور انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔[24]

مروی ہے کہ بنو ہاشم کے مدعوین میں سے ہر ایک نے دین جدید کی نسبت مختلف قسم کا رد عمل ظاہر کیا؛ کچھ لوگوں نے اسلام قبول کرکے اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا جبکہ ابوطالب نے اپنا اسلام و ایمان صیغہ راز میں رکھا تا کہ قریش کے بزرگ کی حیثیت سے اپنا نفوذ کلام اور سماجی اثر و رسوخ برقرار رکھ سکیں تا ہم انہوں نے رسول اللہؐ کی حمایت مسلسل جاری رکھی اور آپ کو قریش کی ایذا رسانیوں سے محفوظ رکھا۔[25] (دیکھیں: ایمان ابوطالب)

تاریخی روایات کے مطابق جب رسول خداؐ نبوت پر مبعوث ہوئے تو ابوطالبؑ نے اسلام قبول کیا اور آپؐ پر ایمان لائے لیکن اپنے ایمان و اسلام کو ظاہر نہيں کیا تاکہ رسول خدا کی حمایت و حفاظت کرسکیں؛ کیونکہ اس معاشرے میں قرابت داری کا تعصب حکمروائی کررہا تھا چنانچہ ابو طالبؑ نے قرابت داری کی آڑ میں رسول خداؐ کی حمایت و حفاظت جاری رکھی؛ خطا در حوالہ: Closing </ref> missing for <ref> tag جبکہ اہل سنت کے معتزلی مکتب فکر کے مشہور عالم ابن ابی الحدید کہتے ہیں: "إنَّ الإسلامَ لولا أبو طالِبٍ، لَم یَكُن شَیئاً مَذكُوراً"۔ ترجمہ: اگر ابو طالبؑ نہ ہوتے تو اسلام کا نام و نشان تک نہ ہوتا۔[26]

بنو ہاشم کے گنے چنے چند افراد نے آنحضرتؐ کے ساتھ دشمنی کی ہے اور اس سلسلے میں کسی اقدام سے بھی دریغ نہیں کیا ہے؛ آپؐ کا چچا ابو لہب اور[27] اور ابو سفیان بن حارث بن عبد المطلب ـ یعنی آپؐ کا چچا زاد بھائی، ـ جو آپؐ کی ہجو کرتا تھا ـ[28] ان ہی افراد میں سے ہیں۔

اگرچہ بنو ہاشم کی اکثریت نے فتح مکہ کے بعد تک اسلام قبول نہیں کیا لیکن ان سب نے مل کر قریش کے سرغنوں کے منفی رد عمل کے سامنے پیغمبرؐ اور عام مسلمانون کو مکہ والوں کی ایذا رسانیوں سے بچانے کے لئے پیغمبرؐ کی حمایت میں کوشاں رہے۔ ابو طالبؑ نے ـ جو کہ بنو ہاشم اور قریش کے بزرگ اور ز‏عیم سمجھے جاتے تھے ـ اس حمایت اور پشت پناہی میں نہایت مؤثر کردار ادا کیا؛[29] یہاں تک کہ ابن ابی الحدید کہتے ہیں:

"ولولا ابوطالب وابنه ٭ لما مثل الدین شخصاً فقاما * فذاك بمكة آوی وحامی * وهذا بیثرب جس الحماما * تكفل عبدُ منافٍ بأمر ٭ وأودی فكان عليٌ تماماً"۔
ترجمہ: اگر ابو طالب اور ان کے فرزند (علی نہ ہوتے تو دین کا ستون نہ کھڑا ہوتا؛ ابو طالبؑ نے مکہ میں دین کو پناہ دی اور اس کی حمایت کی اور علی نے مدینہ میں دین کے کبوتر کو اڑنے کے قابل بنایا؛ ابو طالبؑ نے ایک کام کا آغاز کیا اور جب رخصت ہوئے تو علی نے اس کو سرانجام تک پہنچایا۔[30]

حتی جب قریش کے مختلف خاندانوں کے عمائدین نے اس امید سے بنو ہاشم کی معاشی اور سماجی ناکہ بندی کی، ہاشمی پیغمبرؐ کی حمایت ترک کردیں تو بنوہاشم کے تمام افراد ـ خواہ مؤمن خواہ کافر ـ (سوائے ابو لہب[31] اور ابوسفیان بن حارث[32] کے)، ابو طالب کی درخواست پر شعب ابی طالب کی راہ لی اور ان سب نے تین سال تک شدید مالی اور معاشرتی مسائل برداشت کئے اور صعوبتیں جھیل لیں لیکن پیغمبرؐ کی حمایت سے پسپا نہ ہوئے۔[33]

ابو طالب کی وفات کے بعد ابو لہب [مشرکین کے زعماء کی مدد سے] بنو ہاشم کا سربراہ بنا۔[34] اور اس کے بعد بنو ہاشم بھی آپؐ کی مدد نہیں کرسکتے تھے یہاں تک کہ طائف سے واپسی کے وقت نوفل بن عبد مناف کے ایک مرد مطعم بن عدی کی حمایت میں مکہ میں داخل ہوسکے۔[35]۔[36]

پیغمبرؐ کی ہجرت مدینہ کے بعد حضرت حمزہؑ اور حضرت علیؑ سمیت بعض ہاشمیوں نے ہجرت کو مکہ میں سکونت پر، ترجیح دی؛ زیادہ تر بنو ہاشم مکہ میں ساکن رہے۔ بنو ہاشم عام طور پر مسلمانوں کے خلاف مشرکین کی لڑائیوں میں شرکت سے اجتناب کرتے تھے لیکن ان میں سے بعض افراد مجبور ہوکر جنگ بدر میں مشرکین کے لشکر میں حاضر ہوئے جو مسلمانوں کے ہاتھوں اسیر ہوئے۔[37] پیغمبرؐ نے جنگ شروع ہونے سے قبل مسلمانوں کو آگاہ کیا تھا کہ مشرکین مکہ بنو ہاشم کے بعض افراد کو زبردستی اپنے ساتھ لائے ہیں؛ اور انہیں ہدایت کی تھی کہ ان افراد کو مارنے سے پرہیز کریں۔ جنگ ختم ہوئی اور مشرکین قیدی رہا کردیئے گئے تو ہاشمی اسراء کچھ دن تک مدینہ آپؐ کے پاس ٹہرے۔[38]۔[39]

تاریخی منابع کے مطابق ہجرت کے بعد کے برسوں میں ـ بالخصوص فتح مکہ کے بعد ـ بنو ہاشم کے اکثر افراد نے اسلام قبول کیا۔ چنانچہ عقیل بن ابی طالب نے صلح حدیبیہ سے قبل[40] یا سنہ 6 ہجری میں، ابو سفیان بن حارث بن عبد المطلب نے فتح مکہ کے دن[41] اور عباس بن عبد المطّلب نے جنگ بدر سے قبل یا فتح خیبر سے قبل[42] اسلام قبول کیا۔ نیز ابو لہب جیسے بعض افراد[43] کفر کی حالت میں ہی پیغمبرؐ پر ایمان لانے سے قبل ہی گذر گئے۔

ائمہ کا دور

ایک خاندان میں نبوت اور خلافت یکجا ہونے کی مخالفت

پیغمبرؐ کی وفات کے بعد قبل از اسلام کے قبائلی تعصبات ـ حتی کہ صحابہ کے درمیان علیؑ کی جانشینی کی مخالفت کی صورت میں ـ دوبارہ آشکار ہوئے۔ خلافتِ علیؑ کے اکثر مخالفین نے آپؑ کی خلافت کو بنو ہاشم کی حکومت کا تسلسل قرار دیا اور اس کی مخالفت کی؛ چنانچہ عمر نے علیؑ اور عباس کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے یہی کہا تھا کہ:

عرب یہ ہرگز قبول نہیں کرتے کہ نبوت اور خلافت ایک خاندان میں جمع ہوں!!![44]

ادھر امیر المؤمنینؑ اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ ائمہ کو قریش اور بنو ہاشم میں سے ہونا چاہئے؛ فرماتے ہیں: "إِنَّ الْأَئِمَّةَ مِنْ قُرَيْشٍ غُرِسُوا فِى هَذا الْبَطْنِ مِنْ هاشِمٍ، لا تَصْلُحُ عَلَى سِواهُمْ، وَلا تَصْلُحُ الْوُلاةُ مِنْ غَيْرِهِمْ"۔

ترجمہ: بےشک ائمہ قریش میں سے ہیں جن کا پودا خاندان ہاشم میں بویا گیا ہے۔ امامت بنو ہاشم کے سوا کسی اور کے لئے موزون نہیں ہے اور نہ ہی کوئی اور اس کا اہل ہوسکتا ہے۔[45]

جب [امامت و خلافت کو قبائلی تعصبات کے تناظر میں پیش کیا گیا اور] بنو ہاشم میں نبوت و خلافت یکجا ہونے کی مخالفت کی گئی تو دوسرے عرب قبائل بھی متحد ہوگئے کیونکہ قریش کے مختلف قبائل نیز مدینہ کے عوام اور ان کے متحدین سمجھ رہے تھے [یا انہیں سمجھایا گیا] کہ اگر علیؑ خلیفہ بنیں تو خلافت کبھی بھی خاندان بنو ہاشم سے خارج نہ ہوسکے گی۔[46]

اسی بنا پر بعض صحابہ، حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ کی تدفین سے بھی پہلے، سقیفہ میں اکٹھے ہوئے اور بنو ہاشم سے مشورہ کئے بغیر اور رسول اللہؐ کی طرف سے علیؑ کی وصایت و جانشینی کے اعلان کے بر خلاف، ایک فرد حاضر کو خلیفہ بنایا اور اسی دن سے بنو ہاشم اور خلفاء نیز ان کے بعد کے تمام ادوار میں حکمرانوں، کے درمیان اختلافات اور کشمکش کا سلسلہ جاری رہا۔

گوکہ بنو ہاشم کی سیادت و خلافت کو شدید ترین مخالفتوں کا سامنا تھا لیکن وہ پھر بھی اپنی اعلی منزلت برقرار رکھنے میں کافی حد تک کامیاب رہے۔ اور اسی معاشرتی منزلت کے بموجب جب غنائم کی تقسیم کے اور "تدوین دیوان" کا مرحلہ آیا تو [خلیفہ وقت] عمر نے بنو ہاشم کو سب پر مقدم رکھا اور رسول اللہؐ سے قرابت داری کے ناطے انہيں عرب کا شریف ترین خاندان قرار دیا۔[47] دوسری روایت کے مطابق سنہ 20 ہجری میں جب عمر نے تدوین دیوان کا حکم جاری کیا تو بنو ہاشم کے سرکردہ افراد کے نام دیوان میں سرفہرست رکھے گئے۔[48]

اموی تعصب

عثمان کو خلیفہ کے عنوان سے چن لیا گیا تو بنو ہاشم کے ساتھ بنو امیہ کے اختلافات میں دوبارہ جان پڑ گئی کیونکہ اس دور میں بنو امیہ کے ایسے افراد بر سر اقتدار آئے جن کی وجہ سے قومی تعصبات اور انتقامی رویوں کے لئے ماحول فراہم ہوا؛ مثال کے طور پر ابو سفیان نے عثمان کو مشورہ دیا کہ خلافت کو موروثی حکمرانی میں تبدیل کریں، کیونکہ جنت اور دوزخ کا کوئی وجود نہیں ہے!!!۔[49]

جبکہ امیر المؤمنینؑ نے قومی اور قبائلی رجحانات کو مسترد کرتے ہوئے ایمان، اخلاص، حقانیت اور ہجرت کو بنو امیہ پر بنو ہاشم کی برتری کا معیار قرار دیا۔[50]

البتہ خلفائے ثلاثہ کے دور میں امام علیؑ اور بنو ہاشم نے حکومتی معاملات میں بھی کردار ادا کیا؛ حتی کہ تاریخی منابع میں منقول ہے کہ حارث بن نوفل بن حارث بن عبد المطلب، ابو بکر، عمر اور عثمان کے دور میں مکہ کے والی تھے۔[51]

امیر المؤمنینؑ اور امام حسنؑ کی حکومت

امیر المؤمنینؑ کی حکومت (35 تا 40 ہجری)، بنو ہاشم تمام وقائع و حوادث میں آپ کے ساتھ رہے؛ اور اگرچہ اس زمانے میں مدینہ بنو ہاشم کا مسکن تھا، لیکن دار الحکومت کی تبدیلی اور حکومتی مرکز کی کوفہ منتقلی پر بنو ہاشم بھی کوفہ منتقل ہوئے۔ بعض بنو ہاشم کے نام امیر المؤمنینؑ کے والیوں اور کارگزاروں میں بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔[52]

امیر المؤمنینؑ کی شہادت کے بعد امام حسنؑ کے مختصر دور حکومت میں اگرچہ بنو ہاشم نے امام حسنؑ کی بھرپور حمایت کی لیکن آپؑ کی افواج کے سپہ سالار اور بنو ہاشم کے سرکردہ فرد عبید اللہ بن عباس سمیت بعض اعلی فوجی افسر [مال و دولت لے کر] آپ(ع کا ساتھ چھوڑ گئے اور معاویہ سے جا ملے اور امام حسن مجتبی علیہ السلام معاویہ کے ساتھ صلح کرنے پر مجبور ہوئے۔[53]

معاویہ اور تعصبات کا احیاء

معاویہ کی حکمرانی کے دوران قبائلی تنازعات اور مسابقتیں ماضی کی نسبت زیادہ شدت سے نمایاں ہوئیں؛ مثال کے طور پر معاویہ علیؑ کے خلاف جنگ میں معاویہ کہتا تھا کہ کوفیوں کا لشکر بنو ہاشم کا حامی ہیں۔[54]

یہ تصور معاویہ کے جانشینوں کے زمانے میں بھی پایا جاتا تھا۔ امویوں کے دور حکومت میں قومی تنازعات کو ہوا دی جاتی تھی اور اسلام کے تاریخی واقعات میں اعتقادی نظریات و تفکرات کے کردار کا انکار کیا جاتا تھا؛ حتی کہ اسلام کے ظہور میں بھی وہ قومی اور قبائلی تنازعات کے لئے بنیادی کردار کے قائل تھے اور اس تصور کو فروغ دینے کی بھرپور کوشش کی جاتی تھی۔ اس مدعا کی دلیل کربلا کے واقعے کے بعد یزید کے وہ اشعار ہیں جس میں اس نے اپنی [ظاہری] کامیابی پر سرور و شادمانی کا اظہار کیا ہے۔ اس نے ان اشعار میں صراحت کے ساتھ وحی اور نبوت و رسالت کا انکار کیا اور اسلام کو بنو امیہ کے مقابلے میں بنو ہاشم کی سیاسی بازیگری کا نتیجہ قرار دیا۔[55] (رجوع کریں: حضرت زینب سلام اللہ علیہا)

جب امام حسینؑ نے مدینہ میں بیعت یزید سے انکار کیا تو بنو ہاشم نے آپ کی حمایت کی۔[56] اور (آل عقیل اور آل علیؑ نے یزید کے خلاف آپ کا ساتھ دیا۔[57]

بنو امیہ کی ظالمانہ حکومت کی دشمنیوں اور معاندانہ رویوں کے باوجود سنہ 63 ہجری میں جب عبد اللہ بن زبیر نے مکہ پر قبضہ کیا اور اموی حکومت کو بھاری نقصانات پہنچائے تو بنو ہاشم نے اس کے ہاتھ پر بیعت سے انکار کیا حتی کہ بعض روایات کے مطابق عبداللہ نے محمد بن حنفیہ اور عبد اللہ بن عباس کو جلاوطن ـ اور بعض روایات کے مطابق ـ قید کردیا۔ [58]

عبد اللہ بن زبیر کی سرکوبی کےبعد امویوں کی توجہ ایک بار پھر بنو ہاشم کی طرف مبذول ہوئی اور ان کے حامیوں کو اذیت و آزار کا نشانہ بنایا۔ اسی دور میں ہشام بن عبد الملک نے (شہید) زید بن علی بن الحسین کے لئے مرثیہ گوئی کی پاداش میں [شاعر اہل بیتؑ] کمیت بن زيد اسدی کی زبان کاٹنے اور ہاتھ قلم کرنے کا حکم دیا۔ حقیقت کا ثبوت ہے۔[59]

لیکن ـ اس کے باوجود کہ بنو امیہ کی انتقامی کاروائیوں نے بنو ہاشم پر عرصۂ حیات تنگ کردیا تھا، معاشرے میں ان کے اثر و نفوذ میں کمی نہ آئی؛ مثال کے طور پر عبد اللہ بن زبیر کی شکست کا ایک سبب یہ تھا کہ وہ بنو ہاشم کے ساتھ نامناسب برتاؤ رکھے ہوئے تھا۔[60] یا (سنہ 133 ہجری میں) جب زياد بن صالح نے بنو امیہ کے خلاف قیام کیا تو اس نے بنو ہاشم کے بعض افراد کو مدد کو لئے بلایا۔[61] نیز خراسان کے مختلف علاقوں میں بنو عباس کے حامی لوگوں کو "حکومتِ بنی ہاشم" کی طرف بلاتے تھے۔[62]

بنو عباس

اموی دور میں بنو ہاشم ـ متعدد اور متنوع خاندانوں میں تقسیم ہونے کے باوجود ـ ایک سیاسی صف تشکیل دیتے تھے تاہم اموی حکومت کے آخری برسوں میں بنو ہاشم کے دو اہم خاندان (یعنی) اولاد علیؑ (علوی) اور اولاد عباس بن عبد المطلب (عباسی) معاشرتی لحاظ سے الگ الگ نظر آئے۔

مسلمان بنو امیہ کی حکومت سے ناراض تھے چنانچہ دوسری صدی ہجری کے ابتدائی عشروں میں اموی حکمرانوں کے خلاف مختلف قسم کی تحریکیں شروع ہوئیں۔ لوگوں کا رجحان اہل بیتؑ کی طرف روز افزوں ہوا لیکن اہل بیت رسولؐ نے حکمرانوں کے خلاف قیام کے حوالے سے عوامی درخواست مسترد کردی اور یوں رسول اللہؐ کے چچا عباس، کی اولاد میں حکمرانی کے دعویدار افراد کو موقع ملا۔

بنو عباس نے بنوہاشم کی سماجی منزلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی حکمرانی کے آغاز ہی سے ہاشم سے اپنے انتساب کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی کوشش کی اور سنہ 111 ہجری سے "دعوت ہاشمیہ" کے جھنڈے تلے فعال ہوئے۔[63]

امویوں نے اموی ـ ہاشمی تنازعے کو ہوا دی تھی؛ اس حوالے سے "ہاشمی" کا عنوان عباسی تحریک میں کافی مؤثر رہا اور عباسیوں کی بیعت بھی "ہاشمی بیعت" کے عنوان سے انجام پائی اور عباسیوں نے اپنی بیعت کے لئے یہی توجیہ پیش کی کہ "خلافت بنو ہاشم کا حق ہے؛ اور عباسی بھی بنو ہاشم میں سے ہیں"۔[64]

عباسیوں نے اصرار کیا کہ ان کا تعلق خاندان رسالت سے ہے چنانچہ عباسیوں کی حکومت "بنو ہاشم" کی حکومت کے عنوان سے پہچانی گئی۔ دوسری طرف سے شیعیان آل رسولؐ ـ جو اس عنوان کے اس سیاسی استعمال کو برداشت نہیں کرسکتے تھے ـ نے انہیں بنو عباس کا نام دیا۔[65]

مجموعی طور پر "بنو ہاشم" کی اصطلاح ـ عباسی دور کے اختتام تک ـ صرف عباسیوں کے لئے استعمال ہوتی رہی؛ یا یوں کہئے کہ آل ابی طالب کے مقابلے میں عباسی کے افراد بنو ہاشم کا مصداق سمجھے جاتے تھے اور یہ عنوان ان کے لئے بروئے کار لایا جاتا تھا۔[66] (لیکن اس دور سے قبل جب کمیت کمیت بن زید اسدی (متوفیٰ 126) نے "ہاشمیات" نامی قصیدہ، اولاد علیؑ کے مصائب میں کہا تھا۔ نیز آج بھی ایران اور عراق سمیت اکثر ممالک میں اولاد ابی طالب ہی بنو ہاشم سمجھے جاتے ہیں)۔

عباسی ـ علوی سیاسی اختلاف مذہبی اور اعتقادی مسائل میں ان دو ہاشمی شاخوں کے تمایز کا موجب بنا اور علوی شیعہ کے عنوان سے مشہور ہوئے جبکہ عباسی موضوع امامت میں دوسرے مسلمانوں سے جا ملے۔[67]

بعد کی صدیاں

بنو عباس سنہ سال 656 هجری تک[68] حکومت پر مسلط تھے۔ علاوہ ازیں دوسرے ہاشمی سلسلوں نے بھی مختلف علاقوں میں حکومت کی ہے جیسے فاطمیون نے مصر میں، ادریسیون نے مراکش [اور شمالی افریقہ] میں اور علویون نے طبرستان میں۔

چوتھی صدی ہجری سے لے کر چودہویں صدی ہجری کے نصف اول ( (1343 ہجری تک) سادات بنی حسن کے ایک خاندان کو امارت و حکومت حاصل تھی جن کا سلسلہ نسب بہر حال عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف سے جاملتا تھا۔ حجاز، عراق اور اردن میں حکمران ہاشمی خاندانوں کا تعلق بھی اسی خاندان سے تھا اور ہے۔

بنی ہاشم سے متعلق بعض احکام

بنو ہاشم فقہ میں خاص احکام کا موضوع ہیں۔ خمس کا ایک حصہ ان ہاشمیوں کے لئے مختص ہے جو عبد المطلب بن ہاشم کی اولاد میں شمار ہوتے ہیں اور دوسری طرف بعض خاص اسثنائات کے سوا زکوٰة انہیں نہیں دی جاسکتی۔[69] عام مسلمانوں کے نزدیک اس طرح کی شرعی ممانعت کا سبب ان کی اعلی شان و منزلت ہے۔[70]

صفات

روایات میں دیکھا جاسکتا ہے کہ بنو ہاشم اور بنو عبدا لمطلب جود و سخاء اور بخشش جیسی پسندیدہ صفات سے متصف تھے اور پستیوں، رذیلتوں اور برائیوں سے دوری و اجتناب کرتے تھے۔[71] حِلفُ الفضول (ایک معاہدہ، جو مظلوم کی حمایت اور ظالم سے مظلوم کا حق چھیننے کے لئے انجام پایا تھا، اور اس میں بنو ہاشم شامل تھے) بنو ہاشم اور بنو عبدا لمطلب کی جوانمردی کی علامت تھا۔

ابن عباس نے بنو عبدا لمطلب کے لئے سات صفات بیان کی ہیں: حسن و جمال، سخنوری، سخاوت اور جوانمردی، شجاعت، علم، صبر و حلم (بردباری) اور تکریم نسوان۔[72] ابن حبیب بغدادی نے کلبی کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ حضرت علیؑ سے بنو ہاشم اور بنو امیہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا: "بنو ہاشم حسین، سخنور اور کریم و جوانمرد ہیں۔[73]

نیز ہاشمی عفت و پاکدامنی کے لئے بھی مشہور رہے ہیں؛ [74] ان کی ایک صفت استغنا اور بےنیازی ہے۔ وہ تمام تر مشکلات اور بدترین حالات میں بھی اپنے آپ کو صاحب جاہ و جلال سمجھتے تھے اور وہ کبھی بھی اپنی سماجی شان و منزلت کو نہیں بھولتے تھے۔[75]

احادیث رسولؐ کی روشنی میں

اس سلسلے میں رسول اللہؐ سے متعدد روایات و احادیث بھی نقل ہوئی ہیں؛ مثال کے طور پر مروی ہے کہ ایک دن رسول اللہؐ اپنے گھر سے سرور کے عالم میں باہر آئے تو لوگوں نے سے سبب پوچھا اور آپ نے فرمایا:

جبرائیل خداوند متعال کی طرف سے آئے اور کہا: خداوند متعال نے بنوہاشم میں سے سات افراد کو منتخب کیا جن کی مثل نہ اس سے پہلے خلق ہوئی اور نہ بعد میں خلق ہوگی: آپ یا رسول اللہؐ، آپ کے وصی علیؑ، آپ کے نواسے ، حسن اور حسین، آپ کے چچا حمزہؑ سید الشہداء،آپ کے ابن عم جعفر جو فرشتوں کے ساتھ جنت میں پرواز کررہے ہیں، اور قائم(عج) جن کی امامت میں حضرت عیسیؑ نماز ادا کریں گے۔[76]

مروی ہے کہ ایک دفعہ مہاجرین، انصار اور بنو ہاشم نے اختلاف کیا اس بات پر کہ ان میں سے کون رسول اللہؐ کے نزدیک زيادہ مقبول و محبوب ہے! تو رسول اللہؐ نے فرمایا: میں انصار کا بھائی ہوں، مہاجرین میں سے ہوں لیکن بنو ہاشم کے بارے میں فرمایا:

تم مجھ سے ہو اور میرے ساتھ ہو۔ [77]

اہل سنت کے بہت سے منابع میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ بنو ہاشم اور بنو عبد المطلب کو بہترین عرب اور حتی کہ بہترین انسان ہیں۔[78]

تاہم چونکہ یہ احادیث بنو عباس کے دور میں نقل ہوئی ہیں لہذا عین ممکن ہے کہ ان سےسے، بر سر اقتدار عباسیوں کی تعریف و تمجید، مقصود ہو، بالخصوص یہ کہ بنو عباس بنو ہاشم سے سے اپنے انتساب کو نمایاں کرنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ چنانچہ بعض ہاشمی افراد کے سامنے رسول اللہؐ کے رد عمل سے ہاشمی مؤمنین اور ان کے حامیوں اور ناصروں کی تکریم و تعظیم کا مطلب لینا چاہئے۔[79]

مسلمانوں میں بنو ہاشم کی منزلت

قبل از اسلام کے کارہائے نمایاں اور رسول اللہؐ سے انتساب کے پیش نظر، بنو ہاشم مسلمانوں کے نزدیک ہمیشہ قابل تکریم و احترام رہے ہیں۔ خاندان رسولؐ کے عنوان سے، خاندان بنو ہاشم سے محبت کرنا، ہمیشہ سے مسلمانوں کی ثقافت رائجہ اور عرف عام، کا حصہ رہا ہے۔ مثہل اے طور پر مسلمانوں نے بنو ہاشم کے عنوان سے بنو ہاشم کی حمایت کی یا یہ کہ [مغربی ایشیا اور شمالی افریقہ] میں متعدد حکومتیں ہاشمی حکومتوں کے عنوان سے قائم ہوئی ہیں اور مسلمانوں نے ان کی بھرپور حمایت کی ہے۔

اس امر کے تہذیبی مظاہر میں مدائح و قصائد ـ منجملہ کمیت بن زید اسدی کا قصیدہ "الہاشمیات" ـ ہیں جو اس خاندان کی مدح میں کہے گئے ہیں۔[80] دیگر مصادیق میں احترام کثیر ہے جو مسلمانان عالم ان خاندانوں اور قبائل کے لئے قائل ہیں جو ہاشمیوں کے نام سے مشہور ہیں؛ جس کی مثالیں ایران، پاکستان، ہندوستان، عرب ممالک اور افریقہ میں بکثرت دیکھی جاسکتی ہیں اور اس احترام کو "احترام سادات" کہا جاتا ہے۔

متعلقہ مآخذ

حوالہ جات

  1. جعفر سبحانی، فروغ ابدیت، ج 1، ص 114؛ سیره ابن ہشام، ج 1، ص 110۔
  2. یعقوبی، تاریخ، ج1، ص312؛ ابن سعد، الطبقات، ج1، ص62
  3. ابن سعد، الطبقات، ج1، ص62
  4. ابن سعد، الطبقات، ج1، ص63-64
  5. ابن ہشام، زندگانی محمد، ج1، ص98
  6. محمد بن جرير الطبري، تاريخ الامم والملوك، مطبعة " بريل " بمدينة ليدن في سنة 1879 م، ج2 ص12۔
  7. ابن سعد، الطبقات، ج1، ص65؛ ابن کثیر، البدایة والنهایه، ج2، ص201 ـ 202
  8. طبری، تاریخ، ج3، ص251، 253
  9. ابن ہشام، زندگانی محمد، ج1، ص99
  10. یعقوبی، تاریخ، ج1، ص364
  11. ابن حبیب، المنمق، ص21؛ شیخ طوسی، التبیان، ج5، ص123؛ طبرسی، مجمع البیان، ج4، ص836
  12. دائرة المعارف قرآن کریم، «‌بنی هاشم »، جلد 6، صفحه 330
  13. دایرة المعارف بزرگ اسلامی، ذیل «‌بنی هاشم »؛ منتظرقائم، تاریخ صدر اسلام، ص95
  14. ابن سعد، الطبقات، ج1، ص62؛ طبری، تاریخ، ج3، ص252
  15. طبری، تاریخ، ج3، ص253
  16. یعقوبی، تاریخ، ج1، ص311
  17. مقریزی، النزاع والتخاصم، ص56؛ ابوالفرج اصفهانی، الأغانی، ج6، ص360 ـ 365۔
  18. ابن سعد، الطبقات، ج1، ص63
  19. تاریخ یعقوبی، ج1، ص372
  20. ابن حبیب، المنمق، ص189ـ190
  21. ابن سعد، الطبقات، ج1، ص103؛ ابن حبیب، المنمق، ص53
  22. ابن سعد، الطبقات، ج1، ص163 ـ 164؛ یعقوبی، تاریخ، ج1، ص389۔
  23. طبری، تاریخ، ج3، ص248
  24. طبری، تاریخ، ج3، ص319
  25. دائرة المعارف بزرگ اسلامی، مدخل ابوطالب، ج5، ص619
  26. ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغه، ج1، ص142۔
  27. ابن حبیب، المنمق، ص386؛ ابن هشام، حیاة محمدؐ، ج1، ص265۔
  28. محمد بن سید الناس، عیون الاثر، ج2، ص74
  29. رجوع کریں: طبری، تاریخ الامم والملوک، ج3، ص321-324
  30. ابن ابی الحدید معتزلی، شرح نهج البلاغه ج14، ص84۔
  31. ابن ہشام، حیاة محمدؐ، ج1، ص221؛ ابن سعد، الطبقات، ج1، ص163؛ ابن شهرآشوب، مناقب، ج1، ص94۔
  32. واقدی، المغازی، ص617؛ ابن شہرآشوب، مناقب، ج1، ص94
  33. طبری، تاریخ، ج3، ص336-339
  34. دائرة المعارف بزرگ اسلامی، مدخل ابولهب
  35. طبری، تاریخ، ج3، ص348۔
  36. ابن سعد، الطبقات، ج1، ص165۔
  37. محمد بن سید الناس، عیون الاثر، ج1، ص333
  38. ابن ہشام، زندگانی محمد، ج2، ص29
  39. ابوالفرج اصفہانی، الأغانی، ج4، ص196۔
  40. طبری، ذخائر العقبی، ص222
  41. طبری، ذخائر العقبی، ص241
  42. طبری، ذخائرالعقبی، ص191
  43. ابن ہشام، زندگانی محمد، ج2، ص45
  44. تاریخ طبری، ج5، ص223؛ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغه، ج1، ص147۔
  45. نهج البلاغه، خطبة 144
  46. طبری، تاریخ الامم والملوک، ج5، ص233
  47. بلاذری، فتوح البلدان، 627-628؛ الطبري، تاريخ الامم والملوك،ج3 [قوبلت هذه الطبعة بمطبعة "بريل" بمدينة ليدن في سنة 1879 م، مؤسسة الاعلمي للمطبوعات بيروت۔
  48. یعقوبی، ج2، ص 153؛ ابن سعد، ج3، ص 295ـ297۔
  49. ابوالفرج اصفہانی، الأغانی، ج6، ص371؛ المقریزی، النزاع والتخاصم، ص59۔
  50. نهج البلاغه، مکتوب 17۔
  51. طبری، ذخائر العقبی، ص244؛ ابن سعد، الطبقات، ج4، ص42۔
  52. ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغه، ج1، ص265
  53. یعقوبی، تاریخ، ج2، ص141؛ ابوالفرج الاصفہانی، مقاتل الطالبیین، ص42۔
  54. ابن اعثم، الفتوح، ج3، ص153
  55. شیخ عباس قمی، نفس المهموم، ص443۔
  56. شیخ عباس قمی، نفس المهموم، ص68
  57. ابوالفرج الاصفہانی؛ مقاتل الطالبیین، ص52، 60 ـ 61۔
  58. ابوالفرج اصفہانی، الأغانی، ج9، ص21؛ یعقوبی، تاریخ، ج2، ص205
  59. ابوالفرج اصفہانی، الأغانی، ج17، ص6۔
  60. بلاذری، انساب الاشراف، 4 (1) /317
  61. خیاط بن خلیفہ، تاریخ، ج2، ص616
  62. یعقوبی، ج2، ص317، 319، 322
  63. یعقوبی، ج2، ص319۔
  64. طبری، ج10، ص، 336؛ ج11، 427۔
  65. نعمانی، الغیبہ، 146، 258؛ابن بابویہ، ص41
  66. نمونے کے لئے رجوع کریں: طبری، ج11، ص423، 571
  67. دائرة المعارف بزرگ اسلامی، ج12، ذیل «‌بنی هاشم‌».
  68. ابن کثیر، البدایة و النهایہ، ج13، ص171
  69. نجفی، ج15، ص406ـ415، ج16، ص104
  70. طوسی، تہذیب الاحکام، ج4، ص57 کے بعد
  71. حبیب، القول الجازم، ص157؛ ابن سعد، الطبقات، ج1، ص75۔
  72. طبری، ذخائر العقبی، ص15؛ حبیب، القول الجازم، ص157۔
  73. ابن حبیب، المنمق، ص41
  74. ابن اعثم، الفتوح، ج3، ص48
  75. بلاذری، انساب الاشراف، ج4 صص111-112، 143۔
  76. کلینی، الکافی، ج8، ص50؛ مجلسی، بحارالانوار، ج51، ص77ـ 78
  77. ابن شہرآشوب، مناقب، ج3، ص379؛ مجلسی، بحارالانوار، ج22، ص312۔
  78. ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغه، ج19، ص210؛ سیوطی، الدرالمنثور، ذیل آیه 125 نساء و آیه 70 أسراء؛ حبیب، القول الجازم، ص153۔
  79. دائرة المعارف قرآن کریم، ج6، ص343۔
  80. بعنوان نمونہ رجوع کریں: عبد الحسین امینی، الغدیر، ج2 ص181 اور بعد کے صفحات۔

مآخذ

  • مدخل «‌بنی هاشم‌» در دایره المعارف بزرگ اسلامی.
  • مدخل «‌بنی هاشم‌» در دایره المعارف قرآن۔
  • ابن ابی الحدید المعتزلی، شرح نهج البلاغه، به کوشش اعلمی، اول، بیروت، مؤسسہ اعلمی، 1415 ہجری۔
  • ابن اعثم کوفی، احمد، الفتوح، به کوشش علی شیری، بیروت، 1411ھ/1991۔
  • ابن بابویه، محمد، کمال الدین و تمام النعمة، به کوشش علی اکبر عفاری، قم، 1405 ہجری۔
  • ابن حبیب، محمد، المنمق فی اخبار قریش، به کوشش احمدفاروق، اول، بیروت، عالم الکتب، 1405 ہجری۔
  • ابن سعد، محمد بن سعد بن منیع الهاشمی البصری، الطبقات الکبری، تحقیق محمد عبد القادر عطا، بیروت، دار الکتب العلمیة، ط الأولی، 1410/1990.
  • ابن شهر آشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی طالب، به کوشش یوسف البقاعی، دوم، بیروت، دارالاضواء، 1412 ہجری۔
  • ابن کثیر، أبوالفداء اسماعیل بن عمر الدمشقی، البدایة و النهایة، به کوشش علی محمد معوض و عادل احمد، دوم، بیروت، دارالکتب العلمیة، 1418 ہجری۔
  • ابن هشام، زندگانی محمدؐ پیامبر اسلام، (السیرة النبویة)، ترجمه سید هاشم رسولی، تهران، انتشارات کتابچی، چ پنجم، 1375ش۔
  • ابوالفرج الاصفهانی، الأغانی، به کوشش علی مهنّا و سمیر جابر، دوم، بیروت، دارالفکر [بی تا]۔
  • ابوالفرج الاصفهانی، مقاتل الطالبیین، به کوشش کاظم مظفر، دوم، قم، دارالکتاب، 1385 ہجری۔
  • امینی، عبدالحسین، الغدیر، بیروت، 1379 ہجری۔
  • بلاذری، أحمد بن یحیی، فتوح البلدان، ترجمه محمد توکل، تهران، نشر نقره، چ اول، 1337 ہجری شمسی۔
  • بلاذری، احمد، انساب الاشراف، ج1، به کوشش محمد حمیدالله، قاهره، 1959، ج4 (1)، به کوشش احسان عباس بیروت، 1400ق/1979۔
  • حبیب، جمیل ابراهیم، القول الجازم فی نسب بنی هاشم، بغداد، مکتبة دارالکتب العلمیة، 1987۔
  • خلیفة بن خیاط، تاریخ، به کوشش سهیل زکار، دمشق، 1968۔
  • دایره المعارف بزرگ اسلامی، زیر نظر کاظم موسوی بجنوردی، تهران: مرکز دائرة المعارف بزرگ اسلامی، 1383 ہجری شمسی۔
  • دائرة المعارف قرآن کریم، دائرة المعارف قرآن کریم، جلد 6، تهیه و تدوین: مرکز فرهنگ و معارف قرآن، قم، مؤسسه بوستان کتاب، 1386۔
  • سیوطی، جلال الدین، الدرالمنثور فی التفسیر بالمأثور، بیروت، دارالفکر، 1414 ہجری۔
  • شیخ عباس قمی، نفس المهموم فی مصیبه سیدنا الحسین المظلوم، تحقیق رضا استادی، قم، مکتبه بصیرتی، 1405 ہجری۔
  • طبرسی، فضل بن الحسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دارالمعرفة، افست، تهران، ناصر خسرو، 1406 ہجری۔
  • طبری، احمد بن عبدالله، ذخائر العقبی فی مناقب ذوی القربی، بیروت، دارالمعرفة، 1974ء۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ترجمه ابوالقاسم پاینده، چاپ پنجم، تهران، اساطیر، 1375ش. *طوسی، محمد بن الحسن، التبیان فی تفسیر القرآن، به کوشش احمد حبیب العاملی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، [بی تا]۔
  • طوسی، محمد، تهذیب الاحکام، به کوشش حسن موسوی خراسان، تهران، 1364ہجری شمسی۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، به کوشش علی اکبر غفاری، سوم، بیروت، دارالتعارف، 1401 ہجری۔
  • مجلسی، محمد باقر؛ بحار الانوار، چاپ سوم، بیروت، داراحیاء التراث العربی، 1403 ہجری۔
  • محمد بن سید الناس، عیون الاثر فی فنون المغازی والشمائل والسیر، بیروت، مؤسسة عزالدین، 1406 ہجری۔
  • مقریزی، تقی الدین احمد بن علی، النزاع والتخاصم بین بنی امیه و بنی هاشم، به کوشش حسین مونس، قم، انتشارات شریف رضی، 1412 ہجری۔
  • منتظر قائم، اصغر، تاریخ صدر اسلام، اصفهان، انتشارات دانشگاه اصفهان، 1377 ہجری شمسی۔
  • نجفی، محمدحسن بن باقر، جواهر الکلام فی شرح شرائع الاسلام، بیروت، 1981ء۔
  • نعمانی، محمد، الغیبة، به کوشش فارس حسون کریم، قم، 1422 ہجری۔
  • نهج البلاغة، چاپ صبحی صالح، بیروت، [تاریخ مقدمه 1387]، چاپ افست قم، [بی تا].
  • واقدی، محمد بن عمر، مغازی تاریخ جنگهای پیامبرؐ، ترجمه محمود مهدوی دامغانی، چاپ دوم، تهران، مرکز نشر دانشگاهی، 1369 ہجری شمسی۔
  • یعقوبی، احمد بن ابی یعقوب ابن واضح، تاریخ یعقوبی، ترجمه محمد ابراهیم آیتی، چاپ ششم، تهران، انتشارات علمی و فرهنگی، 1371ہجری شمسی۔

بیرونی روابط